حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعالیٰ عنہا

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن یکم مئی، 8؍مئی و 15؍مئی 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حرم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے حوالے سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حضرت فاطمہؓ کی مبارک حسینی نسل کی چشم وچراغ تھیں۔ آپؓ کے خاندان میں مجدّدین اور باکمال ولی اللہ پیداہوتے رہے۔ ان میں ایک جد امجد حضرت خواجہ ناصر عندلیبؒ بارھویں صدی کے باکمال ولی اللہ اور صاحب کشوف و رؤیا تھےجن کو شاہی جاہ وجلال حاصل تھا لیکن آپؒ نے اس دولت کو غرباء میں تقسیم کرکے شاہی محلات کو چھوڑ کر دہلی سے دُور ایک ویرانے میں سکونت اختیار کرلی۔ آپؒ بکثرت روزے رکھتے دن رات عبادات الٰہی میں مصروف رہتے۔ ایک رات آپؒ نے ایک عجیب کشفی نظارہ دیکھا کہ آپؒ کا تاریک کمرہ اچانک غیرمعمولی روشنی سے منور ہوگیا اور ایک خوبصورت نوجوان جس کے سر پر جواہر نگار تاج تھا سامنے آیا۔ فرمایا کہ ’’مَیں حسن مجتبیٰ بن علی مرتضیٰ ہوں اور آنحضرت ﷺ کے منشا کے ماتحت تمہارے پاس آیا ہوں تا تجھے ولایت اور معرفت سے مالامال کروں۔ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ ٔ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر ہوگا۔ یہ ساعت جو ابھی کچھ دیر باقی رہے گی۔ نہایت ہی مبارک ہے۔ اس وقت تو جس شخص کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرے گا اُسے بقاباللہ کا مرتبہ حاصل ہوگا اور قیامت تک اُس کا نام آفتاب کی طرح چمکتا رہے گا۔‘‘ حضرت ناصر عندلیبؒ نے اسی وقت اپنے بیٹے حضرت سید میر دردؒ کی بیعت لی،جو تیرھویں صدی کے باکمال ولی اللہ کہلائے۔
یہ مبارک بشارت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے مبارک وجود سے اس طرح پوری ہوئی کہ یہ آسمانی روشنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نبوت کے نور سے مل کر ایک عظیم الشان شمع میں تبدیل ہوگئی اور ان نوروں سے پھر وہ آسمانی مبشر پاک نسل پیدا ہوئی جن کے ذریعہ صفحۂ ہستی پر ایک اسلامی انقلاب برپا ہونا ازل سے مقدر تھا۔ ان تمام برکات کا سرچشمہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظیم الشان پیشگوئی تھی یَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُلَہٗ یعنی مسیح موعود شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی۔
پس حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ وہ مقدس ماں ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے مبشر اولاد عطا کی اور جن کے بطن سے حضرت مصلح موعودؓ جیسا وہ پاک، وجیہ، مبارک بیٹا پیدا ہواجس کے آنے کو خداوند کریم نے خود اپنا نازل ہونا قرار دیا۔ اور وہ فیض پھر نسلوں میں بھی جاری ہوا۔
حضرت امّاں جانؓ 1865ء میں دہلی میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اور حضرت سید بیگم صاحبہؓ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کی پیدائش بہت سی برکات لے کر آئی۔ آپؓ کے والد کی بےروزگاری جاتی رہی اور ان کی کھوئی ہوئی جائیداد کا ایک حصہ خود بخود بغیر کسی سعی کے اُن کومل گیا۔ حضرت اماں جانؓ کا اصلی نام نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ تھا مگر بعد میں حضرت میر صاحبؓ نے آپؓ کا نام ’عائشہ‘ بھی رکھا۔ ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ لڑکی ایسے شخص کی بیوی بنے گی جسے خدا تعا لیٰ نے بروز محمد ﷺ ٹھہرایا ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک الہام میں آپؓ کو ’’میری خدیجہ‘‘ کانام عطا فرمایا۔آپؓ کا خطاب ’’اُمّ المومنین‘‘ اور کنیت ’’اُمّ محمود‘‘ ہے۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ
حضرت میر محمد اسحٰق صاحب

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے دس بچے چھوٹی عمر میں فوت ہوئے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت اماں جانؓ کے علاوہ دو بیٹوں حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے لمبی عمر پائی۔ حضرت اماں جان ؓ نے اپنے والد سے قرآن کریم اور اردو نوشت وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپؓ بچپن ہی سے زیرک، فہیم اور سلیقہ شعار تھی۔
حضرت مسیح موعودؑ کی پہلی شادی اپنی ماموں زاد حرمت بی بی صاحبہ سے 1849ء میں ہوئی تھی۔ان سے آپؑ کے دو صاحبزادے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب پیدا ہوئے تھے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی والدہ صاحبہ کچھ دنیاداری کی طرف مائل تھیں۔ اس وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کا تعلق ان سے کم ہوگیا تھا۔

حضرت مرزا سلطان احمد صاحب

حضرت اماں جانؓ سے شادی سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کو دوسری شادی کے سلسلہ میں کئی الہام ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے:’’میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اَور شادی کروں۔ یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی۔‘‘
حضرت میر ناصرنواب صاحبؓ کے حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے تعلقات تھے۔ آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کو اپنی دختر نیک اختر حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی شادی کے لیے دعا کی غرض سے خط لکھا۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے ان کی صاحبزادی کے لیے اپنا رشتہ پیش کیا۔ حضرت میرناصر نواب صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کی نیکی، خاندانی شرافت اور تقویٰ سے بہت متاثر تھے۔ آپؓ نے کچھ سوچ بچار اور دعا کے بعد اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سید بیگم صاحبہؓ سے مشورہ اور ان کی رضامندی کے بعد یہ رشتہ قبول کرلیا۔ چنانچہ آٹھ دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی پہنچ گئے۔ حافظ حامد علی صاحبؓ بطور خادم اور لالہ ملاوامل صاحب اور ایک دو اَور آدمی ساتھ تھے۔ حضرت میر صاحبؓ کی برادری کے لوگوں کو جب معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر ایک پنجابی کو رشتہ دے دیا اور کئی لوگ اس ناراضگی کی وجہ سے شامل بھی نہ ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھ کوئی زیور اور کپڑا نہ لے گئے تھے، صرف ڈھائی سو روپیہ نقد تھا۔ اس پر بھی رشتہ داروں نے بہت طعن کیے۔ حضرت میر صاحبؓ اور ان کے گھر کے لوگ، لوگوں کو یہ جواب دیتے تھے کہ میرزا صاحب کی گھر کی عورتیں ان کی مخالف ہیں۔ پھر وہ جلدی میں آئے ہیں۔ اس حالت میں وہ زیور کپڑا کہاں سے بنوا لاتے۔ مگر برادری کے لوگوں کا طعن و تشنیع کم نہ ہوا۔
حضرت اُمّ المومنینؓ نے خودبھی اپنی شادی کے متعلق فرمایا: حضرت صاحب مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپؑ کے ساتھ شیخ حامد علی صاحبؓ اور ملاوامل بھی تھے۔ نکاح مولوی نذیر حسین صاحب نے پڑھایا تھا۔ یہ27؍ محرم 1302 ہجری بروز پیر کی بات ہے۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ حضرت صاحبؑ نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین صاحب کو پانچ روپیہ اور ایک مصلّٰے نذر دیا تھا۔
خواجہ میر درد ؒکی مسجد میں بین العصر والمغرب مولوی نذیر حسین صاحب محدّث دہلوی نے نکاح پڑھایا۔ وہ ڈولی میں بیٹھ کر آئے تھے کیونکہ بوجہ ضعف اور بڑھاپے کے وہ چل نہیں سکتے تھے۔ مہر گیارہ سو روپیہ مقرر ہوا۔
حضرت اماں جانؓ کے بارے میں حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ (خدا تعالیٰ نے) خدیجہ اس لیے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔ (تذکرہ)
خدا تعالیٰ نے آپؑ کو الہاماً فرمایا تھا: اشکر نعمتی رأیت خدیجتی کہ تُو میری نعمت کا شکر کر کہ تُو نے میری خدیجہ کو پالیا ہے۔ اس بشارت میں خداتعالیٰ نے حضرت اماں جانؓ کو ’’میری نعمت‘‘ اور ’’میری خدیجہ‘‘ کے مبارک اعزاز سے نوازا۔
خدا تعالیٰ نے حضورعلیہ السلام کو حضرت اماں جانؓ کے بلند اقبال کے متعلق بھی بےشمار بشارتیں دیں جن میں سے ایک پُرشوکت الہام ہے کہ ’’تیرا گھر برکت سے بھرے گا۔ مَیں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ میں سے جن میں سے تُو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔‘‘ خدا تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کی ایک یہ پیشگوئی بھی حضرت اماں جانؓ کے مبارک وجود کے ذریعہ بڑی شان سے پوری فرمائی کہ ترٰی نَسۡلاً بَعِیۡدًا۔یعنی تُو ایک دُور کی نسل بھی دیکھے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کے نبی اور نبیوں کے چاند ہیں۔ خدا تعالیٰ نے آپؑ کو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد ﷺ کا بروز بنایا ایسے ہی حضرت امّاں جانؓ، حضرت خدیجہ ثانیہ تھیں۔آپؓ کا حضرت اقدسؑ کے ساتھ عقیدت و محبت کا ایک گہرا رشتہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا بھی آپؓ سے اس قدر محبت کا تعلق تھا کہ بعض غیب کی خبریں جو حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوتیں آپؓ کو رؤیا کے ذریعے ان کا علم ہوجاتا۔ حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں ’’کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جو رؤیا وحی مجھے ہوتی وہی گھر والوں (یعنی حضرت اماں جانؓ) کو بھی رؤیا یا خواب آجاتا۔…آج کوئی پہر رات باقی ہوگی کہ الہام ہوا… میں ہر ایک کی جو دار میں ہے حفاظت کروں گا اور اسے لوگوں کے لیے آیت بناؤں گا اور ہماری طرف سے رحمت ہوگی اور یہ بات اٹل ہے تمام معالجات (یعنی علاج) میرے پاس ہیں۔‘‘ پھر حضرت اقدسؑ نے حضرت اماں جانؓ سے دریافت کیا کہ آج تم نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابھی ایک خواب دیکھا ہےکہ ایک صندوق بذریعہ بلٹی آیا ہے جس کو شیخ رحمت اللہ نے بھیجا ہے اور وہ دوائیوں کا صندوق ہے۔ حکیم فضل دین کی بیوی اور مریم دائی پاس کھڑی ہیں۔ جب اس کو کھولا گیا تو وہ لبالب دوائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ڈبیاں ہیں شیشیاں ہیں۔ غرض پوری طور پہ بھرا ہوا ہے۔ گھاس پھوس کی جگہ بھی دوائیاں ہیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے اس لحاظ سے کہ ان کے ایمان میں اور بھی ترقی ہو، کہا کہ آج یہ الہام ہوا ہے۔…‘‘
محترمہ امام بی بی صاحبہؓ والدہ مکرم منشی ابراہیم صاحبؒ سناتی تھیں کہ ’’میں چھوٹی تھی جب حضرت اماں جانؓ کے گھر رہتی تھی۔ حضورؑ کو جب وحی ہوتی تو آپؑ کو پسینہ بہت آتا اور بعد میں آپؑ کو کمزوری محسوس ہوتی تو حضرت اماں جانؓ آپؑ کے لیے کدو کا حلوہ بنا کر رکھتی تھیں۔ وہ آپؑ کو کھلاتی تھیں۔ آپؓ حضورؑ کے کھانے کا خاص خیال رکھتیں۔خود پکاتیں یا اپنے سامنے پکواتیں۔حضرت امّاں جانؓ حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کی عینی گواہ تھیں۔ آپؓ نے بارہا الہام ہوتے دیکھا۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے اپنی ڈائری میں 1893ء کا حضرت امّاں جانؓ کا ایک مبشر خواب درج کیا کہ ایک عورت ہے اس کے ساتھ بہت لڑکے اور لڑ کیاں ہیں۔ پوچھنے پر اُس نے جواب دیا کہ مَیں عیسیٰ علیہ السلام کی بیٹی ہوں اور مسلمان ہونے کے لیے مرزا جی کے پاس آئی ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت عیسائی مسلمان ہوں گے۔
حضورؑ حضرت اماں جانؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے اس لیے میں اسے شعائراللہ سمجھ کر اس کی خاطرداری رکھتا ہوں اور وہ جو کہے مان لیتا ہوں۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کو اپنے ساتھ دعاؤں میں بھی شامل فرماتے تھے۔1903ء میں حضرت اقدسؑ نے جب حضرت شہزادہ عبداللطیف شہیدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن شہیدؓ کے سفاکانہ قتل پر رسالہ تذکرۃ ا لشہادتین تحریر کرنا چاہا تو حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب میں نے اس کتاب کو لکھنا شروع کیا۔… توایسا اتفاق ہوا کہ مجھے درد گردہ سخت پیدا ہوا…۔ تب خدا تعالیٰ نے مجھے دعا کی طرف توجہ دلائی۔ میں نے رات کے وقت میں جبکہ تین گھنٹے کے قریب بارہ بجے کے بعد رات گزر چکی تھی اپنے گھر کے لو گوں سے کہا کہ اب میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو۔ سو میں نے اسی دردناک حالت میں صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے تصور سے دعا کی…تو ساتھ ہی مجھے غنودگی ہو ئی اور الہام ہوا۔ سَلَامٌ قَوْلاً مِنْ رَبِّ رَّحِیْمٍ۔ یعنی سلامتی اور عافیت ہے یہ خدائے رحیم کا کلام ہے۔ پس قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک ۔‘‘ (تذکرۃ الشہا دتین)
اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کو فرمایا تھا کہ یا احمد اسکن انت و زوجک الجنۃ یعنی اے احمد! تُو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔ (تریاق القلوب)۔ واقعۃً آپؓ کا گھر جنت نظیر محسوس ہوتا۔ دارالمسیح وہ مبارک گھر ہے جہاں فرشتوں کا نزول ہوتا اور اس میں حضرت مسیح موعودؑ نے بےشمار دعائیں مانگیں اور اَن گنت مرتبہ درودشریف پڑھا۔ حضورؑ اس کو دارالامن بھی کہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو آپؓ کے بطن سے دس بچے عطا کیے۔ دو صاحبزادگان اور تین صاحبزادیاں چھوٹی عمر میں وفات پاگئیں۔ پانچ بچوں نے لمبی عمر پائی۔ ان کے نام اور ان کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ کو ملنے والی الٰہی بشارات درج ذیل ہیں۔


حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ ’’المصلح الموعود‘‘

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

حضرت مرزابشیر احمدؓ ’’قمرالانبیاء‘‘
حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ ’’نواب مبارکہ بیگم‘‘

حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ

حضرت مرزا شریف احمدؓ ’’وہ بادشاہ آیا‘‘
حضرت نواب امۃالحفیظ بیگمؓ ’’دخت کرام‘‘
محترمہ زینب بی بی صاحبہ ؓحضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے بے پنا ہ محبت و عقیدت رکھتی تھیں اور حضورؑ کے گھر کو اپنا میکہ جانتی تھیں۔ آپؓ جب امرتسر سے قادیان آتیں تو حضرت امّاں جانؓ کے گھر کے نچلے حجرہ میں ٹھہرتیں اور خاندان مسیح موعودؑ کی خدمت کو ایک سعادت جانتیں۔ آپؓ کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ میں ملتانی اور مصری کاایک فتنہ اُٹھا جس نے بہت خطرناک صورت اختیار کرلی۔ اس وقت جماعت کی خواتین نے خاندان کے گھروں میں پہرہ دیا تھا۔ میری والدہ صاحبہ نے بھی حضرت امّاں جانؓ کے گھر پہرہ دینے کی سعادت پائی۔ امّاں جانؓ نے اپنے گھر پہرہ دینے کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ اس کو اجازت ملے گی جس کو چرخہ کاتنا آتا ہو۔ آپؓ یہ پسند نہیں فرماتی تھیں کہ خواتین کا وقت ضائع ہو۔ اس طرح آپؓ نے جماعت کی خواتین میں وقت کی قدر کرنے کی روح پیدا فرمائی۔
قادیان میں گرمیوں کی ایک صبح ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکا۔ ہماری امّاں جی نے کھولا تو دیکھا حضرت امّاں جانؓ اور آپؓ کی خادمہ کھڑے ہیں۔ میری امّاں جی کا خوشی کے مارے کوئی حال نہ تھا۔ امّاں جانؓ نے سلام دعا کے بعد فرمایا ’’زینب! تمہاری بیٹی کہاں ہے جو مجھے بے بے جی کے گھر لے جائے‘‘۔ بے بے جیؓ ہمارے محلّہ میں رہتی تھیں اور حضرت حکیم دین محمدؓ کی زوجہ اور صحابیہ تھیں۔ امّاں جیؓ نے مجھے آپؓ کے ہمراہ بھیجا۔ آپؓ نے راستہ میں میرا ہاتھ پکڑے رکھا اور مَیں آہستہ آہستہ چل کر آپؓ کے ساتھ گئی، آپؓ بھی آہستہ ہی چلیں۔ حضرت بے بے جیؓ کے گھر آپؓ پہنچیں تو اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اس وقت اُن کے گھر میں بچے قرآن پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ امّاں جانؓ صحن میں ٹہلنے لگیں۔ بے بے جیؓ محبت اور خوشی سے آپؓ کی مبارک کمر پر ہاتھ پھیرتی جاتیں ساتھ مجھے دعائیں دیتیں کہ میں امّاں جانؓ کو لے کر آئی ہوں۔ گھر میں انگوروں کی بیل پھل سے لدی ہوئی تھی، انہوں نے ایک خوشہ اتار کر دھوکر امّاں جانؓ کو پیش کیا۔ آپؓ ہاتھ میں لے کر نوش فرماتی رہیں اور ٹہلتی رہیں۔ قادیان میں ہر گھر میں پھلوں کے درخت اور انگوروں کی بیلیں، سبزیاں، موتیا، گلاب کے پھول لگے ہوئے تھے۔ یہ حضرت امّاں جانؓ کے عمدہ ذوق اورتربیت کا نتیجہ تھا۔ آپؓ کو پھول، پودوں سے خاص لگاؤ تھا۔ بے بے جیؓ بہت نفیس مزاج تھیں اور عمدہ لباس پہنتی تھیں۔ اُس وقت آپؓ نے خوبصورت کڑھائی والا دوپٹہ لیا ہوا تھا۔ حضرت امّاں جانؓ نے دوپٹے کی بہت تعریف فرمائی تو انہوں نے اتار کر آپؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔ لیکن آپؓ نے نہیں لیا، بہت پیار سے روک دیا۔ بے بے جیؓ نے جاتے وقت ایک ٹوکری انگوروں کی آپؓ کو تحفے میں دی جو آپؓ نے خوشی سے قبول کرلی۔ بعد میں بے بے جیؓ نے ایسا ہی نیا دوپٹہ بنوا کر آپؓ کو تحفہ دیا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد رتن باغ لاہور میں ہم ٹھہرے۔ عاجزہ ہر روز سکول سے آکر حضرت امّاں جانؓ کو کتاب پڑھ کر سنانے جاتی۔ اگر کسی دن نہ جاتی تو آپؓ محترمہ اماں عائشہ صاحبہ کو بھجواتیں اور وہ آکر بڑے پیار سے کہتیں: ’’بی بی! تینوں امّاں جان یاد کررہے نے‘‘۔ اس وقت مجھے آپؓ کے عالی مرتبہ اور بلند شان کا کچھ علم نہ تھا۔ ہاں آپؓ سے ایک عجیب گہری دلی محبت اور کشش محسوس ہوتی جس کوالفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ دل بے اختیار آپؓ پر قربان ہوتا تھا۔ بڑھاپے میں بھی آپؓ بے حد پیاری لگتیں۔ میں آپؓ کے پلنگ پر بیٹھ کر آپؓ کی ٹانگیں اپنی گود میں رکھ کر ان پر ہاتھ پھیرتی اور کتاب سناتی تھی۔ آپؓ اس قدر فراخ دل تھیں کہ آپؓ نے کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیشہ مجھے بڑی محبت سے ’ارے بیٹی‘ کہہ کر پکارتیں۔ آپؓ غیر شادی شدہ کو ’بیٹی‘ اور شادی شدہ کو ’بہو‘ کہہ کر بلاتیں یا پھر بےتکلفی سے ’ارے بوا‘ کہتیں۔

جیسے جیسے زمانہ گزر رہا ہے تو مَیں یادوں میں کھوکر کبھی قادیان کے گھر دارالمسیح میں ہوتی ہوں تو کبھی ربوہ میں حضرت امّاں جانؓ کے ساتھ بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں جہاں آپؓ اس کچے گھر میں چلتی پھرتی تھیں۔ مَیں آپؓ کو کوئی کتاب پڑھ کر سنایا کرتی۔ کبھی آپؓ مجھے کہانی سناتیں کبھی مَیں بھی سناتی۔ حسرت ہوتی ہے کہ آپؓ کی وہ خدمت نہیں کرسکی جیسی مجھے کرنی چاہیے تھی۔
آپؓ نہایت خوبصورت وجیہ نین نقش کی مالک تھیں۔ چاند کی مانند روشن نورانی چہرہ جس پرنور الٰہی برستا نظر آتا۔ ایک خاص رعب بھی تھا۔ آواز نہایت شیریں اور لب و لہجہ میں مٹھاس تھی۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی صورت آپؓ سے بہت ملتی تھی اسی طرح حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کی شبیہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے ملتی تھی۔
حضرت اماں جانؓ کی پا کیزہ نیک فطرت اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت اور تر بیت نے آپؓ کی شخصیت کو بہت پیارا بنا دیا تھا۔ آپؓ نہایت خوش مزاج، سلیقہ شعار، مخلوق خدا کی سچی خیرخواہ ہمدرد اور خدمت گار، ہر ایک سے محبت کا سلوک کرنے والی تھیں۔ سب یہ سمجھتے تھے کہ بس سب سے زیادہ مجھ سے پیار ہے۔ نہایت درجہ صابر شاکر تھیں، کسی مشکل میں نہ گھبراتیں۔ خدا تعالیٰ پر کامل توکّل تھا۔ مشکل کے وقت دعا میں لگ جاتیں۔ شریعت کی پوری پابند تھیں۔ آخری وقت تک مکمل پردہ کرتی رہیں۔ ایسے دل کش انداز سے تربیت کرتیں کہ سارا خاندان اور دیگر خواتین خوشی سے اطاعت کرتیں۔
حضرت مرزا بشیر احمدؓ فرماتے ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ کی نیکی اور دینداری کا مقدّم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ فرض نمازوں کا کیا کہنا، تہجد اور ضحی کی بھی پابند تھیں اور انہیں اس ذوق شوق سے ادا کرتیں کہ دیکھنے والوں کے دل میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی۔ مَیں پوری بصیرت سے کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ (فداہ نفسی) کی پیاری کیفیت کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے حضرت امّاں جانؓ کو بھی اپنے آقا ﷺ سے ورثے میں ملی تھی۔
صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں: اماں جانؓ اتنی عاجزی اور انکساری سے نماز پڑھتیں جیسے سچ مچ اللہ میاں کے پاؤں پکڑے فریاد کررہی ہیں۔
آپؓ سجدے بہت لمبے کرتیں تہجد اور اِشراق کے نوافل بیت ا لدّعا میں ادا کرتیں جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے دن رات بے شمار دعائیں کیں، آپؑ پر خدا کے فرشتے اترتے اور وحی نازل ہوتی۔ آپؓ کو حضرت اقدسؑ سے بے پناہ عشق تھا۔ آپؓ کا پلنگ ہمیشہ دالان میں بیت الدّعا کے سامنے ہوتا۔
قادیان میں چھٹیوں میں عاجزہ حضرت سیّدہ اُم ناصر صاحبہؓ کے گھر چلی جاتی۔حضرت مصلح موعودؓ نماز پڑھانے مسجد مبارک جاتے تو پہلے آپؓ کے دالان سے اور پھر حضرت امّاں جانؓ کے دالان سے گزرتے۔ اس طرح حضورؓ سے دن میں کئی بار ملاقات ہوجاتی۔ عاجزہ اور بیبیاں سب حضورؓ کی امامت میں حضرت اماں جانؓ کے بیت الدّعا والے مبارک دالان میں نماز پڑھتے۔ آپؓ الگ نمازیں بھی وہیں ادا کرتیں۔اکثر وقت ذکرالٰہی میں مصروف رہتیں۔ گھر کے کام کاج میں بھی ہاتھ بٹاتیں۔ سب آپؓ کو دیکھ کر اور باتیں کرکے راحت و سکون پاتے۔ حضورؓ آتے جاتے آپؓ کو سلام کرتے۔ آپؓ نے بچوں میں بھی عبادتِ الٰہی کا ذوق پیدا کردیا ہوا تھا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں: مَیں جب چھوٹی تھی تو آپؓ نے ایک لڑکی کی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی جو مجھے تہجد کے وقت جگاتی تھی۔
حضرت امّاں جانؓ قرآن کریم کثرت سے پڑھتی تھیں۔ بڑھاپے میں نظر کمزور ہو گئی تو دوسروں سے قرآن کریم کی تلاوت سنا کرتیں۔ وفات سے قبل بھی قرآن مجید سننے کی خواہش کی۔ محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب فرماتے ہیں: وفات کے دن صبح کے وقت جب میں ٹیکا شروع کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا: قرآن شریف لے آؤ۔ مَیں نے عرض کی: اماں جان ٹیکا کرلوں پھر سُن لیں ۔ اس پر آپؓ نے اثبات میں سر سے اشارہ کیا۔ چنانچہ ٹیکا کے بعد میر محمود احمد نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا۔

محترم میر محمود احمد ناصر صاحب

اور وفات سے ایک گھنٹہ قبل یعنی رات ساڑھے دس بجے بھی اماں جانؓ نے فرمایا: قرآن شریف سناؤ۔ جس پر میر محمود احمد صاحب نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا۔
حضرت اماں جانؓ کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے حد درجہ محبت تھی۔ جس طرح آپؓ تلاوت قرآن کریم سنتیں اسی طرح صاحبزادگان سے کتب حدیث روزانہ سنتیں۔ کبھی یتیم بچیوں میں سے، جن کو آپؓ نے خود پالا تھا ،کسی ایک کو پاس بٹھا کر اس سے حدیث پڑھوا کر سنتیں۔ وفات کے قریب بیماری میں یہ شوق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ سنانے والا تھک جاتا لیکن آپؓ کی پیاس نہ بجھتی۔ نہ صرف احادیث پڑھوا کر سنتیں بلکہ بھرپور انداز میں ان پر عمل پیرا ہوتیں۔ آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے آقا محمدﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے دیکھا چنانچہ آپؓ انہی اخلاق کا نمونہ بن گئیں۔ مثلاً اُمّ المساکین، بیوہ عورتوں کی سرپرست، یتیموں کی ماں، قیدیوں پر شفقت۔ آپؓ قرآن کریم کی تعلیم اور اسوہ رسولﷺ پر عمل کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعودؑ کی تربیت کے اثر سے ہر شکستہ خاطر اور مخلوق کے دھتکارے ہوئے بیکسوں کی پناہ تھیں۔ کئی بیوہ عورتیں اور ضعیف بے سہارا کنبے آپؓ کی سرپرستی میں بڑھے، پھلے پھولے اور آرام کی زندگی بسر کرتے رہے۔ آپؓ نے بیوہ عورتوں کی ہر طرح سرپرستی کی۔ بچوں کی تعلیم وتربیت، ان کی خوراک اور پوشاک اور شادیوں میں مادرانہ شفقت کا عملی مظاہرہ فرمایا۔ صاحبزادی امۃالمتین صاحبہ تحریر کرتی ہیں: ہفتے میں ایک دفعہ نابینا اور یتیم بچوں کو حضرت اماں جانؓ دوپہر کے کھانے پر بلاتیں جو قطار میں ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آتے تھے۔ سب سے آگے سب سے چھوٹا لڑکا ہوتا تھا۔ ان کے لیے دستر خوان بچھتا۔ پلاؤ تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پکتا تھا، اَور کیا ہوتا تھا وہ یاد نہیں۔
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ فر ماتے ہیں: غالباً 1914ء کا واقعہ ہے کہ حضرت ممدوحہ پٹیالہ تشریف لے گئیں۔ آپؓ نے خاکسار سے دریافت فرمایا کہ کیا یہاں کی جیل کے قیدیوں کو ہماری طرف سے عمدہ قسم کا کھانا کھلانے کی اجازت مل سکتی ہے ؟ خاکسار نے اجازت حاصل کر کے آپؓ سے عرض کیا تو آپؓ نے پچاس روپے کی رقم مجھے دی۔
ایک عورت جو مدّت سے حضرت اماں جانؓ کے پاس رہتی تھی اسے بھوک لگی۔ اُس نے سردار کو کہا :آپا مجھے بھوک لگی ہے لنگر سے ابھی کھانا نہیں آیا ہے۔ سردار نے کہا: مَیں ابھی مصروف ہوں روٹی نہیں پکا سکتی۔ اس نے بے تکلّف اماں جانؓ سے کہہ دیا کہ امّاں جان! مجھے بھوک لگی ہے آپا کھانا پکا کر نہیں دیتی۔ امّاں جانؓ نے کہا :کوئی بات نہیں روٹی مَیں پکا دیتی ہوں۔ اور امّاں جانؓ نے روٹی پکا کر اسے کھانا کھلایا۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ لکھتی ہیں کہ آپؓ ملازموں پر انتہائی شفقت فرماتی تھیں۔ آخری ایام میں جب آواز نکالنا محال تھا، مائی عائشہ کی آواز کسی سے جھگڑنے کی آئی۔ بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بدقّت فرمایا: مائی کیوں روئی ؟ مَیں نے کہا: نہیں امّاں جان! روئی تو نہیں، یونہی کسی سے بات کر رہی تھی۔ مگر جو درد آپؓ کی آواز میں اس وقت مائی کے لیے تھا وہ آج تک مجھے بےچین کرتا ہے۔
حضرت اماں جانؓ میں اس قدر صبرورضا اور بلند حوصلہ تھا جو کسی عام خاتون کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جیسے ہی الٰہی منشاء کے مطابق نبوت کا دعویٰ کیا تو تمام ہندوستان میں علماء نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا۔ بدزبانی، گالیاں، کفر کے فتوے،قتل کی دھمکیاں، ہر طرف سے حملے شروع ہو گئے۔ حضورؑ کی زندگی انبیاء علیہ السلام کی طرح ابتلاؤں کی زندگی تھی۔ ان ابتلاؤں میں آپؓ برابر کی شریک تھیں۔ آپؓ کے پانچ بچے بچپن میں فوت ہوگئے۔ بچوں کا صدمہ الگ ہوتا، اس کے علاوہ مخالفین کا شور بھی ہوتا، وہ خوشیوں کے تازیانے بجا بجا کر آپؑ کا تمسخر اُڑاتے اور گالیاں دیتے۔ ان حالات میں ایک ماں کے دل کی حالت کو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کیسی تھی۔ مگر خداتعالیٰ کے فضل سے آپؓ ایک مضبوط چٹان کی طرح حوصلہ کرتیں اور اپنے پیارے ربّ کی رضا پر صدق دل سے راضی رہتیں۔
آپؓ کسی اچانک پریشانی پر بھی بہت زیادہ گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتی تھیں۔ ایسے وقت میں اپنے مولیٰ کے حضور دعا میں لگ جاتی تھیں۔ایک دن لاہور میں زلزلے کے شدید جھٹکے آئے۔ مَیں رتن با غ میں برآمدہ میں دروازہ کے سامنے کھڑی تھی اور حضرت اماں جانؓ کمرے کے اندر اطمینان سے اپنے پلنگ پر لیٹی دعا میں مصروف رہیں۔ خادمہ نے شور مچایا کہ اماں جان جلدی باہر آجائیں۔ تو مَیں جلدی سے کمرے میں جاکر آپؓ کو سہارادے کر باہر لے کر آئی۔ جب زلزلہ تھم گیا تو آپؓ نے فرمایا: جاؤ دیکھ کر آؤ حضرت صاحب کہاں ہیں؟ مَیں نے جاکردیکھا تو حضورؓ کمرے میں فرش پر بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے۔ آپؓ کے بہادر بیٹے بڑے اطمینان سے اپنے کام میں مشغول تھے۔ وہاں سارا خاندان تھا لیکن حضرت اماں جانؓ نے صرف ان کا پتا کروایا اس لیے کہ ایک تو موعود بیٹے تھے دوسرے خلیفۃ المسیح کے منصب پر فائز تھے۔ آپؓ حضرت مصلح موعودؓ کا بہت احترام کرتیں دوسروں سے ذکر کر تے وقت ’حضور‘ فر ماتیں لیکن جب خود آپؓ سے مخاطب ہوتیں تو بڑے پیار سے ’میاں‘ کہتیں۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

آپؓ کی حضرت مسیح موعودؑ سے شادی ایک الہامی شادی تھی یعنی خدا تعالیٰ نے اس کو خود طے فرمایا تھا۔ اس لیے یہ ایک مثالی جوڑا تھا۔دونوں کو ایک دوسرے سے مثالی محبت تھی۔ حضرت اُمّ ناصرؓ نے بیان کیا کہ آپؓ ایک بار بیمار تھیں اور حضرت اقدسؑ تیمارداری فرماتے، کھڑے دوائی پلا رہے تھے اور حالتِ اضطراب میں اماں جانؓ کہہ رہی تھیں ہائے میں مرجاؤں گی، آپ کا کیا ہے، بس اب میں مر چلی ہوں تو حضرت صاحبؑ نے آہستہ سے فرمایا تو تمہارے بعد ہم زندہ رہ کر کیا کریں گے۔ ایسی دلنوازی کی ہزاروں باتیں ہیں۔
رتن باغ لاہور میں ایک دن آپؓ سے ملنے مکرم شیخ اکرام صاحب آئے۔ آپؓ پردہ کے پیچھے تشریف لائیں تو شیخ صاحبؓ سلام دعا کے بعد کہنے لگے قادیان میں ہم حضرت اقدسؑ کے مزار پر دعا کے لیے چلے جاتے تھے اب ہم کہاں جائیں۔ پھر وہ بےقرار ہوکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کہا: ’امّاں جان! دعا کریں ہمیں اللہ صبر دے۔‘ آپؓ خاموش کھڑی ٹھنڈی آہیں بھرتی رہیں اور شیخ صاحبؓ کے جانے کے بعد چارپائی پر آکر لیٹ گئیں۔ ایسے لگتا تھا کہ آپؓ حضرت اقدسؑ کی یاد سے بےحد بےقرار ہیں لیکن بہت وقار سے اپنے جذبات کو ضبط کر رہی تھیں۔

حضرت اقدسؑ کی یاد میں حضرت امّاں جانؓ بہت عمدہ گُڑ والے چاول پکواکر سب کو کھلایا کرتیں۔
رتن باغ لاہور کا واقعہ ہے ایک دن حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائے تو حضرت امّاں جانؓ لیٹی ہوئی تھیں۔ حضورؓ آپؓ کے پاؤں کے پاس پائنتی پر اپنا کوٹ سمیٹ کر بیٹھ گئے اور بےحد خوش گوار ماحول میں ایسے باتیں کررہے تھے جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں سے کرتا ہے۔
ایک دن حضرت امّاں جانؓ نے مرمرے کے چھوٹے چھوٹے لڈو پلیٹ میں بھر کر مجھے دیے اور فرمایا: جاؤ حضرت صاحب کو دے آؤ۔ حضورؓ اپنے کمرے کے فرش پر آگے چھوٹی سی میز رکھے بیٹھے کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ مَیں نے لڈو دیے تو آپؓ بہت خوش ہوئے، امّاں جانؓ کا شکریہ ادا کیا اور پلیٹ لے کر کھانے لگے۔ میں نے واپس آکر امّاں جانؓ کو بتایا تو آپؓ بھی بےحد خوش ہوئیں۔
رتن باغ لاہور میں صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ کے نکاح کی تقریب تھی۔ امّاں جانؓ مجھے بھی ساتھ لے گئیں۔ ہم جس کمرے سے گزرے وہاں حضرت مصلح موعودؓ بیٹھے کچھ تحریر فرمارہے تھے۔ عاجزہ حضرت امّاں جانؓ کے پیچھے تھی۔ امّاں جانؓ نے السلام علیکم فرمایا تو حضور اقدسؓ نے نظر اُٹھا کر دیکھا پھر سلام کا جواب دے کر مجھ سے فرمایا: ’’آگے ہوکر امّاں جان کو بازو سے سہارا دے کر لے جاؤ‘‘۔ آپؓ حضرت امّاں جانؓ کو شعائراللہ کا مرتبہ دیتے تھے۔ مجھے بےحد مسرت ہوئی کیونکہ میرا دل چاہتا تھا لیکن میں نے شرم کے مارے اماں جانؓ کو سہارا دینے کی جرأت نہ کی تھی۔
بعض اوقات رشتہ داروں اور بہن بھائیوں میں بچوں کی وجہ سے تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے لیکن حضرت اماں جانؓ نے ہر رشتے کو بہت خوبصورتی سے نبھا یا اور تلخی کی نوبت نہ آنے دی۔ خاندان کو آپس میں جوڑے رکھا۔ آپؓ کا اسوہ مشعل راہ ہے۔
مَیں نے کبھی امّاں جانؓ کو کسی کو ڈانٹتے یا خفا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بات بڑی حکمت سے کیا کرتی تھیں۔ گھر میں خادمائیں نیز اوپر نیچے مہمانوں سے گھر بھرا رہتا کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو بھی جاتا ہوگا۔ آپؓ اس کو نظرانداز فرما دیتیں۔ رتن باغ لاہور کے صحن میں ایک دن صاحبزادیاں میروڈبہ کھیل رہی تھیں۔ حضرت مائی کاکو صاحبہؓ جو ایک بزرگ دعاگو صحابیہ تھیں اورمزاج کی سادہ تھیں، وہ آئیں اور بڑے غصے سے کہنے لگیں: امّاں جان! یہ نیچے صحن میں کیا ہورہا ہے، جوان بیبیاں دگردگر سارے صحن میں بھاگی پھر رہی ہیں۔ مَیں بھی وہاں بیٹھی تھی مجھے ان کی بات سن کر ہنسی آرہی تھی لیکن اماں جانؓ بالکل خاموش رہیں۔ اور ان کی باتوں کا برا نہ منایا۔
آپؓ بہت نفیس طبع تھیں۔ صاف ستھرا، عمدہ پاکیزہ لباس زیب تن کرتیں۔ ہر وقت آپؓ کے جسم مبارک سے ہلکی ہلکی خوشبوآتی رہتی تھی۔ گرمیوں میں بھی مَیں آپؓ کی چارپائی پر بیٹھا کرتی تھی۔ آپؓ پاک مطہر شہزادی لگتی تھیں۔ سر پر ریشمی رومال باندھ کر رکھتیں۔ دہلی کا لباس چوڑی دار پاجامہ، لمبا کرتا، لمبا دوپٹہ پہنتیں۔ میں نے آپؓ کو کبھی بکھرے حال میں نہیں دیکھا۔ہمیشہ اچھے طریق پہ تیار رہتیں۔ لباس نہایت عمدہ رنگوں کے امتزاج سے پہنتیں۔ ہر وقت پاک صاف رہتیں۔ یہ طریقہ خدائی نعمتوں کے تشکر کے طورپر تھا۔ ایک دفعہ محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ سے باتیں کرتے آپؓ نے ان کے لباس کی تعریف کی تو انہوں نے کہا کہ خداتعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ آپؓ بہت خوش ہوئیں کیونکہ آپؓ کا بھی زندگی میں یہی نظریہ تھا۔ آپؓ عمدہ عطر استعمال کرتیں جو حضرت مصلح موعودؓ خود بناتے تھے۔
آپؓ کو یہ ناپسند تھا کہ کوئی شادی شدہ خاتون اپنے شوہر کے لیے بن سنور کر نہ رہے، اس کے ہاتھوں میں چوڑیاں نہ ہوں یا اچھے طریق پہ تیار نہ ہو۔ ربوہ میں ایک مرتبہ ایک بی بی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ارے، تمہارے ہاتھوں میں نہ چوڑیاں نہ مہندی، ابھی جاؤ اور چوڑیاں پہن کر آؤ۔ وہ فور اًمسکرا تے ہوئے اچھا کہہ کر چوڑیاں پہننے چلی گئیں۔
آپؓ کی بہت ساری بہوئیں تھیں جو مختلف ماحول سے آئی تھیں آپؓ نے کبھی کسی بہو یا اپنی بھابھی کی جستجو نہ کی کہ وہ گھروں میں کیا کرتی ہیں بلکہ آپؓ کا کمال یہ تھا کہ آپؓ نے اپنے سارے خاندان سے ایسا محبت و پیار کا بے مثال سلوک کیا کہ نئی آنے والیاں سب اپنے میکے بھول بھال کر دل و جان سے آپؓ کی ہوکر رہ گئیں۔ اس طرح آپؓ کی بہوئیں بھابیاں اور پھر ان سب کی اولادیں سب ہی آپؓ کے رنگ میں ایسے رنگین ہوگئیں جیسے سب آپؓ کی ہی اولاد ہیں اور آپؓ جیسا لباس اپنالیا۔ حالانکہ بعض دوسرے ماحول کی تھیں جیسے کہ حضرت اُمّ وسیم صاحبہ عرب تھیں۔ ایک بہو پٹھان خاندان سے اور ایک نواب خاندان سے تھیں۔ یہاں تک آپؓ کے اثر کا دائرہ وسیع تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی حرم حضرت امّاں جیؓ بھی آپؓ کے دہلی طرز کا ہی لباس پہنتی تھیں۔
ربوہ میں ایک دن عاجزہ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور طبیعت پوچھی تو فرمایا: کمر میں درد ہے۔ عاجزہ نے عرض کی: امّاں جان آجکل موسم بہت اچھا ہے آپ سیر کو جایا کریں۔ گرمیوں کے دن تھے۔ نیز میں نے عرض کی کہ میں آجایا کروں گی۔آپؓ بہت خوش ہوئیں۔ دوسرے دن صبح کی نماز کے فوراً بعد مَیں گئی تو آپؓ برقع اور سوٹی چارپائی پر رکھ کر میرا انتظار فرمارہی تھیں۔آپؓ نے پہلے ناشتہ منگوایا۔ خادمہ نے ایک پھلکا اور چائے کا ایک کپ ٹرے میں رکھ کر دیا۔ آپؓ نے پیالی سے دو گھونٹ چائے پی اور باقی مجھے عنایت کی اور فرمایا: بیٹی پہلے ناشتہ کرلو۔ یہی روزانہ کا معمول بن گیا۔
ایک دن سیر کے بعداپنے بھائی حضرت سید میرمحمد اسحٰق صاحبؓ کے گھر چلی گئیں۔ ابھی منہ اندھیرا ہی تھا۔ سارے گھر والے جاگے ہوئے تھے۔ حضرت ممانی جان صالحہ بیگم صاحبہؓ اور میر محمود احمد صاحب قرآن شریف کی تلاوت کررہے تھے۔ اُس دن آپ ؓ نے اُن کے گھر کی کھڑکی میں سے ٹرین کو گزرتے دیکھا اور بہت خوش ہوئیں۔
جب ٹھنڈا موسم شروع ہوا تو میں نے خود ہی یہ سوچ کر کہ اب آپؓ سیر کو نہ جاسکیں گی صبح کو جانا چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں کے بعد مَیں حضرت مصلح موعودؓ کی زیارت کو حاضر ہوئی تو آپؓ بھی صحن میں ٹہل رہی تھیں۔حضورؓ اور چھوٹی آپاجان ؒ تخت پوش پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؓ ان سے باتیں کررہی تھیں۔آپؓ جب میرے قریب آئیں تو میں نے خاص طور پر آپؓ کو سلام کیا۔ آپؓ نظریں نیچی کیے تھیں۔ سلام کا جواب اونچی آواز میں نہ دیا۔ مَیں نے خیال کیا کہ آپؓ نے سُنا نہیں اس لیے دوبارہ ٹہلتے ہوئے میرے قریب آئیں تو میں نے پوچھا: امّاں جان آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ بالکل بچوں کی طرح جو روٹھے ہوئے پہلے سے زیادہ پیارے لگتے ہیں۔ اس طرح آپؓ نے فرمایا: بڑی مجھے سیر کروانے لے جاتی تھی اب کیوں نہیں آتی؟ یکدم میری ہنسی چھوٹ گئی۔ مَیں نے کہا: اچھا تو یہ بات ہے! پھر میں نے بتایا کہ میں اس لیے نہیں آئی کہ اب ٹھنڈ شروع ہوگئی ہے آپ کومشکل ہوگی۔ آپؓ نے فرمایا: ٹھنڈ ہے تو کیا ہوا۔ مَیں نے عرض کی: مَیں کل سے پھر آجاؤں گی۔ اس پر خوشی سے میری طرف دیکھ کر مسکرائیں۔ پھر میں نے دو بارہ آپؓ کو سیر پہ لے جانا شروع کردیا۔
آپؓ رات تہجد پڑھ کر صبح کی نماز کے ساتھ سویرا کرتیں اور پھر نہ سوتیں۔ میں نے کبھی آپؓ کو دیر تک سوتے نہیں دیکھا۔ دوپہر کو ضرور کچھ دیر آرام فرماتیں۔
احمدیوں کے گھروں میں جاتیں تو ان بہنوں کے ساتھ گھر کے کام میں مدد فرماتیں اور ان کو گھر سنبھالنے کے سلیقے بتاتیں۔ آپؓ نے اپنے خاندان کا شاہانہ زمانہ دیکھا ہوا تھا لیکن آپؓ میں عاجزی انکساری بہت تھی۔ کسی کے گھر میں داخل ہونے کے آداب کا پورا خیال رکھتی تھیں۔ دروازے پر دستک دے کر اونچی آواز میں السلام علیکم کہتیں۔
بچیوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا بہت احساس تھا۔ نصرت گرلز سکول ابتدا میں اُن بیرکوں میں تھا جو جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے بنائی گئی تھیں۔ یہ کچے کمرے تھے روزصبح ہم اپنے کمروں کو پانی ڈال کر لپائی کرتے پھر کلاس شروع ہوتی۔ میں درجہ ثانیہ میں پڑھتی تھی۔ ایک دن حضرت امّاں جانؓ کو سکول لے گئی اور اپنی کلاس کا کمرہ دکھایا۔ آپؓ کرسی پر دیر تک بیٹھی رہیں اور سکول کے بارہ میں پوچھتی رہیں۔ کچھ دیر کے بعد سکول کھل گیا تو اساتذہ آپؓ کو دیکھ کر خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتی تھیں۔ سب آپؓ کے گرد جمع ہوگئیں۔ آپؓ نے باری باری سب کا حال احوال پوچھا پھر عمدہ نصائح کیں۔ آپؓ کبھی بے مقصد گفتگو نہیں کرتی تھیں بلکہ باتوں باتوں میں سبق آموز واقعات سناکر عمدہ نصیحت کرتیں۔ اساتذہ اور بچیوں کو ایک مزیدار کہانی سناکر آپؓ نے یہ نصیحت فرمائی کہ کبھی کسی کی نقل نہ کریں ورنہ شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
خاکسار حضرت اماں جانؓ کو جماعتی کتب کے علاوہ کبھی کبھی مشہور ناول نگار اے آر خاتو ن کے ناول بھی پڑھ کر سناتی تھی۔ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ کے نکاح کی تقریب رتن باغ لاہور میں ہوئی تو اس موقع پر اے آر خاتون بھی آئی ہوئی تھیں۔ آپؓ نے خاص طور پر مجھے اُن سے ملوایا۔ وہ بہت خوش تھیں کہ حضرت امّاں جانؓ اُن کی کتب پر تبصرہ فرما رہی تھیں۔
حضرت امّاں جانؓ بچوں کی تربیت کے لیے سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہم جب بچے تھے تو حضرت امّاں جانؓ ہمیں کہانی سنایا کرتی تھیں اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی نصیحت فرماتیں۔‘‘
آپؓ کی وفات 20؍اپریل 1952ء کی شب ربوہ میں ہوئی۔ آپؓ تقریباً تین ماہ بیمار رہیں۔ مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب فرماتے ہیں کہ جب بیس تاریخ کی رات اماں جانؓ کی حالت یکدم خراب ہوگئی تو حضرت صاحبؓ بھی تشریف لے آئے اور اماں جانؓ کے سرہانے بیٹھے دعائیں کرتے رہے۔ اسی دوران حضرت اماں جانؓ نے آنکھیں کھول کر حضرت صاحبؓ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اُٹھا کر اشارے سے دعا کرنے کے لیے کہا۔ حضرت صاحبؓ دعائیں بڑے سوز اور رقت سے کرتے جاتے تھے۔ کبھی آپؓ کی آواز بلند بھی ہو جاتی تھی۔ اس وقت جو دعا آپؓ نے بلند آواز سے بار بار دہرائی، وہ یہ تھی اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَا دِیّا یُنَادِیْ لِلْاِیْمَان۔آخری اڑھائی گھنٹے حضرت صاحبؓ قریباً سارا وقت وہیں رہے۔
محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کہتی ہیں کہ آخری وقت آپؓ نے کمزور اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دعا کے لیے اٹھایا اور فرمایا ’’دعا کرو‘‘۔ حضرت صاحبؓ آپؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اسی وقت دعا شروع کی اور اہل ربوہ کو مسجد میں اکٹھا کیا گیا۔ دعا جاری تھی کہ آپؓ کی وفات ہوگئی۔
آپؓ آخری لمحوں تک اللہ تعالیٰ کی یاد میں محو تھیں۔ جیسے حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے وقت آپؓ کی زبان پریہی الفاظ تھے کہ ’’اے خدا! یہ تو ہمیں چھوڑچلے ہیں پر تو نہ ہمیں چھوڑیو‘‘۔ گویا اس وقت بھی آپؓ کا آ خری سہارا اور آخری نظر اللہ پر تھی اورپھر 46 سال بعد خود آپؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُس وقت بھی وہی پاک و برتر ہستی آپؓ کا آخری سہارا تھی۔ آپؓ کی وفات سے دواڑھائی ما ہ قبل آپؓ کی آواز میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک پیغام ریکارڈ کیا جس میں آپؓ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’…میرا پیغام یہی ہے کہ میری طرف سے سب کو سلام پہنچے۔ جماعت کو چاہئے کہ تقویٰ اور دینداری پر قائم رہے اور اسلام احمدیت کی تبلیغ کی طرف سے کبھی غافل نہ ہو۔ اسی میں ساری برکت ہے۔ میں جماعت کے لیے ہمیشہ دعا کرتی ہوں۔جماعت مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں