محترم مرزا گُل محمد برلاس صاحب

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ و اپریل2023ء)

عبدالرحمان شاکر صاحب

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدیٔ معہود علیہ السلام کے ایک چچا مرزا غلام محی الدین صاحب تھے جن کے تین بیٹے اورتین بیٹیاں تھیں جن کا ذکر ہمارے سلسلے کے لٹریچر میں اکثر آتا ہے۔ بیٹوں میں مرزا امام الدین (لاولد فوت ہوئے)، مرزا نظام الدین (جن کی نسل میں احمدیت آگئی)  اور مرزا کمال الدین (لاولد فوت ہوئے ) اور بیٹیوں میں حرمت بی بی (زوجہ مرزا غلام قادر صاحب، بھاوجہ حضرت مسیح موعودؑ اور تائی حضرت مصلح موعودؓ)، فضل النساء (اہلیہ مرزا اکبر بیگ) اور عمربی بی ( زوجہ مرزا احمد بیگ ) شامل تھیں۔ حرمت بی بی صاحبہ کی صرف ایک لڑکی خورشید بیگم تھی جو مرزا سلطان احمد صاحب کی دوسری بیوی تھی۔ باقی اولاد کی کسی قدر تفصیل مضمون میں آگے چل کر بیان کی جارہی ہے۔
===============
1895ء کے اردگرد یہ تمام خاندان بڑاسرسبزتھا۔ مگر حضرت اقدس کے یہ قریبی رشتہ دار سخت بے دین اور دہریہ طبع لوگ تھے۔ حضورؑ سے دشمنی اورعناد میں اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃ کے مصداق تھے۔ حضور بہت چاہتے تھے کہ ان عزیزوں کی اصلاح ہوجائے مگر وہ سب حضورؑ کا مذاق اُڑاتے تھے اورمخالفت میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تھے۔ حضورؑ کی نیکی اور پارسائی کو یہ لوگ مکاری خیال کرتے تھے۔ نیز مذہبی رنگ میں حضورؑ کی ترقی، شہرت اور مہمانوں کی اطراف ِ عالم سے آمد کی وجہ سے یہ لوگ حسد کی آگ میں جلنے لگے اورحضورؑ کی پیشگوئیوں پر تمسخر اُڑایا کرتے تھے۔


1885ء میں مرزا امام الدین نے لاہور جا کر شاتمِ رسول مقبولﷺ لیکھرام کو قادیان آنے کی دعوت دی اور خود چندہ ادا کر کے آریہ سماج کے ممبر بنے۔ پھر ایک مندر قادیان میں بالمیک کے نام پر بنوایا تھا۔

پنڈت لیکھرام پشاوری

حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘میں ان لوگوں کے متعلق لکھا ہے :
’’ایک رات میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص روتا ہوا آیا۔ میں اس کے رونے سے ڈر گیا اور پوچھا کہ کیا تم کوئی موت کی خبر لائے ہو ؟اُس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر۔ اُس نے کہا میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا تھا (یعنی مرزا امام الدین وغیرہ۔ ناقل) جو دین اللہ سے مرتد ہو گئے ہیں۔ اُن میں سے ایک نے رسول اللہ ﷺ کو نہایت غلیظ گالی دی جو میں نے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی اور میں نے دیکھا کہ قرآن کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھتے ہیں اور ایسے کلمات منہ سے نکالتے ہیں کہ زبان اُن کے نقل کرنے سے قاصر ہے اورکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں ہے  … پھر انہوں نے ایک اشتہارلکھا جس میں رسول اللہ ﷺ کوگالیاں دی تھیں۔ یہ اشتہار اُس نے لکھا تھا جوعمراورخباثت میں سب سے بڑاتھا۔ ‘‘
تب حضرت اقدسؑ نے ان لوگوں کے متعلق خداوند تعالیٰ سے دُعا کی اور فیصلہ چاہا تو اللہ تعالیٰ نے حضورکوالہاماً بتلایا:
’’مَیں نے ان کی عصیاں اورسرکشی دیکھی۔ جلد میں ایسی آفات کاعذاب ان پر وارد کروں گا جو آسمانو ں کے نیچے سے انہیں ملے گااورتُودیکھے گا کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں … میں ان کی عورتوں کو رانڈ کردوں گا اور ان کے بیٹوں کویتیم بنا دوں گااوران کے گھروں کوویران کردوں گا تاکہ جوکچھ اُنہوں نے کمایا ہے اُس کا مزہ چکھیں۔ لیکن مَیں ایک ہی مرتبہ ان کو ہلاک نہیں کردوں گا بلکہ تھوڑے تھوڑے کرکے ہلاک کروں گا تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔ بے شک میری لعنت نازل ہونے والی ہے ان پر اور ان کے گھروں پر اور ان کے چھوٹوں پر اور ان کے بڑوں پر اور ان کی عورتوں پر اور ان کے مردوں پر اوران کے مہمانوں پرجو اُن کے گھر میں داخل ہوں۔ اور وہ سب کے سب ملعون ہیں سوائے ان کے جوایمان لائیں اورنیک عمل کریں اوراُن سے تعلقات منقطع کرلیں اوران کی مجالس سے دُور رہیں اُن پررحم کیاجائے گا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 568-569)
چونکہ حضرت مسیح موعودؑ اصلاحِ خلق کے لیے مامورہوئے تھے لہٰذاسب سے پہلے قرآنی حکم وَاَنِذرْ عَشِیْرتَکَ الْاَقْرَبِیْن کے ماتحت اپنے رشتہ داروں کو سمجھایا مگر کسی نے مطلق پروا نہ کی۔
الغرض یہ وہ عظیم خاندان تھاجس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کوالہاماً خبردی گئی کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ تَباَرَکَ وَتَعَالیٰ۔ زادَ مَجْدَکَ۔ یَنْقَطِعُ أَباَؤکَ وَیَبْدَأ مِنْکَ۔ ترجمہ: سب پاکیاں خداکے لیے ہیں جونہایت برکت والااورعالی ذات ہے۔ اُس نے تیرے مجدکوزیادہ کیا۔ تیرے آباء کانام اورذکر منقطع ہوجائے گا۔ یعنی بطورمستقل اُن کانام نہیں رہے گااورخداتجھ سے ابتداءِ شرف اور مجد کرے گا۔
(تذکرہ طبع دوم68)
بعدہٗ مرزاامام الدین اورمرزانظام الدین نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت حضرت اقدسؑ کے گھرکے سامنے ایک دیواربنوادی جس سے حضورؑکے گھر میں آنے جانے کاراستہ بندہوگیا۔ یہ 7؍جنوری 1900ء کاواقعہ ہے۔ آخرکار 12؍اگست 1901ء کویہ مقدمہ حضرت صاحب کے حق میں ہوا اور 20؍اگست 1901ء کواُسی بھنگی نے وہ دیوار گرائی جس نے بنائی تھی۔ ادھر خواجہ کمال الدین صاحب نے بغیر حضورؑ کے علم کے خرچہ مقدمہ کے لیے درخواست ازخود دے دی۔ جب عدالت کاپیادہ وارنٹ لے کرآیاتومرزانظام الدین صاحب نے حضرت اقدس کوخط لکھا:

خواجہ کمال الدین صاحب

’’مقدمہ دیوارکے خرچہ وغیرہ کی ڈگری کے اِجرا کانوٹس میرے نام آیا ہے اورمیری حالت آپ کومعلوم ہے۔ اگرچہ میں قانونی طورپراس روپیہ کے ادا کرنے کا پابندہوں اورآپ کوبھی حق ہے کہ آپ ہرطرح سے وصول کریں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری طرف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی تکلیف آپ کوپہنچتی رہی ہے مگریہ بھائی صاحب (مراد مرزاامام الدین۔ ناقل ) کی وجہ سے ہوتا رہا ہے جس میں مجھے بھی شریک ہونا پڑتا تھا۔ آپ رحم کرکے مجھے معاف کردیں اوراگرمعاف نہ کریں تو بالاقساط وصول فرمائیں۔ ‘‘
اس پرحضور علیہ السلام نے سخت رنج کا اظہار فرمایا کہ کیوں میری اجازت کے بغیر اجرا کردیا تو خواجہ صاحب نے کہا کہ میعاد کے اندرکارروائی ضروری تھی۔ اس پرحضورؑنے فرمایا: ’’آئندہ کبھی اس ڈگری کااجرا نہ کرایا جائے۔ ہم کو دنیاداروں کی طرح مقدمہ بازی اورتکلیف دہی سے کچھ کام نہیں۔ انہوں نے اگرتکلیف دہی کے لیے یہ کام کیا تو ہمارا یہ کام نہیں ہے۔ خداتعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لیے دُنیا میں نہیں بھیجا۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 118)
اس واقعہ سے مرزانظام الدین صاحب بہت نادم ہوئے اورانہوں نے بھی مخالفت ترک کردی۔
’’ایک دفعہ مرزانظام الدین صاحب سخت بیمارہوگئے۔ قادیان میں حضرت اقدس کے سوا چونکہ کوئی اورطبیب نہ تھا۔ حضور کو بلوا بھیجا۔ حضورنے مرض کی تشخیص کرکے ایک مرغا ذبح کراکے مرزا صاحب کے سر پر بندھوایا اورعلاج بھی کیا جس سے شفا ہوئی۔ ‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ 27)
’’صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحب روایت فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؑ سیر کے لیے جانب شرق موضع بسراواں کے راستے سے قادیان واپس آرہے تھے کہ مرزا نظام الدین گھوڑے پرسواربسراواں کو جارہے تھے۔ حضور کو دُورسے دیکھ کر گھوڑے پر سے اُترکرایک طرف کھڑے ہوگئے اورحضورکے قریب آنے پر جھُک کرسلام کیا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ41)
حضرت اقدس ؑ نے اپنے مکان سے ملحق ایک نہایت مختصرسی مسجد1883ء میں بنوائی تھی جس میں بمشکل پندرہ سولہ آدمی کھڑے ہوکرنماز اداکرسکتے تھے۔ ہجوم خلائق دیکھ کرحضورکوخیال ہوا کہ مسجد مبارک کو وسیع کیا جائے۔ اس کے لیے حضورؑ نے شیخ یعقوب علی صاحبؓ، مولوی محمدعلی صاحب ایم۔ اے اورچند ایک اَوراحباب کو مرزانظام الدین صاحب کے پاس بھیجا کہ مسجد سے ملحقہ زمین جس پر اس زمانہ میں مرزا نظام الدین صاحب کا خراس ہوتا تھا قیمتاً دے دیں مگر وہ تو بات سنتے ہی ناراض ہوگئے کہ غلام احمد خود کیوں نہیں آیا۔ دوسروں کوبھجوادیاہے۔
اس کے بعد کا واقعہ آپ مرزادین محمد صاحب ولد مرزا نتھا بیگ ساکن لنگروال ضلع گورداسپور سے سنیں۔ مرزادین محمد صاحب مرزانظام الدین کے ماموں زادبھائی تھے اورحضرت اقدس کے مریدتھے۔ وہ بیان کرتے ہیں:
’’مرزانظام الدین سے میں نے سنا تھا کہ مسجد مبارک جوبالکل چھوٹی سی تھی آپ کا اُسے بڑاکرنے کاارادہ تھا اوراُس کے متصل جوجگہ تھی جس میں خراس لگا تھا وہ مرزانظام الدین، امام الدین کی تھی۔ آپؑ نے مولوی محمدعلی صاحب شیخ یعقوب علی صاحب اوردیگرلوگوں کے ذریعہ سے اُس کو زمین دینے کے لیے کہاکہ قیمت لے کر دے دیں مگرانہوں نے انکارکردیا۔ اس کے بعد حضرت اقدسؑ نے ایک چٹھی لکھ کرمرزانظام الدین کو پھینکی جونیچے دیوان خانہ میں بیٹھے تھے کہ مسجد کے لیے جگہ کی ضرورت ہے۔ آدمی بہت آتے ہیں آپ جگہ دے دیں تومرزانظام الدین نے اُس کاجواب دیا کہ میں اس لیے انکارکرتا رہا کہ آپ غیرآدمیوں کومیرے پاس بھیجتے رہے ہیں۔ اگرخود کہتے یا مجھے بُلالیتے تومیراکوئی انکارنہ تھا۔ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ آپ کوجس جگہ کی ضرورت ہے لے لیں۔ چنانچہ وہ جگہ دے دی گئی۔ حضورؑ نے اُس کا عوضانہ دینے کو کہا جس پر مرزا نظام الدین نے انکار کیا اور جب حضورنے اصرار کیا تو اُس نے کہا کہ میں نقد تو نہیں لے سکتا۔ میراباغ گِروی ہے آپ وہ فک کرادیں۔ چنانچہ باغ فک کرادیا گیا۔ ‘‘
(رجسٹرروایات صحابہ نمبر 1صفحہ 99)
حضرات! ذراملاحظہ فرمائیں کہ کہاں وہ مرزانظام الدین کہ اُن کے نام سے خوف آتا تھا۔ اب وہی مسجدکی توسیع کے لیے زمین پیش کررہے ہیں۔ آخرکار 1907ء میں حضرت میرناصرنواب صاحب دہلوی اوورسیئر کی زیرنگرانی نیچے کی منزل میں خزانہ صدرانجمن احمدیہ کا دفتربن گیا اوراُوپراُس کی چھت پرمسجدمبارک اپنی توسیع شدہ صورت میں بن گئی۔
انہی دنوں مرزانظام الدین صاحب کا جواں سال لڑکا مرزا دل محمد قضائے الٰہی سے فوت ہو گیا۔ بڑے بھائی مرزاامام الدین جس کے بل بوتے پران کو زیادہ ناز تھا وہ بھی فوت ہوگئے۔ مرزانظام الدین صاحب دل ہی دل میں شرمندہ تھے۔ آخرحضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الاوّل ؓ کے عہدمبارک میں وہ دن آیا کہ مرزانظام الدین نے حضرت کی ڈیوڑھی پرحاضری دی۔ باقی روایت حضرت حافظ محمدابراہیم صاحب ؓ کی زبانی سُنیے۔ وہ بیان کرتے ہیں:
حضرت خلیفۂ اوّلؓ کے زمانہ میں مرزانظام الدین صاحب کے خاندان کے بہت سے افراد طاعون میں فوت ہوگئے تومرزانظام الدین حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے مکان پرآئے اورحضورکی چوکھٹ پرسررکھ کرزارزاررونے لگے۔ جب حضرت مولوی صاحب نے سبب پوچھا تومرزا صاحب نے روتے ہوئے جواب دیا کہ حضرت مولوی صاحب! ہماری مصیبت کا بھی علاج ہے کہ نہیں؟ میں نے تو اب کوئی مخالفت نہیں کی۔ حضرت مولوی صاحب کچھ وقت خاموش رہے اورپھر فرمایا: مرزا صاحب ! خدائی تقدیر کو کس طرح بدل سکتا ہوں!۔ پھر بیمار افراد کے علاج معالجے کے لیے ہمدردانہ رنگ میں مشورہ دیا۔
خاکسار (مرزا بشیر احمد ) عرض کرتاہے کہ بعض دوسرے لحاظ سے بھی مرزا نظام الدین صاحب کمزور ہوگئے تھے۔ انہوں نے آخری وقت میں مخالفت کی شدّت کو ترک کردیاتھا۔ یہ طاعون 1910ء میں پڑی تھی جس میں مرزا نظام الدین صاحب کے بہت سے اقرباء مبتلا ہوکر فوت ہوگئے تھے۔
(ماخوذ از سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ 146)
مرزا نظام الدین صاحب کی سگی ہمشیرہ حرمت بی بی صاحبہ (اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت اقدس ؑ  کے برادر اکبر تھے) نے بھی 16؍ مارچ 1916ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پربیعت کرکے وہ الہام پورا کر دیا جو 1900ء کا ہے یعنی ’’تائی آئی‘‘۔ آپ نے 1/5 حصہ کی وصیت کی اوربہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں۔

حضرت محمد حسن رہتاسیؓ

اس ضمن میں حضرت مولانا حسن رہتاسی صاحبؓ کی ایک رباعی ملاحظہ ہو:

تیرے وعدے کے مطابق ترے مامور کے پاس
چل کے دنیا کے کناروں سے خدائی آئی
جس کے آنے کی خبر عہدِ نبوت میں ملی
تائی والے کے زمانے میں ہی ’’تائی آئی‘‘

الغرض خدائی مشیت کے مطابق اشد ترین مخالفوں کا یہ گھرانہ جب خالی ہوگیا تو صرف ایک لڑکا مرزا گل محمد پسر مرزا نظام الدین صاحب باقی رہ گیا۔


یہ لمبی چوڑی تمہید میں نے اس واسطے پیش کی ہے تاقارئین کرام کو تمام پس منظر دکھادیا جائے۔
مرزا گل محمد صاحب بچپن میں تو دُبلے پتلے مگر غضب کے پھرتیلے ہوتے تھے لیکن جوں جوں جوان ہوتے گئے جوانِ رعنا نکل آئے۔ بعد میں جسم بھاری بھر کم ہوتاگیا۔ نہایت خوبصورت ناک نقشہ، عمدہ متوازن اعضاء، موزوں قداورمضبوط جسم کے مالک تھے۔ ابتدائی تعلیم سکول میں پائی مگر چونکہ گھر پر نگرانی کرنے والا کوئی نہ تھا اس لیے جس قدر سکول میں اُستاد سے پڑھ لیا وہی کافی ہوتا۔ اس طرح نویں جماعت تک پہنچے، پھر یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ باپ کی جائیداد کافی تھی جس کی آمد سے شاندار طریق سے زندگی بسر ہوتی رہی۔ ویسے حضرت خلیفہ ثانیؓ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ نگرانی کرتے تھے مگر جب بالغ ہوکر خودمختار ہوئے تو پھر ان حضرات کا مشورہ ہی ہوتا تھا۔ انہوں نے کبھی لاہورنہیں دیکھا تھا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب جٹؓ کی زیرنگرانی لاہور بھجوادیا تا سیر کرآئیں۔
آخر سعادت ازلی اس یتیم اوربے آسرا بچہ کو حضرت مسیح الزمانؑ کے دامنِ عافیت میں لے آئی اورمورخہ ۲۷مئی ۱۹۱۷ء کو مرزا گل محمد صاحب حضرت خلیفہ ثانی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے حضرت اقدس ؑ کی روحانی اولاد میں شامل ہوگئے۔ جسمانی رشتہ تو پہلے ہی تھا۔ کشتی نوح میں فارسی نظم میں حضور فرماتے ہیں ؎

کہ آں سعید زِ طاعون نجات خواہد یافت
کہ جَست و جُست پنا ہے بچار دیوارم

(ترجمہ: وہ نیک بخت طاعون سے نجات پاجائے گا جو میری چاردیواری میں داخل ہوا اور پناہ چاہی۔)

حضرت خلیفہ ثانیؓ کی دُوربین نظر نے مرزا گل محمد صاحب کو اپنے اَورقریب لانے کے لیے اپنی سالی عزیزہ بیگم صاحبہ سے ان کا نکاح بھی کرادیا۔ اور یہ نوجوان خلیفۃالمسیح کا ہم زُلف بن گیا۔ جہیز کا سامان بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی لاہور سے تیار کراکے لائے تھے مگر خدا کی مشیت کے ماتحت اس بی بی سے اولاد نہ ہوئی۔ جس طرح مرزا نظام الدین صاحب کی پہلی بیوی فضل النساء سے کوئی اولاد نہ ہوئی اور دوسری بیوی وزیر بیگم سے مرزا دل محمد، مرزا گل محمد اورحمیدہ بیگم عطا ہوئے اسی طرح مرزا گل محمد کو بھی خدا نے دوسری بیوی فیروزہ بیگم صاحبہ سے تین بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی یعنی مرزا نفیس احمد، مرزا لطیف احمد، شاہدہ بیگم اور مرزا رفیق احمد۔ یہ سب صاحبِ اولاد ہوئے۔
مکرم قاضی اکمل صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے مرز ا گل محمد صاحب کو 1918ء میں بعض کتب سبقًا سبقًا پڑھائیں نیز ماسٹر عبدالرحمن صاحب نو مسلم کی کتب متعلقہ اسلام بھی پڑھائیں۔ پھر جب شوق بڑھا تو زبانی اسباق بھی دیے۔ ہر سبق ایک ایک ہفتے کا ہوتاتھا۔ سلسلہ کی بعض کتب کے خلاصے زبانی سمجھائے۔ محمدی بیگم والی پیشگوئی چونکہ اُن کا گھریلو مسئلہ تھا اچھی طرح سے ذہن نشین کرادیا۔ جب بھی کوئی مشکل آتی تو اکمل صاحب سے مشورہ کرلیتے۔ جلسہ سالانہ اور مخالفین کے جلسوں پر حفاظت اورپہرہ کے انتظامات ان کے سپرد ہوتے تھے۔
مرزا گل محمد صاحب کی دینی تربیت میں علاوہ اَوربزرگان سلسلہ کے حضرت چودھری نصراللہ خان صاحبؓ (والد حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ) بھی کوشاں رہے۔ وہ اس طرح کہ مرزا گل محمد صاحب کے وسیع دیوان خانے کو نظارت بیت المال نے کرایہ پر لے کر دفتر بنالیا ہوا تھا۔ چودھری صاحب موصوف کی عادت تھی کہ سویرے ہی دفتر آکر تلاوت کرتے۔ مرزا صاحب کا اُوپر سے گزر ہوتا تو شفقت سے بلا کر احوال پوچھتے۔ پھر حکیمانہ طرز پر فرماتے کہ مرزا صاحب! ذرا یہ کتاب تو مجھے پڑھ کر سناؤ۔ مقصود یہ ہوتا کہ اس طرح ان کو کتب سلسلہ سے واقفیت ہوجائے گی اور مشکل الفاظ پر عبور ہوجائے گا۔ اس طرح ان کی تعلیم قابل ہاتھوں سے ہوتی رہی۔
1922ء میں گورنمنٹ نے احمدیہ ٹرٹیوریل فورس قائم کی۔ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اُس کے کپتان تھے اورسردار نذر حسین، چوہدری فضل احمد صاحب اورمرزا گل محمد صاحب سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوئے۔
میاں محمد اسماعیل صاحب قادیانی نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ ہم لوگ انبالہ چھاؤنی میں ٹریننگ کے لیے گئے ہوئے تھے کہ وہاں پر ہادی علی خاں (برادراکبر مولوی عبدالمالک خان صاحب ناظراصلاح وارشاد ربوہ) نہانے کے لیے کنویں پر گئے۔ ان کی وہاں پر عیسائیوں کی کمپنی کے ایک جوان سے تکرار ہوگئی۔ بات بڑھ گئی اوردونوں کمپنیوں کے نوجوان گتھم گتھا ہوگئے اورلطف یہ کہ کسی کو خبر نہیں کہ اصل نزاع کیا ہے۔ مرزا گل محمد صاحب کو خبر ہوئی تو بطور ایڈموئنٹ وہاں گئے۔ جب اچھی طرح تحقیق کرلی کہ قصور عیسائیوں کا ہے تو حکم دیا کہ پکڑ لو ان کو۔ اورخوب مارا۔ اتنے میں میجر نکولس کمانڈنگ افسر آیا اوربمشکل لڑائی بند ہوئی۔ بعد میں کورٹ مارشل ہوا تو دس عیسائی فوجیوں کو چودہ چودہ دن کے لیے کوارٹر گارڈ میں بند کیا گیا۔ مرزا صاحب نے اس وقت اپنی مغلئی جوانمردی دکھا دی۔ ہرشخص کے ساتھ وہ نہایت منکسرالمزاجی سے پیش آتے۔ اُس کی بات پوری توجہ سے سنتے اورہمدردی دکھاتے۔ اُن کے منہ سے نہ نکل ہی نہ سکتا تھا۔ قادیان کے ایک کشمیری نے مجھے سنایا کہ ایک دن وہ مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ مکان بنانے کے لیے کوئی جگہ عنایت فرمائیں۔ کہنے لگے میری فلاں جگہ سفید زمین پڑی ہے۔ اس میں سے 10؍مرلہ پر مکان بنالو۔ اُس نے دس مرلہ سے کافی زیادہ جگہ احاطہ کرلی۔ اتفاق سے ایک دن ادھر سے گزر ہوا تو اسے بلایا اورکہا تم نے زیادتی کی ہے۔ وہ شرمندہ ہوا، مگر کہنے لگا کہ ہم آپ کی رعایا ہیں۔ اس پر ہنس پڑے اورکہنے لگے: اچھا بھائی! تمہاری مرضی۔
ایک شخص نے عرض کیا کہ تحصیلدار بٹالہ اُس کا ایک انتقال منظور نہیں کرتا۔ کہنے لگے فلاں دن میں بٹالہ جارہا ہوں، میرے ہمراہ میری موٹر میں چلنا۔ تحصیل کے اندر جاکر تحصیلدار کی میز پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ وہ حیران کہ میز کے اوپر کیوں بیٹھے ہیں۔ کہنے لگے پہلے میرے اس دوست کاانتقال منظورکرکے اُس کی مصدّقہ نقل اُسے دیدیں پھراُتروں گا۔ جب نقل اُسے مل گئی تواُسے کہنے لگے کہ اب خوش ہو؟اُس نے شکریہ اداکیااورچلنے لگاتو کرایہ کے لیے بھی ایک روپیہ اُسے دیا۔
میاں محمدرمضان دفترپرائیویٹ سیکرٹری کے موٹرڈرائیورتھے۔ ایک دن اُن کو یکایک فارغ کر دیا گیا۔ وہ مرزا صاحب کی خدمت میںحاضرہوئے کہ شاید اپنی موٹرکے لیے رکھ لیں۔ کہنے لگے اب تو میں خود موٹر چلانے میں ماہر ہوگیا ہوں۔ ویسے تم میرے دیوان خانہ میںرہاکرو۔ کھانااندر سے آجایا کرے گا۔ بسترمل جائے گا۔ کپڑوں کی اگرضرورت ہے تو بنوا دیتا ہوں۔ مرزاصاحب میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اپنے عزیزوں کے متکفل تھے۔ کئی غریب خاندان ان کے دسترخوان سے فیض پاتے تھے۔
ڈاکٹرخلیفہ رشیدالدین صاحب جب 1926ء میں انتقال فرماگئے تو ان کا سب سے چھوٹا بیٹا خلیفہ منیرالدین احمدبہت کم عمرتھا۔ اُسے تعلیم دلوائی اورجب وہ بڑا ہوگیا توحضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اُسے پاکستان ایئرفورس میں بھرتی کرا دیا۔ پھر مرزاگل محمدصاحب کی صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبہ سے شادی کرا دی۔ عزیزمنیرالدین نے 1965ء کی جنگ میں دادشجاعت دیتے ہوئے امرتسرکے ریڈار پر حملہ کرکے اُسے بیکارکردیا مگرخود وہیں شہید ہوگئے۔

خلیفہ منیرالدین شہید

ایک دفعہ مرزاصاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنی جاگیرراج پورہ پر شکار کے لیے جارہے تھے اُدھرسے حسن رہتاسی صاحب آگئے۔ وہ فی البدیہ شاعرتھے آتے ہی شعرسُنادیا ؎

جا رہے ہیں کار میں بہرِ شکار
گُل ہے ان میں ایک ۔ باقی سب ہیں خار

مرزاصاحب سُن کرشگفتہ ہوگئے اور5؍روپے انعام دیا۔
مرزاگُل محمدصاحب ہاکی کے بہترین کھلاڑی تھے۔ جوانی میں ٹینس بھی خوب کھیلا کرتے تھے۔ اکثرمیچ کے بعد تمام کھلاڑیوں کی تواضع بھی کیاکرتے تھے اور خوب کھلایا پلایا کرتے تھے۔ آپ قادیان میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین بھی تھے اورتمام ممبروں میں بڑے ہردلعزیزتھے۔ کمیٹی کے کاموں میں خوب سُوجھ بُوجھ سے کام لیتے اورلمبی دفتری کارروائی سے گھبراتے تھے۔ زبانی فیصلہ کرکے عمل درآمد کرادیتے تھے۔ احمدیہ نیشنل کورکے سالارتھے۔ (تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ 539)
جب جلسہ مصلح موعودؓ دہلی کے موقع پرشریروں نے جلسہ گاہ پرحملہ کردیا تو مرزا صاحب کوبھی زخم آئے۔ قادیان میں آکر مرہم پٹی کرارہے تھے کہ قاضی اکمل صاحب اُوپرسے گزرے تو پوچھا مرزایہ کیا؟کہنے لگے یہ سب دہلی میں ہوا۔ میں نے محض بہ نیت ثواب وکفارۂ گناہ خاموشی سے مارکھالی اوریہ دوتین زخم آئے۔ ورنہ مَیں اورمیرے ساتھی بہت کچھ کرسکتے تھے۔ اسی موقع پرجب حضرت خلیفۃالمسیح کی حفاظت کے لیے پہرہ دارجمع ہوئے تواُن میں مختصرسی تقریر کی اورکہاکہ میں توایک ناچیز وگنہگارہستی ہوں مگروہ نہایت پاک وجود ہے جس کے لیے ہماری جان تک بھی قربان ہوجائے توسمجھیں گے کہ فلاحِ دارین پائی اوریہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ (بیان اکملؔصاحب۔ الفضل 14اکتوبر1945ء صفحہ 6)
مرزاگل محمد صاحب کی دوسری شادی محترمہ فیروزہ بیگم صاحبہ بنت مرزااکرم بیگ صاحب آف پٹی سے ہوئی۔ برات پٹی گئی۔ مولوی عبدالرحمٰن صاحب نے نکاح پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے قربان جائیے اس بی بی سے اللہ تعالیٰ نے اولاد عطا فرمائی۔ جب پہلا بیٹا پیدا ہوا توبڑی خوشی منائی۔ میں نے خودان کوکہتے ہوئے سُنا کہ ہمارے خاندان پرتو Ban لگا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی قبول فرمالی ہے اور Ban توڑ دیا ہے۔
پھرایک دن جوش سے کہنے لگے کہ ’’مجھے نہیں پتہ کہ مولوی شیرعلی صاحب ؓ، مولوی سرورشاہ صاحب ؓ، شیخ یعقوب علی ؓ صاحب سچّے مرید ہیں کہ نہیں مگرمیں ضرور سچا مرید ہوں۔ گومیرے اندر بے شمارکمزوریاں ہیں مگر خداتعالیٰ نے مجھے بچے عطا فرمائے ہیں تو تصدیق ہوگئی کہ اب Ban ہٹ گیا ہے۔ ‘‘
انہی ایام میں ایک دن حسن رہتاسی صاحب نے آکریہ شعر پڑھا ؎

اپنی دُعا حسن ہے نہ تا حشر ہو کبھی
مرزا نظام دین کے گھر کا چراغ گُل

سُن کربڑے مسرورہوئے۔ اُن کوچائے پلائی اورانعام دے کررخصت کیا۔
وفات سے دوسال قبل مرزاصاحب کوتحریک کی گئی کہ مسجدمبارک قادیان کی دوسری توسیع کے لیے اگروہ اپنے دیوان خانہ کاگیٹ اورچند دکانیں دے دیں تو بہت بہترہو۔ فورًا رضامندہوگئے۔ جب بڑاگیٹ مسمارکرنے لگے توطبیعت غمناک ہوگئی اوربڑی حسرت سے کہنے لگے کہ یہ دروازہ میرے آباء کی نشانی تھا۔ اب گرا دیاجائے گا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں نے بخوشی یہ کام کرلیا۔ شاید میرا مولا اسی طرح میری عاقبت بالخیرکردے ۔ پھر آبدیدہ ہوکرایک طرف کوچلے گئے۔
آخری ایام میں صحت بہت کمزورہوچکی تھی۔ قاضی اکمل صاحب نے وجہ پوچھی توکہنے لگے ’’یہ مغلی اب ختم ہوچکاہے۔ اسے ختم ہوجانے دو۔ ‘‘
آپ نے 25ستمبر1945ء کوبوقت شام وفات پائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ محترم قاضی اکمل ؔصاحب نے جن کو مرزا صاحب سے بہت پیار تھا فارسی اشعارمیں ان کی تاریخ وفات کہی ؎

مجسم شرافت زہے نیک نام
محب و مخیر بسے خوش کلام

مرزا گُل محمدصاحب کی وفات کی خبر سن کرہماری جماعت کے قطب الاقطاب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ نے فرمایا:’’یہ وہ شریف ترین انسان تھاجس نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ ‘‘
الغرض روحانی طورپرمُردہ خاندان میں خُداتعالیٰ نے ایک گُل پیداکرکے مسیح محمدی ؑ کے انفاسِ مسیحائی سے اُسے حیات ابدی بخشی۔ مرزاگُل محمدصاحب صحیح معنوں میں یُخْرجُ اَلحَيّ من المّیتِ کے مصداق تھے۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں