ذکرِحبیب علیہ السلام

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ و اپریل2023ء)
تقریر برموقع سالانہ اجتماع انصاراللہ برطانیہ 2022ء

(فضل الرحمٰن ناصر۔ قائد تربیت مجلس انصاراللہ برطانیہ)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی کیسی تھی، آپ کے شب وروزکیسے بسر ہوتے، اٹھتے بیٹھتے کیسے تھے، نمازیں کیسے اداکرتے، دعائیں کیسے کرتے، بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی خدمت میں کیسے سرگرم رہتے؟ یہ جاننے کا شوق اور اس کاتذکرہ ہماری جماعت میں ذکرِحبیب کے نام سے معروف ہے۔
حضرت مرزاغلام احمدقادیانی مسیح موعودومہدیٔ مسعود علیہ السلام ایک ایسے خاندان کے فردتھے جن کا دنیاکے مشاغل اورملک داری میں بڑادخل تھا۔مگر آپ نے دنیا کی کھوکھلی زندگی سے منہ موڑکر نہایت سادہ گزربسرکے ساتھ ایک ایسی زندگی اختیارکی جوآپ کے اس شعرکی مصداق تھی کہ

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانٌ یار

بہت ابتدائی عمر سے ہی آپ کا اکثر وقت نمازوں کی ادائیگی اورقرآن کریم کی تلاوت میں گذرتا۔ بلکہ تلاوتِ قرآن کاتوایساشغف تھاکہ دیکھنے والوں کویقین تھا کہ آپؑ تلاوت قرآن سے کبھی نہ تھکتے۔ کثرت سے روزے رکھتے اورگھرسے جو کھانا آتااس کااکثرحصہ نہایت خاموشی سے غرباء میں تقسیم کردیتے۔فجرکی نماز سے قبل اور مختلف اوقات میں پیدل چلنے کابہت شوق تھا۔حتی کہ تحریرکا کام بھی بعض اوقات چلتے چلتے کرتے۔ مطالعہ کا اس قدرشوق تھا کہ آپ کے والدصاحب آپ کو منع کرتے کہ اس سے صحت بگڑجائے گی۔مگرمطالعہ کایہ شوق بھی اسلام کی خدمت کے لیے تھا۔ والدین کی اطاعت میں کچھ عرصہ سیالکوٹ میں ملازمت بھی کی لیکن اپنے اس خداررسیدہ بیٹے سے دوری والدین برداشت نہ کرسکے اس لیے سیالکوٹ سے جلد واپس بلالیا۔ آپ کے بزرگ بھی آپ کی پاکیزہ زندگی سے اس قدر متاثرتھے کہ جب وہ اپنے دنیوی معاملات اور اپنے اس بیٹے کی زندگی کاموازنہ کرتے تو بہت دفعہ کہتے کہ سچارستہ تویہی ہے جوغلام احمدنے اختیارکیاہے، ہم تو دنیاداری میں الجھ کراپنی عمریں ضائع کررہے ہیں۔ (سیرت طیبہ۔صفحہ ۴)
آپ نے اپنے رب سے وفا کی توخداتعالیٰ نے بھی آپ سے بہت پیارکیا۔ نوعمری میں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پررؤیااورکشوف اورقبولیتِ دعا کے دروازے کھل گئے۔دورانِ تعلیم آپ کو خواب میں حضرت رسول اللہ ﷺ کی اس طرح زیارت ہوئی کہ آپ نے دیکھاکہ حضرت رسول اللہ ﷺ کی کرسی اونچی ہوگئی ہے۔حتٰی کہ چھت کے قریب پہنچ گئی ہے اور حضرت رسول اللہ ﷺ کا چہرہ ایسا چمکنے لگاکہ گویااس پرسورج اورچاندکی شعائیں پڑرہی ہیں۔
قریباً چالیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق ہوگیا کہ آپ سے اللہ تعالیٰ یوں مخاطب ہوا: یا احمد بارک اللہ فیک مارمیت اذرمیت ولٰکن اللّٰہ رمٰی۔ا لرحمٰن علم القراٰن لتنذر قوما ما انذر اٰباؤھم و لتستبین سبیل المجرمین قل انّی امرت وانا اوّل المؤمنین۔…… یعنی اے احمد! خدائے تعالیٰ نے تجھ میں برکت ڈال دی ہے۔ جو تِیر تُو نے چلایا یہ تُو نے نہیں بلکہ خدانے چلایا ہے۔ یعنی تیرا ہاتھ خدا کاہاتھ ہے۔پھراللہ تعالیٰ نے آپ کومخاطب کرکے فرمایا کہ وہی رحمٰن ہے جس نے قرآن تجھے سکھایا تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تا مجرموں کی راہ صاف طور پرکھل جاوے یعنی تا معلوم ہو جاوے کہ کون لوگ تیرا ساتھ اختیار کرتے ہیں اور کو ن لو گ بغیر بصیر ت کامل کے مخالفت پر کھڑے ہو جاتے۔… تُو میری مراد اور میرے ساتھ ہے۔ تُو میر ی درگاہ میں وجیہ ہے۔ مَیں نے تجھے اپنے لیے چنا۔ تیری شان عجیب اور تیرا اجر قریب ہے۔تیرے ساتھ زمین و آسمان ایسا ہے جیساکہ وہ میرے ساتھ ہے۔تُو خدا کا پہلوان ہے نبیوں کے حُلّوں میں۔ مت خوف کر کہ غلبہ تجھ کو ہے۔ خداکئی میدانوں میں تیری مدد کرے گا۔ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔
اسی طرح کے بے شمار محبت بھرے بابرکت الفاظ میں خداتعالیٰ نے آپ سے اپنے پیارکااظہارکیا جن سے ظاہرہے کہ جولوگ خداسے وفاکرتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کیسے پیارکرتاہے۔ آپؑ بھی خداتعالیٰ کے قرب کے میدانوں میں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے لیکن مخلوق خداسے بھی بہت قریب رہتے اور ان کی خدمت کی بھی بہت ہی دلکش مثالیں قائم کیں۔آپؑ فرمایاکرتے کہ

منِہ از بَہرما کرسی کہ مامورِیم خدمت را
ترجمہ: ہمارے لیے کرسی مت بچھاؤ کہ ہم توخدمت کے لیے مامور ہیں۔

حضورعلیہ السلام کے ایک بہت ہی پیارے اورقریبی صحابی حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ خدمت اسلام کے ساتھ ساتھ آپ کی خدمت خلق کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ’’بعض اوقات قریبی دیہات سے دوا پوچھنے والی گنواری عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں’’مِرجا جی! جرا بوا کھولو تاں۔‘‘ (یعنی مرزا صاحب! ذرا دروازہ تو کھولیں۔ ناقل) حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیاہے۔اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں وقت کی قدرپڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اور بھی وقت کو ضائع کرنے والے ہیں۔ ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کر دیا اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے۔ آپ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ زبان سے یااشارہ سے اس کوکہتے نہیں کہ بس اب جاؤ، دوا پوچھ لی، اب کیا کام ہے۔ ہمار ا وقت ضائع ہوتاہے۔وہ خود ہی گھبرا کر کھڑی ہوتی ہے اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔
ایک دفعہ بہت سی گنوار عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں۔ اتنے میں اندرسے بھی چند خدمت گار عورتیں شربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آ نکلیں اور آپ کو دینی ضرورت کے لیے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔ میں اتفاقاً جا نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں۔جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جاری رہا۔فراغت کے بعد میں نے عرض کیا: حضرت! یہ تو بڑی زحمت کاکام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوجاتاہے۔اللہ اللہ! کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں۔ یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔ میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھاکرتاہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور بےپروا نہ ہونا چاہیے ‘‘۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ صفحہ ۲۰،۲۱)
حضورؑ فرماتے ہیں:’’ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو دردہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لیے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔ اپنے تو درکنار میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا، ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔ راستہ میں ایک بڑھیا کوئی 70 یا 75 برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر اسے ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دے دیا۔میں اس کو لے کر ٹھہرگیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 82 ,83)
مخلوق خداکے ساتھ ہمدردی، خاکساری، سادگی اورعاجزی کایہ واقعہ بھی عجیب ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپؑ کو سخت درد سر ہو رہا تھا اور مَیں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا اور پاس حد سے زیادہ شور و غل برپا تھا۔ میں نے عرض کیا جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی؟ فرمایا: ہاں، اگر چپ ہوجائیں تو آرام ملتا ہے۔ میں نے عرض کیا:تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے؟ فرمایا: آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں، مَیں تو کہہ نہیں سکتا۔
(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹیؓصفحہ 25)
کسی فقیرگداگرکی آواز پر بھی آپ کادل پگھل جاتااورہرممکن آپ سوالیوں کی مدد کی کوشش کرتے۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ فرماتے ہیں:’’صفیہ بیگم بنت مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانویؓ حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سےبیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سوالی دریچے کے نیچے کُرتا مانگتا تھا۔ حضرت صاحبؑ نے اپنا کُرتا اتار کر دریچہ سے فقیر کو دے دیا۔ والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اللہ اللہ کیسی فیاضی فرمارہے ہیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ نمبر311روایت نمبر1565)
اس طرح کے متعدد واقعات آپ کی زندگی میں ملتے ہیں۔ کسی ضرورت مند سوالی کی آواز سن کرآپ کواس وقت تک چین نہ آتاجب تک کچھ نہ کچھ اس کو دے نہ لیتے۔ آپ کی یہی عاجزانہ اور خاکسارانہ زندگی کے تجربات تھے جن کو آپ نے اپنے منظوم کلام میں اس طرح بیان کیاکہ

تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو
کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو
اِس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو
اُس یار کے لیے رہِ عشرت کو چھوڑ دو
لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو
ورنہ خیالِ حضرتِ عزت کو چھوڑ دو
تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول
تا تم پہ ہو ملائکۂ عرش کا نزول
جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد آپ کی زندگی کے ہرموڑکوروشن کررہاہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ إذا تواضع العبدُ رفعهُ اللهُ إلى السماءِ السابِعةِ۔ جوبندہ عاجزی اختیارکرتاہے اللہ تعالیٰ اس کوساتویں آسمان تک بلندی عطاکردیتاہے۔
بنی نوع انسان کی خدمت میں محض للہ مشغول خدا کے اس پیارے بندے کا راتوں کااکثرحصہ بھی بنی نوع انسان کے لیے دعاؤں میں گزرتا۔ چنانچہ حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ دھرم کوٹی حضورؑ کی جوانی کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:’’مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے حضور اکثر ہوا کرتا تھا اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بے قراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں جیسے کہ ماہیٔ بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ میں اس حالت کو دیکھا کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وہ حالت جاتی رہی۔ صبح میں نے اس واقعہ کا حضورؑ سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے۔ کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:’’میاں فتح دین کیا تم اس وقت جاگتے تھے! اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آ رہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے۔ اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد 1 حصہ سوم صفحہ 524 روایت نمبر)
ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ آپؑ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ جون کا مہینہ تھا اور اندر مکان نیا نیا بنا تھا۔ دوپہر کے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ مَیں اس پر لیٹ گیا۔حضرت ٹہل رہے تھے۔ میں یک دفعہ جاگا تو آپ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپؑ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے ہیں ؟میں نے عرض کیا آپؑ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سوئے رہوں؟ مسکرا کر فرمایا میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔ (سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ صفحہ41)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے فرد تھے فرماتے ہیں:’’میں نے آپ کو اس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا۔ پھر آپ میری آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں 27 سال کا جوان تھا مگر میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپؑ سے زیادہ خلیق، آپؑ سے زیادہ نیک، آپؑ سے زیادہ بزرگ، آپؑ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔‘‘(سیرت المہدی جلد 1 روایت975)
دوسروں کے آرام کی خاطر آپ کس طرح مستعدرہتے۔ حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹیؓ فرماتےہیں : ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے ایک دفعہ اس عاجز نے حضور مرحوم و مغفور کی خدمت میں قادیان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد رخصت حاصل کرنے کے واسطے عرض کیا …حضور نے فرمایا کہ چلو آ پ کو چھوڑ آئیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضور اب میں سوار ہو جاتاہوں اور چلا جاؤں گا حضور تکلیف نہ فرمائیں مگر اللہ رے کرم و رحم کہ حضور مجھ کو ساتھ لے کر روانہ ہو پڑے۔ باقی احباب جو موجود تھے ساتھ ہو لیے اور یہ پاک مجمع اسی طرح اپنے آقا مسیح موعود کی محبت میں اس عاجز کے ہمراہ روانہ ہوا۔ حضور حسب عادت مختلف تقاریر فرماتے ہوئے آگے آگے چلتے رہے یہاں تک کہ بہت دُور نکل گئے۔ تقریر فرماتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت سیدناو مولانا مولوی نورالدین صاحبؓ نے قریب آ کر مجھے کان میں فرمایا کہ آگے ہو کر عرض کرو اور رخصت لو جب تک تم اجازت نہ مانگو گے حضور آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ میں حسب ارشاد والا آگے بڑھا اور عرض کیا کہ حضور اب سوار ہوتاہوں حضور تشریف لے جائیں۔ اللہ اللہ ! کس لطف سے اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’اچھا ہمارے سامنے سوار ہو جاؤ‘‘۔ میں یکہ میں بیٹھ گیااور سلام عرض کیا تو پھر حضورؑ واپس ہوئے۔ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ از قلم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 130)
حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹیؓ بیان کرتے ہیں:’’میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو ہمدردی اور وفاداری کے ذکر میں فرماتے ہوئے سنا ہے۔ اگر ہمارا کوئی دوست ہو اور اس کے متعلق ہمیں اطلاع ملے کہ وہ کسی گلی میں شراب کے نشے میں مد ہوش پڑا ہے تو ہم بغیر کسی شرم اور روک کے وہاں جا کر اسے اپنے مکان میں اٹھا لائیں اور پھر جب اسے ہوش آنے لگے تو اس کے پاس سے اٹھ جائیں تا کہ ہمیں دیکھ کر وہ شرمندہ نہ ہو۔ اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وفاداری ایک بڑا عجیب جوہر ہے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم۔جلد نمبر1 صفحہ نمبر 381، روایت نمبر421)
حضرت منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں:
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کی انتظار میں تھے۔ اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے پھٹے پرانے تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑا حتی کے وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گئے اتنے میں جو کھانا آیا تو حضور نے جو سارا نظارہ دیکھ رہے تھے، ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں اٹھا لیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’آؤ میاں نظام دین ہم اندر بیٹھ کے کھانا کھائیں‘‘۔ یہ فرما کر حضورمسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندر اکٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔ اس وقت میاں نظام دین پھولے نہیں سماتے تھے۔‘‘ (سیرت طیبہ صفحہ 188 از مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے)
آپ کی یہی وہ عاجزانہ راہیں ہیں جن پراللہ تعالیٰ کی پیارکی نظریں پڑیں اور آپ سے اللہ تعالیٰ یوں مخاطب ہواکہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُس کو پسند آئیں‘‘۔
(الہام ۱۸؍مارچ ۱۹۰۷ء۔ تذکرہ طبع چہارم صفحہ۵۹۵)
خداکے اس پیارے مسیح کے بارے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:اگربرف کے پہاڑوں سے گھٹنوں کے بل چل کر جاناپڑے تواس تک پہنچو اورمیرا محبت بھراسلام دو اوراس کی بیعت کرو۔
ہم بھی خداکے اسی مسیح ومہدی اور آپ کے قائمقام خلفاء سے محبت کادم بھرتے ہیں۔ یہ ہم پر خداکااحسان ہے کہ اس نے ہم کو خداکے مسیح کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دی۔ خداکے مسیح کے انفاس یعنی آپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور حروف اورجملوں اورتحریرات کوبھی خداکے صحیفوں میں اندرونی اور بیرونی بیماریوں سے شفا لکھاگیاہے۔ متعدد احادیث میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ آپ کے انفاس جہاں جہاں پہنچیں گے شفاعطاکرتے جائیں گے۔ اسی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے عملی نمونے کےساتھ ساتھ بےشمار کتب اوررسائل بھی بہت محنت سے تصنیف فرمائے ہیں جوآپ کی بہت قیمتی اورانمول یادگارہیں اور بنی نوع کے لیے قیمتی سرمایا اور اندرونی اوربیرونی بیماریوں کاعلاج اور دلوں کی تسکین ہیں۔ آپ نے یہ صحائف جس محنت اورمشقت اور جانفشانی سے تحریرفرمائے یہ ایک علیحدہ تفصیلی مضمون ہے۔ آپ نے اپنے لفظ لفظ اورحرف حرف پر بےشماردعائیں کیں۔ جن کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خدا تعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو بارہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے قلم تھک جایا کرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا، طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ۴۳۸)
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا:’’اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۴۰۳)
آج خداتعالیٰ کے فضل سے آپ کی یہ تصنیفات کشتی نوح، اسلامی اصول کی فلاسفی، حقیقۃ الوحی وغیرہ نہ صرف مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں بلکہ جوخود پڑھ نہیں سکتے ان کے لیے آڈیو کی شکل میں بھی موجودہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی یادوں کواپنے گھروں میں اوراپنی اولادوں میں تازہ بتازہ رکھنے کے لیے ہم انصارکوبہت توجہ سے ان روحانی خزائن سے اپنی مُردہ روحوں کوزندہ کرناہوگا۔ یہ نہ ہوکہ تکبر کاداغ لیے قبروں میں چلے جائیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا انجام بخیرکرے اور آسمان پرہماراشمار حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ان عشاق میں ہوجن کوآپؑ نے اپنے درخت وجودکی سرسبزشاخیں قراردیا۔آمین ثم آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں