حضرت اَمّاں جان حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حرم حضرت مسیح موعودؑ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے نومبر و دسمبر 2021ء)

عبدالرحمان شاکر صاحب

حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ 1865ء میں دلّی میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ حضرت میر صاحبؓ حسینی سید تھے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی۔ آپ کی والد ہ کا نام سیّد بیگم تھا۔ چھوٹے بھائی ڈاکٹر میر محمد اسمعٰیل صاحب ؓاور میر محمد اسحاق صاحبؓ تھے۔

 


(تصویر کی اوپر والی لائن میں بائیں سے: حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ۔ حصرت میر ناصر نواب صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ)

حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ کے ماموں میر ناصر حسین محکمہ نہر لاہور میں افسر تھے۔ ان سے کام سیکھا اور محکمہ نہر میں ہی ملازم ہوگئے۔ کچھ عرصہ کے بعد قادیان سے جانب شمال موضع سٹھیالی میں آگئے۔ پھر موضع تتلے تقرری ہوئی جو قادیان سے سوا میل شمال مشرق کی طرف ہے۔ مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت اقدس ؑ کے بڑے بھائی تھے وہ بھی ان دنوں محکمہ نہر میں ہی ملازم تھے۔ ایک محکمہ میں ہونے اور قریب قریب تقرری کی وجہ سے دونوں کی گہری واقفیت ہوگئی۔
ایک دفعہ اماں جی کی والدہ بیمار ہو گئیں تو حضرت مسیح موعودؑ کے والد صاحب سے علاج کے لیے قادیان ساتھ میں آئیں۔ اس کے بعد پھر ایک موقع پر تقریباً ایک ماہ تک مرزا صاحب کے گھر میں ٹھہرنے کا موقع ملا۔
میر ناصر نواب صاحب نہایت دیانتدار تھے۔ کبھی ایک دھیلہ بھی رشوت کا نہ لیا۔ ایک محکمانہ ضمانت کے طور پر ایک سو روپیہ داخل کرنا تھا ورنہ ملازمت کو خطرہ تھا۔ میر صاحبؓ نے صاف کہہ دیا کہ میرے پاس اتنا روپیہ نہیں ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ اوورسیئر پھر محکمہ نہر کے ہزاروں روپیہ اوپر سے کما لیتے ہیں مگر میر صاحبؓ کے پاس ایک سو روپیہ بھی نہ تھا۔آخر خدا نے انگریز افسر کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ بہت ہی شریف آدمی ہے لہٰذااس کی ضمانت معاف کر دی جائے۔
میر صاحبؓ نے لکھا ہے کہ جس وقت یہ لڑکی(حضرت امّاں جان) پیدا ہوئی اسی وقت سجدہ میں گر گیا کہ الٰہی اب اس کا تمام بندوبست تونے ہی کرنا ہے اور فرماتے تھے کہ ہمیشہ یہی دعا کرتا تھا کہ خدایا! داماد دینا تو نیک اور صالح ہو۔ میر صاحب ؓکے اپنے سینکڑوں رشتے دار موجود تھے مگرمیر صاحب ان رشتہ داروں کو خوب جانتے تھے اور ان میں سے ایک بھی پسند نہ تھا۔
حضرت اقدسؑ کی پہلی بیوی حرمت بی بی کو حضرت ؑ سے کچھ زیادہ لگاؤ نہ تھا اور علیحدہ رہتی تھیں۔ (حضرت مسیح موعود ؑکی اہلیہ اوّل یعنی مرزا سلطان احمد کی والدہ کا نام بھی حرمت بی بی تھا اور بھابی کا نام بھی حرمت بی بی تھا۔)
خدا کے حکم سے حضورؑنے نکاحِ ثانی کرنا چاہا تو خود ہی میر ناصر نواب صاحبؓ کو تحریک کی۔ اب میر صا حبؓ کے لیے مشکل یہ تھی کہ نیک اور صالح داماد ملا مگر لڑکی کی عمر سے 20سال عمر زیادہ ہے (اس وقت حضرت صاحب کی عمر49سال تھی) دوسرے پنجابی تھے۔ اہل دِلّی پنجابیوں کو پسند نہ کرتے تھے۔ پنجابی زبان سے بھی ان کو شدید چڑ تھی۔ کہتے تھے کہ یہ بڑی ثقیل زبان ہے۔بہرحال رزق حلال میں پلی ہوئی لڑکی کے لیے خدا تعالیٰ کی مشیّت نے اپنے مسیح موعودؑ کو چن لیا۔
1884ء میں شادی ہوئی۔ حضرت صاحب دو آدمی ہمراہ لے کر گئے۔ایک حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ جو حضرت مولوی عبدالرحمن صاحبؓ فاضل امیر جماعت ِ احمدیہ قادیان کے ماموں تھے اور دوسرے قادیان کا ایک ہندولالہ ملاوامل صاحب۔ صرف 300روپیہ ساتھ تھاجو ملاوامل صاحب نے اپنی کمر سے باندھا ہوا تھا۔ نوٹ تو اس زمانہ میں ہوتے نہ تھے۔ وہی روپیہ جا کر میر صاحبؓ کے سامنے رکھ دیا۔میر ناصر نواب صاحبؓ نے اپنے رشتہ داروں کو خبر ہی نہ کی اور مولانا سید نذیر حسین دہلوی کو بلاکرعصر کے بعد نکاح کر دیا۔گیارہ سو روپے حق مہر مقرر ہوا۔
حضرت صاحبؓ جب اپنی اہلیہ کو لے کر قادیان آئے تو مغرب کے بعد کا وقت تھا۔ تمام خاندان مخالف۔کوئی استقبال کرنے والا ہی نہ تھا۔ حضرت امّاں جان کے ہمراہ دلّی سے ایک عورت فاطمہ بیگم آئی تھی۔ وہ بھی حیران کہ لڑکی کو کہاں دے دیا ہے۔ ایک کمرے میں ایک کُھری بان کی چار پائی تھی اور بس۔ اس لیے کہ باقی تمام گھرپر تو قبضہ بھابھی کا تھا جو سخت مخالف تھی۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ وہ معمولی کھانا ہی دے دیتی تھی۔
بہرحال ان حالات میں حضرت اَماں جانؓ قادیان وارد ہوئیں۔اب آپ دیکھ لیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کس قدربھاگ لگایا، کس قدر برکت دی کہ رہتی دنیا تک لوگ رشک کریں گے۔ آخر کس چیز کی کمی رہی؟ قیامت تک جہاں جہاں بھی احمدی پائے جائیں گے۔ آپ سب کی اُمّ شمار ہوتی رہیں گی۔ خدا نے اسی لئے حضرت کو الہاماً فرمایا!

اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَأیْتُ خَدِیْجَتِیْ
میرا شکر کر تُو نے میری خدیجہ کو پایا

اس زمانہ میں حضرت صاحب کے گھر کے اندر کنواں نہ تھا بلکہ مرزا سلطان احمد صاحب کے گھر کے عین باہر تھا۔گرمیوں میں ایک دن حضرت امّاں جانؓ کچھ خادمات کے ہمراہ وہاں چلی گئیں۔کسی نے تازہ پانی نکالا تو اوپر سے انہی بھابھی صاحبہ نے کڑک کر آواز دی کہ کون ہے اس وقت؟ نیچے سے کہا گیا کہ دلّی والی ہے۔ بھابھی نے جواب دیاکہ دلّی والی ہے تو یہاں کیا لینے آئی ہے، اپنے گھر میں کنواں لگوالے۔ اماں جانؓ فوراً وہاں سے گھرآگئیں اور چپ بیٹھ گئیں۔ حضرت صاحب کو ان کی خاطر داری بہت منظور تھی۔ خاموش دیکھ کر پوچھا کہ کیا بات ہے۔ انہوں نے سب ماجرا کہہ دیا۔ حضرت صاحب نے اسی وقت ملک غلام حسین صاحب رہتاسی کو حکم دیا کہ فوراً مزدور لاؤ اور ابھی کنواں کھودنا شروع کر دو۔ دن رات مسلسل کام کر کے چار پانچ دن میں کنواں تیار کروا لیا گیا۔
صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب اپنے بچپنے میں جب کبھی کھیلتے ہوئے اپنی تائی کے گھر جا نکلتے تھے تو وہ کہا کرتی تھیں کہ’’چل وے چل جہو جئی اِلّ اوہو جئی کوکو‘‘ یعنی جیسا باپ ویسا ہی بیٹا نکلے گا۔ مگر خدا تعالیٰ کے الہام ’’تائی آئی‘‘ نے پورا ہونا تھا۔ آخر کار 1916ء میں حضرت خلیفہ ثانیؓ کی تائی اور حضرت مسیح موعودؑ کی بھابھی نے مخالفت ترک کردی اور اسی ’کوکو‘کے ہاتھ پر بیعتِ سلسلہ کرلی اور 93سال کی عمر پا کر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
چونکہ حضرت صاحب اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس وجہ سے ایک دیہاتی عورت نے کہا کہ ’’مرزا اپنی بیوی دی بڑی گلّ مَن دا ای‘‘ اور مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی تو کہا کرتے تھے کہ یہاں پر ملکہ کا راج ہے۔یعنی حضرت صاحب اپنی بیوی کی بات بہت مانتے ہیں دوسرے اس زمانے میں ہندوستان پر ملکہ وکٹوریہ کا راج تھا۔
حضرت اماں جانؓ نے سینکڑوں غریب اور یتیم لڑکیوں کی پرورش فرمائی۔ تربیت کر کے ان کی موزوں جگہ شادی کی اور بعد میں ہمیشہ ان کا خیال رکھا۔ آپ کی عادت تھی کہ کبھی کبھی محلہ جات میں جاکر ایک ایک گھر کے مکین کا حال پوچھتیں اور لوگ فخر کرتے تھے کہ حضرت اماں جان ؓہمارے گھر تشریف لائیں۔
1916ء میں ایک دفعہ پٹیالہ تشریف لے گئیں تو جیل کے قیدیوں کو حکام سے اجازت لے کر کھانا کھلایا۔جو لڑکیاں اندرون خانہ کا م کرتی تھیں ان کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ جب کوئی باہر سے تحفہ یا پھل آتا تو ان کا حصہ ضرور نکال لیتیں۔ ہمارے قاضی محمد عبداللہ صاحب کی ہمشیرہ امۃالرحمن صاحبہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ وہ کام کرنے کے بعد گھر چلی گئیں تو اماں جان نے فرمایا کہ امۃ الرحمن کا حصہ اب نہیں نکالنا وہ چلی جاتی ہے۔ اتفاق سے وہ اس وقت وہاں موجود تھیں۔ اس کا حصہ دیتے ہوئے فرمایا تم اکثر چلی جاتی ہواور پھر پیچھے تیرا مکلاوہ بھجوانا پڑتا ہے۔اس پر بہت ہنسی ہوئی۔
انہی کا بیان ہے کہ گرمی سخت تھی حضرت اماں جانؓ نماز پڑھنے لگیں میں پنکھا کرنے لگی جب آپ نے نماز ختم کرلی تو میں نے نماز شروع کردی تو امّاں جانؓ نے مجھے پنکھا کرنا شروع کردیا۔ میں بہت گھبرائی کہ ان کو تکلیف دے رہی ہوں۔ میں نے سلام پھیرا تو عرض کیا کہ آپ کیوں تکلیف فرما رہی ہیں۔فرمایا کیا میں ثواب حاصل نہ کروں!
حکیم عبدالعزیز صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ میاں شریف احمد صاحب کو کہا کہ بندوق لے آؤ شکار کو چلیں۔ وہ بندوق نہ لائے اور آکر کہہ دیا کہ امّاں جاں نے فرمایا ہے کہ آجکل جانور بچے دے رہے ہوتے ہیں شکار کرنا مناسب نہیں۔ میں بھی بچوں والی ہوں یہ برداشت نہیں کر سکتی۔
حضرت امّاں جان کو ہر قسم کا اچار بہت پسند تھا خصوصاً ڈیلوں کا۔ شروع زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے پاس کبھی کبھی کوئی مہمان آتا تھا۔ منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ اور منشی ظفر احمد صاحبؓ قادیان میں تھے کوئی پیشگوئی پوری ہوئی تومنشی ظفر احمد صاحبؓ نے حضرت اقدّسؑ سے عرض کیا کہ آج تو کچھ کھلائیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا کھانا چاہتے ہیں۔ منشی صاحب نے کہا کہ ’’گوشت‘‘۔ ان دنوں قادیان میں گوشت کہاں تھا۔ بٹالہ 12میل دور تھا وہاں سے لایا کرتے تھے۔ اتفاق سے گوشت والا آگیا۔ جب مسجد مبارک میں کھانا کھانے بیٹھے تو منشی ظفر احمد صاحبؓ نے از راہِ تفنن کہا کہ حضرت شوربہ تو ہے مگر بوٹیاں کہاں گئیں۔ حضرت صاحب نے کہا کہ میں ابھی اندر جاکر دریافت کرتا ہوں۔ اندر سے امّاں جانؓ نے مزاحاً کہہ دیا کہ گوشت بالکل گھل مل گیا ہے۔ حضرت صاحب نے آکر یہی کہہ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد منشی صاحب نے پوچھا کہ ہڈیاں کدھر گئیں؟ حضرت صاحب پھر اندر تشریف لے گئے کہ منشی ظفر صاحب کہتے ہیں کہ پھر ہڈیاں کدھر گئیں؟ امّاں جانؓ نے کہہ دیا وہ بھی گل گئیں۔ حضرت صاحب مطمئن ہوکر باہر آگئے اور یہی جواب سنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی امّاں جان نے علیحدہ پلیٹ میں کافی مقدار میں گوشت بھجوادیا۔
ایک دفعہ حضرت امّاں جان ؓنے خواب دیکھا کہ ایک عورت آئی ہے اور اس کے ساتھ بے شمار بچے ہیں۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ توُ کو ن ہے؟ تو کہنے لگی کہ عیسیٰ کی بیٹی ہوں۔ مسلمان ہونے کے واسطے مرزا جی کے پاس آئی ہوں۔ تعبیر یہ تھی کہ بہت عیسائی مسلمان ہوں گے۔
حضرت اقدس ؑکی وفات پر آپ نے جو صبر کا نمونہ دکھایا اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیان بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس ؑکے جنازے کے ہمراہ حضرت امّاں جانؓ واپس قادیان رتھ میں بیٹھ کر جا رہی تھیں تو بھائی جی سے فرمایا: ’’بھائی جی! شادی کے بعد میں اسی راستے سے گزری تھی اور اب میں اسی راستے سے بیوہ ہوکر گزر رہی ہوں۔‘‘ اور پھر رونے لگ گئیں۔
ہر طرف سے برکتوں پر برکتیں دیکھنے کے بعد 21اپریل 1952ء کو رات 2بجے آپ کی پاک روح اعلیٰ علّیّین کی طرف پرواز کر گئی۔ اللہ تعالیٰ کی آپ پر ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں