حضرت بابا محمد حسن صاحب رضی اللہ عنہ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے نومبر و دسمبر 2021ء)

انور احمد رشید صاحب

نظام وصیت میں شمولیت کی سعادت پانے والے پہلے بابرکت وجود اور سب سے پہلے واقف زندگی ہونے کا اعزاز پانے والے

حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ کے والد ماجد کا نام مولوی کرم الدین صاحب اور دادا کا نام چو ہدری صدرالدین صاحب تھا۔ آپ کے والد سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے قبل وفات پا چکے تھے۔ آپ کا خاندان آرا ئیں تھا اور بمقام بنی اوجلہ ضلع گورداسپور میں پھیلا ہوا تھا۔
(ملخص از رسالہ ’’الراعی‘‘ لاہور جنوری فروری 1968 صفحہ30تا36)
حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ کی پیدائش 11 جولائی 1870ء بمقام اوجلہ ہوئی۔ اوجلہ قادیان سے سترہ میل کے فاصلہ پر شمال مشرق میں واقعہ ہے۔ آپ نے گھر یلو حالات بہتر نہ ہونے کے سبب بمشکل پرائمری سکول تک تعلیم حاصل کی۔ 1892ء میں آپ کی شادی ہوئی اور 1893ء میں آپ کے ہاں حضرت مولانا رحمت علی صاحب کی ولادت ہوئی۔ مکرم چودھری عبدالستار صاحب بی اے آنرز ایل ایل بی (جو حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلویؓ کے داماد تھے) نے حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ کے حالات مرتب کیے ہیں۔ آپؓ خود فرماتے ہیں:
’’ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ابتداء میں سخت مخالف تھا۔ اُس وقت مَیں ڈاکخانہ میں بحیثیت چٹھی رساں ملازم تھا۔ اپنے بھائی منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی کو احمدیت کی وجہ سے سخت الفاظ کہہ دیا کرتا مگر حضرت اقدسؑ کی شان میں برے الفاظ نہ کہتا۔ آخر ایک روز میرے دل میں خیال آیا کہ گذشتہ انبیاء کے وقت میں بھی بہت سے لوگ شک میں رہے اور ان کو قبول نہ کیا۔ ایسا نہ ہو کہ مرزا صاحب واقعی وقت کے امام ہوں اور مَیں ان کے انکار کی وجہ سے منکرین کے زمرہ میں شامل ہو جاؤں۔ اس لیے مَیں نے اس معاملہ میں خدا تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرنا شروع کیں۔ مَیں قبرستا ن میں دعائیں کرتا تا خدا تعالیٰ میری ہدایت فرمائے۔ لوگوں میں چرچا ہو گیا کہ رات کے وقت آج کل قبرستان میں کوئی جن یا چڑیل روتی رہتی ہے۔ مَیں نے دل میں سوچا کہ ایسا نہ ہو کہ لڑکے مجھے قبرستان میں جن یا چڑیل سمجھ کر مارنے لگ جائیں اس لیے مَیں نے قبرستان میں دعا کرنا ترک کردیا۔ اب مَیں اپنے گاؤں اوجلہ کی مسجد میں دعائیں کرتا اور روتا۔ لوگ کہتے کہ مسجد میں کوئی جن آگیا ہے اور وہ رات کو روتا رہتا ہے۔ پھر مَیں نے مسجد بھی چھوڑ دی جنگل میں میری کچھ زراعتی زمین تھی، اس جگہ مَیں نے دعائیں کرنا اور رونا شروع کیا۔ جب چودہ روز مجھے اسی طرح دعائیں کرتے گذر گئے تو اس وقت چاند کی چودھویں رات تھی۔ میرے چاروں طرف میدان تھا جس میں کوئی فصل وغیرہ نہ تھی۔ مَیں درود شریف پڑھ رہا تھا۔ مجھے یکدفعہ غنودگی آئی اور دائیں طرف سے مجھے آواز آئی: ’’تیرا نام کیا ہے؟ مَیں نے کہا محمد حسن۔ پھر مَیں نے اُس بلانے والے سے دریافت کیا کہ تیرا نام کیا ہے؟ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ مَیں نے ارد گرد دیکھا تو کوئی آدمی نہ تھا۔ مَیں حیران ہو کر پھر درود شریف پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ اس کے بعد پندرھویں رات مَیں نے خواب میں قادیان کی تمام زمین دیکھی اور مسجد اقصیٰ میں کثرت سے لوگ دیکھے۔ ایک شخص کو کھڑے تقریر کرتے دیکھا۔ کسی شخص نے مجھے پکڑا اور کہا یہ خلیفہ ہے۔ مَیں نے اس شخص کو کہا: مَیں خلیفہ نہیں پوچھتا، مَیں اصل امامِ وقت پوچھتا ہوں۔ اس نے کہا کہ ذرا ٹھہر جاؤ۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور اس شخص نے کہا کہ یہ اصل امامِ وقت ہیں۔ مَیں حضورؑ کے سامنے جا بیٹھا اور خواب میں بیعت کرنے لگا۔ جب یہ الفاظ بیعت پڑھے: رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔ تو میری چیخیں نکل گئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ سچا ایمان لایا ہے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔مگر پھر مَیں دوبارہ سو گیا اور دیکھا کہ:سائیں رحمت اللہ، جو ہمارے گاؤں میں خادم مسجد تھا اور فوت ہو گیا ہو ا تھا، اُس نے مجھے خواب میں کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک جنگل میں چھوڑ گئے ہیں۔
مَیں اپنی خوابیں کسی کو نہ بتلایا کرتا تھا۔ ان دو خوابوں کے دیکھنے کے بعد اسی روز میرے بھائی منشی عبدالعزیز صاحب نے مجھے کہا کہ قادیان جلسہ ہے کیا تم چلوگے؟ مَیں نے کہا ہاں مَیں ضرور چلوں گا۔ راستے میں مَیں نے اُن سے پوچھا کہ کیا بیعت کے وقت رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ …پڑھاتے ہیں؟ میرے بھائی نے کہا: تمہیں کیسے پتہ ہے؟ مَیں خاموش ہو گیا کیونکہ مَیں خوابیں نہیں بتلایا کرتا تھا۔ جب مَیں قادیان پہنچا توجو نظارہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا وہی قادیان میں دیکھا۔ جب مسجد اقصیٰ میں مَیں گیا تو ایک شخص کھڑا ہو کر تبلیغ کرنے لگا۔ یہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ (خلیفۃ المسیح الاوّل) تھے۔ مَیں نے خواب میں انہی کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا تھا۔پھر ہم بیٹھے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے۔ آپؑ کی وہی شکل تھی جو مَیں نے خواب میں دیکھی تھی۔ پھر مَیں نے بیعت کر لی اور الفاظ بیعت میں رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ والی دعا بھی پڑھی۔ بیعت کرتے ہی میرے دل میں یہ گذرا کہ اب قادیان نہ چھوڑنا چاہیے۔ خواہ بھیک مانگ کر ہی گذارہ کرنا پڑے۔
پھر ہم واپس اپنے گاؤں اوجلہ چلے گئے۔ جو قادیان سے بارہ میل کے فاصلہ پر ہے۔ ہر جمعہ، مَیں پیدل چل کر قادیان میں پڑھتا۔ میرے خیال میں مَیں نے 1898ء یا 1899ء میں بیعت کی۔ مَیں اپنے گاؤں اوجلہ میں اکیلا احمدی تھا۔ میرے چچازاد بھائی منشی عبدالعزیز صاحب باہر ملازم تھے۔ مَیں اکیلا ہونے کی وجہ سے کچھ گھبرا گیا اور اس امر کے متعلق ایک عریضہ لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آگے جا کر حضورؑ کے داہنی طرف بیٹھ گیا۔ رقعہ ابھی میرے پاس ہی تھا مگر حضورؑ نے میرے بیٹھتے ہی بات شروع کردی کہ بعض دوست گھبراتے ہیں کہ ہم اپنے گاؤں میں اکیلے احمدی ہیں۔ مگر یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ متقی کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ اگر اپنے گاؤں یا شہر میں متقی کو آرام ہو تو خدا ا سی جگہ اس کے ساتھ ایک جماعت بنادیتا ہے۔ ورنہ مرکز میں مخلصین کی جماعت میں پہنچا دیتا ہے۔ چنانچہ مَیں پھر واپس اپنے گاؤں میں چلا گیا اور تھوڑے دنوں کے بعد ہی خداتعالیٰ نے میرے قادیان آنے کا انتظام فرما دیا۔
میرے بھائی منشی عبدالعزیز صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ محمد حسن ہجرت کر کے قادیان آنا چاہتا ہے اس کے لیے اگر کوئی انتظام ہو جائے تو بہتر ہے۔ مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ جس طرح مَیں قادیان آگیا ہوں اسی طرح محمد حسن صاحب بھی آ جائیں۔ مَیں مارچ 1902ء میں قادیان ہجرت کر کے آگیا اور رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز اردو‘‘ کی جلد بندی کا ٹھیکہ مَیں نے لے لیا۔ مَیں نے مولوی محمدعلی صاحب سے کہا کہ اگر یہ رسالہ ہر ماہ کی بیس تاریخ تک تیار نہ ہو تو مَیں ہرجانہ کا ذمہ دار ہوں مگر مَیں یہ چاہتا ہوں کہ مجھ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک مجلس میں جانے سے نہ روکا جائے، جب حضورؑ سیر کے لیے باہر نکلیں تو ہمراہ جانے سے نہ روکا جائے اور حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے درس میں شامل ہونے سے نہ روکا جائے۔ مولوی محمد علی صاحب نے میری یہ بات خوشی سے قبول کرلی اور مجھ کو ایک چپڑاسی دے دیا جس کا نام اللہ دتّہ تھا۔ مَیں نے اُسے کہا کہ ایک وقت کھانا مجھ سے کھایا کرو اور اس کے عوض جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے باہر تشریف لائیں مجھے اطلاع کرتے رہا کرو۔ اسی وجہ سے مَیں حضرت اقدسؑ کی صحبت میں زیادہ رہا۔
قادیان آنے کے تھوڑے عرصہ بعد میرا ایک شیر خوار لڑکا فوت ہو گیا۔ مَیں قادیان میں کسی کا بھی واقف نہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آتے ہی حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ (خلیفہ اوّل) کو آواز دی۔ مولوی صاحب! مولوی صاحب!۔ مولوی صاحب آگے ہو کر جلدی سے حضورؑ کی طرف بڑھے۔ حضرت نے فرمایا: یہاں ایک دوست محمد حسن صاحب ہیں ان کا لڑکا شیر خوار فوت ہو گیاہے۔ کیا آپ نے لڑکا دیکھا ہے کیا بیماری تھی؟ مَیں نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ حضور میرا لڑکا تھا۔ فرمانے لگے کیا بیماری تھی؟ عرض کیا کہ میرے خیال میں اٹھرا تھا۔ اس کے بعد مَیں خاموش ہو گیا۔ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے باتیں نہیں کیا کرتا تھا۔ خاموش رہتا تھا۔ حضورؑ بھی سمجھتے تھے کہ مَیں خاموش رہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: محمد حسن اولاد کس کام کے لیے ہوتی ہے۔اولاد مشکل وقت میں کام آنے کے لیے ہوتی ہے۔
فرمایا: محمد حسن انسان پر دو مشکل اوقا ت آتے ہیں۔ ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ دنیا میں اگر اولاد بڑی عمر کی ہوجاتی ہے اور باپ بوڑھا ہو جاتا ہے اور اولاد کو نصیحت کرنا چاہتا ہے تو اولاد کہتی ہے۔ ابّاجی آپ کی باتیں ہمیں پسند نہیں آتیں۔ ایسی نصیحتیں آپ ہمیں نہ کریں ورنہ ہم الگ ہو جائیں گے یا کسی اَور جگہ چلے جائیں گے۔ یہ بات سن کر ماں باپ کا دل بہت غمگین ہو جاتا ہے کہ اب ہم کیا کریں۔ دوسرا مشکل وقت انسان پر آخر وقت میں آتا ہے۔ دوزخ اور بہشت سامنے ہوتا ہے۔ آدمی کو غم پر غم ہوتا ہے۔ نابالغ بچے جو فوت ہو جاتے ہیں انہیں کہا جائے گا کہ تم بہشت میں چلے جاؤ۔ وہ بچے بہشت میں چلے جائیں گے۔ اس جگہ دیکھیں گے کہ ان کے ماں باپ نہیں ہیں وہ رونے لگ جائیں گے اور کہیں گے اے ربّ! ہمارے ماں باپ کہاں ہیں؟ جس جگہ ہمارے ماں باپ ہیں ہمیں وہاں پہنچا دے۔ حکم ہو گا اپنے ماں باپ کو تلاش کر کے لاؤ۔پھر وہ اپنے ماں باپ کو تلاش کرکے پہلے ان کو بہشت میں داخل کریں گے، بعد میں خود داخل ہوں گے۔
پھر مجھ کو حضرت اقدسؑ فرمانے لگے: یہ اولاد اچھی یا وہ اولاد اچھی، جو بڑی ہوکر سرکشی اختیار کرتی ہے۔
اس پر تمام لوگ مسجد میں مجھے مبارکباد دینے لگے۔ اللہ اللہ! کیا بلند اخلاق اور بلند شان تھی خدا کے اس فرستادہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضورؑ کے اس پاک اسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سلسلہ کے بہترین خادم ثابت ہوں۔ آمین‘‘ (روزنامہ الفضل لاہور، 23 دسمبر 1950ء صفحہ 6)

وقف زندگی

ایک روز نماز کے لیے گھر سے آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے: صحابہ ؓ نے اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کی تھیں۔
پھر نماز شروع ہوگئی۔ مَیں حضورؑ کے اشارے سمجھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ مَیں نے اسی روز اپنی زندگی وقف کرنے کا عہد کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تحریراً مطلع کردیا۔ پھر مَیں نے حضرت مولوی سرور شاہ صاحبؓ کو کہا کہ آپ نے کوئی اشارہ سمجھا؟ انہوں نے کہا ہاں سمجھ لیا۔ مَیں نے عرض کیا مَیں نے اپنے تئیں وقف کر دیا آپ بھی اپنے تئیں وقف کر دیں۔ یہ اشارہ ہوتے ہی مولوی صاحب ؓ نے میری تحریک پر اپنا وقف ہونا لکھ دیا۔ میرے رقعہ پر حضورؑ نے فرمایا: ’’خدا تعالیٰ تمہاری یہ خدمت قبول فرمائے۔‘‘
سب سے پہلے مَیں نے اپنی زندگی وقف کی۔ دوسرے روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز کے لیے گھر سے آتے ہی پھر یہ فرمایا کہ صحابہؓ نے اپنی زندگی وقف کی تھی۔ اس کے بعد نماز شروع ہو گئی۔ تیسرے روز پھر آتے ہی حضور ؑ نے فرمایا: مفتی صاحب!مفتی صاحب! (یعنی مفتی محمد صادق صاحبؓ)اخبار میں لکھ دو صحابہ ؓ نے اپنی زندگیا ں وقف کی تھیں۔ جس شخص کا دل چاہے اپنی زندگی وقف کرے جس کا دل چاہے وقف نہ کرے۔
مَیں نے اس وقت خدا کا بہت شکر ادا کیا کہ اس نے مجھ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشارے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ تیسرے دن بہت سے دوست اپنی زندگیا ں وقف کرنے لگے۔

وقف جائیداد اور موصی نمبر اوّ ل کا امتیاز

مَیں دفتر ریویو آف ریلیجنز اردو میں دفتری کام کرتا تھا۔ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آدھی رات سے ایک مضمون لکھنا شروع کیا اور پریس میں کاپی نویسوں کو حکم دیا کہ باقی سب کاموں کو چھوڑ دو اور اس مضمون کو لکھو تاکہ یہ مضمون آج ہی چھپ جائے۔ یہ کتا ب ’’الوصیت‘‘ تھی۔ چنانچہ یہ کتاب چھپنی شروع ہو گئی اور مَیں نے اللہ دتّہ مدد گار کارکن کو ساتھ لیا اور جلدی جلدی فرمے وغیرہ بنانے شروع کر دیے۔ میر مہدی حسن صاحبؓ میرے پاس آئے اور کہا کہ جس طرح ہو سکے مجھے ایک نسخہ آج ہی تیار کر دو۔ یہ کون سی کتاب ہے جو چھپوائی جارہی ہے؟ مَیں نے میر مہدی حسن صاحب ؓ سے کہا پہلے شائع کرنا منع ہے مگر انہوں نے کہا مَیں صبح ہی آپ کو لا دوں گا شائع نہ کی جائے گی۔ پھر مَیں نے دو نسخے کتاب کے تیار کئے۔ ایک نسخہ مَیں رات کو خود لے گیا۔ میر صاحبؓ کا مجھے علم نہیں انہوں نے کیا کیا۔ مگر مَیں نے رات کو ایک دفعہ الوصیت پڑھی۔ پھر اکیلا بیٹھ کر لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ کی آیت مدنظر رکھ کر مَیں نے سوچا محمد حسن! تم زمیندار ہو، تم کو اس وقت کیا چیز پیاری ہے؟ میرے دل میں آیا کہ زمیندار کو نہری زمین پسند ہوتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے اپنی نہر ی زمین وقف کرنے کا ارادہ کر لیا۔ پھرمیرے دل میں آیا کہ قادیان میں تجھ کو کیا چیز پیاری ہے؟ اس وقت قادیان میں مکان نہیں ملتے تھے مگر مَیں نے مکان خرید لیا ہوا تھا۔پس مَیں نے مکان کو بھی دین کے لیے وقف کرنے کا ارادہ کر لیا۔ مَیں اپنی زندگی دین کے لیے پہلے ہی وقف کرچکا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ اب تمہارے پاس کیا رہا؟ اس خیال سے میرا دل نہایت خوش ہو ا کہ میرا سب مال خدا کا مال ہو گیا اور مَیں نے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔ صبح ہوتے ہی مَیں نے ایک دوست حافظ عبدالرحیم صاحب کو بُلایا کہ یہ وصیت میری طرف سے لکھ دو۔ اس نے کہا کہ محمد حسن! ابھی تو بالکل حکم وغیرہ نہیں ہوا تم یہ کیا کام کرتے ہو؟ مَیں نے کہا مَیں تم سے مشورہ نہیں چاہتا۔ مَیں نے تم کو ثواب کی خاطر لکھنے کے لیے کہا ہے ورنہ لکھنا مجھے بھی آتا ہے۔ پھر اس نے میری وصیت لکھ دی کہ: میری زمین، میرا مکان اور میری زندگی خدا کے لیے وقف ہے۔ یہ وصیت مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دی۔
اس وقت مَیں پہلی شرط وصیت سمجھ نہ سکا۔ مگر میرا یہ طریق تھا کہ جب کبھی کوئی عریضہ حضرت اقدؑس کی خدمت میں روانہ کرتا تو اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ رقم بھیج دیتا۔ اس روز بھی اس وصیت کے ساتھ ایک روپیہ حضرت اقدؑس کی خدمت میں بھیجا۔ سنا گیا کہ جس وقت حضرت اقدؑس کی خدمت میں میری وصیت پہنچی اس وقت دفتر کے منشی کوحضورؑ نے بلایا اور فرمایا کہ جلدی نیا رجسٹر لاؤ۔ وہ فوراً نیا رجسٹر لے گیا۔پھر حضرت اقدؑس نے میرا نام اس رجسٹر میں سب سے اوّل نمبر پر درج فرمایا اور وہ روپیہ جو مَیں نے وصیت کے ساتھ بھیجا تھا پہلی شرط میں داخل کردیا۔ اس طرح سب سے اوّل موصی مَیں ہوا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس روز جلسہ کر کے میری وصیت کے الفاظ اشاروں سے بتا دیے اور فرمایا کہ جو شخص کسی نیک کام کو پہلے کرتا ہے وہ سب کے درجے لے جاتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ لوگوں نے وصیتیں کرنا شروع کیں۔

وقف اولاد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک روز جلسہ کیا اور تمام بڑے بڑے آدمی جماعت کے بُلائے اوران سے سوال کیا کہ میری جماعت کے دو بڑے آدمی مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور مولوی برہان الدین صاحبؓ فوت ہو گئے۔ بتاؤ ان کی جگہ لینے کے لیے اَور کون تیار ہوئے ہیں؟ لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایک مدرسہ دینیات کھولنے کی تجویز ہوئی۔ بعد میں حضرت اقدؑس نے فرمایا: دینیات کی شاخ علیحدہ کھولی جائے اور اس میں لڑکے داخل کیے جائیں اور انہیں وہ علوم اس میں پڑھائے جائیں جن سے انہیں کسی ملک میں کوئی مشکل نہ پڑے۔
لوگ اپنے لڑکے وہاں داخل نہیں کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ شاخ دینیات میں جو لڑکے دیے جائیں مَیں ان لڑکوں کو دیگر ممالک میں جرنیل کر کے روانہ کروں گا۔ میرا ایک ہی لڑکا تھا (یعنی مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا وسماٹرا) مَیں نے اس کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرنا چاہا۔ مگر مولوی محمد علی صاحب نے اس کو داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر دوسرے روز مَیں نے مولوی محمدعلی صاحب سے درخواست کی مگر انہوں نے میرا لڑکا شاخ دینیات میں داخل کرنے سے انکار کر دیا۔
میرا لڑکا چھوٹا تھا۔ تیسرے روز رات کو مَیں نے اپنے بچے رحمت علی کو کہا کہ بیٹا! مَیں تیرے لیے کوشش تو بہت کرتا ہوں مگر وہ مدرسہ احمدیہ میں تمہیں داخل نہیں کرتے۔ میرے لڑکے رحمت علی نے صبح ہوتے ہی مجھ کو کہا کہ میاں جی! مجھ کو الہام ہوا ہے فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ۔ یہ بات بچے کی سن کر مَیں حیران ہو گیا کہ یہ چھوٹا بچہ ہے، بمشکل نو دس سال کا تھا، اس کو الہام ہوا ہے۔ پھر مَیں دفتر چلا گیا اور ایک رقعہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھنا شروع کیا۔چودھری اللہ داد خاں اس وقت دفتر میگزین ریویو آف ریلیجنز اردو میں ہیڈ کلرک تھے۔ انہوں نے مجھے یہ رقعہ لکھتے دیکھا تو کہا کہ محمد حسن! مولوی محمد علی صاحب کو سب اختیارات حاصل ہیں۔ شاید وہ لکھ دیں کہ رحمت علی کو کہیں داخل نہ کیا جائے۔ مگر مَیں نے کہا کہ یہ رقعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں روانہ کر لینے دو۔ اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور حضرت صاحبزادہ میاں بشیرالدین محمود احمد صاحب اس وقت بالکل چھوٹے تھے۔ وہ اچانک دفتر میں آگئے۔ مَیں نے کہا میاں جی! میرا ایک کام کر دو یہ رقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا دو۔ وہ رقعہ انہوں نے لے لیا اور بھاگ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آئے اور مجھ کو کہا تمہارا رقعہ حضرت صاحب کو دیا تھا۔ اس پر حضرت صاحب سے جواب لکھوا کر مولوی محمدعلی صاحب کو دے آیا ہوں۔ مَیں نے رقعہ میں لکھا تھا:
’’آپ کو (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو)میرا تمام حال معلوم ہے۔ مَیں نے اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں وقف کر دیا ہو اہے۔ میرا ایک ہی لڑکا ہے اسے بھی آج مَیں وقف کرتا ہوں۔ اگر حضورؑ اس کو اپنے حکم سے شاخ دینیات (مدرسہ احمدیہ)میں داخل کرا دیں گے تو مَیں کامیاب ہو گیا۔ مَیں ایک کام پسند نہیں کروں گا کہ میرے لڑکے کو وظیفہ دیا جائے۔ مَیں اپنے لڑکے کو صدقے کے مال سے پڑھانا نہیں چاہتا۔ جہاں سے مَیں کھاؤں گا۔ میرا لڑکا بھی وہاں سے کھائے گا۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رقعہ پر یہ لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو روانہ کیا:
’’مَیں محمد حسن پر بڑا خوش ہوں۔ اس نے مجھ کو لڑکا شاخ دینیات کے لیے دیا ہے۔ میرے حکم سے اس کو شاخ دینیات میں داخل کر دو۔ دوسری بات سے مَیں محمد حسن پر اَور بھی خوش ہو ا۔ جوشخص صدقہ کے مال سے پڑھاناچاہتا ہے وہ کامیاب نہیں ہوتا۔اس پر محمد حسن نے خوب سوچا ہے۔‘‘
اگلے روز مولوی محمد علی صاحب دفتر میگزین ریویو آف ریلیجنز اردو میں آئے مجھ سے بہت ناراض ہونے لگے اور کہنے لگے کہ افسوس تم پہ، میرا خیال تھا کہ رحمت علی کو بی اے، ایم اے کرایا جائے۔ کچھ مَیں مدد کروں گا کچھ تم اس کی پڑھائی میں امداد کروگے۔ مگر تم نے اس کو ملاّبنانا چاہا ہے۔ (مولوی محمد علی صاحب ہمارے دُور نزدیک سے رشتے دار تھے) مَیں نے عرض کیا: مولوی صاحب! مُلّا لوگ بھی روٹی کھاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا اپنے لڑکے شاخ دینیات کے لیے دو، یہ ایک ہی لڑکا تھا سو مَیں نے دے دیا۔ اس لڑکے کا اللہ حافظ ہے۔ یہ وہی لڑکا ہے جو آج کل مولوی رحمت علی مبلغ جاوا وسماٹرا کے نام سے مشہور ہے۔ (روزنامہ الفضل لاہور26 ستمبر1950ء صفحہ 5)

حضرت حمزؓہ کی طرح شہرت

مَیں قادیان آیا اور آکر ایک مکان قادیان میں خریدا۔ جب مکان کی رجسٹری لکھوا کر اپنے گھر آیا۔ تو میری بیوی رجسٹری دیکھ کر سخت ناراض ہوئی کہ تم اب بھی دنیادار ہی رہے۔ مَیں نے پوچھا کہ کیونکر؟ کہا کہ یہ رجسٹری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام تمہیں کرانی چاہیے تھی۔ مَیں نے کہا کہ مولوی محمد علی صاحب وغیرہ نے میرے نام پر رجسٹری کرا دی ہے۔ جب ہم نے دل میں عہد کر لیا ہے کہ جو چیز ہماری ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے پھر ہم کو کیا۔ کوئی کسی طرح لکھا دیوے۔ پھر اس مکان پر ہم نے قبضہ کر لیا۔ اس مکان میں آتے ہی میری بیوی اور دو بچے اور میری والدہ سب کے سب آٹھ روزکے اندر طاعون سے فوت ہوگئے اور صرف ایک لڑکا رحمت علی جو آج کل مبلغ جاوا و سماٹرا ہے اور جو اُس وقت بالکل چھوٹا تھا، رہ گیا۔ ان فوت شدگان میں سب سے آخر میں ایک لڑکی فوت ہوئی۔ لڑکی کے جنازے پر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ (خلیفۃ المسیح الاوّل) تشریف لے گئے۔ اس وقت قبرستان میں خلیفہ اوّل نے مجھے فرمایاکہ: محمد حسن! مومن وہ ہوتا ہے جو سب باتیں رسول کی مانے۔ تم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیغام بھیجا تھا کہ اپنا محلہ چھوڑ کر جنگل میں چلے جاؤ، اس محلے میں طاعون کی بیماری پڑے گی تم کیوں اس محلہ سے نہ گئے؟ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں تو اپنا مکان چھوڑ کر جنگل میں چلا جاتا مگر مولوی محمد علی صاحب (جو اس وقت میرے پاس ہی کھڑے تھے) نے مجھے کہا کہ تم اپنے مکان کی چھت کے اوپر رہو۔
اس وقت حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے جوش سے مولوی محمد علی صاحب کو کہا تم کو مجھ سے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔ مولوی محمد علی صاحب نے جواب میں کہا کہ محمد حسن کے جنگل میں رہنے کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہ جا سکتی تھی اس لیے مَیں نے محمد حسن کو کہا کہ اپنے مکان کی چھت پررہو۔ اس پر حضرت خلیفہ اوّلؓ، مولوی محمد علی صاحب سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تمہارے ایک بھائی کو اس قدر تکلیف اور دُکھ ہو رہا ہے، تم ایک جماعت ہو۔ کیا تمہارے پاس کوئی چپڑاسی نہ تھے؟ خیمے نہ تھے؟ کیا تم اس کی حفاظت نہ کر سکتے تھے؟
جب مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ مولوی محمد علی صاحب سے سخت ناراض ہورہے ہیں تو مَیں نے عرض کیا کہ مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ)آپ کو اَور فکرہے مجھ کو اَور فکر ہے۔ مَیں تو عاشق ہو کر قادیان میں آیا تھا۔ مَیں نے سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاطر قربان کر دیا ہوا ہے۔ مگر میرے دل میں آتا ہے کہ یہ تکلیفیں جو مجھ کوہو رہی ہیں ان کو دیکھ کر شاید جماعت کے لوگ کہیں کہ محمدحسن نے معلوم نہیں کیا گناہ کیا ہے جس کی سزا میں اُسے یہ تکالیف پہنچ رہی ہیں۔ یہ بات اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچ گئی اور حضورؑ نے اشارۃًمیرے متعلق فرما دیا کہ شاید محمدحسن نے کوئی گناہ کیا ہے تو میری زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کیونکہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز کو خدا کی آواز یقین کرتا ہوں۔ اس پر حضرت خلیفہ اوّل ؓ نے مجھ کو تسلی دی اور فرمایا: تمہارے خیالات بہت دُور جا رہے ہیں۔ جو آپ خیال کر رہے ہیں جماعت میں ابھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا۔
پھر لڑکی کو دفنا کر حضرت خلیفہ اوّلؓ تشریف لے گئے اور مجھ کو اسی وقت ایک خیمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں لگوا دیا اور مددگار کارکن وغیرہ مجھ کو دے دیے اور میرے اور میرے لڑکے کے کپڑے جلا دیے اور نئے کپڑے مجھ کو دے دیے۔
اسی رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حضرت خلیفہ اوّلؓ نے میرا ذکر کیا کہ یہ بات محمد حسن نے کہی ہے کہ لوگ میرے متعلق شاید یہ خیال کریں کہ محمدحسن بہت گنہگار ہے جس کی وجہ سے اس پر یہ تکالیف نازل ہوئی ہیں اور حضور بھی شاید ایسا ہی خیال فرمائیں گے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے حضرت حمزؓہ کو اس قدر تکلیفیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ ہندہ نے آپؓ کا گوشت کاٹ کاٹ کر پھینک دیا۔ اس وقت حضرت حمزؓہ کی والدہ آئیں اور کہا کہ حمزہؓ مجھے دکھلا دو مگر رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزؓہ کو نہیں دکھلایا۔ اگر دکھلا دیتے تو ان کی والدہ غم سے مر جاتیں۔ میرے سامنے حضرت حمزؓہ کی طرح محمد حسن صاحب کو بھی بہت تکلیفیں ہو رہی ہیں اور اپنی طاقت سے بڑھ کر ان کے لیے دعائیں کر رہا ہوں۔ اگر محمد حسن کا قدم ثابت رہا تو حضرت حمزؓہ کی طرح بہت مشہور ہوں گے اور جس طرح حضرت حمزؓہ کی باتیں لوگ کرتے ہیں اسی طرح ان کے متعلق لوگ باتیں کریں گے۔
اگلے روز مجھ کو خیمہ کے اندر جا کر کثیر احباب نے مبارکباد دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ میرا دل نہایت خوش ہوا اور شکر کیا کہ حضورؑ نے مجھے یاد رکھا ہوا ہے۔

میری بیوی کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی دعا

مارچ 1902ء میں مَیں قادیان آگیا۔ سب سے اوّل مَیں اپنی والدہ کو اپنے ہمراہ لایا۔ سات آٹھ روز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمّ المومنین نے مجھے پیغام بھیجا کہ جلد جا کر اپنی بیوی کو بھی قادیان لے آؤ۔ چنانچہ مَیں گیا اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آیا۔ میری بیوی گاؤں کی رہنے والی تھی اور بہت حجاب کرتی تھی۔ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بہت سی عورتیں جمع تھیں۔ میری بیوی بھی اُس وقت وہاں پہنچ گئی۔ حضورؑ نے میری بیوی کی طرف اشارہ کر تے ہوئے ان عورتوں سے فرمایا کہ اپنے تئیں ایسا بناؤ۔
میری بیوی جب فوت ہونے لگی اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مغرب کی سنتیں بہت لمبی ادا کیں۔ لوگ حیران تھے کہ حضورؑ نے اتنی لمبی سنتیں آج پڑھیں۔ پھر حضورؑ نے نماز پڑھ کر مولوی محمد علی صاحب اور دیگر احباب کو کہا کہ: مَیں نے محمد حسن کی بیوی کے لیے بہت دعا کی ہے، اگر اجل اٹل ہے تو یہ عذاب کے ساتھ نہیں مریں گی اور ان کو میری دعائیں بہشت میں بہت فائدہ دیں گی۔چنانچہ میری اہلیہ استغفار پڑھتے پڑھتے خاموش ہو گئی۔ مَیں نے ایک ہمسایہ عورت کو آواز دی جو اس سے بہت محبت رکھتی تھی۔ اس نے آکر دیکھا اور کہا کہ اب آپ اُٹھیں (اس کا سر میری گود میں تھا)یہ فوت ہو گئی ہے۔

متفرق روایات

٭…مقدمہ دیوار کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے۔ مَیں نے اپنی چادر دری کے اُوپر بچھا دی اور عرض کیا کہ حضورؑ یہاں تشریف فرما ہوں۔ پھر مَیں نے عرض کیا کہ حضورؑ مجھے کوئی خاص عمل کرنے کے لیے بتلائیں۔ فر مایا: ’’نماز پڑھا کرو۔‘‘ مَیں خاموش ہو گیا۔
٭… مارچ 1902ء سے لے کر مَیں قادیان میں رہا اور ہمیشہ میرا یہی طریقہ رہا کہ تین مہینے کے بعد یا چھ مہینے کے بعد دو چادریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں، جب تک حضورؑ زندہ رہے، روانہ کرتا رہا۔ ایک چادر مصلّے کے لیے اور ایک چادر پلنگ کے لئے۔مجھ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جواب میں لکھتے: ’’خدا تعالیٰ تمہاری یہی خدمت قبول فرمائے۔‘‘
٭… مَیں ابھی قادیان ہجرت کر کے نہیں آیا تھا کہ میری والدہ صا حبہ سخت بیمار ہو گئیں۔ مَیں اور میری بیوی تمام رات ان کے پاس بیٹھے رہے۔ مَیں نے ایک خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اس سے قبل لکھ دیا تھا۔آدھی رات کے قریب والدہ محترمہ کو بے ہوشی میں ایک خواب آیا۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو انہوں نے اشارے سے مجھے فرمایا کہ ’’ایک بزرگ نے آکر مجھے کہا کہ تمہارا لڑکا کیسا ہے؟ مَیں نے کہا کہ میرے لڑکے جیسا اَور کس کا لڑکا ہو سکتا ہے۔ مگر اس بزرگ کے حسن کی تاب مَیں نہیں لاسکی۔ پھر اس نے مجھے کہا کہ اپنے لڑکے کو جلدی سے کہو کہ دعا کرے اور سورۃ یٰسین سنا دے۔ مَیں نے اس بزرگ سے کہا کہ آپ بھی دعا فرمائیں۔ اس بزرگ نے کہا مَیں بھی دعا کرتا ہوں تمہارا لڑکا بھی دعا کرے۔‘‘
چنانچہ مَیں نے اسی وقت وضو کر کے دو نفل پڑھے اور نماز میں ہی دعا کی۔ بعدازاں مَیں نے سورۃ یٰسین سنائی تو والدہ صاحبہ پہلے سے زیادہ ہوش میں آگئیں۔ تیسری دفعہ یٰسین سنائی تو بالکل تندرست ہو گئیں۔ مَیں نے کوئی دوائی اس وقت نہیں دی۔ اگلے روز والدہ محترمہ نے کہا اب مَیں تندرست ہوں مجھے نہلا دو۔ ہم نے نہلایا۔ اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط مجھے پہنچا کہ ’’ہم بھی دعا کرتے ہیں تم بھی دعا کرو۔‘‘
جب مَیں ہجرت کر کے قادیان آیا تو والدہ ماجدہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جو مجھے خواب میں ملے تھے۔ پھر والدہ صاحبہ نے کہا مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ہی رہوں گی۔ چنانچہ وہ وفات تک حضرت اقدسؑ کے گھر میں ہی رہیں اور وفات سے دس بارہ روز پہلے بیماری کی وجہ سے اپنے گھر آگئیں اور جب فوت ہوئیں تو حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے ان کی میّت کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا کہ محمدحسن تم تو کہتے ہو گے کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہیں مگر میرے نزدیک وہ عورت نہ تھیں فرشتہ تھیں کیونکہ مَیں نے جب کبھی انہیں رات کے وقت دیکھا بلند آواز سے استغفار پڑھتے ہوئے پایا۔ پھر فرمایا جو شخص استغفار پڑھتا رہتا ہے اس کا ایک گناہ بھی نہیں رہتا۔ جب دیگر احباب نے یہ سنا تو میّت کی چارپائی کو شوق سے ہاتھ لگانا شروع کیا۔
(روزنامہ الفضل لاہور، 27 / ستمبر1950ء صفحہ 4)

حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کے ساتھ تعلق اخوّت

حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ (خلیفہ اوّل)نے مجھے ایک رقعہ لکھا کہ مَیں نے بڑے آدمی چھوڑ دیے ہیں اور سب سے نچلے طبقہ کے آدمی بھی۔ مَیں متوسط الحال لوگوں سے جو نہ زیادہ امیر ہیں نہ زیادہ غریب دوستی پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو خدا کے لیے دوستی لگاتا ہے وہ عرش کے سایہ کے نیچے ہو گا۔ مَیں نے جواب لکھا کہ مَیں تو پہلے سے ہی آپ سے محبت رکھتا ہوں۔
اس وقت میری بیوی فوت ہو گئی ہوئی تھیں۔ مَیں ایک پیالہ دودھ کا بھرا ہوا حضرت مولوی صاحب ؓ کے پاس لے گیا۔ آپ بہت ہنسے اور فرمایا کہ یہ چاہتے ہیں کہ مجھے دودھ سے ہی سیر کردیں۔ آپ نے اس پیالہ سے تھوڑا سا دودھ پیا۔ کیونکہ آپؓ کو دودھ ہضم نہ ہوتا تھا۔ پھر شاگردوں کو فرمایا کہ سب ایک ایک گھونٹ اس میں سے پیو۔ اس طرح پیالہ خالی کر کے مجھے دے دیا۔
مَیں نے اسی وقت سے یہ دعا شروع کر دی

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ

یعنی اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور اپنی رحمت میں داخل کر اور تو سب رحمت کرنے والوں سے زیادہ رحمت کرنے والا ہے۔ یہ دعا بالالتزام پڑھتا رہتا ہو ں۔ کیونکہ میں اُن کی صحبت میں بہت رہا ہوں۔

قادیان میں رہنے کا عزم

٭…مولوی محمد علی صاحب نے اخبار ’’وطن‘‘ لاہور کے ایڈیٹر کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا کہ ہم ریویو آف ریلیجنز اردو کا دفتر لاہور لے آتے ہیں تم ہمارے رسالہ کی اشاعت کرو۔ ایڈیٹر اخبار وطن نے کہا کہ ہم اپنے خریداروں کو تمہارا رسالہ خریدنے کی تحریک کریں گے بشرطیکہ اس رسالہ میں نہ مرزا صاحب کا نام لیا جائے اور نہ آپؑ کے دعاوی کا ذکر ہو اور نہ قادیان کا نام لکھا جاوے۔ مَیں اس وقت رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو کے دفتر میں دفتری کام کرتا تھا۔ مَیں سخت غمگین ہوا کہ یہ رسالہ لاہور چلاجائے گا۔ مگر مَیں لاہور نہیں جاؤں گا پھر قادیان میں کیا کام کروں گا؟

مولوی محمد علی صاحب
خواجہ کمال الدین صاحب

مولوی محمدعلی صاحب اور خواجہ کما ل الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گھر اطلاع بھجوا دی۔ حضورعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب نے وطن اخبار کے ایڈیٹر کے ساتھ گفتگو کا خلاصہ سنایا۔ حضورؑ نے سن کر بڑے جوش سے فرمایا:
’’ہم نے سوداگری اور تجارت کی غرض سے یہ رسالہ نہیں نکالا۔ ہم تو اپنا دعویٰ اس کے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ رسالہ قادیان سے باہر کسی اَور جگہ شائع ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘
اس پر مولوی محمد علی صاحب خاموش ہو گئے اور میرا دل بے حد خوش ہو ا کہ خدا تعالیٰ نے میرا کام بنادیا۔

حضرت اقدسؑ کی چند شفقتیں

٭… ایک روز رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو کے دفتر میں چند آدمی آکر بیٹھ گئے اور آپس میں باتیں کرنے لگے کہ امیروں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑے بطور تبرک مل جاتے ہیں دوسروں کو نہیں ملتے۔ مَیں نے انہیں کہا یہ باتیں مجھے نہ سناؤ مَیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عاشق ہوں۔
اسی وقت مَیں نے ایک رقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ اوور کوٹ اتار کر درمیانہ کوٹ اگر مجھے عطا فرمائیں تو عین عنایت ہو گی۔ اوّل تبرک ہو گا، دوم سردی سے بچ جاؤں گا۔ میرالڑکا رحمت علی رقعہ لے کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں گیا۔ اس کو حضورؑ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر تک ہم جواب دیتے ہیں۔ میرا لڑکا چلا آیا۔ حضورؑ گھر تشریف لے گئے اور اپنا درمیانہ کوٹ اتار کر اور اس کا بنڈل بنا کر میرمحمد اسحاق صاحب ؓ، جو اس وقت چھوٹے بچے تھے، کی بغل میں دے دیا اور فرمایا کہ ریویو آف ریلیجنز اردو کے دفتر میں جاؤ اور یہ کوٹ محمد حسن صاحب دفتری کو دے کر کہو کہ کیا کوٹ پہنچ گیا۔
چنانچہ میر محمد اسحاق صاحبؓ نے لاکر مجھے دیا۔ مَیں نے عرض کیا کہ کوٹ پہنچ گیا۔وہ آدمی ابھی وہا ں بیٹھے تھے۔ مَیں نے کوٹ دکھلایا اور کہا کہ تم کہتے تھے کہ کپڑے صرف امیروں کو بطور تبرک دیے جاتے ہیں۔ لو حضرت اقدس ؑ نے مجھ غریب کو یہ کوٹ بطور تبرک عنایت فرمایا۔
٭… ایک روز رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو کے دفتر میں بہت سے احباب آئے۔ اس وقت ’’حقیقۃالوحی‘‘ چھپ کر تیار ہورہی تھی۔ ان میں سے ایک کہنے لگا کہ مَیں اس کتاب کی سب سے پہلی جلد لوں گا خواہ اس کے لیے مجھے بیس روپے کیوں نہ دینے پڑیں۔ دوسرے نے کہا مَیں پہلی جلد کی اس سے بھی زیادہ قیمت دوں گا۔ اسی طرح باقی احباب نے بھی کہا۔ مَیں یہ باتیں سن رہا تھا اور ایک رقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ رہا تھا۔ اس رقعہ میں مَیں نے یہ بھی لکھ دیا کہ افسوس میرے پاس اس وقت ایک ہی روپیہ ہے۔ دل میرا بہت تڑپتا ہے کہ ’’حقیقۃالوحی‘‘ کی پہلی کاپی مَیں لوں۔ یہ رقعہ مَیں نے حضرت اقدؑس کی خدمت میں ایک لڑکے کے ذریعہ روانہ کیا اور ایک روپیہ بھی بھیج دیا۔ دیگر احباب جو وہاں بیٹھے تھے ان کو اس رقعہ کے مضمون کا علم نہ تھا۔ حضرت اقدسؑ نے وہ رقعہ اپنے پاس رکھ لیا اور ایک اَور کاغذ لے کر میر مہدی حسن صاحبؓ کو جو اس وقت حضورؑ کی کتابوں کے منتظم تھے لکھا کہ ’’مَیں نے محمدحسن صاحب سے حقیقۃ الوحی کی ایک کاپی کی قیمت وصول کر لی ہے ان کو پہلی جلد جاکر دے آؤ۔‘‘
میر مہدی حسن صاحبؓ دفتر رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں آئے اور مجھے کہا: خواہ قسم کھلا لو خواہ میرا اعتبار کر لو یہ پہلی جلد ہے۔ آپ کی طرف سے اس کی قیمت حضرت اقدسؑ نے وصول کر لی ہے۔ یہ دیکھ کر دیگر احباب حیران سے رہ گئے۔
اللہ اللہ! کیا بلند اخلاق اور شفقت تھی اس خدا کے پیارے محبوب کی جس کی نظیر سوائے مامور من اللہ کے دنیا پیش نہیں کرسکتی۔
٭… ایک روز مَیں رسالہ ریویوآف ریلیجنز اردو کے دفتر میں کام کر رہا تھا۔ چند احباب آئے اور دفتر میں بیٹھ گئے۔ باہم باتیں کرنے لگے اور کہنے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کھانا بطور تبرک ہمیں نہیں ملتا۔ مجھے یقین تھا کہ جب مَیں لکھوں گا حضورؑ تبرک بھجوا دیں گے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ اچھا بارہ بجے دوپہر کے وقت آکر تبرک مجھ سے کھا لیں۔ مَیں نے اسی وقت حضرت اقدؑس کی خدمت میں ایک رقعہ لکھا کہ آج کا سب پس خوردہ حضورؑ مجھے عطا فرمائیں۔
جب دوپہر ہوئی ایک خادمہ بنام دادی مجمع لے کر میرے پاس آگئی اور مجھے کہا کہ یہ حضرت کا سارا پس خوردہ ہے۔ پھر وہ احباب آئے اور حضورؑ کے تبرک کو شوق سے کھانے لگے۔ کئی قسم کے کھانے تھے۔ حضور علیہ السلام نے تمام کھانوں میں سے ایک ایک لقمہ کھایا ہوا تھا۔
٭… ایک دن بسراواں کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ ایک بڑ کے درخت کے نزدیک (جو بسراواں کے نزدیک تھا مگر اب کاٹا گیا ہے)کھڑے ہو گئے۔ اس وقت مولوی کرم دین کا مقدمہ اور دیگر کئی مقدمات حضورؑ کے خلاف دشمنوں نے کھڑے کیے ہوئے تھے۔ حضورؑ نے فرمایا: مجھے لوگ کہتے ہیں کہ مَیں واپس آجاؤں۔ دیکھو سسّی ایک عورت تھی وہ پنّوں پر عاشق ہو گئی۔ اسے معلوم تھا کہ اگر مَیں آگے بڑھی تو ریت میں جل کر مر جاؤں گی اور اگر واپس لَوٹوں تو عشق بدنام ہو گا اور سب عاشقوں کا گناہ میری گردن پر ہوگا۔پس وہ واپس نہ لَوٹی اور آخر ریت میں ہی جل کر ہلاک ہوگئی۔ مَیں خدا کا عاشق ہوں مَیں کس طرح لَوٹ سکتا ہوں۔ آج لوگ مجھے تکالیف اور اذیتیں پہنچاتے ہیں مگر وہ وقت قریب آرہا ہے جب دنیا اس زمینِ قادیان کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائے گی۔
٭… ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مسجد مبارک میں دعا کے لیے پوچھا۔ اس وقت مسجد مبارک کے نزدیک ایک ویران جگہ (کھولا)ہوتی تھی جہاں خراس ہوتا تھا۔ اب اس جگہ دفتر محاسب صدرانجمن احمدیہ قادیان ہے اور مسجد مبارک توسیع شدہ ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا: اگر اس کھولے میں نجاست کے ڈھیر کی وجہ سے بدبو ہو اور ایک شخص اس ڈھیر کو ہٹائے بغیر خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ مولا اس بدبُو کو دور فرما دے تو وہ شخص دعا نہیں کرتا خدا کا امتحان کرتا ہے۔ دعا کرنے والے کو چاہیے کہ ایک کدال اور ٹوکری لے اور پہلے اس نجاست کے ڈھیر کو اٹھا کر جنگل میں پھینک دے۔ پھر آکر وضو کرے اور خدا کے حضور دعا کرے کہ اے میرے ربّ جو میرا کا م تھا وہ مَیں نے کر دیا۔ بدبُو ہٹانا میرے بس کی بات نہیں تُو اپنے فضل ورحم سے اس بدبُو کو ہو ا کے ساتھ ہٹا دے۔ انسان کو چاہیے کہ جس امر کے متعلق دعا کرے اس کے متعلق کوشش بھی کرے تب دعا قبول ہوتی ہے۔ (روزنامہ الفضل لاہور۔ 28؍ ستمبر 1950ء صفحہ نمبر4)

چند خاص سعادتیں

حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ 1906ء میں نظام ِوصیت پرسب سے اوّل لبیک کہنے والے تھے۔ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنی کتاب ’نظامِ نَو‘ میں نظامِ وصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کیاہی خوش قسمت اور قابل رشک ہے وہ مبارک وجود جسے اس ’’نظامِ نَو‘‘ (نظامِ وصیت) میں سب سے اوّل لبیک کہنے کا شرف حاصل ہوا اور جسے ’’نظامِ نَو‘‘ کی بنیادی اینٹ بننے کی توفیق ملی۔‘‘ (روزنامہ الفضل لاہور یکم اگست 1950 صفحہ 3)
آپؓ وقفِ زندگی میں سب سے اوّلین لبیک کہنے والوں میں شامل تھے۔ نیز آپؓ کے بیٹے کو بیرونِ ہند خدمت کرنے والے ابتدائی مبلغین میں پچیس سال کے طویل عرصہ تک تبلیغِ اسلام کرنے کا موقع ملا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا کوٹ بطور تبرک آپ کو عنایت فرمایا۔ ایک دفعہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا پس خوردہ آپ کو عنایت فرمایا۔ حقیقۃ الوحی کی سب سے پہلی جلد سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے آپ کو مرحمت فرمائی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1934ء میں ’’تحریک سالکین‘‘ شروع فرمائی ۔ اس فہرست میں آپ کا نام آٹھویں نمبر پر ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ارشاد پر آپ چنیوٹ میں مقیم رہے اور آپؓ نے فرقان فورس میں بھی شمولیت اختیار کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں