حضرت حاطب بن ابی بلتعہ

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ اکتوبر 2000ء میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آپؓ کی کنیت ابومحمد ہے اور تعلق قبیلہ لخم بن عدی سے تھا۔ آپؓ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد غزوات بدر، اُحد، خندق اور حدیبیہ سمیت دیگر اہم غزوات میں شمولیت کا شرف حاصل کیا۔ صلح حدیبیہ کے فوراً بعد آنحضورﷺ نے آپؓ کو والیٔ مصر مقوقس کے نام تبلیغی خط دے کر بھجوایا۔ مقوقس نے آپؓ سے بعض سوالات کئے۔ اُس نے آپؓ سے یہ بھی پوچھا کہ جب تمہارے نبی ؐ اپنے وطن سے نکالے گئے تو انہوں نے نکالنے والوں کے خلاف بددعا کیوں نہ کی تاکہ وہ ہلاک کردیئے جاتے۔ آپؓ نے جواب دیا کہ ہمارے نبیؐ تو صرف وطن سے نکلنے پر مجبور ہوئے لیکن تمہارے مسیح کو تو یہودیوں نے سولی چڑھاکر مارنا چاہا مگر وہ پھر بھی اپنے مخالفوں کو بددعا دیکر ہلاک نہ کرسکے۔ آپؓ کے پُرحکمت جوابات سن کر مقوقس نے کہا کہ بے شک تم ایک دانا انسان ہو اور ایک دانا انسان کی طرف سے سفیر بن کر آئے ہو۔
فتح مکہ کے موقع پر جب آنحضرتﷺ قتل و غارت سے بچنے کے لئے مکہ پر خاموش چڑھائی کی تیاری کررہے تھے اور اس تیاری کو مخفی رکھنے کا حکم دیا ہوا تھا تو اس دوران حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے قریش کو اس تیاری سے آگاہ کرنے کے لئے ایک خط لکھ کر مکہ جانے والی ایک عورت کے ذریعہ بھجوایا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو اس کی اطلاع وحی کے ذریعہ کردی اور حضورؐ نے حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ بن العوام کو بھجوایا جو اُس عورت کو گرفتار کرکے واپس لے آئے اور خط حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کو بلاکر پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا؟۔ آپؓ نے کہا یا رسول اللہ! مجھے یقین ہے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ آپؐ کو ضرور غلبہ عطا فرمائے گا لیکن مکہ میں چونکہ میرے عزیز و اقارب ہیں اس لئے مَیں نے چاہا کہ اہل مکہ پر ایک احسان کردوں تاکہ وہ ممنون ہوکر میرے عزیز و اقارب کو نقصان نہ پہنچائیں اور اُن کی حفاظت کریں۔
حضرت عمر فاروقؓ کی غیرتِ دینی نے جوش مارا کہ آپؓ کی گردن اُڑادیں۔ لیکن آنحضورﷺ نے فرمایا: اے عمر! حاطب سچ کہتا ہے، اسے کچھ نہ کہو، کیا تم نہیں جانتے کہ حاطبؓ اصحابِ بدر میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہؓ کی بخشش فرمائی ہے، پس حاطبؓ کی یہ غلطی قابل عفو ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے زمانہ میں حضرت حاطبؓ کو دوبارہ مقوقس کے پاس سفیر بناکر بھیجا۔ آپؓ نے 30ھ میں 65 سال کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی۔ حضرت عثمان غنیؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں