مبلغ ایران حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانویؓ

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ان لوگوں میں سے جن کو خدا تعالیٰ نے خاص قربانیوں کی توفیق اپنے فضل سے عطا فرمائی، ایک ہمارے شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ تھے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہؓ میں سے تھے اور غالباً بیعت کرنے والوں میں ان کا نواں نمبر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کو پرانا تعلق تھا… ایران کے لئے مبارک بات ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو وفات دی جسے زندگی میں دیکھنے والے ولی اللہ کہتے تھے اور جسے مرنے پر شہادت نصیب ہوئی۔…‘‘
حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانویؓ کا ذکر خیر مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ مئی و جون 2000ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب کابل کے مشہور شاہی درّانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کا خاندان ہجرت کرکے لدھیانہ آگیا۔ آپؓ نے اگرچہ نازونعمت میں پرورش پائی مگر سادگی اور درویشی غالب رہی۔ گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے رسمی تعلیم حاصل کرکے دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانویؓ کی صحبت کو اختیار کیا۔ ڈپٹی کمشنر لدھیانہ کے دفتر میں ملازمت بھی اختیار کی۔ آپؓ کی فطرتی دیانت، امانت اور قناعت کی وجہ سے آپؓ کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔
جن دنوں ’’براہین احمدیہ‘‘ کی طباعت کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ لدھیانہ میں قیام فرما تھے تو شہر کے عمائدین اور علماء جوق در جوق وہاں آتے۔ آپؓ بھی اپنے پیر ومُرشد حضرت منشی احمد جان صاحبؓ کے ہمراہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں زیارت کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضورؑ نے توحید پر لیکچر دیا جو چند گھنٹے جاری رہا۔ عرفان کا دریا بہتا دیکھ کر حاضرین نے بیعت لینے کی درخواست کی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے پر مامور نہیں ہوں۔ اس کے فوراً بعد حضورؑ بھری مجلس سے اٹھ کر باہر سیر کے لئے تشریف لے گئے۔
جب حضرت منشی احمد جان صاحبؓ حج کے لئے تشریف لے گئے تو حضرت شاہزادہ صاحبؓ بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ جب بیعت کا وقت آیا تو آپؓ نے بیعت کرلی اور حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کو کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں اپنے 313؍ صحابہ کی فہرست میں شامل فرمایا ہے۔ بیعت کے بعد آپؓ کی حالت میں ایک غیرمعمولی تغیر ہوگیا۔ چہرہ سے رشد و ہدایت کے آثار ایسے نمایاں تھے کہ ولی اللہ معلوم ہوتے تھے۔ آپؓ کا تقویٰ تو آپؓ کی جوانی میں بھی مشہور تھا۔ بیعت کے بعد جماعت نے آپؓ کو اپنا امام الصلوٰۃ مقرر کرلیا۔ جب تک آپؓ لدھیانہ میں رہے، اپنے منصب پر ممتاز رہے اور قرآن شریف کا درس بھی دیتے رہے۔ گوشہ نشینی اور خلوت کو پسند کرتے۔ ملازمت کے لئے کچہری جانے آنے کے علاوہ کبھی باہر نہ نکلتے۔ تاہم ہر اتوار کو اپنے رشتہ داروں کو جاکر تبلیغ کرتے یا گھر آنے والوں کو پیغام پہنچاتے۔ بہت کم بولتے مگر جب بولتے تو گویا پھول جھڑتے تھے۔
آپؓ کی خوراک بہت کم اور بہت سادہ رہی۔ مال سے قطعاً محبت نہیں تھی۔ نوع انسان کی خدمت کے لئے ہر وقت آمادہ نظر آتے تھے۔
1891ء میں لدھیانہ میں قیام کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت شاہزادہ صاحبؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر فرمایا اور آپؓ کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔
ایک معاند دشمن نے ایک بار آپؓ کے خلاف ایک اشتہار کی بنا پر فوجداری استغاثہ دائر کردیا لیکن جلد ہی اُس کا بھائی مر گیا اور اُس کے دل پر ایسا رعب پڑا کہ اُس نے خود مقدمہ واپس لے لیا۔
حضرت شاہزادہ صاحب مضامین بھی لکھا کرتے تھے۔ آپؓ نے حضور علیہ السلام کی تائید میں کئی اشتہارات اور بعض مضامین بھی لکھے۔ سورۃالاخلاص کی تفسیر بھی لکھی۔ آپؓ اردو اور فارسی میں شاعری بھی کرتے تھے۔
ایک بار آپؓ کے ایک عزیز نے، جو جہلم میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے، آپؓ کے بارہ میں مضمون شائع کروادیا جس میں ذکر تھا کہ آپؓ نے گویا اُن کے سمجھانے پر احمدیت سے توبہ کرلی ہے۔ اس پر آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں ایک طویل عریضہ لکھا جس میں اس واقعہ کی اصل حقیقت بیان کی اور اسے لغو اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’’حضرت اقدس کی محبت اور عظمت اور ادب و اطاعت اور کثرت یاد میری روح و جان کا جزو ہوگیا ہے، مَیں اپنی جان سے کس طرح علیحدہ ہوسکتا ہوں۔ میرے پیارے میرے دل کا حال اُس سے دریافت فرما جو سب بھیدوں سے واقف ہے… کہاں تک تیرے احسانات کو لکھوں، وہ تو بے شمار ہیں۔ تُو ہمارا آقا، تُو ہمارا مولا، ہم تیرے خادم، ہم تیرے غلام، بھلا تجھ کو چھوڑ کر خدا کی لعنت کماویں۔‘‘
ملازمت سے علیحدگی کے بعد حضرت شاہزادہ صاحبؓ کے لئے لدھیانہ میں کوئی چیز باعث کشش نہ تھی۔ بیوی جوانی میں ہی وفات پاچکی تھیں اور آپؓ نے دوبارہ شادی نہیں کی تھی۔ چنانچہ آپؓ ہمیشہ کے لئے قادیان چلے گئے جہاں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کا کتب خانہ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی لائبریری جو سلسلہ کے لئے وقف ہوچکی تھی، کی درستی کا کام آپؓ کے سپرد ہوا جو آپؓ نے بڑی محنت سے نبھایا۔
آپؓ بہت خیرخواہ اور مہمان نواز تھے۔ نہایت سیرچشم اور حیاپرور تھے۔ ہمیشہ خوش و خرم رہتے۔ کبھی کسی کو شکایت یا رنج کا موقع نہیں دیا۔ جب آپؓ نے خود کو دعوت الی اللہ کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کیا تو حضورؓ نے آپؓ کو ایران جانے کا ارشاد فرمایا۔ چونکہ آپ نحیف اور بوڑھے تھے اس لئے آپؓ کو تیاری کے دوران ہمیشہ یہ احتمال رہتا کہ کہیں حضورؓ آپؓ کے بڑھاپے کی وجہ سے سفر کو ملتوی نہ کردیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 12؍جولائی 1924ء کو آپؓ کو ایران کے لئے روانہ فرمایا۔ 16؍اکتوبر کو آپؓ ایران کے شہر مشہد پہنچے اور پانچ چھ روز بعد تہران تشریف لے گئے۔ وہاں آپؓ نے ایک شخص سے رہائش کے بارہ میں معلوم کیا۔ وہ آپؓ کو اپنے ہمراہ لے گیا اور آپؓ اُس کے مکان میں دو تومان کرایہ پر رہنے لگے۔ کچھ ہی دنوں میں وہ شخص احمدی ہوگیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کی روانگی سے قبل رؤیا میں دیکھا تھا کہ آپؓ خانقاہ درویش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی اشعار پڑھ کر سنارہے ہیں اور درویش وجد کی حالت میں جھوم رہے ہیں۔ تہران پہنچ کر سب سے پہلے آپؓ نے خانقاہ درویش کا پتہ لگایا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے درویش وہاں بیٹھے ہیں۔ سلام مسنون کے بعد اشعار پڑھنے شروع کردیئے۔ شعر سن کر درویش جھومنے لگے۔ پھر آپؓ نے اُنہیں دعوت الی اللہ کی اور اُن میں ’’دعوت الامیر‘‘ کے نسخے تقسیم کئے۔
کچھ ہی عرصہ میں آپؓ سب طرف مشہور ہوگئے اور مخالفت بھی خوب شروع ہوگئی۔ کئی بار جسمانی حملہ بھی ہوا۔ آپؓ کے دوستوں نے آپؓ کو رات کو باہر نکلنے سے منع کیا کیونکہ بعض لوگ آپکو قتل کرنے کے درپے تھے۔ لیکن آپؓ کا جواب یہی تھا کہ دعوت الی اللہ کی راہ میں موت کا ڈر نہیں ہے۔
آپؓ کی مالی حالت نہایت کمزور تھی۔ شریر لوگ موقع ملنے پر آپؓ کی کتابیں اٹھاکر لے جاتے۔ شدید سردی کا موسم ہوتا تو آپؓ جب تبلیغ کرکے رات کو واپس اپنے گھر آتے تو راستے سے ردّی کاغذ اکٹھے کرلاتے۔ رات کو وہ جلاکر لحاف گرم کرتے اور رات گزار دیتے۔ رمضان میں چنے کھاکر روزے رکھتے۔ بعض اوقات کپڑے دھونے کے لئے صابن کا خرچ بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن آپؓ نے کبھی مالی کمزوری کا اظہار نہیں ہونے دیا۔
آپؓ نے 23؍فروری 1928ء کو تہران میں ہی وفات پائی اور وہیں ایک قبرستان میں تدفین ہوئی۔ 53ء تک آپؓ کا مزار موجود تھا لیکن بعد میں قبرستان ہموار کرکے اُس پر عمارتیں تعمیر ہوگئیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت شاہزادہ صاحبؓ کی وفات کی اطلاع ملنے کے بعد اُن کی نماز جنازہ غائب ادا کرنے سے قبل اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ’’عام طور پر بزرگوں کی ولایت اُن کی زندگی کے بعد تسلیم کی جاتی ہے مگر آپؓ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو دیکھنے والے اُن کی زندگی میں ہی ولی اللہ سمجھتے تھے۔ آپؓ نہایت ہی متوکّل اور نیک انسان تھے۔ آپؓ اس قدر سیدھے اور نرم مزاج تھے کہ گویا سخت کلامی آتی ہی نہیں تھی مگر باوجود اس کے دین کے معاملہ میں بہت غیرت رکھتے تھے… زندہ قومیں جانتی ہیں کہ قوم کی خاطر مرنے والوں کی کیا قدر کرنی چاہئے۔… پس ہمارا فرض ہے کہ اُن کا اعزاز اور احترام کریں جو دین کی خدمت کرتے ہوئے فوت ہوں اور ایسا اعزاز کریں کہ ہماری نسلیں محسوس کریں کہ دین کی خدمت کرتے ہوئے مرنا بہت بڑی عزت ہے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں