حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ابتدائی حالاتِ زندگی

حضرت حافظ حکیم نورالدین خلیفۃالمسیح الاولؓ 1841ء میں بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کا شجرہ نسب 34ویں پشت پر حضرت عمرؓ سے مل جاتا ہے اس لحاظ سے آپؓ قریشی ہاشمی فاروقی تھے۔

آپؓ کل سات بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ آپؓ کے والد ماجد حضرت حافظ غلام رسول صاحب قرآن کریم کے عاشق تھے۔ ان کے آباء و اجداد میں سے کم از کم دس افراد حفاظ ِ قرآن تھے اور انہیں قرآن کریم کے نسخے خریدنے اور دوسروں کو مفت ہدیہ کرنے کا بہت شوق تھا اور اس بارہ میں وہ بے دریغ روپیہ خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح انہیں تحصیل علم کا بھی بے انتہا شوق تھا۔ چنانچہ یہ دونوں خوبیاں سیدنا نورالدینؓ کو وراثت میں ملیں۔ آپؓ کی حیاتِ مبارکہ کے ابتدائی حالات پر مکرم پرویز پروازی صاحب کا مضمون ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 15مئی 1997ء کی زینت ہے۔

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

سیدنا نورالدینؓ نے ابتداء میں تدریس کا پیشہ اختیار کیا تھا مگر جلد ہی عربی زبان اور حکمت سیکھنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے اور رامپور میں حافظ عبدالحق صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ یہاں آپؓ نے حصول علم کے لئے اتنی محنت کی کہ بیمار ہوگئے اور پھر طب کے شوق کو پورا کرنے کیلئے لکھنؤ کے حکیم علی حسین صاحب کی شاگردی اختیار کی۔ لکھنؤ پہنچ کر ہی آپ نے اپنی زندگی میں پہلی بار خود روٹی پکانے کی کوشش کی۔ چنانچہ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں روٹی پکانے کی جو ترکیب آئی اس کے مطابق آٹا پانی میں گھول کر توے پر ڈال دیا اس مائع آٹا کے روٹی کی طرح پکنے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ آٹا کوئلہ بن گیا لیکن اس نے توے کا دامن نہ چھوڑا۔ یہ دیکھ کر آپؓ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی ’’ بار الٰہا! یہ تو میرے بس کا روگ نہیں۔ تو کیوں اپنے رزق کو ضائع کروانا چاہتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے بندے کا یہ بے تکلفانہ شکوہ اتنا پسند آیا کہ جب آپؓ درس لینے کیلئے حکیم صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے اصرار کے ساتھ آپؓ کی رہائش اور کھانے کا انتظام اپنے ہاں کردیا ۔ حضور ؓ نے وہاں رہ کر قریباً دو برس تک طب کی تعلیم حاصل کی اور پھر قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھوپال چلے گئے۔
بھوپال پہنچ کر اپنا سامان ایک سرائے میں رکھ کر آپؓ شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب واپس پہنچے تو دیکھا کہ سامان تو جوں کا توں موجود ہے لیکن اس میں سے رقم ساری غائب ہے۔ چنانچہ آپؓ ایک مسجد میں اٹھ آئے ۔ تین روز فاقہ میں گزرے ۔ پھر ریاست کے منشی جمال الدین نماز کے لئے تشریف لائے۔ ایک شخص کو کسمپرسی میں دیکھا تو ہمراہیوں کو استفسار کے لئے بھیجا۔ آپؓ نے کوئی سیدھا جواب نہ دیا۔ منشی صاحب زیرک آدمی تھے، خود آئے کچھ سوالات کئے اور پھر اپنی نبض دکھائی۔ آپؓ نے نسخہ تجویز کیا اور منشی صاحب نے آپؓ کو کھانے کی دعوت دی۔ آپ نے قبول نہ کی تو انہوں نے کہا کہ رسول کریمؐ نے دعوت کے انکار کو پسند نہیں فرمایا۔ اس پر آپؓ راضی ہوگئے۔ منشی صاحب کا ایک فرستادہ آپؓ کو لینے کو حاضر ہوا تو آپ نے اسے بتایا کہ آپؓ میں چلنے کی بھی سکت نہیں ہے۔ اس نے آپؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھالیااور منزل تک پہنچایا۔
بھوپال میں قیام کے دوران ہی ایک امیرزادہ کا علاج کیا تو اس نے اتنا روپیہ پیش کیا کہ حج واجب ہوگیا چنانچہ آپؓ حج کی نیت سے حجاز مقدس روانہ ہوگئے۔ آپؓ کے استاد نے روانگی سے پہلے آپؓ کو نصیحت کی ’’نورالدین! خدا نہ بننا اور نہ خدا کا رسول‘‘۔ آپؓ کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ یہ قدرت صرف اللہ کو حاصل ہے کہ جو چاہتا ہے کرلیتا ہے اور یہ امر صرف رسولوں کو سزاوار ہے کہ ان کی بات نہ ماننے والے غضب کے مورد بنتے ہیں۔ اگر لوگ تمہاری بات نہ مانیں تو یہ نہ سمجھنا کہ وہ سارے جہنمی ہیں۔
حضرت نورالدینؓ بمبئی سے بحری جہاز پر جدہ کیلئے روانہ ہوئے، مکہ تک کا سفر اونٹ پر کیا۔ مکہ میں علماء سے درس حدیث لینا شروع کیا، پھر مدینہ منورہ جاکر تحصیل علم کی۔ واپس تشریف لائے تو بہت سی کتب ساتھ لائے یعنی ذہن بھی علم سے معمور تھا اور سامان بھی۔ بھیرہ پہنچ کر حکمت کا کام شروع کیا تو دور دور سے مریض آنے لگے۔ آپؓ نے مطب کیلئے ایک بڑا مکان تعمیر کروایا جس سے آپؓ 1200 روپے کے مقروض ہوگئے۔ اس رقم کی ادائیگی کی سبیل دیکھئے کہ آپؓ بھیرہ سے سفر پر نکل کھڑے ہوئے اور ایک دوست سے کوٹ مستعار لیا۔ سٹیشن پر پہنچ کر ٹکٹ کی خرید کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب میں اتنی ہی رقم موجود تھی جتنی لاہور جانے کیلئے درکار تھی۔ لاہورپہنچ کر آپؓ دھلی کا ٹکٹ خریدنا چاہتے تھے تو ایک شناسا نے دور سے آپؓ کو دیکھا اور اپنے ذرائع سے ٹکٹ لے کر خدمت میں پیش کیا۔ آپؓ نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو دوست نے اصرار کے ساتھ کہا کہ وہ کسی قیمت پر پیسے وصول نہیں کرے گا۔ دھلی میں ایک بار پھر منشی جمال الدین سے ملاقات ہوئی جن کا داماد بیمار تھا۔ انہوں نے آپؓ کو اپنے پاس ٹھہرا لیا اور پہلے 500 اور کچھ عرصہ بعد 700 روپے پیش کئے چنانچہ سارا قرضہ اتر گیا۔
کچھ عرصہ بعد ایک رؤیا کے تحت حضرت نورالدینؓ کشمیر چلے گئے جہاں آپ شاہی طبیب مقرر ہوئے اور 15 برس تک اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ وہیں آپؓ نے قرآن حفظ کرنے کی سعادت پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں