حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جولائی 2004ء میں مکرم حامد حسین صاحب نے اپنے مضمون میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی قبولیت دعا کے بعض واقعات حضورؒ کی زبانی ہی بیان کئے ہیں۔
حضور نے جلسہ سالانہ 1988ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک پولیس ملازم، جو پہلے شدید مخالف تھا، نے احمدیت قبول کرلی۔ اور پھر اس نے رشوت لینی بالکل بند کر دی۔ وہاں کا پولیس کا معیار زندگی سارے کا سارا جھوٹا ہے، رشوت نہ لیں تو ایک چپڑاسی کی سی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ تو بہت بڑا ابتلاء تھا۔ لیکن اس سے بڑا ابتلاء یہ آگیا کہ ان کے ذریعہ افسروں کو جو رشوت ملتی تھی وہ بند ہوگئی۔ چنانچہ سارے افسراُن کے دشمن ہوگئے اور جس کے اختیار میں اِن کا تبادلہ تھا، انہوں نے کہا کہ اب میں تمہیں یہاں رہنے نہیں دوں گا۔ چونکہ یہ بہت غریب آدمی تھے۔ ان کو بہت پریشانی لاحق ہوئی کہ اگر میرا تبادلہ ہوگیا تو رشوت میں نے لینی نہیں اور دوسری جگہ میرا اپنا گھر بھی نہیں ہوگا۔ کس طرح گزارا کروں گا؟ چنانچہ انہوں نے مجھے خط لکھا کہ میں بہت پریشان ہوں۔ اس کے جواب میں مَیں نے لکھا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو تکلیف نہیں ہوگی میں دعا کر رہا ہوں۔ اِدھر یہ خط ملا اور اُدھر تبدیلی کے آرڈر بھی۔ یہ چوراہے پر کھڑے ہوگئے، ایک ہاتھ میں میرا خط تھا دوسری طرف افسر اعلیٰ کے آرڈرز تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی آزمائش کر رہا تھا۔ یہ اسی حالت میں کھڑے تھے کہ پولیس کے ایک اَور اعلیٰ افسر کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے اِن کو مغموم کھڑے دیکھا تو پوچھا کہ کیا بات ہے۔ اِنہوں نے سارے حالات بتائے تو افسر نے وہیں تبدیلی منسوخ کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آرڈر یہ ہو گیا کہ ان کو یہاں سے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
حضورؒ کے بچپن کا ایک واقعہ ’’ایک مرد خدا‘‘ میں یوں بیان ہوا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانی ؓ اپنے اہل وعیال سمیت قادیان واپس آرہے تھے۔ راستے میں پتہ چلا کہ گاڑی کا پٹرول ختم ہونے کو ہے۔ دراصل چلتے وقت پٹرول لینا یاد نہیں رہا تھا۔ اب آدھا سفر ہوچکا تھا اور قادیان تک راستہ میں کسی پٹرول پمپ کا وجود تک نہیں تھا۔ حضرت خلیفہ ثانی ؓ بچوں کو مخاطب کرکے فرمانے لگے: بچو! آؤ ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ اے اللہ! اس مشکل کو راستے کا روگ نہ بنا اور اپنے خاص تصرف سے ہمیں اسی طرح قادیان پہنچا دے۔ جس کی بھی دعاقبول ہوئی میں اسے قادیان پہنچ کر دو گیلن پٹرول اور کار کے استعمال کی اجازت دیدوں گا۔
ہوسکتا ہے یہ بات حضرت خلیفہ ثانی ؓ نے سرسری طور بچوں کی تربیت کے لئے کہی ہو۔ بہرحال کمسن طاہر احمد بڑی سنجیدگی اور یکسوئی سے اللہ کے حضور دعا میں مشغول رہے یہاں تک کہ کار قادیان پہنچ گئی۔ قادیان پہنچے تو طاہر احمد بے اختیار پکار اٹھے: ’’اباجان میں مسلسل دعا کرتا رہا ہوں۔ میں اس وقت سے دعا کرتا چلا آرہا ہوں جس وقت آپ نے دعا کے لئے فرمایا تھا‘‘۔ چنانچہ حضرت خلیفہ ثانی ؓ نے وعدے کے مطابق دوگیلن پٹرول اور کار کے استعمال کی اجازت دیدی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں: جب میں اپنی بیگم اور بچوں کے ہمراہ امریکہ میں سفر کر رہا تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ ایک نو وارد کی حیثیت سے بعض شہروں میں کہیں راستہ نہ بھول جاؤں۔ اس امکان کے پیش نظر میں دعا میں لگ گیا۔ اچانک ذہن میں قرآن کریم کی ایک آیت کوند گئی اور مجھے اطمینان ہوگیا کہ اب نہ تو راستہ بھولو ںگا اور نہ ہی بھوک پیاس کی وجہ سے کسی قسم کی پریشانی لاحق ہوگی۔ رات ڈیڑھ بجے کے قریب ہم شگاگو پہنچ گئے جو ایک وسیع وعریض شہر ہے اور میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اتفاق کی بات ہے میرے پاس شہر کا نقشہ بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنی بیگم اور بچوں سے کہا کہ وہ کار ہی میں اطمینان سے سوجائیں۔ میں خود گاڑی چلا رہا تھا۔ پہلے چند مرتبہ سیدھے ہاتھ مڑا اور چند مرتبہ الٹے ہاتھ اور خاصی دیر تک گاڑی چلاتا چلاگیا۔ پھر میں نے ایک پٹرول پمپ پر گاڑی روکی اور وہاں سے مسجد احمدیہ میں فون کیا تو پتہ چلا کہ مسجد دوایک گلیوں پر قریب ہی ہے۔
اس سے ملتا جلتا واقعہ ناروے میں بھی پیش آیا۔ ہم نے ایک راہ چلتے شخص سے انگریزی زبان میں اپنے میزبان کا پتہ پوچھا تو اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ وہ تو میرے پڑوسی ہیں۔
ہالینڈ میں بھی ایسا ہی تجربہ ہوا۔ ہم نے وہاں کچھ بچوں سے پوچھا کہ مسجد احمدیہ کہاں ہے؟ وہ بولے: مسجد تو قریب ہی ہے۔ ہمارے ساتھ آئیے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں