حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ قاضی کوٹی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 ؍مئی 2007ء میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ آف کوٹ قاضی محمد جان ضلع گوجرانوالہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں آپؓ کے بارہ میں ایک مضمون ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 18؍اگست 2000ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ 1843ء میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے علاقہ میں زہد و تقویٰ کی وجہ سے مشہور تھے۔ آپ کو بزرگوں اور اہل اللہ کی زیارت کا بے حد شوق تھا چنانچہ جب حضرت مسیح موعود کا علم ہوا تو پہلی مرتبہ فروری 1885ء میں قادیان پہنچے اور قادیان میں پانچ روز قیام کے بعد واپس روانہ ہونے سے قبل 7 فروری 1885ء کو مسجد اقصیٰ کی ایک دیوار پر کالی سیاہی سے یہ شعر تحریر کرگئے کہ

حسن و خوبی دلبری بر تو تمام
صحبتے بعد از لقائے تو حرام

یعنی حسن سیرت و خوبی اخلاق تجھ پر ختم ہیں اور تیری ملاقات کے بعد کسی اور کی صحبت چاہنا جائز نہیں۔
نیز لکھا کہ میں اپنی بیمار والدہ کی وجہ سے واپس جارہا ہوں ورنہ اس جگہ سے جدائی اب مجھے گوارا نہیں۔
حضور کے دعویٰ بیعت کے وقت آپ تیسری مرتبہ حضور کی زیارت کے لئے قادیان جارہے تھے۔ بٹالہ پہنچے تو خبر ملی کہ حضرت اقدسؑ لدھیانہ ہیں چنانچہ وہاں سے لدھیانہ آئے اور 24؍مارچ 1889ء کو حضورؑ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔ علاقہ گوجرانوالہ میں آپؓ پہلے احمدی تھے۔ بیعت کے بعد حضورؑ نے فرمایا آپ کو بہت ابتلاء پیش آئیں گے سو ایسا ہی وقوع میں آیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شدید ابتلاء میں آپ کو استقامت عطا فرمائی۔ حضورؑ نے بھی آپؓ کے نام خطوط میں صبر وہمت کی تلقین فرمائی۔ حضرت اقدسؑ نے ’’تریاق القلوب‘‘ میں 74 ویں نمبر پر آپؓ کے متعلق پیشگوئی کا بطور نشان ذکر فرمایا ہے۔
شدید مخالفت کے باوجود بھی آپؓ تبلیغ کا بہت جوش رکھتے تھے۔ اس کے لئے سفر بھی کرتے رہتے۔ آپؓ کو حضرت اقدسؑ کے ساتھ بھی بعض سفروں میں جانے کا شرف حاصل ہوا۔ حضور نے اپنی کتب میں بعض پیشگوئیوں میں گواہ کے طور پر آپؓ کا نام بھی درج فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ آپؓ کو اور آپؓ کے دو بیٹوں کو 313 صحابہ میں شامل ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ فہرست میں تینوں کے نام اس طرح درج ہیں۔
35۔ قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی
145۔ قاضی عبدالرحیم صاحب فرزند رشید قاضی
ضیاء الدین صاحب کوٹ قاضی گوجرانوالہ
281۔ قاضی عبداللہ صاحب کوٹ قاضی
(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 ص328,327,325 )
313 صحابہ میں سے گیارہ صحابہ آپؓ ہی کے ذریعہ داخل احمدیت ہوئے۔ حضورؓ کی تحریک پر آپ 1900ء میں ہجرت کرکے قادیان آگئے۔ یہاں کسب معاش کے ذرائع محدود ہونے کے باعث آپ جیسے بلند پایہ عالم اور حاذق طبیب جلد سازی اور سٹیشنری کی دوکان برائے نام کرنے پر مجبور ہوئے۔ قادیان میں بھی خدمت سلسلہ میں مصروف رہتے۔ مہمانوں سے ملاقات کرکے سلسلہ سے متعلق گفتگو کرتے۔
زمانۂ بیعت سے قبل ایک بار آپؓ وضو کررہے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کے دریافت کرنے پر آپؓ کا نام اور پتہ بتاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کو ہمارے ساتھ عشق ہے۔ چنانچہ حضرت قاضی صاحبؓ اس بات پر فخر کیا کرتے اور حیران ہوتے تھے کہ حضورؑ کو میرے دل کی کیفیت کا کیونکر علم ہوگیا۔
حضرت قاضی صاحبؓ نے 12؍ مئی 1904ء کو 61 سال کی عمر میں قادیان میں وفات پائی۔ حضورؑ اس وقت گورداسپور میں تھے، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے جنازہ پڑھایا اور قادیان میں دفن ہوئے (ان دنوں ابھی بہشتی مقبرہ نہیں بنا تھا)۔ آپ کی وفات سے پہلے حضور کو الہام ہو ا تھا۔ ’’وہ بے چارہ فوت ہوگیا‘‘۔ (ماخوز از اصحاب احمد جلدششم)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں