حضرت قاضی محمد اکبر صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اگست 1999ء میں شامل اشاعت حضرت قاضی محمد اکبر صاحبؓ کے بارہ میں ایک مختصر مضمون مکرم عطاء الرقیب منور صاحب نے ’’تاریخ احمدیت جموں کشمیر‘‘ مؤلفہ مکرم محمد اسداللہ قریشی صاحب کی مدد سے تحریر کیا ہے۔
حضرت قاضی صاحبؓ چارکوٹ جموں کشمیر کے رہنے والے تھے۔ اپنے علاقہ کے امام تھے اور دینی تعلیم دیا کرتے تھے۔ آپ اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کا تعلق بعض صاحب اثر بزرگوں سے تھا جن میں ایک حضرت مولوی برھان الدین صاحبؓ جہلمی بھی تھے۔ 1894ء میں جب سورج اور چاند کو گرہن لگا اس سے پہلے ہی آپ آگاہ تھے کہ امام مہدی کے ظہور کا وقت آچکا ہے۔ چنانچہ یہ نشان ظاہر ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام مہدی کے ظہور کا نشان تو ظاہر ہوگیا ہے ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہئے۔ آپ نے سودا سلف لانے کے لئے جہلم جانے والے بعض احباب سے کہا کہ وہ حضرت مولوی برھان الدین صاحب سے ملاقات کریں اور اس بارہ میں پوچھیں۔ اسی دوران آپ نے رؤیا دیکھی کہ کسی نے آپ کو تین کتب پڑھنے کے لئے دی ہیں۔ پہلی کتاب آپ نے کھولی تو اس میں گند بھرا ہوا تھا چنانچہ آپ نے وہ پھینک دی۔ دوسری دو کتب میں نور کے شعلے نکل رہے تھے۔ آپ کی خواب اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت مولوی صاحبؓ نے جہلم سے آپ کو تین کتب بھجوائیں۔ پہلی کتاب حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کی تردید سے متعلق تھی۔ اس میں حضور کے بارہ میں ایسی دلآزار تحریر تھی کہ آپ نے تھوڑا سا پڑھنے کے بعد اسے پڑھنا ترک کردیا۔ دوسری دونوں کتب پڑھیں تو اُنہیں اپنی رؤیا کے عین مطابق پایا اور مزید تحقیقات کے لئے تین افراد کا وفد قادیان بھجوایا۔ اس وفد کے تینوں ارکان کچھ عرصہ بعد قادیان سے واپس لوٹے تو وہ قبول احمدیت کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔ چنانچہ حضرت قاضی صاحبؓ نے پہلے تحریری اور کچھ عرصہ بعد قادیان پہنچ کر دستی بیعت کا شرف حاصل کرلیا۔
قادیان سے جب حضرت قاضی صاحب ؓ واپس چار کوٹ آئے تو دعوت الی اللہ شروع کی۔ اس کے ساتھ ہی احمدیوں کی مخالفت بھی شروع ہوگئی اور احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ تکالیف پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ لیکن حضرت قاضی صاحبؓ کی قیادت میں جماعت نے نہ صرف چارکوٹ میں مزید ترقی کی بلکہ آپؓ کے ذریعہ رہتال، بڈھانوں اور کوٹلی کالابن کی جماعتیں بھی قائم ہوگئیں۔ آپ کے آٹھ بھائی اور ایک بہن تھی جو سب احمدیت کے نور سے منور ہوئے۔
حضرت قاضی صاحبؓ کئی بار قادیان تشریف لے جاتے رہے۔ آپ نے چارکوٹ میں ہی وفات پائی اور وہاں کی احمدیہ مسجد کے صحن میں مدفون ہوئے۔ یہ مسجد آپؓ ہی نے بنوائی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں