حضرت مسیح موعودؑ اور سرسید احمد خان

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے دعویٰ سے ایک عرصہ قبل خدمت دین میں منہمک ہوچکے تھے اور اس سلسلہ میں بہت سے مسلمان علماء اور لیڈروں سے بھی آپؑ کی خط و کتابت تھی جن میں سے سرسید احمد خان صاحب کے ساتھ آپؑ کے تعلقات زمانہ سیالکوٹ سے لے کر ان کی وفات تک قائم رہے-
سرسید احمد خان صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 1857ء کے ہنگامہ کے بعد مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی اور اسی خیال سے انجیل کی تفسیر بھی لکھی- لیکن 1869ء میں جب آپ نے انگلستان کا سفر کیا تو انگریزوں کے عروج سے ایسے مرعوب ہوئے کہ اسلام کو مغربی فلسفہ کے مطابق ڈھالنا شروع کردیا- 1875ء میں آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے علی گڑھ میں دارالعلوم کی بنیاد رکھی- اس ادارہ نے مسلمان نوجوانوں کی نسل کو ترقی کی جانب ایک بیداری بخشی لیکن یہ نسل بھی مغربی فلسفہ سے بہت متاثر ہوئی- 1880ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے “براہین احمدیہ” میں اُن تمام نظریات کا ردّ فرمایا جو مغرب کی مادیت سے مرعوب ہوکر سرسید نے اختیار کرلئے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ الہام دل سے ہی اٹھتا اور دل پر ہی پڑتا ہے- حضرت اقدسؑ سرسید کی تعلیمی اور سیاسی خدمات کے معترف تھے لیکن دین کو مغربی فلسفہ کے مطابق ثابت کرنے کے سخت خلاف تھے بلکہ نومبر 1885ء میں حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر سرسید اور بعض دیگر افراد کے بارے میں متوحش پیشگوئیاں بیان فرمائیں-
سر سید نے ایک موقع پر کہا ’’مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے کیوں لوگ پیچھے پڑے ہیں، اگر ان کے نزدیک الہام ہوتا ہے تو بہتر… میں سنتا ہوں کہ آدمی نیک بخت اور نمازی پرہیزگار ہیں، یہی امر ان کی بزرگذاشت کو کافی ہے‘‘-
ایک اور جگہ لکھا ہے ’’حضرت مرزا صاحب کی نسبت زیادہ کدوکاوش کرنی بے فائدہ ہے- یہ ایک بزرگ زاہد نیک بخت آدمی ہیں… ان کی عزت اور ان کا ادب کرنا بہ سبب ان کی بزرگی اور نیکی کے لازم ہے‘‘-
سر سید احمد خان صاحب نے مغربی فلسفہ اور علوم سے متاثر ہوکر قبولیت دعا، الہام، معجزات، نبوت اور ملائکہ وغیرہ کا انکار کردیا- ایک روز حضورؑ کی محفل میں سرسید کے یورپ کی طرف میلان کا ذکر آیا تو حضورؑ نے فرمایا ’’انسان جس شے کی طرف پوری رغبت کرتا ہے تو پھر اسی کی طرف اس کا میلانِ طبعی ہو جاتا ہے اور آخرکار وہ مجبور ہوتا ہے‘‘-
حضور علیہ السلام نے 1892ء میں آئینہ کمالات اسلام میں سرسید کا نام لے کر اُن کے باطل عقائد کا ردّ فرمایا- پھر جب سرسید نے اپنے رسالہ میں لکھا کہ دعا صرف دل کی تسلی کا ہی دوسرا نام ہے- تو حضورؑ نے اپریل 1893ء میں ’’برکات الدعا‘‘ تصنیف فرمائی جس میں اپنے تجربات پیش فرمائے نیز آخر میں اپنی ایک نظم میں سرسید کو دعوت دی کہ مجھ سے دعا کے مستجاب ہونے کے نمونے دیکھ لو- جن میں سے ایک نمونہ لیکھرام کی پیشگوئی بھی تھی- چنانچہ جب لیکھرام قتل ہوا تو حضورؑنے 12؍مارچ 1897ء کو اپنے اشتہار میں پھر سرسید کو مخاطب کرکے فرمایا ’’سرسید صاحب کی یہ غلطی ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی- کاش اگر وہ چالیس دن تک بھی میرے پاس رہ جاتے تو نئے اور پاک معلومات پالیتے‘‘- حضورؑ نے یہ بھی فرمایا کہ سرسید کے بارے میں میری پیشگوئی کہ انہیں ایک بڑا غم پیش آئے گا بھی پوری ہوچکی ہے جب ایک شریر نے خیانت سے مسلمانوں کا ڈیڑھ لاکھ روپے کا غبن کیا اور اس غم سے سرسید کو غشی آگئی اور تین دن تک آپ نے روٹی نہ کھائی اور آپ کے بیٹے نے بیان کیا کہ اگر وہ اپنے والد کے پاس نہ ہوتے تو سرسید ضرور اس غم سے مر جاتے-
سرسید احمد خان صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اپنی تحریک کے لئے چندہ کی درخواست بھی کی تاکہ اس چندہ کو نظیر بنا کر وہ جماعت احمدیہ کے دیگر افراد سے بھی چندہ لے سکیں-
سرسید کی وفات 22؍مارچ 1898ء کو ہوئی- اس سے قریباً ایک سال قبل حضورؑ نے سراج منیر میں اپنی 37 زبردست پیشگوئیوں کا ذکر کرکے سرسید سمیت نو افراد کو قسم مؤکد بعذاب کھانے کی دعوت دی- نیز لکھا کہ ’’میں نے سرسید احمد خانصاحب کا نام منکرین کی مد میں اس لئے لکھا ہے کہ ان کو خدا کے اس الہام بلکہ وحی سے بھی انکار ہے جو خدا سے نازل ہوتی ہے … میں نہیں چاہتا کہ وہ یورپ کے کورانہ خیالات کی پیروی کرکے اس غلطی کو قبر میں لے جائیں‘‘-
حضرت مسیح موعودؑ نے 27؍دسمبر 1897ء کو اپنی کتاب ’’کشف الغطاء‘‘ میں سرسید کی ایک تحریر اپنی تائید میں شائع فرمائی- اسی طرح حضورؑ نے اپنے خلاف مشہور مقدمہ قتل میں، جو پادری مارٹن کلارک نے دائر کیا تھا، سر سید کا نام بطور گواہ پیش کیا- اس مقدمہ کا آغاز یکم اگست 1897ء میں ہوا-
1897ء میں ایک عیسائی احمد شاہ نے ایک نہایت دلآزار کتاب امہات المومنین شائع کی جس میں آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کی شان میں سخت توہین آمیز مواد تھا- حضور علیہ السلام نے اس کتاب کا جامع جواب لکھنے کی ضرورت بیان فرمائی اور مئی 1898ء میں کتاب ’’البلاغ‘‘ تالیف فرمائی جس میں سر سید احمد خان صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ کی تعریف فرمائی اور یہ بھی فرمایا ’’چونکہ وہ دانشمند اور حقیقت شناس تھے اس لئے انہوں نے اپنی تمام عمر میں ایسا کوئی فضول میموریل گورنمنٹ عالیہ کو نہیں بھیجا جیسا کہ اب لاہور سے بھیجا گیا ہے- بلکہ اب بھی جب ان کو امہات المومنین کے مضامین پر اطلاع ہوئی تو صرف ردّ لکھنا پسند فرمایا- سید صاحب تینوں باتوں میں میرے موافق رہے اول حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کے مسئلہ میں دوم جب میں نے یہ اشتہار شائع کیا کہ سلطان روم کی نسبت گورنمنٹ انگریزی کے حقوق ہم پر غالب ہیں تو سید صاحب نے میرے اس مضمون کی تصدیق کی اور لکھا کہ سب کو اس کی پیروی کرنی چاہئے- سوم اسی کتاب امہات المومنین کی نسبت ان کی یہی رائے تھی کہ اس کا ردّ لکھنا چاہئے میموریل نہ بھیجا جائے‘‘-
حضورؑ مزید فرماتے ہیں ’’سر سید احمد خان بالقابہ کیسا بہادر اور زیرک اور ان کاموں میں فراست رکھنے والا آدمی تھا انہوں نے آخری وقت میں بھی اس کتاب کا ردّ لکھنا بہت ضروری سمجھا … اب ہم اس بزرگ پولیٹیکل مصالح شناس کو کہاں سے پیدا کریں‘‘-
حضرت مسیح موعودؑ نے سر سید احمد خانصاحب کی وفات کے بعد اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میں سر سید صاحب کے بارے میں اپنی پیشگوئی کو اپنی صداقت کا تہترواں نشان قرار دیتے ہوئے آخر میں فرمایا ’’خدا ان پر رحم کرے‘‘- یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 و 25؍جون 1998ء میں مکرم مرزا خلیل الرحمن قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں