مکرم سعد فاروق صاحب کی شہادت

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21دسمبر 2018ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24اکتوبر 2012ء میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ مکرم سعد فاروق صاحب بلدیہ ٹاؤن کراچی 19؍اکتوبر 2012ء کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے گھرموٹر سائیکل پر جبکہ اُن کے والد مکرم فاروق احمد کاہلوں صاحب صدر حلقہ بلدیہ ٹائون، سسر مکرم نصرت محمود صاحب آف امریکہ، بھائی مکرم عماد فاروق صاحب ، تایا مکرم منصور احمد صاحب اور پھوپھا مکرم محمد اشرف صاحب کار میں سوار آگے پیچھے جا رہے تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے مکرم سعد فاروق صاحب پر پیچھے سے ایک فائر کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑے۔ حملہ آوروں نے اس کارروائی کے بعد کا ر کا تعاقب کر کے فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں شہید مرحوم کے والد کو (جو گاڑی چلا رہے تھے) پانچ گولیاں لگیں، سسرکو تین گولیاں گردن، سینے اور پیٹ میں لگیں جبکہ چھوٹے بھائی کو ایک گولی ماتھے پر لگی۔
مکرم سعد فاروق صاحب کے والد صاحب نے شدید زخمی حالت میں شہید مرحوم کو بھی گاڑی میں ڈالا اور اسی حالت میں خود گاڑی چلاتے ہوئے قریبی ہسپتال پہنچے۔ ہسپتال پہنچتے ہی مکرم سعد فاروق صاحب کی شہادت ہوگئی۔ مرحوم موصی تھے۔ تدفین ربوہ میں کی گئی۔
آپ کے خاندان کا تعلق چہو ر مغلیاں ضلع شیخوپورہ سے ہے۔ آپ کے پڑدادا حضرت اللہ بخش کاہلوں صاحبؓ نے 1905ء میں چہورمغلیاں سے پیدل قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کی اور بیعت کی سعادت حاصل کی۔ 1962ء میں یہ خاندان لیّہ چلاگیا۔ بعدازاں شہید کے والد روزگار کے سلسلہ میں کراچی منتقل ہوگئے اور یہاں انہوں نے اپنا بزنس شروع کیا۔
مکرم سعد فاروق صاحب 5؍اکتوبر 1986ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ F.Sc. کرنے کے بعد الیکٹرونک انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا اور اپنے والد اور چچا کی جنریٹر مینوفیکچرنگ فرم (FG Prime Power) میں کام شروع کردیا۔ مرحوم کی شادی شہادت سے صرف تین دن قبل مکرمہ شائزہ سعد صاحبہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ مرحوم نے لواحقین میں اہلیہ، والدین، ایک بھائی اور ایک بہن سوگوار چھوڑی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 26؍اکتوبر2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے فرمایا کہ شہید مرحوم موصی تھے۔ ان کا اپنے خاندان سے نہایت محبت کا تعلق تھا۔ ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ رات کو سونے سے پہلے ہمارے کمرہ میں آتے۔ میرے اور اپنے والد کے پاؤں دباتے۔ ہمیں چائے پلاتے اور اے سی (AC) کا ٹمپریچر سیٹ کرکے جانے کی اجازت طلب کرتے۔ کہتی ہیں کہ وہ ہماری اطاعت کے تمام معیار پورے کرتے۔ آج تک انہوں نے ہماری کوئی بات نہیں ٹالی اور نہ ہی کبھی آگے سے جواب دیا۔ خون کا عطیہ دینے کا اُنہیں بہت شوق تھا اور محلے یا جماعت میں کسی کو بھی خون کی ضرورت پڑتی تو سب سے پہلے خود اپنے آپ کو پیش کرتے۔ میرے منع کرنے پر کہتے کہ اُمی! یہ خون تو ضائع ہو جانا ہے، کیوں نہ کسی کے کام آجائے۔
شہید مرحوم کی بہن ڈاکٹر صبا فاروق صاحبہ کہتی ہیں کہ ہمارا بہن بھائیوں کا دوستی کا رشتہ تھا۔ انتہائی پیار کرنے والا بھائی تھا بلکہ لوگ مجھے کہا کرتے تھے تمہارا بھائی دنیا سے الگ ہے۔ چھوٹا ہونے کے باوجود ہمیشہ مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ (treat) کرتا تھا۔ انتہائی نیک اور خدمت گزار تھا اور صرف ہمارے دل میں نہیں بلکہ جو بھی جس کا بھی اُس سے واسطہ ہے ہر ایک کے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
اُن کی بیوہ بھی کہتی ہیں کہ نکاح کے بعد وہ امریکہ رہتی تھیں، تو جب فون پر اُن کی بات ہوتی تھی، وہ اکثرمجھے یہ خواہش کیا کرتے تھے کہ مجھے شہادت نصیب ہو۔
جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ خدام الاحمدیہ کی بھی اور مختلف جماعتی خدمات میں بھی انہوں نے بھرپور حصہ لیا۔ قائد خدام الاحمدیہ کراچی کہتے ہیں کہ شہید سعد بہت ہی خوبیوں کے مالک تھے۔ سب سے بڑھ کر جو میں نے محسوس کیا وہ اُن کی عاجزی تھی۔ خاکسار نے ہمیشہ مشاہدہ کیا کہ جب بھی کسی کام کے لئے اُنہیں کہا گیا یا کوئی بات دریافت کی گئی تو وہ ہمیشہ سرجھکاکر نظریں نیچی کرکے صرف یہ جواب دیتے تھے: جی قائدصاحب۔
اُن کی اطاعت بے مثال تھی۔ خلافت کے فدائی تھے۔ ہرعہدیدار کو اُس کے عہدے سے مخاطب کرتے، کبھی نام نہ لیتے۔ پچھلے ایک سال سے اُنہیں ایک ایسے بلاک کا نگران مقرر کیا گیا تھا جہاں جماعتی مخالفت زوروں پر تھی مگر اتنا کم عمر ہونے کے باوجود اُن کی بہادری اور لگن بےمثال تھی۔ اکثر اپنے سپرد مجالس کا دورہ مکمل کرکے رات گئے فون پر کام مکمل ہونے کی اطلاع دیتے۔ خاکسار حیران ہو کر اُن کو ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ کا یہ علاقہ خطرناک ہے اس لئے اپنا خیال رکھا کریں۔
شہید مرحوم کے والد صاحب بڑے زخمی تھے اور ہسپتال میں ہی تھے تو اُن سے بیٹے کی شہادت چھپانے کی کوشش کی گئی۔ تو انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ سعد شہید ہوچکا ہے۔ مجھے اُس کی شہادت کا کوئی غم نہیں ہے۔ بس مجھے میرے شہید بیٹے کا چہرہ دکھا دو۔ چنانچہ آپ اپنے شہید بیٹے کے پاس گئے اور اُس کی پیشانی کو چوما اور اُسے الوداع کہا۔ پس جس شہید کے باپ، بہن، ماں ایسے جذبات رکھتے ہوں دشمن بھلا اُن کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں