حضرت مصلح موعود کی پاکیزہ سیرت اور جماعت کو نصائح

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍فروری 2013ء میں مکرم فرخ سلمانی صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مصلح موعودؓ کی مبارک تحریر کی روشنی میں حضورؓ کی پاکیزہ سیرت کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ ذیل میں حضورؓ کے الفاظ میں ہی اختصار کے ساتھ ایسی نصائح پیش کی جارہی ہیں جو ہماری عملی اصلاح کے لیے ضروری ہیں اور ہمہ وقت ہم سب کو اپنے پیش نظر رکھنی چاہئیں۔

کسی سے عداوت نہیں

حضورؓ فرماتے ہیں:
ہمیں تو اس غلط عقیدے سے دشمنی ہے جس کے مطابق انہوں نے ہمارے آدمیوں کو شہید کیا اور جسے اسلام کی تعلیم کے خلاف انہوں نے اختیار کررکھا ہے اور اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو چاہے وہ کتنا بڑا دشمن ہو ہم اسے اپنا بھائی سمجھیں گے۔ آخر جو احمدی بنتے ہیں وہ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ انہی لوگوں میں سے آتے ہیں جو احمدیت کے شدید مخالف ہوتے ہیں بلکہ ایسے ایسے شدید دشمن ہدایت پر آجاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب کی ذات سے بھی کبھی دشمنی نہیں ہوئی۔ بلکہ بچپن میں جب مجھے کامل عرفان حاصل نہیں تھا میں بعض دفعہ حیران ہو کر کہا کرتا تھا کہ خدایا! کیا میرے اندر غیرت کم ہے کہ لوگ تو کہتے ہیں ہمیں مولوی ثناء اللہ پر بڑا غصہ آتا ہے مگر مجھے نہیں آتا۔ تو اللہ تعالیٰ اس بات کاگواہ ہے کہ اپنی ذات میں مجھے کسی شخص سے عداوت نہیں، نہ اپنے دشمن سے اور نہ سلسلہ کے کسی دشمن سے۔ افعال بیشک مجھے برے لگتے ہیں اور انہیں مٹا دینے کو میرا جی چاہتا ہے مگر کسی انسان سے مجھے دشمنی نہیں ہوئی۔ اگر عداوت جائز ہوتی تو ان لوگوں سے ہوتی جو خدا اور اس کے رسول کے دشمن ہیں کیونکہ مومن کاکام یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو کم درجہ دے مگر خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کو زیادہ برا جانے۔ مگر جب خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کی ذات سے بھی مجھے کبھی عداوت نہیں ہوئی تو اپنے دشمنوں کی ذات سے مجھے کس طرح عداوت ہوسکتی ہے۔ یہ دل بے شک چاہتا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام رہیں اور اللہ تعالیٰ یا تو انہیں ہدایت دے یا ان کی طاقتوں کو توڑ دے مگر یہ کہ ان کو اپنی ذات میں نقصان پہنچے یہ خواہش نہ کبھی پہلے میرے دل میں پیدا ہوئی اور نہ اب ہے۔ جس چیز کو مٹانا ہمارا فرض ہے وہ خلاف اسلام عقائد اور طریقے ہیں جو دنیا میں جاری ہیں۔ اگر ہم ان عقائد اور ان طریقوں کو مٹانے کی بجائے آدمیوں کو مٹانے لگ جائیں اور وہ اصول اور طریق خود اختیار کرلیں تو اس کی ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کوئی بادام کے چھلکے رکھتا جائے اور مغز پھینکتا جائے۔ آدمی تو مغز ہیں اور ان کے افعال وہ چھلکے ہیں جن کو دُور کرنا ہمارا کام ہے۔
(خطبات محمود جلد19 صفحہ105)

میرے دل میں کسی کے لیے نفرت نہیں

سندھ ایک نیا صوبہ بننے والا ہے۔ نئے لوگوں کو نئی روایات قائم کرنی ہوتی ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ سندھ کے لوگوں میں باوجود شدید اختلاف مذہب کے تمدّنی، علمی اور اقتصادی تعلقات میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہو اور وہ یہ سمجھیں کہ ہم سارے خداکے بندے اور اس کی مخلوق ہیں۔ خدا جس طرح ہندو کی بہتری چاہتا ہے، عیسائی کی بھی ویسے ہی چاہتا ہے اور مسلمان کا بھی وہی مالک ہے۔ کئی چھوٹے بھائی بڑے بھائیوں کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح تم علمی اور اقتصادی اور تمدنی تعلقات کو اس معیار تک بلند کرلو کہ چھوٹا صوبہ (سندھ) دوسروں کے لیے نمونہ ہو۔
مَیں مانتا ہوں کہ اختلافات کُلّی طور پر نہیں مٹ سکتے مگر میرے دل میں کبھی کسی ہندو، عیسائی یا سکھ کے لیے نفرت پیدا نہیں ہوئی۔ میں اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کرحلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی ہندو، عیسائی یا سکھ کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔
پس میں اہل سندھ سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مذہبی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی عزت کریں مذہب کے متعلق بیشک غیرت رکھو لیکن عقائد کے لحاظ سے نہ کہ کسی انسان کے لحاظ سے۔ عیب دار سے نفرت کرنا ظلم ہے ہاں عیب سے نفرت کرنی چاہیے۔ جب جسمانی بیمار کی ہمدردی ضروری ہے تو روحانی بیمار کا تو اَور بھی زیادہ خیال ہونا چاہیے۔
(تاریخ احمدیت کراچی جلد اول صفحہ68)

میں نے کبھی کسی سے مانگا نہیں

کل ایک عجیب اتفاق ہوا جس پر مجھے حیرت بھی آئی۔ ایک دوست ملنے آئے اور انہوں نے کپڑے کا ایک تھان تحفہ دیا کہ فلاں دوست نے بھیجا ہے۔ اس کے ساتھ ایک خط تھا جس میں اس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ آئے ہیں اور کہا ہے کہ قمیصوں کے لیے کپڑے کی ضرورت ہے بازار سے لادو۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میں یہ کپڑا بھیجتا ہوں۔ مَیں نے وہ تھان لاکر گھر میں دیا کہ اس سے قمیصیں بنوائی جائیں۔ انہوں نے کہاکہ الحمد للہ، چار سال کے عرصے میں آ پ نے قمیصوں کے لیے کپڑا نہیں خریدا تھا اور آپ کی پہلی قمیصیں ہی سنبھال سنبھال کر اب تک کام چلایا جارہا تھا، اب یہ مشکل دُور ہوئی۔
میں ضمناً یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ا س دوست کے خط کو پڑھ کر معاً میرے دل میں خیال آیا کہ پچاس سال کی عمر ہونے کو آئی ہے، جاگتے ہوئے تو میں نے کبھی کسی سے مانگا نہیں مگر خواب میں جا مانگا اور گویہ میں نے نہیں مانگا تھا بلکہ فرشتوں نے مانگا تھا لیکن یہ امر واقع ہے کہ پھر بھی مجھے شرم محسوس ہوئی اور میں نے اس وقت دعا کی کہ اے خدا! جس طرح تو نے اپنے فضل سے جاگتے ہوئے مانگنے سے اب تک بچایا ہے خواب کے سوال سے بھی بچائے رکھ اور اگر خواب میں کسی کو تحریک کرنی ہو تو میرے منہ سے نہ کروا۔ اپنے ہی دَر کا سوالی بنا رہنے دے۔
ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اتنے روپیہ کی ضرورت تھی اس میں سے اتنا پور اہوگیا ہے اور اتنا ابھی باقی ہے جو تم قرض دے دو۔ سو میرے پاس اس قدر رقم ہے، اگر خواب ظاہری تعبیر کے مطابق درست ہے تو اطلاع ملنے پر روپیہ بھجوا دوں گا۔ یہ خواب بالکل سچی تھی بعینہٖ حالات اسی طرح تھے۔ مجھے اس وقت کچھ ضرورت تھی، اس میں سے اسی قدر رقم کا جو خواب میں اس دوست کو بتائی گئی تھی انتظام ہو گیا تھا اور اس قدر رقم جو اُن سے طلب کی گئی تھی مہیا ہونی باقی تھی۔ میں نے انہیں اطلاع دی اور انہوں نے وہ رقم بھجوا دی۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔
(خطبات محمود جلد19 صفحہ842)

حضور کی جرأت اور غیرت

میری عادت ہے کہ جب دشمن کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو تو اس وقت میں اس کی بات نہیں مانا کرتا اور مجھے افسوس ہے کہ جب کبھی یہاں کے بزرگوں نے مجھ سے صلح کرنے کی کوشش کی ہے تو ہمیشہ ایسی صورت میں کہ پہلے کوئی ہم پر مقدمہ کرادیا یا فساد کھڑا کرادیا اور پھر چاہا کہ ہم سے سمجھوتہ کرلیں حالانکہ میں ایسے مواقع پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتا، مَیں ہمیشہ ایسے موقع پر ہی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہوا کرتا ہوں جب میرا ہاتھ دینے والا ہو اور اُن کا ہاتھ لینے والا ہو۔ لیکن جب کوئی ڈنڈا لے کر میرے سر پر آچڑھے اور کہے کہ مجھ سے صلح کرو تو پھر مَیں اس کی بات نہیں مانا کرتا۔
مجھے تعجب آتا ہے کہ میری عمر پچاس سال کے قریب ہونے کو آگئی اور میں تمام عمر اس قادیان میں رہا مگر اب تک یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں نے میری طبیعت کو نہیں سمجھا۔ اور یہی طبیعت حضرت مسیح موعودؑ کی بھی تھی۔ بلکہ دینی لحاظ سے گو حالت کچھ ہی ہو یہی طبیعت ہمارے دادا صاحب کی بھی تھی کہ وہ کسی کے ساتھ دَب کر صلح نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان نے دو حکومتوں کے تغیر کے وقت سخت نقصان اٹھایا ہے۔ جب سکھ آئے تب بھی اور جب انگریز آئے تب بھی کیونکہ یہ ہماری طبیعت کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہوں۔ گو ہمارے خاندان نے سکھوں اور انگریزوں سے تعاون بھی کیا اور ان کی مدد بھی کی اور ان لوگوں سے زیادہ مدد کی جو جی حضور کرتے رہتے تھے مگر پھر بھی انگریزوں کے آگے گردن جھکا کر کھڑے نہیں ہوئے۔ یہ ایک خاندانی اثر ہے جو میرے اندر پایا جاتا ہے اور مذہب نے اسے اَور زیادہ رنگ دے دیا ہے۔
(خطبات محمود جلد19 صفحہ804)

کبھی غلط حوالہ نہیں دیا

دشمن جانتا ہے کہ وہ سچ سے میرے مقابلے پر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مَیں نے 1907ء میں مضمون لکھنے شروع کیے اور ایک دو مضمون حضرت مسیح موعودؑ نے بھی مجھ سے لکھوا کر اپنی طرف سے شائع کرائے۔ گویا آج اکتیس سال ہوئے کہ میں تصنیف کا کام کررہا ہوں۔ اس عرصہ میں میں نے سینکڑوں تقریریں کی ہیں اور درجنوں اشتہار اور رسالے بھی شائع کیے ہیں۔ میرے کسی حوالے کو بڑے سے بڑے دشمن کے سامنے بھی رکھ دو پھر دیکھو کیا وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے کبھی کوئی حوالہ ارادتاً غلط پیش کیا ہے؟
(خطبات محمود جلد19 صفحہ162)

حضور کا غیرمعمولی حافظہ

جن باتوں کا میرے کام سے تعلق نہ ہو وہ مجھے یاد نہیں رہتیں۔ حوالے مَیں سمجھتا ہوں کہ دوسروں سے نکلوالوں گا اس لیے یاد نہیں رکھ سکتا اور جو سورتیں میں روز پڑھتا ہوں ان کی آیت سن کر بھی فوراً نہیں کہہ سکتا کہ فلاں سورۃ کی ہے۔ سوائے پانچ سات چھوٹی سورتوں کے یا سورۃ فاتحہ کے۔ لیکن بات یاد رکھنے میں میرا حافظہ ایسا ہے کہ بعض خطوط جب پرائیویٹ سیکرٹری دو دو ماہ بعد پیش کرتا اور کہتا ہے کہ فلاں نے یہ لکھا ہے اور اگر ان کی غلطی ہو تو میں کہہ دیتا ہوں کہ اس نے یہ تو نہیں بلکہ یہ لکھا ہے۔ تو میرا حافظہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا زبردست ہے کہ بہت کم لوگوں کا ایسا ہوگا۔ مضمون کے لحاظ سے حوالہ ایسا یاد رہتا ہے کہ کوئی حافظ اس طرح نہیں رکھ سکتا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ لاہور میں مجھے اچانک تقریر کرنی پڑی حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے جو آیات کا حوالہ نکالنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ان کو میں نے پیچھے بٹھالیا اور مضمون بیان کرنا شروع کر دیا جب ضرورت ہوتی اُن سے حوالہ دریافت کرلیتا۔ اگلے دن ایک ہندو اخبار نے لکھا کہ تقریر تو بہت اچھی تھی لیکن ایک بات قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ موقع پا کر مَیں سٹیج کی پچھلی طرف چلا گیا تو معلوم ہوا کہ پیچھے ایک شخص بیٹھا ہوا بتاتا جاتا ہے اور یہ آگے بیان کرتے جاتے تھے۔ اُس نے سمجھا شاید مضمون بھی وہی بتارہے ہیں۔ تو مضمون کے لحاظ سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے القاء کے طور پر حوالے ملتے جاتے ہیں حالانکہ اس کا خیال اور واہمہ بھی نہیں ہوتا یونہی لفظ سامنے آجاتا ہے اور پھر میں حافظہ سے آیت پوچھ لیتا ہوں۔
(خطبات محمود جلد19 صفحہ621)

حضور کا علم قرآن اور تحریکات

میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ ہوشیار ہو اور قرآن کریم کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو۔ بہرحال فضائل القرآن کا مضمون بھی نہایت اہم ہے اگر یہ مضمون مکمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہین احمدیہ مکمل ہو جائے گی۔
جماعت کی دینی، دنیوی، علمی، تجارتی، صنعتی، اقتصادی اور تربیتی ترقی کے لیے میں نے مختلف تحریکات کی ہوئی ہیں۔ دوستوں کو ان سب تحریکوں میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لینا چاہیے۔ پھر سب سے بڑھ کر جو چیز اہمیت رکھنے والی ہے وہ محبت الٰہی ہے۔ پس جماعت کو علاوہ اَور تحریکات میں حصہ لینے کے کوشش کرنی چاہیے کہ اُن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرے اور انہیں ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔
پھر زمینداروں کی بہبود کے متعلق بھی میرے ذہن میں ایک سکیم ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کے لیے بھی کوئی قدم اٹھایا جائے جس سے زمیندارہ کام میں ترقی ہو اور پیداوار پہلے سے زیادہ ہوسکے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے یہ تمام طبقات پوری طرح مضبوط ہو جائیں، زمیندار بھی ترقی کی طرف اپنا قدم اٹھانا شروع کردیں، تاجر اور صناع بھی مختلف علاقوں میں تجارت اور صنعت شروع کر دیں، مزدوروں اور ادنیٰ اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے بھی مختلف کارخانوں میں کام کرنے کے مواقع پیدا ہو جائیں تو ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ ہندو اور عیسائی اسلام میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
(انوارالعلوم جلد18 صفحہ295)

وقت ضائع نہ کرو

میں جانتا ہوں کہ اگر سستی نہ کی جائے تو تھوڑے وقت میں بہت سا کام ہو جاتا ہے اس لیے وقت ضائع نہ کرو۔ ہمیشہ اپنے نفس سے پوچھتے رہو کہ ہم وقت ضائع تو نہیں کررہے اور جب فرصت ملے تو اسے باتوں میں گنوانے کی بجائے تبلیغ میں صرف کرو اور پھر ہر شخص کم سے کم ایک ماہ تبلیغ کے لیے وقف کردے۔ کارکن بھی باریاں مقرر کرلیں اور ایک ایک ماہ دیں۔ صدرانجمن کو چاہیے کہ ان کے لیے انتظام کرے خواہ ان کی جگہ دوسرے آدمی رکھ کر ہی ایسا کرنا پڑے۔ اور اگر قادیان کے لوگ اس طرف توجہ کریں تو مجھے تین چار سو مبلغ مل سکتا ہے گویا تین چارسو ماہ کام کرنے کے لیے مل گئے۔ پس قادیان کے محلوں کو چاہیے کہ جس طرح مالی حصہ سکیم کے متعلق انہوں نے فہرستیں تیار کی تھیں، اس عملی حصہ سکیم کے متعلق بھی کریں کیونکہ یہ اس سے بہت اہم ہے۔ اگر اس طرح کیا جائے تو قادیان کے لوگوں کے ذریعہ سے ہی سارے ضلع گورداسپور میں تبلیغ کی جاسکتی ہے۔
(خطبات محمود جلد16 صفحہ93)

جھوٹ سے شدید نفرت

ہماری جماعت میں ایسے ہیں جو پوری طرح دیانت اور امانت سے کام نہیں لیتے۔ جب تک ہماری جماعت جھوٹ سے اتنی شدید نفرت نہیں کرتی کہ وہ موت کو قبول کرنا آسان سمجھے مگر جھوٹ بولنے کے لیے تیار نہ ہو، جب تک ہماری جماعت دیانت پر ایسی مضبوطی سے قائم نہیں ہوجاتی کہ وہ موت کو قبول کرنا آسان سمجھے مگر خیانت کے لیے تیار نہ ہو، جب تک ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی اور عصیان سے اتنی شدید نفرت نہ کرے کہ وہ موت کو آسانی سے قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائے مگر الٰہی احکام کی نافرمانی نہ کرے اس وقت تک نہیں کہا جاسکتا کہ ہماری زندگیاں روحانی زندگیاں ہیں اور ہمارے لیے ابتلاؤں اور مشکلات کی ضرورت نہیں۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس لیے جھوٹ نہیں بولتے کہ وہ سمجھتے ہیں جس ماحول میں وہ رہتے ہیں اس میں جھوٹ بول کر عزت کی زندگی بسر نہیں کرسکتے مگر کیا ایک مثال بھی ایسی پیش کی جاسکتی ہے کہ ہماری جماعت میں سے کسی نے اس لیے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہو کہ اس جماعت میں رہ کر جھوٹ بولنا اس کے لیے ناممکن ہے۔ یا کسی نے اس لیے خیانت اور دھوکا بازی کو چھوڑ دیا ہو کہ اس جماعت میں رہ کر خیانت کرنا موت کو خریدنا ہے۔ پھر کسی نے اس لیے عصیان و طغیان کو ترک کرد یا ہو کہ اس جماعت میں رہ کر خداتعالیٰ کے احکام کی نافرمانی یا اس کے فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی موت ہے۔ اگر نہیں تو پھر جب تک ہماری جماعت کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا اور جب تک جماعت کے افراد اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ جہاں کسی نے گناہ کیا اس نے گویا طاعون اور ہیضے کے کیڑے چھوڑ دیے، اس وقت تک کون کہہ سکتا ہے کہ تربیت اور جماعت کی ترقی کے لیے مشکلات و مصائب کا آنا اور جماعت کا قربانیوں کے لیے تیار رہنا بہت بوجھ ہے۔ کیا ممکن ہے کہ اگر کوئی شخص ہیضہ یا طاعون کے کیڑے ایک شہر میں چھوڑ دے تو لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور اس سے محبت اور پیار کریں۔ پھر کیوں لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ہیضہ کے کیڑوں سے ایک شہر کو جتنا نقصان پہنچ سکتا ہے وہ اس نقصان کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا جو جھوٹ کے کیڑوں سے انسانوں کو پہنچتا ہے۔
(خطبات محمود جلد16 صفحہ609)

شیطان نیکی کے راستہ سے دھوکا دیتا ہے

کمزوروں کی اصلاح سو وہ ہمیشہ ہمارے مدّنظر رہتی ہے اور کمزوریاں تو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں اور ہر انسان اگر چاہے تو انہیں چھوڑ کر زیادہ بلند مقام حاصل کرسکتا ہے۔ عمرؓ ابوبکرؓ بن سکتا ہے اور ابوبکرؓ اور زیادہ ترقی کرکے خداتعالیٰ کی محبت کے مزید مقامات حاصل کرسکتا ہے۔ پس اس قسم کا خیال رکھنے والے لوگوں کو میں سمجھاتا ہوں کہ وہ غور کریں اور سوچیں۔ میں زبردستی ان سے اپنی بات نہیں منوانا چاہتا بلکہ انہیں کہتا ہوں کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف توجہ کریں۔ اگر وہ توجہ کریں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کا یہ خیال بالکل باطل ہے اور نہ صرف باطل بلکہ انہیں نیکی کے راستہ سے دور پھینکنے والا ہے۔ بہت دفعہ شیطان نیکی کے راستہ سے دھوکا دے دیا کرتا ہے جیسے عبدالحکیم کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے۔ اس نے اعتراض کرتے وقت یہی لکھا تھا کہ جماعت کی اصلاح میرے مدنظر ہے مگر دیکھ لو کہ اس کانتیجہ کیسا خطرناک نکلا۔ ملی نظام خداتعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور جو شخص اس پر اعتراض کرتا ہے اس کے دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہاں اصلاح کے لیے جماعت کے عیوب بیان کرنا بالکل اور چیز ہے اور نیتوں کا فرق بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ بظاہر ایک ڈاکٹر بھی ہاتھ کاٹتا ہے اور ڈاکو بھی۔ اسی طرح ڈاکو بھی لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور گورنمنٹ بھی پھانسیاں دیتی ہے مگر ان دونوں میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے۔ گورنمنٹ ہزاروں آدمیوں کی جانیں بچانے کے لیے مجرموں کو پھانسی دیتی ہے اور ڈاکو مال وغیرہ لوٹنے کے لیے دوسروں کو قتل کرتے ہیں پس کام تو ایک ہے مگر نیتوں میں فرق ہے۔ اسی طرح جماعت کی اصلاح کے لیے نقص بیان کرنا اور بات ہے اور جماعت کے عیوب پر لذت محسوس کرنا اور کہنا کہ اب یہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسے سزا مل رہی ہے بالکل اور بات ہے اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس طرح ہر وہ قوم جس میں اصلاح کرنے والے نہ رہیں اور جس کے افراد ایک دوسرے کے عیوب نہ دیکھ سکیں تباہ ہو جاتی ہے اسی طرح وہ لوگ بھی ہلا ک ہو جاتے ہیں جو عیب دیکھتے تو ہیں مگر ان کا اپنے دلوں میں ذخیرہ کرتے چلے جاتے ہیں اور بجائے اصلاح کے قوم کے متعلق بری رائے قائم کرلیتے ہیں۔ پس تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ پر امید نہ چھوڑو۔
(خطبات محمود جلد16 ص113)

حضرت مسیح موعودؑ حکم عدل ہیں

حضرت مسیح موعودؑ سے براہ راست ہم نے اس قدر مسائل سنے ہوئے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے اس لیے آپ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہوں۔ بیشک بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو صرف اشارہ کے طور پر حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ تفصیلات کا ان میں ذکر نہیں اور ان باتوں کے متعلق ہمیں ان دوسرے لوگوں سے پوچھنا پڑتا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی صحبت اٹھائی ہے اور اگر ان سے بھی کسی بات کا علم حاصل نہیں ہوتا تو پھر ہم قیاس کرتے اور اس علم سے کام لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے مگر باوجود اس کے میرا اپنا طریق یہی ہے کہ اگر مجھے کسی بات کے متعلق یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود ؑکی کوئی تحریر اس کے خلاف ہے تو میں فوراً اپنی بات کو ردّ کر دیتا ہوں۔ اسی مسجد میں 1922 ء یا 1928ء کے درس القرآن کے موقع پر مَیں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا مگر جب میں وہ تمام نوٹ لکھوا چکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی یا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود ؑکا ایک حوالہ نکال کر میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا ہے مگر حضرت مسیح موعود نے یوں فرمایا ہے میں نے اس حوالہ کو دیکھ کر اسی وقت دوستوں سے کہہ دیا کہ میں نے عرش کے متعلق آپ لوگوں کو جو کچھ لکھوایا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنی کاپیوں میں سے کاٹ ڈالیں۔ چنانچہ جو لوگ اس وقت میرے درس میں شامل تھے وہ گواہی دے سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس اس وقت کی کاپیاں موجود ہوں تو وہ دیکھ سکتے ہیں کہ مَیں نے عرش کے متعلق نوٹ لکھوا کر بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑکا عقیدہ اس کے خلاف ہے اسے کاپیوں سے کٹوا دیا اور کہا کہ ان اوراق کو پھاڑ ڈالو کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے خلاف لکھا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کے فرمان کے مقابلہ میں بھی ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں اور کہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی صحیح ہے اور اپنے نفس کی عزت کا خیال رکھیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔
پس یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعودؑ حَکم عَدل ہیں اور آپؑ کے فیصلوں کے خلاف ایک لفظ کہنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں۔ ہم آپ کے بتائے ہوئے معارف کو قائم رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے دوسرے معانی کرسکتے ہیں مگر اسی صورت میں کہ اُن میں اور ہمارے معانی میں تناقض نہ ہو۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لیے نئے معانی کرنے ناجائز ہیں۔ بیشک تم قرآن کریم کے معارف بیان کرو اور ایک ایک آیت کے ہزاروں نہیں لاکھوں معارف بیان کرو۔ یہ سب تمہارے لیے جائز ہوگا اور ہمارے لیے خوشی کا موجب بلکہ اگر تم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو سو سو جزو کی تفسیر بھی بنا ڈالو تو اگر وہ قابل قدر ہوگی ہمارے دل اس پر فخر محسوس کریں گے کیونکہ ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بڑھ کر عالم ہو مگر یہ اسی صورت میں ہوگا کہ تمہارا کوئی استدلال اور تمہارا کوئی نکتہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیان فرمودہ تعلیم کے خلاف نہ ہو اور اگر تم کسی آیت کے کوئی ایسے معنے کرتے ہو جنہیں حضرت مسیح موعودؑ نے ردّ کیا ہے تو وہ معنے ردّ کیے جائیں گے لیکن آپؑ کی تعلیم کو برقرار رکھتے ہوئے اگر تم بعض زائد مطالب قرآنی آیات کے بیان کر دیتے ہو تو وہ مسیح موعود کا طفیل ہوگا اور آپؑ کی خوشہ چینی اور آپؑ کی متابعت کی برکت ہوگی جیسا کہ ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ کے طفیل اور آپؑ کی برکت سے ہے۔
(خطبات محمود جلد19 صفحہ599)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں