حضرت منشی اروڑے خان صاحب رضی اللہ عنہ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اگست 1995ء میں حضرت منشی اروڑے خانصاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں مکرم مقصود منیب صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔ حضرت منشی صاحبؓ 1846ء میں کپورتھلہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم مکتبوں میں حاصل کی۔ بچپن ہی سے چوب کاری کے کام پر لگ گئے لیکن اسی دوران والد کی وفات ہوگئی تو آپؓ نے کچھ آمد پیدا کرنے کے لئے کچہری میں مذکوریا کا کام شروع کردیا۔ بعد ازاں آپؓ چپڑاسی ،پھر خواندہ چپڑاسی اور پھر ترقی پاکر اہلمد مقرر ہوئے ۔ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپؓ کا ذکر ’ازالہ اوہام‘ میں فرمایا تو آپؓ نقشہ نویس تھے جس کے بعد ’سر رشتہ دار‘ مقرر ہوئے اور پھر اپنی دیانت، محنت اور لگن سے نائب تحصیلدار اور پھر تحصیلدار کے عہدے تک پہنچے۔ 1914ء میں بوقتِ پنشن آپؓ ریاست کپورتھلہ کی تحصیل بھنگوال میں تحصیلدار تھے۔
پنشن لے کر آپؓ قادیان میں آ بسے اور پنشن میں سے ایک حصہ رکھ کر باقی خدمت سلسلہ میں پیش کر دیتے۔ آپؓ بہت خوبصورت اور صحتمند تھے اور ملازمت کے زمانہ میں عمدہ لباس زیبِ تن فرمایا کرتے تھے۔ قادیان آنے کے بعد آپ کا لباس بہت سادہ ہوگیا۔ 1889ء میں آپؓ نے لدھیانہ پہنچ کر گیارھویں نمبر پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ کے بارے میں تحریر فرمایا ’’منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادت میں زندہ دل ہیں۔ سچائی کے عاشق اور سچائی کو بہت جلدی سمجھ جاتے ہیں۔ خدمات کو نہایت نشاط سے بجا لاتے ہیں بلکہ وہ تو دن رات اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت مجھ سے صادر ہو جائے … میں خیال کرتا ہوں کہ ان کو عاجز سے ایک نسبت ِعشق ہے۔‘‘ آپؓ کے پختہ ایمان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف تقریر کی تو حضرت منشی صاحبؓ کے دوست نے کہا اس کا جواب دیں۔ حضرت منشی صاحبؓ نے صرف اتنا فرمایا ’’میں نے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے وہ جھوٹے نہیں ہو سکتے‘‘ ۔
آل انڈیا وائی ایم سی اے کے سیکرٹری مسٹر والٹر 1916ء میں قادیان آئے تو حضرت منشی صاحبؓ نے ان کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ پر مرزا صاحب کی صداقت کی کس دلیل نے اثر کیا؟ جواباً فرمایا ’’میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی … انہیں دیکھ کر کوئی شخص نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے، باقی میں تو ان کے مونہہ کا بھوکا تھا‘‘ یہ کہہ کر آپؓ حضرت اقدسؑ کی یاد میں اس قدر بے چین ہوگئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئے اور روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔
حضرت منشی صاحب رضی اللہ عنہ جب حضور اقدسؑ کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے تو نئے نئے راستوں سے آتے اور ہر دفعہ نیا تحفہ لے کر آتے۔ حضورؑ کے اکثر سفروں میں آپؓ ہمراہ ہوتے۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ حضورؑ کی وفات کے چند ماہ بعد منشی اروڑا خان صاحبؓ آئے اور جیب سے دو تین پاؤنڈ نکال کر مجھے دیئے کہ یہ حضرت اماں جانؓ کو دیدیں اور یہ کہتے ہوئے ان پر ایسی رقّت طاری ہوئی کہ وہ چیخیں مار مار کر رونے لگے۔ جب کچھ صبر آیا تو کہنے لگے میں غریب آدمی تھا جب چھٹی ملتی تو قادیان آنے کے لئے چل پڑتا مگر سفر کا بہت سا حصہ پیدل طے کرتا تاکہ سلسلہ کی خدمت کے لئے کچھ پیسے بچ جائیں مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا۔ یہاں آ کر دیکھتا کہ امراء سلسلہ کی خدمت میں بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں ، میرے دل میں خیال آتا کہ کاش میں حضرت صاحبؑ کی خدمت میں بجائے چاندی کے سونے کا تحفہ پیش کروں۔ آخر بچت کرنی شروع کی اور کرتے کرتے جب ایک پاؤنڈ کے برابر رقم ہوگئی تو میں نے پاؤنڈ لے لیا، پھر دوسرا لیا مگر جب میرے پاس کچھ پاؤنڈ جمع ہوگئے تو حضور علیہ السلام کی وفات ہوگئی۔‘‘
اکتوبر 1916ء میں حضرت منشی صاحبؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، نعش کو کندھا دیا اور آپؓ کی قبر حضرت اقدسؑ کے نزدیک تیار کرنے کا ارشاد فرمایا جو آپؓ کی آخری آرامگاہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں