حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ کی مسحورکُن تلاوتِ قرآن کریم

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 20؍اگست 2021ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍مئی 2013ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کی پُراثر تلاوت کے حوالے سے ایک مختصر تاریخی مضمون شامل اشاعت ہے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طرف سے کیے جانے والے مقدمہ حفظِ امن کے سلسلے میں حضرت مسیح موعودؑ 13؍فروری 1899ء کو بٹالہ اور پٹھانکوٹ تشریف لے گئے۔ اس سفر میں اتفاق ایسا ہوا کہ جس مقام پر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کا خیمہ لگا ہوا تھا اس کے نزدیک ہی ایک مکان میں حضرت مسیح موعودؑ قیام فرما ہوئے۔ راجہ غلام حیدر خاں صاحب تحصیلدار نے حضرت مسیح موعودؑ کے قیام کے اہتمام میں خاص حصہ لیا۔ حضور علیہ السلام کی جائے سکونت اور ڈپٹی کمشنر کے خیمہ کے درمیان میں ایک میدان تھا جہاں حضورؑ اور دیگر احباب نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے۔ مغرب کا وقت تھا۔ نماز کے لیے حضرت مسیح موعودؑ میدان میں تشریف لائے اور مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ حسب معمول امام بنے۔ انہوں نے نماز میں جو قرآن پڑھنا شروع کیا تو ان کی بلند مگر خوش الحان اور اثر میں ڈوبی ہوئی آواز مسٹر ڈوئی کے کان میں پڑی۔ وہ اپنے خیمے کے آگے کھڑے ہوکر ایک انہماک کے عالَم میں کھڑے قرآن سنتے رہے۔ جب نماز ختم ہوئی تو راجہ غلام حیدرخان صاحب کو بلا کر پوچھا کہ آپ کی ان لوگوں سے واقفیت ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں۔ کہا کہ مَیں نے ان لوگوں کو نماز میں قرآن پڑھتے سنا ہے۔ اس قسم کا ترنّم اور اثر مَیں نے کسی کلام میں کبھی محسوس نہیں کیا۔ کیا پھر بھی یہ نماز پڑھیں گے اور مجھے نزدیک سے سننے کا موقع دیں گے؟ را جہ صاحب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر کُل ماجرا عرض کیا۔ آپؑ نے فرمایا: ہمارے پاس بیٹھ کر قرآن سنیں۔ چنانچہ اب کی دفعہ نماز کے وقت ایک کرسی قریب بچھا دی گئی اور صاحب بہادر آکر ا س پر بیٹھ گئے۔ نماز شروع ہوئی اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے قرآن پڑھنا شروع کیا اور صاحب بہادر مسحور ہو کر جھومتے رہے۔
اسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اکتوبر 1898ء میں ایک رسالہ انگریزی میں شائع کیا اور گورنمنٹ انگریزی سے مراعات حاصل کرنے کے لیے امام مہدی کی پیشگوئی کا صریحاً انکار کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کو حکومت کا باغی قرار دیا۔ انگریزی حکومت نے اس پر انہیں چار مربعوں سے نوازا اور ان کی مخبریوں پر انگریز کپتان پولیس اور انسپکٹر پولیس (رانا جلال الدین صاحب) سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر بوقت شام قادیان پہنچ گئے اور حضرت اقدسؑ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ کپتان اور انسپکٹر پولیس مسجد کی چھت پر چڑھ گئے۔ حضورؑ اطلاع ملنے پر باہر تشریف لائے تو کپتان پولیس نے کہا ہم آپ کی خانہ تلاشی کرنے آئے ہیں، ہم کو خبر ملی ہے کہ آپ امیر عبدلرحمٰن خاں والی افغانستان سے خفیہ خط و کتابت کرتے ہیں۔ حضورؑ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بالکل غلط ہے، ہم تو گورنمنٹ انگریزی کے عدل و انصاف اور امن اور مذہبی آزادی کے سچے دل سے معترف ہیں اور ہم دین کو بزور شمشیر پھیلانے کو ایک بہتان عظیم سمجھتے ہیں لیکن اگر آپ کو شک ہے تو آپ بےشک ہماری تلاشی لے لیں۔ البتہ ہم اس وقت نماز پڑھنے لگے ہیں اگر آپ اتنا توقف کریں تو بہت مہربانی ہوگی۔ کپتان پولیس نے کہا کہ آپ نماز پڑھ لیں پھر تلاشی ہو جائے گی۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے پہلے اذان دی اور پھر نماز مغرب پڑھائی۔ پہلی رکعت میں سورت بقرہ کا آخری رکوع پڑھا۔ حضرت مولانا کی جادو بھری آواز سن کر کوئی مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا مگر اس دن تو اذان اور قراءت دونوں میں وہ بجلیاں بھری ہوئی تھیں کہ انگریز کپتان خدا کا پُرشوکت کلام سن کر محوِ حیرت ہو گیا اور اس کی تمام غلط فہمیاں خودبخود دُور ہوگئیں۔ وہ نماز ختم ہوتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اقدسؑ سے کہنے لگا کہ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ ایک راستباز اور خدا پرست انسان ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔ آپ لوگ جھوٹ بول نہیں سکتے۔ یہ دشمنوں کا آپ کے متعلق غلط پروپیگنڈا تھا۔ پس خانہ تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں، مَیں رخصت ہوتا ہوں۔ اور یہ عرض کرکے وہ قادیان سے چل دیا اور گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوا دی کہ مرزا صاحب کے خلاف پروپیگنڈا سرتا پا غلط ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں