محترم سید لال شاہ صاحب اورمحترم منشی محمد الدین صاحب آف چوڑاسگھر

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 20؍اگست 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍مئی 2013ء میں مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب نے اپنے مضمون میں جماعت چوڑاسگھر کے دو ابتدائی مخلصین کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم سیّد لا ل شاہ صاحب آف گجرات ظاہری حسن سے متّصف اور جوانی میں ہی صاحب ِکشف و رؤیا تھے۔ میراں پور ضلع شیخوپورہ کے پرائمری سکول میں ان کی تقرری ہوئی تو یہ علاقہ نہایت پسماندہ تھا۔لیکن لوگ سادات کی بہت عزت و احترام کرتے ۔یہی و جہ تھی کہ شاہ صاحب گو احمدی تھے لیکن کسی نے مخالفت نہ کی بلکہ ان کے کہنے پر معزز گھرانوں نے اپنی بچیوں کو سکول میں بھی بھیجنا شروع کردیا۔شاہ صاحب کی تبلیغ سے ایک مسجد کا امام گھرانہ اور چند معزز زمیندار گھرانوں کے نوجوان بھی احمدی ہوئے۔ اتفاق سے منشی محمدالدین صاحب (چندر کے راجپوتاں ضلع سیالکوٹ) بطور نائب مدرس اسی سکول میں تعینات ہوگئے اور جلد ہی شاہ صاحب کی تبلیغ اور حسن سلوک سے وہ بھی احمدی ہوگئے۔ جب میراں پور کے قریبی ایک گاؤں چوڑا سگھر کے نمبردار بیگ صاحب نے کوشش کرکے اپنے گاؤں میں پرائمری سکول منظور کروالیا تو منشی صاحب کا تبادلہ بطور مدرس وہاں ہوگیا۔ منشی محمد نذیر صاحب بطور نائب مدرس وہاں تعینات ہوئے اور وہ بھی تین چار سال بعد احمدی ہوگئے۔ الحمدللہ۔
میراں پور سے چھ سات میل کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں آنبہ کالیہ تھا جہاں پر کافی گھرانے احمدیوں کے تھے۔ مسجد بھی تھی۔ شاہ صاحب نے یہاں اپنا تبادلہ کروالیا اور پھر جلد ہی ان کی شادی قادیان کے ایک سید خاندان میں ہوگئی۔ان کی اہلیہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان سے میٹرک کرکے جےوی کی سندیافتہ تھیں۔چنانچہ شاہ صاحب اور گاؤں کے معززین نے کوشش کرکے آنبہ کالیہ میں لڑکیوں کا سکول بھی منظور کروالیا اور محترمہ اس سکول میں بطور مدرس مقرر ہوگئیں۔
جماعت آنبہ کالیہ آٹھ دس میل کے علاقے میں چھ سات دیہات کے گھر وں پر مشتمل تھی۔ صدر جماعت خود سیّد لال شاہ صاحب تھے اور سیکرٹری مال منشی محمد الدین صاحب تھے۔ ہر جمعے کو منشی صاحب اور دیگر احباب آنبہ کالیہ کی مرکزی مسجد میں جمعہ ادا کرتے۔ منشی صاحب جمعے کے بعد تو چندہ وصولی کا کام کرتے ہی تھے مگر ہر عید کی نماز پڑھنے کے بعد بھی وہ چندے کی وصولی کے لیے گھر سے نکل جاتے۔ اگر اُن کی اہلیہ کہتیں کہ عید کا دن تو گھر پر گزار لیا کریں تو وہ جواب دیتے کہ فلاں گاؤں کا فلاں آدمی عید پر ہی گھر میں مل سکتا ہے ورنہ اگلی عید تک انتظار کرنا پڑے گا۔
مکرم سید لال شاہ صاحب نے جلسہ سالانہ آنبہ کی بنیاد بھی رکھی جس میں مرکز سے علماء بلوائے جاتے۔اسی دوران غیراحمدیوں نے بغرض مناظرہ اپنے مولویوں کو بھی بلوانا شروع کردیا تو ہر سال مناظرہ بھی منعقد ہونے لگا۔ اس سلسلے کے آخری مناظرے کی تفصیل یوں ہے کہ شاہ صاحب کی درخواست پر حضرت مصلح موعودؓ نے جلسے اور مناظرے کے لیے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کو بھجوایا۔ مناظرے سے ایک روز قبل حضرت مولوی صاحبؓ نے آنبہ کالیہ پہنچ کر مخالف مناظر کو ایک خط عربی میں لکھا لیکن اس پر زیر،زبر اور نقطے نہ ڈالے۔ پھر یہ خط ایک سرکردہ آدمی کے ذریعے اس پیغام کے ساتھ بھجوادیا کہ اس خط پر زیر،زبر اور نقطے ڈال کر مجھے بھجوادو۔جب یہ خط مناظر مولوی صاحب کو ملا تو اگلے دن علی الصبح وہ ریل گاڑی پر سوار ہوگیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا۔اس کے ساتھ ہی مناظروں کا سلسلہ بھی بند ہوگیا۔
مکرم شاہ صاحب او ر منشی محمد الدین صاحب گرمیوں کی تعطیلات میں مکیریاں ضلع ہوشیار پور میں وقف عارضی پر جایا کرتے۔وہاں قیام ایک احمدی گھرانے میں ہوتا۔ایک بار گندم کی کٹائی پر گاؤں والوں نے اُس احمدی کی گندم کی کٹائی کا بائیکاٹ کردیا۔گندم گرنے کو تھی کہ ان دونوں صاحبان کو اطلاع ہوئی تو یہ چند مزید احمدیوں کے ہمراہ وہاں پہنچے اور اپنے بھائی کی فصل کاٹ کر اُس کے گھر تک پہنچادی۔یہ نظارہ دیکھ کر گاؤں والے سخت شرمندہ ہوئے اور آئندہ اس حرکت سے باز آگئے۔احمدیوں کا باہمی حسن سلوک دیکھ کر چند نوجوانوں نے وہاں بیعت بھی کرلی۔
الغرض ان دونوں بزرگوں نے بڑی باعزت اور فعال زندگی گزاری۔ ملازمت سے ریٹائرہوکر مکرم شاہ صاحب نے واربرٹن ضلع شیخو پورہ میں آڑھت کا کاروبار شروع کردیا اور منشی محمد الدین صاحب نے حکمت اور اجناس کی خریدو فروخت کا۔ یہ دونوں تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے۔ اس وقت شاہ صاحب کے دونوں بیٹے بھی فوت ہوچکے ہیں، ایک پوتا ڈاکٹر ہے جو اپنے بزرگوں کا نام تحریک جدید میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔منشی صاحب کا ایک بیٹا زندہ ہے جو بہت مخلص ہے نیز ایک پوتا مربی سلسلہ ہے ۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں