حضرت مولوی محمد شاہ صاحب تونسوی ؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍فروری 2007ء میں مکرم عبدالباسط صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس حضرت مولوی محمد شاہ صاحب تونسویؓ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
حضرت مولوی محمد شاہ صاحبؓ کا نام محمد تھا اور تحصیل تونسہ کی بستی مندرانی سے آپ کا تعلق تھا۔ بستی مندرانی میں جماعت کی بنیاد آپ نے ہی رکھی۔ بعدازاں تبلیغ کے لئے آسنور (کشمیر) بھجوائے گئے، وہیں شادی ہوئی اور وہیں وفات پائی۔
آپؓ کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم کے بارہ میں کچھ علم نہیں ہے۔ روایات کے مطابق آپ تحصیل علم کے لئے راولپنڈی گئے اور وہاں ایک احمدی حکیم سے طبابت سیکھنے لگے۔ حکیم صاحب کی وساطت سے ہی قادیان پہنچے تاکہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ سے فن طبابت سیکھ سکیں۔ یہیں 1901ء سے پہلے ہی آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپؓ کا قیام حضرت مولوی صاحبؓ کے کتب خانہ میں تھا اور طعام کا بندوبست بھی اُنہوں نے ہی کیا تھا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپؓ نے بستی مندرانی کے پڑھے لکھے احباب کے نام تبلیغی خطوط لکھنا شروع کئے۔ مگر پرانے عقائد کے حامل ہونے اور خواجگان تونسہ کے زیراثر ہونے کے باعث یہ اکابرین کچھ عرصہ تک احمدیت کے بارہ میں تردّد و ابہام کا شکار رہے۔ چنانچہ آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کی اجازت سے کچھ عرصہ کے لئے وطن چلے آئے تاکہ اپنے اقارب اور دیگر احباب کو بھی احمدیت کی آغوش میں لاسکیں۔ مندرانی میں آپؓ کی تبلیغ کے نتیجے میں پندرہ افراد کو تحریری بیعت کی سعادت حاصل ہوئی جن میں سے آٹھ کو بعد میں حضور علیہ السلام کی زیارت کی توفیق بھی ملی۔
اس کے بعد بھی جونہی موقع ملتاآپؓ ڈیرہ غازیخان تشریف لے جاتے اور مختلف جماعتوں میں جاکر دعوت و تربیت کے امور سرانجام دیتے۔ خط و کتابت کے ذریعے بھی قادیان کے احوال بطور خاص احباب جماعت تک پہنچانے کا اہتمام فرماتے رہتے۔
خلافت اولیٰ میں دعوت سلسلہ کی توسیع کیلئے مختلف علاقوں میں مربیان بھیجے گئے تو حضرت مولوی محمد شاہ صاحبؓ کو آسنور بھیجا گیا اگر چہ آپؓ کو تبلیغ کے لئے اپنے علاقہ میں جانے کی شدید خواہش تھی۔ لیکن نظام کی اطاعت کرتے ہوئے آسنور تشریف لے گئے۔ پھر وہیں آپ کی شادی ہوئی ۔آپؓ کی بیوی کا یہ حق مہر مقرر ہو ا کہ آپؓ انہیں قرآن مجید پڑھا دیں گے۔ اس رشتہ سے انہیں بھر پور جذباتی تسکین ہو ئی اور ان کے قیام و طعام کی ذمہ داری بھی مستقل بنیادوں پر ان کے سسرال نے قبول کرلی۔ آپؓ کے بیٹے مولوی محمد عبداللہ صاحب کو قادیان جاکر علم حاصل کرنے اور مولوی فاضل پاس کرنے کا موقع ملا۔ بعد میں تقسیم ہند کے بعد وہ فیصل آباد آگئے اور یہیں 80 کے عشرہ میں وفات پائی۔ محترم مولوی ظفر محمد ظفر صاحب بھی رشتہ میں آپؓ کے بھانجے لگتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں