حضرت میاں محمد عبد اللہ صاحبؓ عرف پروفیسر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍مارچ 2007ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب نے اپنے مضمون میں حضرت میاں محمد عبداللہ صاحب ؓ کا ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت محمد عبداللہ بیگ صاحبؓ عرف پروفیسر جہانگیر ولد ولی بیگ صاحب مغل قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ یوپی کے رہنے والے تھے اور بڑے بڑے سرکسوں کے مالک تھے۔ چونکہ شعبدہ بازی اور مداریوں کے کرتب وغیرہ جانتے تھے اس لیے آپؓ کا نام پروفیسر پڑگیا تھا۔ آپؓ کی بیعت کا سال معلوم نہیں۔ بیعت کے بعد آپ کی طبیعت میں بہت تبدیلی آئی اور اپنے کرتبوں اور سرکسوں کو چھوڑ دیا۔ اس وقت آپؓ کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ اور ان کی یہ حالت تھی کہ مہمان خانہ میں بیٹھ جاتے اور کوئی لڑکا آتا تو اُسے سیربین دکھاتے اور وہ آنہ یا دونّی دیدیتا اور اس میں گذارہ کرلیتے۔ کچھ عرصہ تک وہ پھیری کا کام بھی کرتے رہے۔
آپؓ کے دل میں حضرت مسیح موعودؑ کے لیے بہت غیرت تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے کئی بار اس واقعہ کا ذکر فرمایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعودؑ سے شکایت کی کہ پروفیسر صاحب بڑے تیز مزاج ہیں اگر کوئی ان کے سامنے حضورؑ کو بُرا بھلا کہے تو وہ اسے گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور مارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ جب پروفیسر صاحب قادیان آئے تو حضورؑ نے ان سے اس بارہ میں پوچھا اور فرمایا کہ آپ کو صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نرمی کی تعلیم دی ہے، سختی کی تعلیم نہیں دی۔ یہ سنتے ہی ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور کہنے لگے میں یہ بات ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ آپ کے پیر (یعنی محمد رسول اللہ ﷺ) کو اگر کوئی برا بھلا کہے تو آپ فوراً اُس سے مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں صبر کرو۔ پھر آپ نے حضورؑ کے وہ فارسی شعر پڑھے جو حضورؑ نے لیکھرام کی بدزبانی کی وجہ سے لکھے تھے: (ترجمہ) ’’ اے مخاطب! اگر تُو محمد رسول اللہﷺ سے دشمنی کرتا ہے تو جان لے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا تعالیٰ نے ایک تلوار بھی دی ہوئی ہے، تُو اس سے ڈر اور اگر تجھے یہ خیال ہے کہ اس زمانہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی کوئی کرامت نہیں تو محمد رسول اللہﷺ کے غلاموں کے پاس آ اور ان سے کرامت دیکھ لے‘‘۔
جس دن حضور کا وصال ہوا اس دن آپؓ بھی لاہور میں ہی تھے اور خواجہ کمال الدین صاحب نے آپ کو ہی خبرِ انتقال کی تاریں دینے کے لیے بھیجا تھا۔
1916ء میں دہلی میں جماعت احمدیہ نے ایک جلسہ منعقد کیا جس میں مرکز سے کئی بلند پایہ بزرگوں نے جاکر خطاب فرمایا۔ حضرت عبد اللہ صاحبؓ بحیثیت منادی تشریف لے گئے اور جلسہ سے قبل شہر میں خوب تشہیر کی۔ 1917ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ انگلستان تشریف لے گئے تو بمبئی بندرگاہ پر الوداع کرنے والوں میں آپؓ بھی شامل تھے۔ بمبئی میں بھی آپ نے بہت محنت سے تبلیغ کی۔
آپؓ خدا تعالیٰ کے فضل سے ابتدائی موصیان میں سے تھے اور وصیت نمبر 266تھا۔ آپؓ نے 2؍ اپریل 1919ء کو پانی پت میں وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں