حضرت نواب بی بی صاحبہ

روزنامہ الفضل ربوہ 27فروری 2012ء میں مکرم حمیداللہ ظفر صاحب نے اپنی دادی حضرت نواب بی بی صاحبہ (المعروف ماں جی) کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
محترمہ نواب بی بی صاحبہ پسرور ضلع سیالکوٹ کے قریبی گاؤں کھوکھر کی رہنے والی تھیں۔ آپ کے والد محترم گاؤں کے نمبردار اور اچھے زمیندار تھے۔ اُن کا ایک ہی بیٹا تھا۔ آپ کی شادی داتازیدکا کے حیات محمد صاحب سے ہوئی جن کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں تھی۔
محترمہ نواب بی بی صاحبہ اپنی جوانی سے ہی بہت نیک خاتون تھیں اور آپ کے خاوند بھی بہت نیک دعا گو بزرگ تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کی زمینوں میں بہت اناج ہوتا تھا۔ وہاں ایک بوٹی (بُرو) اُگتی تھی جسے کھاکر جانور مر بھی سکتا تھا لیکن آپ اپنے جانور کھلے چھوڑ دیتے اور کہا کرتے کہ یہ بُوٹی اللہ میاں نے میرے جانوروں کے لئے اُگائی ہے۔ چنانچہ آپ کے جانور کبھی اُس بُوٹی سے متاثر نہیں ہوئے لیکن اگر کسی اَور نے آپ کی دیکھادیکھی اپنے جانور اُس جگہ چھوڑے تو اُس کو نقصان پہنچا اور بعض دفعہ اُن کا جانور مر بھی گیا۔
جب حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ حضرت حسین بی بی صاحبہؓ نے احمدیت قبول کرلی تو چونکہ اُن سے قربت بھی تھی نیز دونوں گھر آمنے سامنے تھے اس لئے وہ نواب بی بی صاحبہ کو تبلیغ کیا کرتی تھیں۔ پھر وہ آپ کو لے کر قادیان بھی گئیں۔ اگرچہ نواب بی بی صاحبہ نے اس حقیقت کو جان لیا کہ حضرت مسیح موعودؑ برحق ہیں تاہم بیعت کئے بغیر واپس آگئیں۔ لیکن گھر آکر یہ احساس شدّت اختیار کرگیا کہ احمدیت سچّی ہے چنانچہ پھر خفیہ طور پر بذریعہ خط حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے خاوند کو علم ہوگیا تو انہوں نے آپ کو احمدیت سے منحرف کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا اور بہت تشدّد بھی کیا۔ یہاں تک کہ چارپائی کے پایوں کے نیچے آپ کے دونوں ہاتھ رکھ کر خود اوپر بیٹھ جاتے۔ لیکن آپ یہ تشدد برداشت کرتی رہیں یہاں تک کہ حضرت حسین بی بی صاحبہؓ کے والد محترم نے حیات محمد صاحب کو ایسا ظلم کرنے سے بہت سختی سے روکا۔ آخرکار آپ کا یہ صبر رنگ لایا اور حیات محمد صاحب نے بھی بیعت کرلی۔
حضرت نواب بی بی صاحبہ ہمہ وقت ذکرالٰہی اور دعاؤں میں مصروف رہتیں۔ لوگ کثرت سے دعا کروانے اور دَم کروانے کے لئے آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ آپؓ خود بیان فرماتی ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد جب ابھی اس کا اظہار اپنے گھر میں نہیں کیا تھا تو داتازید کا کی کچّی احمدیہ مسجد کو پختہ کروانے کے لئے چندہ اکٹھا کیا جارہا تھا لیکن آپؓ کے پاس کچھ نہیں تھا جو پیش کرسکتیں۔ اسی اثناء میں آپ کے خاوند نے اپنا ایک بَیل بیچ کر رقم آپ کو رکھنے کے لئے دی تو آپ نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُس رقم میں سے پانچ روپے مسجد کی تعمیر کے لئے دے دیئے اور پھر دعا شروع کردی کہ اے اللہ! میری پردہ پوشی فرمانا۔ چند دن بعد آپ کے خاوند نے رقم مانگی تو آپ کمرے میں گئیں اور دروازہ بند کرکے دعا کی کہ مولا! تُو ہی میری عزت رکھ سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بشاشت عطا فرمادی تو رقم لاکر اپنے خاوند کو دے دی۔ انہوں نے رقم گِنی اور جاکر ایک بَیل خرید لیا۔ بَیل کے مالک نے دو مختلف افراد سے رقم گنوائی تو بھی پوری نکلی۔
آپ کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات کے احمدیوں کے علاوہ غیر بھی گواہ ہیں۔ گاؤں کے ماحول میں اکثر پھل بیچنے والے اپنے سر پر ٹوکرا اٹھائے آتے اور کچھ پھل آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے۔ آپ وہ پھل محلہ کے بچوں میں تقسیم کردیتی تھیں اور اپنی پوتیوں کو بھی اُتنا ہی حصّہ دیتی تھیں جتنا دوسری بچیوں کو ملتا تھا۔
ایک صبح آپ بیدار ہوئیں تو تہجد، نماز فجر اور تلاوت قرآن کریم سے فارغ ہوکر بے چینی سے اپنے بیٹے کا انتظار کرنے لگیں جو نماز فجر ادا کرنے مسجد گئے ہوئے تھے اور مقامی سکول میں استاد تھے۔ جب وہ آئے تو آپ نے انہیں کہا کہ جلدی قاضی کوٹ (ضلع گوجرانوالہ) جاؤ جہاں تمہارا بھائی اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے۔ بیٹے نے تھوڑا تامّل کیا تو فرمانے لگیں کہ سیدھے وہاں جاو ورنہ تم اپنے بھائی کو نہیں مل سکوگے۔ اس پر بیٹے نے بے دلی سے سائیکل اٹھائی لیکن بجائے قاضی کوٹ جانے کے، پہلے اپنے سکول گئے، وہاں سے رخصت لی اور پھر قاضی کوٹ روانہ ہوگئے۔ جب وہ قاضی کوٹ پہنچے تو علم ہوا کہ دس منٹ پہلے اُن کے بھائی کی وفات ہوچکی تھی۔
ایک مرتبہ آپ کے بیٹے نے آپ کو نئے کپڑے سلوا کر دئے۔ آپ نے وہ کپڑے پہنے تو کسی عورت نے آپ کو اپنے کپڑے دکھائے جو پھٹے پرانے تھے۔ آپ نے اسی وقت نئے کپڑے اُسے دے دیئے۔ جب آپ کے بیٹے کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ اس پر آپ افسردہ ہوکر کہنے لگیں آئندہ کبھی تم مجھے نہ لا کر دینا، مَیں نے جس کی راہ میں دیئے ہیں وہ خود ہی مجھے عطا فرمائے گا۔ کچھ دیر بعد دروازہ پر دستک ہوئی۔ کھولا تو ایک آدمی ٹوکری اٹھائے کھڑا تھا۔ کہنے لگا کہ مَیں فلاں گاؤں سے آیا ہوں اور فلاں عورت نے مٹھائی اور دو سوٹ ماں جی آپ کے لئے بھیجے ہیں وہ آپ سے اولاد نرینہ کے لئے دعا کے لئے کہا کرتی تھی اور آج اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹا دیا ہے۔ اُس شخص کے جانے کے بعد آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم نے مجھے لاکر کیا دیا تھا کہ جب میں نے خدا کی راہ میں دے دیا تو اس قدر غصے ہو رہے تھے، دیکھو میرے مولیٰ نے جس کی خاطر میں نے غریب عورت کو اپنے کپڑے دیئے تھے ایک نہیں دو جوڑے کپڑوں کے بھیجے ہیں اور مٹھائی بھی بھیجی ہے۔
علاقہ کاہر چھوٹا بڑا آپ کا احترام کرتا۔ آپ کو جو لڑکی بھی ملتی آپ اس کو نماز کی طرف توجہ دلاتیں۔ مخلوق خدا سے بہت ہمدردی کرنے والا وجود تھیں۔ جانوروں اور پرندوں تک کا خیال رکھتی تھیں۔ جانور اور پرندے بھی مانوس ہوکر آپ کے آس پاس پھرتے رہتے تھے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا تو گرمیوں کی ایک رات میرے والد شدید بیمار ہوگئے۔ انہوں نے ہم بچوں اور ہماری والدہ کو بلایا، بچوں کو گلے سے لگایا اور نصائح کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میرے بعد زمین وغیرہ بیچ کر ربوہ چلے جانا اور وہاں بچوں کو پڑھانا۔ پھر ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے۔ ہم سب نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔ سارا گاؤں اُمڈ آیا۔ گھوڑی بھیج کر قریبی گاؤں سے ایک احمدی ڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ انہوں نے مریض کی حالت دیکھ کر مایوسی کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ کفن دفن کا انتظام کرلیں۔ واپس جاکر اُس ڈاکٹر نے کچھ لوگوں کو بھی بتادیا کہ نصراللہ خان کا آخری وقت آگیا ہے۔ اسی اثناء میں ماں جی (حضرت نواب بی بی صاحبہ) کو اپنے بیٹے کی حالت کا علم ہوا تو آپ نے وضو کیا اور جائے نماز پر سجدہ ریز ہو گئیں۔ گریہ وزاری اور بے قراری انتہا پر تھی۔ فجر کی اذان کے وقت ایک دوسرے ڈاکٹر آئے اور انہوں نے کہا میں کوشش کرتا ہوں لیکن کچھ کہہ نہیں سکتا کہ یہ بچ سکیں گے یا نہیں۔ گیارہ بجے کے قریب مجھے اُس سکول کے چند اساتذہ ملے جہاں والد صاحب پڑھاتے تھے اور پوچھنے لگے کہ جنازہ کب ہونا ہے؟ وہاں موجود ایک بزرگ اُن کو کہنے لگے: توبہ کرو ابھی ڈاکٹر کوشش کر رہا ہے۔ دعا کرو، اللہ انہیں صحت دے۔
گھر میں موجود سب لوگ ماں جی کی ضعیف العمری کے باعث پریشان تھے کہ وہ آدھی رات سے سجدہ میں پڑی ہیں، نہ کھاتی ہیں نہ پیتی ہیں اور ایک ہی التجا اپنے ربّ سے کئے جارہی ہیں کہ اللہ میاں! مجھے میرا پتر(بیٹا) دے دے۔ دوپہر کو کچھ ادویات لاہور سے منگواکر استعمال کرائی گئیں۔ سہ پہر کو جب دن ڈھلنے لگا تو ماں جی سجدہ سے اٹھ گئیں اور کہنے لگیں اللہ میاں نے میرا پتّر مجھے واپس کر دیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد والد صاحب کو ہوش آنے لگا۔ پھر آنکھیں کھول دیں لیکن وہ نہ چل پھر سکتے تھے اور نہ حافظہ ہی کام کرتا تھا، کسی رشتہ دار یا بچوں کو بھی نہیں پہچانتے تھے۔ دو تین ماہ تک وہ ایسے ہی بیمار رہے۔ لوگ مجھے پکڑ کر اُنہیں کہتے تھے کہ یہ آپ کا بیٹا ہے لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ نہیں تم مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ اُن کو قرآن مجید جو یاد تھا سب بھول چکے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ صحت بحال ہوتی گئی اور حافظہ بھی بحال ہوتا گیا۔ بعدازاں وہ ایک لمبا عرصہ زندہ رہے، اچھی صحت بھی پائی۔ سکول میں پڑھاتے رہے اور بالآخر ریٹائر ہوکر پنشن بھی لیتے رہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے والد صاحب نے مجھے اور میری بہن کو ربوہ سکول میں داخل کروادیا تھا۔ دسمبر کی ایک رات جب سب گاؤں کے گھر میں کمرے میں سوئے ہوئے تھے کہ ماں جی نے اُٹھ کر دروازہ کھول دیا اور پوچھنے پر بتایا کہ مجھے کسی نے باہر آواز دی ہے۔ پھر آپؓ بستر پر لیٹ گئیں اور نام لے لے کر سب کو سلام بھجوانے کی تاکید کرنے لگیں اور ساتھ یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب میرا آخری وقت آگیا ہے۔ والد صاحب تسلّی دیتے تو ماں جی میرا اور بہن کا نام لے کر کہتیں کہ اب انہوں نے مجھے کہاں ملنا ہے، میرا اُن کو پیار دینا۔ انہی باتوں کے دوران فجر کی اذان شروع ہوئی اور ماں جی نے ایک لمبا سانس لے کر اپنی جان مالک حقیقی کے سپرد کر دی۔ آپ نے 108 سال کی لمبی عمر پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں