حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب ؓ

حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب ؓ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ 21؍مئی 1995ء میں ہفت روزہ ’’فرق‘‘ کے شکریہ کے ساتھ شائع ہوا ہے جسے محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے ذاتی حوالہ سے تحریر فرمایا ہے۔

پاکستان کے دو عظیم سپوت

آپ لکھتے ہیں کہ چودھری صاحب سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں پہلی بار بغرض تعلیم برطانیہ پہنچا۔ حضرت چودھری صاحب کے ایک بھتیجے بھی میرے ہمسفر تھے جن سے ملنے کے لئے آپؓ بندرگاہ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان دنوں آپؓ ہندوستان کی وفاقی عدالت کے جج تھے۔ کتابوں سے بھرا ہواوزنی بکس میرے پاس تھا جبکہ جنگ کی وجہ سے قلی ناپید تھے۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے ایک طرف سے بکس کو پکڑا اور کہا ’’دوسری طرف سے تم پکڑو، ہم مل کر اسے ٹرین تک لے چلتے ہیں‘‘… ایک ناچیز طالبعلم کے لئے یہ ایک بڑا حیران کن استقبال تھا۔ لندن تک ٹرین میں اکٹھے سفر کیا، موسم کی سردی کے زیرِ اثر مجھ پر کپکپاہٹ طاری تھی۔ چنانچہ چودھری صاحب نے اپنا ایک موٹا اور دبیز کوٹ مجھے عطا کیا۔ اس کے بعد 1951ء میں جب وہ وزیر خارجہ تھے اور جنرل اسمبلی میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے تو پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ میں بھی تشریف لائے جس کا میں فیلو تھا۔ چنانچہ دو روز آپؓ کی صحبت میں گزارے۔ لیکن ان کی شخصیت کو سمجھنے کا موقع اس وقت ملا جب وہ ریٹائرڈ ہوکر مسجد فضل لندن کے احاطہ میں رہائش پذیر ہوئے اور میری یہ درخواست منظور کی کہ وہ اتوار کا ناشتہ میرے ساتھ کیا کریں گے۔ ان دنوں وہ دینی کتب کے تراجم میں مصروف تھے اور بغیر کسی چھٹی کے باقاعدگی سے نو بجے صبح کام کا آغاز کردیتے تھے۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ چودھری صاحبؓ کا حافظہ کسی بھی غلطی سے یکسر مبرا تھا۔ 50 ، 60 سال قبل گزرنے والے واقعات میں اشخاص کے ناموں کے علاوہ تاریخ، دن اور وقت سے متعلق بھی ان کی یادداشت بالکل درست تھی۔ مسلمان ممالک کی آزادی کے حصول کے سلسلہ میں اقوامِ متحدہ میں بڑی طاقتوں سے اپنی جھڑپوں کے واقعات سنایا کرتے تھے۔ شاہ فیصل کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں قیام کی دلوں کو گرما دینے والی تفصیل ہماری درخواست پر کئی بار سنائی۔ ان واقعات کے پس منظر میں جو چیز نمایاں تھی وہ حضرت چودھری صاحبؓ کا توکل علی اللہ تھا۔
ایک مرتبہ حضرت چودھری صاحبؓ کمر درد کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے تو میں عیادت کے لئے حاضر ہوا اور ساتھ ’’شمائل ترمذی‘‘ لے گیا جس میں آنحضرت ﷺ کے روزمرہ حالات درج ہیں۔ میں نے کہا کہ کسی وقت اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وہ کتاب آپکے پاس چھوڑ کر میں ٹریسٹے چلا گیا اور جب دو ماہ بعد واپس آیا تو چودھری صاحبؓ نے اس کتاب کے انگریزی ترجمہ کی مطبوعہ جلد پیش کی جس کا انتساب میرے نام تھا۔
مجھے آخری بار ان کا ہمسفر ہونے کا موقع تب ملا جب وہ صدرِ مملکت مراکش کی اکیڈمی کے افتتاحی اجلاس میں شریک تھے۔ ایک تقریب میں میں نے دیکھا کہ شاہ موصوف بذات ِ خود آپؓ کی طرف ایسے انداز میں ذاتی توجہ دے رہے تھے کہ کسی اور کی طرف میں نے اس انداز سے شاہ موصوف کو متوجہ ہوتے نہیں دیکھا … اس کے بعد محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب حضرت چودھری صاحبؓ کی چند مزید خوبیوں کا بیان کرکے آپؓ کی ہی ایک تحریر پر مضمون ختم کرتے ہیں جس میں حضرت چودھری صاحبؓ نے اعلیٰ دنیاوی اعزازات کے حصول کے بعد خدمتِ دین کی توفیق ملنے پر خدا تعالیٰ کے حضور اظہارِ تشکّر کیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں