حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍مارچ 2002ء میں حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحبؓ کی سیرۃ پر ایک مضمون مکرم خلیفہ صباح الدین احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آپؓ کے والد مولوی عبدالغنی نومسلم (سابق سردار رمپ سنگھ) کا اصل وطن حجرہ شاہ مقیم علاقہ قصور تھا۔ جبکہ دادا سردار صوبہ سنگھ سکھوں کی فوج میں صوبہ دار تھے۔ سکھاشاہی میں یہ خاندان برباد ہوگیا اور آپؓ کے والد صغرسنی میں یتیم ہوگئے تو ایک رشتہ کے چچا انہیں اپنے پاس امرتسر لے آئے۔ وہ انہیں بہت پیار کرتے تھے لیکن تعلیم کے خلاف تھے اس لئے آپؓ کے والد صاحب نے خفیہ طور پر تعلیم حاصل کرکے اپنا شوق پورا کرنا شروع کیا۔ جب کافی استعداد ہوگئی تو مولوی غلام علی کی شاگردی میں آئے جو پنجاب میں وہابیت کے موجد خیال کئے جاتے تھے۔ پہلے انگریزوں کو پڑھاتے رہے پھر اُن کے کسی پادری شاگرد نے انہیں انبالہ چھاؤنی کے مشن سکول میں مدرس فارسی مقرر کردیا۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کو بچپن سے ہی تحقیق مذاہب کا شوق تھا۔ سب سے پہلے اسلام کو دیکھا۔ علمیت اس قدر نہیں تھی کہ خود اس کی حقیقت کو معلوم کرسکتے۔ عیسائیت، سکھ ازم اور سناتن دھرم وغیرہ بھی آپکی توجہ کو جذب نہ کرسکے۔ چنانچہ جب آپ مشرقی افریقہ گئے تو دہریت آپ پر غالب آچکی تھی۔ وہاں دو احمدی ڈاکٹروں کی پرہیزگاری اور قابلیت سے بھی زیادہ متأثر نہ ہوئے البتہ یہ دعا ضرور شروع کردی کہ اگر یہ سلسلہ برحق ہے تو آپ پر ظاہر ہوجائے۔
اسی اثناء میں آپ کے بڑے بھائی حضرت علی اظفر صاحبؓ نے ایک احمدی ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ سے متأثر ہوکر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی۔ اُنہوں نے یہ اطلاع آپ کو بھجوائی تو آپ پر بہت خوشگوار اثر ہوا۔ پھر اپنے بھائی کی دین کی طرف توجہ نے آپ کو بھی بیعت کرنے پر مجبور کردیا۔ بیعت کرنے کے بعد اتفاقاً آپ کو ایک ڈیوٹی پر حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ کی معیت میں ہندوستان جانا پڑا۔ بمبئی سے جہاز کی واپسی سات روز بعد تھی چنانچہ آپ دونوں نے قادیان کا قصد کیا۔ آپ کے خیال میں قادیان کوئی آراستہ شہر تھا۔ لیکن وہاں پہنچے تو اس کے برعکس پایا۔ حضرت مسیح موعودؑ بھی سادہ لباس میں اور سادگی کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ لیکن جب بیعت کی تو گویا کایا ہی پلٹ گئی۔ قادیان میں صرف ایک دن اور ایک رات قیام رہا، پھر واپس افریقہ چلے آئے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد بڑے بھائیوں کے مشورہ پر چھوٹے بھائی بہنوں اور والدہ کی دیکھ بھال کیلئے ہندوستان منتقل ہوگئے۔ امرتسر میں آپؓ کا گھر تھا۔ کچھ عرصہ وہاں اپنی والدہ کے پاس قیام کیا اور پھر اُن کی اجازت سے چھوٹے بہن بھائیوں کو لے کر قادیان منتقل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد والدہ بھی قادیان آگئیں۔ وہاں کے ماحول نے اُن کے دل کے وسوسے دُور کردیئے۔ ایک روز حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کی تو اپنا ایک پرانا خواب یاد آگیا جس میں ایک بزرگ کو دیکھا تھا۔ چنانچہ فوراً بیعت کرلی۔ آپؓ کا نام حضرت جان بی بی صاحبہ تھا، وصیت نمبر 130 تھا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔ اپنی بیعت کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی حضرت مراد خاتون صاحبہؓ کو بھی لے جاکر حضورؑ کی بیعت کروادی۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد پر ہی حضرت مراد خاتون صاحبہؓ کی شادی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ سے طے پائی۔
مکرم ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ نے مکران (بلوچستان) اور ریاست بہاولپور میں بھی ملازمت کی جہاں افواج کے دو رسالوں کے میڈیکل آفیسر اور ڈسپنسری کے انچارج رہے۔ آپ بہت وجیہ، خاموش طبع اور پُروقار شخصیت کے مالک تھے، بہت مہمان نواز تھے۔ عبادت کے معاملہ میں تصنع بالکل نہیں تھا۔ ادب اور لکھنے سے لگاؤ تھا۔ ’’پاکستان نام‘‘ کے نام سے کئی پمفلٹ شائع کئے جن میں حکومت اور عوام کے لئے قابل قدر مشورے ہوتے تھے۔ قادیان میں حضرت بابو محمد افضل خان صاحبؓ آف لاہور کے ساتھ مل کر ایک اخبار کا ڈیکلریشن حاصل کیا جس کا نام حضرت مسیح موعودؑ نے ’’البدر‘‘ رکھا۔ اخبار کے انتظامی امور حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کے ذمہ تھے۔ آپؓ کی بعض نظمیں اور غزلیں بھی شائع شدہ ہیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ آپؓ 14؍ جنوری 1955ء بروز جمعہ وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں