اصحاب احمد کے حفاظت الٰہی کے واقعات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جنوری 2003ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہؓ کی الٰہی حفاظت کے واقعات پر مشتمل ایک مضمون (مرتبہ: مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب) شامل اشاعت ہے۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو 1917ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جب یہ حکم دیا کہ آپؓ دعوت الی اللہ کے لئے انگلستان جائیں تو اُس وقت جنگ عظیم کی وجہ سے سمندری سفر بہت خطرناک تھا۔ چنانچہ بعض عورتوں نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ ابھی ان کی روانگی کو ملتوی کردیا جائے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ گیہوں چکی میں پسنے کے لئے ڈالے جاتے ہیں مگر ان میں سے کچھ اوپر بھی رہ جاتے ہیں جو نہیں پستے۔ مفتی صاحبؓ بھی بچے ہوئے گیہوں ہیں، پسنے والے نہیں۔
چنانچہ حضرت مفتی صاحبؓ بمبئی سے سمندری سفر پر روانہ ہوگئے اور جہاز کے روانہ ہوتے ہی آپؓ نے دعوت الی اللہ کا آغاز کردیا۔ تین دن کے اندر اندر ایک انگریز نے احمدیت قبول کرلی۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور متعدد افراد احمدی ہوئے۔ جب جہاز بحیرہ روم میں داخل ہوا تو کپتان نے تمام مسافروں کو ڈیک پر بلاکر کہا کہ یہ سمندر جرمن جہازوں سے بھرا پڑا ہے اور معلوم نہیں کب ہمارا جہاز اُن کے نشانے سے ڈوب جائے۔ پھر اُس نے ایک سیٹی بجائی کہ جب یہ سیٹی بجائی جائے تو فوراً جہاز کے اطراف میں لگی ہوئی کشتیوں میں بیٹھ کر سمندر میں اُتر جائیں، پھر یہ کشتیاں جہاں آپ کو لے جائیں وہ آپ کی قسمت۔ کپتان کے لیکچر کے بعد جہاز کے مسافر سخت پریشان ہوگئے۔ حضرت مفتی صاحبؓ اپنے کمرہ میں آئے اور گڑگڑا کر دعا کی۔ رات آپؓ نے خواب میں ایک فرشتے کو یہ کہتے ہوئے سنا: صادق! یقین کرو، یہ جہاز سلامت پہنچے گا۔ چنانچہ آپؓ نے یہ خوشخبری مسافروں کو سنادی جبکہ کئی جہاز اس جہاز کے دائیں بائیں تباہ ہوئے اور اُن کی لکڑیاں سمندر میں تیرتی ہوئی دیکھی گئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؓ کا جہاز بحفاظت پہنچادیا۔
مکرم ڈاکٹر لعل محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ 10؍جنوری 1930ء کو مَیں قادیان سے لکھنؤ کے لئے روانہ ہونے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو دیکھا کہ حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ ایک مٹکا ہاتھوں میں اٹھائے ڈبوں میں جھانکتے پھرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کوئی لکھنؤ جانے والے صاحب بھی ہیں۔ مَیں نے عرض کیا: مَیں جا رہا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: اس مٹکے میں سات آٹھ سیر گھی ہے، یہ میرے بیٹے عبدالرحمن کو دیدینا جو لکھنؤ میں پڑھتا ہے۔ مَیں نے مٹکا لے لیا تو مولوی صاحبؓ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور میرے بخیروعافیت پہنچنے کے لئے دعا کروائی جس میں مَیں بھی شریک ہوا۔ پھر آپؓ چلے گئے۔ جب مَیں امرتسر سے دوسری گاڑی میں سوار ہوا تو رات بارہ بجے کے قریب ایک دھماکہ محسوس ہوا اور یوں لگا جیسا گاڑی کسی کنوئیں میں گر رہی ہے۔ مَیں نے درود شریف پڑھنا شروع کیا۔ چند ہی سیکنڈ میں وہ کیفیت دُور ہوگئی۔ گاڑی رُک گئی، بجلی بھی بند ہوگئی۔ گارڈ چیخ چیخ کر مسافروں کو باہر نکلنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ مَیں کھڑکی کے راستہ نیچے اُترا تو معلوم ہوا کہ کسی مال گاڑی کے ساتھ ٹکر ہوگئی ہے اور میرے ڈبہ سے اگلے والے ڈبے ایک دوسرے میں پیوست ہوچکے ہیں، لوگ پھنسے ہوئے تڑپ رہے تھے۔… کچھ دیر بعد مجھے اپنے سامان اور مٹکے کا خیال آیا۔ دیکھو تو حیرت ہوئی کہ دنیا اُلٹ پلٹ ہوگئی لیکن مٹکا وہیں پڑا تھا جہاں رکھا ہوا تھا۔ حضرت مولوی صاحبؓ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی ہر طرح سے بچالیا۔ چند گھنٹے بعد دوسری گاڑی ملی اور مَیں نے لکھنؤ پہنچ کر مٹکا عبدالرحمن کو پہنچا دیا۔
حضرت مولانا محمد حسین صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم جہاز میں کام کر رہے تھے کہ حکم آیا کہ جہاز سب کارکنوں کے ساتھ بغداد بھیج دیا جائے گا اس لئے سب کارکن اپنا سامان جہاز میں لے آئیں۔ اُس وقت سخت جنگ ہورہی تھی اس لئے میرے ساتھیوں نے یہ سنتے ہی رونا شروع کردیا۔ مگر مَیں نے نفل پڑھنے شروع کردیئے۔ جہاز کی روانگی کا دو مرتبہ وسل ہوچکا تھا، روانگی میں دو منٹ باقی تھے کہ جنرل صاحب کا حکم آیا کہ اُن کے معائنہ کے بغیر جہاز روانہ نہ کیا جائے۔ وہ وہاں پہنچے اور معائنہ کے بعد جہاز کی روانگی کی منظوری دیدی۔ پھر اچانک اُن کی نظر ہم کارکنوں پر پڑی تو پوچھا کہ یہ فٹر کنارہ کے ہیں یا پانی کے۔ کپتان نے بتایا کہ کنارہ کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف پانی کے فٹر جہاز کے ساتھ جائیں۔ چنانچہ ہم جہاز سے اُتر آئے اور جہاز روانہ ہوگیا۔ رات دو بجے اطلاع آئی کہ کہ دشمن نے جہاز غرق کردیا ہے اور ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں