خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 6؍ اگست2004ء

جلسہ سالانہ کے کامیاب وبابرکت انعقاد پر اللہ تعالٰی کا شکر بجالائیں
نظام خلافت اور نظام وصیت کابہت گہرا تعلق ہے
نظام وصیت کو اب اتنا فعال ہو جانا چاہئے کہ سو سال بعد
تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف قائم رہیں بلکہ اور بڑھیں
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
6؍ اگست2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن (یو۔ کے)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمدللہ کہ جماعت احمدیہ یو۔ کے۔ کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو لے کر آیا اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور برکات بانٹتا ہوا چلا گیا۔ کئی لوگوں نے خطوط میں اور زبانی بھی اظہار کیا کہ ایک عجیب روحانی کیفیت تھی جوہم اپنے اندر محسوس کرتے رہے۔ خدا کرے کہ یہ روحانی کیفیت عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ رہنے والی اور دائمی ہو۔ ہم ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ ا للہ تعالیٰ کے جن فضلوں کو ہم نے سمیٹا ہے ان کو اپنی زندگی پر لاگو بھی کرتے رہیں- اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہیں- مقررین کی باتیں ان مقررین کی طرح نہ ہوں جن کے جوشیلے خطابات کا صرف وقتی اثر تو ہوتا ہے لیکن مجلس سے اٹھتے ہی وہ اثر زائل ہو جاتا ہے۔ یہی دنیا اور اس کے دھندوں میں انسان کھویا جاتا ہے۔ ترقی کرنے والی اور انقلاب پیدا کرنے کا دعویٰ کرنے والی قوموں کے یہ طریق نہیں ہوا کرتے۔ وہ جب ایک کام کرنے کا عزم لے کر اٹھتی ہیں تو پھر اس کو انتہا تک پہنچانے کی بھی کوشش کرتی ہیں-
لیکن جو الٰہی جماعتیں ہوتی ہیں ان کا ایک اور خاصہ بھی ہوتا ہے ان کو اپنی ترقیات اپنی کسی قابلیت یا اپنی کسی محنت یا اپنی کسی خوبی کی وجہ سے نظر نہیں آ رہی ہوتی بلکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضلوں کی وجہ سے ہے نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے اور پھر جب جماعت بحیثیت جماعت بھی اور ہر فرد جماعت انفرادی طور پر بھی ان فضلوں کو دیکھتے ہوئے خداتعالیٰ کا شکرادا کرتا ہے اس کے آگے جھکتا ہے اس کے آگے گڑ گڑاتا ہے کہ اے خدا! تو نے اس قدر فضل ہم پر کئے جو بارش کے قطروں کی طرح برستے جا رہے ہیں ہماری کسی غلطی، ہماری کسی نالائقی، ہماری کسی نااہلی کی وجہ سے بند نہ ہو جائیں- اس لئے ہمیں توفیق دے ہمیں طاقت دے اور ہم پر مزید فضل فرما کہ ہم تیرے ان فضلوں کا شکر ادا کر سکیں، کیونکہ شکر ادا کرنے کی طاقت بھی اے خدا! تجھ سے ہی ملتی ہے۔ جب یہ سوچ ہو گی اور ہم اس طرح دعائیں بھی کر رہے ہوں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے، اللہ تعالیٰ کی اس پیار بھری تسلی کے حقدار بھی بن رہے ہوں گے کہ

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم :8)۔

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا۔ اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے اس وعدے اور اس اعلان کے حقدار ٹھہریں اور کبھی نافرمانوں اور ناشکروں میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ بنیں- جیسا کہ فرماتا ہے۔

وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم:8)

یعنی اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہے۔ اس لئے ہمیشہ شکر گزاروں میں سے بنے رہو۔ شکر گزاری کے بھی مختلف مواقع انسان کو ملتے رہتے ہیں اور جو مومن بندے ہیں وہ تو اپنے ہر کام کے سدھرنے کو، ہر فائدے کو، ہر ترقی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں اور ہمیشہ عبد شکور بنے رہتے ہیں-
جلسہ سالانہ برطانیہ گزشتہ اتوار کو ختم ہوا جیسا کہ میں نے کہا احمدیوں نے اس نعمت سے فائدہ اٹھایا لیکن یہ فائدہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنا رہے گا۔ جلسے کا انتظام ہوتا ہے اور چھ مہینے پہلے ہی انتظامیہ کو اس کی فکر شروع ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو انتظامیہ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس کے اس احسان پر اس کے آگے مزید جھکنا چاہئے کہ تما م کام بخیرو خوبی تکمیل کو پہنچے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ خدمت کر سکیں- باوجود بہت سی کمزوریوں اور نااہلیوں کے اس نے پردہ پوشی فرماتے ہوئے اس جلسہ کو خیریت سے اختتام تک پہنچایا۔ تو جب اس طرح اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہم اس کے آگے جھکیں گے تو آئندہ یہ فضل اس کے وعدوں کے مطابق پہلے سے بھی بڑھ کر ہم پر نازل ہوں گے۔ پھر انہیں فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے تمام کارکنان مہمانوں کے بھی شکر گزار ہوں گے کہ انہوں نے بھی تعاون کیا اور میزبانوں کی کمیوں پر صرف نظر کیا اور کسی قسم کا شکوہ یا گلہ نہیں کیا۔ اور اس بات پر ان کو مہمانوں کا شکر گزار ہونا چاہئے اور پھر اللہ تعالیٰ کا بھی مزید شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے مہمانوں کے دلوں کو ہماری طرف سے بھی نرم رکھا اور انہوں نے صَرفِ نظر سے کام لیا۔
پھر مہمانوں کو بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ یہاں آرام سے رہے اور کسی قسم کی تکلیف یا زیادہ تکلیف ان کو برداشت نہیں کرنی پڑی۔ ان کو تمام انتظامیہ کا شکر گزار ہونا چاہئے اور پھر جو تمام کارکنان ہیں جن میں چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی عمر کے لوگ شامل ہیں جنہوں نے جہاں جہاں ڈیوٹی تھی بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ڈیوٹیاں ادا کیں، اپنے فرائض نبھائے اور مہمانوں کے لئے سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی۔ مہمانوں کو بھی چاہئے کہ اس شکرانے کے طور پر ان سب کارکنان کے لئے، ان کی دینی و دنیاوی ترقیات کے لئے دعا کریں- جلسے سے پہلے گزشتہ تین چار ہفتے سے تو بعض کارکنان دن رات ایک کرکے اپنی ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کے انتظامات کو بہتر سے بہتر بنانے کی خدمت میں لگے رہے ہیں- اور پھر جلسے کے دنوں میں بھی ایک بڑی تعداد کارکنان اور کارکنات کی اس خدمت پہ مامور رہی اور اپنے آرام اپنی خوراک کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی۔ اور کارکنات نے اس خدمت کے جذبے کے تحت اپنے بچوں کو (بعض بچوں کی مائیں بھی تھیں) دوسروں کے سپرد کیا۔ یا گھروں میں بھی چھوڑ کے آئیں- بالکل بے پرواہ ہو گئیں اس بات سے کہ ان کے سر پر کوئی رہا بھی کہ نہیں یا بچوں کا کیا حال ہے۔ ان بچوں کی ضروریات کا خیال بھی رکھا جا رہا ہے یا نہیں- آنے والے مہمانوں کو اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ ان کارکنوں کا بھی شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔
اس شکر گزاری کابہترین طریقہ یہ ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان تمام کارکنوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کی بہترین جزا دے اور پھر ان پر ہمیشہ اپنی پیار کی نظر ڈالتا رہے۔ پھر مہمانوں کو ان عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے ان کو اپنے گھروں میں اس جذبے کے تحت مہمان ٹھہرایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں- ان کے لئے خاص دعائیں کرتے رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو جنہوں نے اپنے اپنے گھروں میں مہمان ٹھہرایا جزا دے اور ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت دے۔ یہ شکر گزاری کی فضا جب پیدا ہو گی اور ایک دوسرے کے لئے دعائیں ہو رہی ہوں گی تو یہی اس دنیا کی جنت ہے۔ جس میں ایک دوسرے کے لئے سوائے نیک اور پاک جذبات کے اور شکر کے جذبات کے اور کچھ ہے ہی نہیں- اور جب یہ شکرانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا سلسلہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ چلتا رہے گا۔
ایک روایت میں آتا ہے،’’ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ نعمت شکر کے ساتھ وابستہ ہے اور شکر کے نتیجہ میں مزید عطا ہوتا ہے اور یہ دونوں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں- اور خدا کی طرف سے مزید عطا کرنے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ بندہ شکر کرنا نہ چھوڑ دے۔ (کنزالعمال جلد نمبر 2 صفحہ 151)
تو دیکھیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت کسی نہ کسی طرح دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے تم شکر کرو تو پھر اللہ دیتا چلا جائے گا۔ اپنے بھائیوں کے بھی شکر گزار بنو اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بھی شکر گزار بندے بنو تو میری نعمتوں سے حصہ پاتے چلے جاؤ گے، ان میں اضافہ دیکھتے چلے جاؤ گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی نعمتیں ایک لڑی میں ہیں- ہر نعمت کے بعد شکر ہو تو پھر یہ نعمتوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ہر نعمت کے بعد شکر اور ہر شکر کے بعد نعمت۔ بندہ ناشکرا ہو جائے تو ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور نعمتوں کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے اور صرف یہ خیال نہ رہے کہ یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان کا کیا شکر ادا کرنا۔ بعض دفعہ بعض خیال آ جاتے ہیں، نہیں بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اگر میسر آتی ہے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مانگنی ہو تو مجھ سے مانگو۔ اگر جوتی کے تسمے کی ضرورت بھی ہے تو مجھ سے مانگو۔ تو جب یہ حالت ہو گی کہ تم جوتی کا تسمہ بھی خدا سے مانگ رہے ہو اور پھر اس کے بعد اس کا شکر بھی ادا کر رہے ہو تو اللہ تعالیٰ پھر نعمتوں کو اور بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے’’ حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے منبر پر کھڑے ہو کے فرمایا کہ جو تھوڑے پر(چھوٹی بات پر) شکر نہیں کرتا وہ بڑی(نعمت)پر بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ اور جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا کرتا۔ نعمائے الٰہی کا ذکر کرتے رہنا شکر گزاری ہے اور اس کا عدمِ ذکر کفر(یعنی ناشکر ی) ہے۔ جماعت ایک رحمت ہے اور تفرقہ بازی (پراگندگی) عذاب ہے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 278) یعنی تفرقہ بازی جو ہے آپس میں پڑے رہنا یہ عذاب ہے اس سے ہلاکت ہو گی۔
تو اس میں ایک یہ بھی نصیحت فرما دی کہ ایک جماعت رہتے ہوئے ایک دوسرے کے شکر گزار بنو اور اس طرح سے شکر گزاری کے ساتھ ایک جماعت بن کر رہنے سے تم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو بھی جذب کرنے والے ہو گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خداتعالیٰ کا بھی شکر نہیں کر سکتا۔ جس قدر آسائش اور آرام اس زمانے میں حاصل ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ریل، تار، ڈاک، ڈاک خانہ، پولیس وغیرہ انتظام کو دیکھوکس قدر فوائد پہنچتے ہیں- آج سے 70-60برس پہلے بتاؤکیاایسا آرام و آسانی تھی؟ پھر خود ہی انصاف کرو جب ہم پر ہزاروں احسان ہیں تو ہم کیوں کر شکر نہ کریں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 547 جدید ایڈیشن) حکومت نے جو چیزیں مہیا کی ہوتی ہیں ان کا بھی ہمیں ہمیشہ شکر گزار ہوتے رہنا چاہئے۔ انہوں نے یہ سہولتیں میسر کی ہیں اور مہیا کی ہیں-
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’فَاذْکُرُوْنِیٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ (بقرہ:153)

یعنی اے میرے بندے! تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو اور میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ189 جدید ایڈیشن) پس یہ شکر جس کا آخری سرا ہمیں اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے یہی ہر احمدی کا مطمح نظر ہونا چاہئے یہی ہے جس کو حاصل کرنا ہر احمدی کا مقصد ہونا چاہئے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے والا ہو۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم :8)۔

کہ اگرتم میرا شکر ادا کرو تو میں اپنے احسانات کو اور بھی زیادہ کرتا ہوں اگر تم کفر کرو تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ یعنی جب انسان پر خداتعالیٰ کے احسانات ہوں تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے اور انسانوں کی بہتری کا خیال رکھے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے اور الٹا ظلم شروع کر دے تو پھر خداتعالیٰ اس سے وہ نعمتیں چھین لیتا ہے اور عذاب کرتا ہے۔ ……چاہئے کہ نرمی اور پیار سے کام کیا جائے اور چاہئے کہ جو شخص کسی ذمہ داری کے عہدے پہ مقرر ہو وہ لوگوں سے خواہ امیرہوں یا غریب نرمی اور اخلاق سے پیش آئے کیونکہ اس میں نہ صرف ان لوگوں کی بہتری ہے بلکہ خود اس کی بھی بہتری ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 533 جدید ایڈیشن)
پس کام کرنے والے بھی اور عام احمدی بھی شکر گزار ہونے کی صفت کو اپنانے والے اور اس کے مطابق عمل کرنے والے، اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں گے تو تبھی اپنے فائدہ کے بھی سامان کر رہے ہوں گے۔ کیونکہ خیرو برکت کے سامان بھی شکرگزاری کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس لئے نہ صرف شکر کر رہے ہیں بلکہ اپنے لئے اور دوسروں کے لئے خیرو برکت بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جن قوموں سے جن لوگوں سے خوش ہوتا ہے ان کو شکر گزار بنا دیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ’’ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو خیرو برکت عطا کرنا چاہے تو ان کی عمریں بڑھا دیتا ہے اور انہیں شکر بجا لانا سکھا دیتا ہے‘‘۔ (کنزالعمال جلد 2 صفحہ53) تو دیکھیں اس شکر گزاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں بھی برکت دیتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس نیکی کو، شکر گزاری کی اعلیٰ صفت کو آگے پھیلا رہے ہوتے ہیں اور لوگ ان سے فیض بھی حاصل کر رہے ہوتے ہیں- تو لوگوں میں فیض پہنچانے والوں کی عمروں میں بھی برکت ہوتی ہے۔
حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اس قدر لمبا قیام فرماتے تھے (اب دیکھیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کس طرح کی جاتی ہے) کہ اس کی وجہ سے آپ کے پاؤں سو جایاکرتے تھے۔ اس پر (کہتی ہیں کہ)مَیں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا آپؐ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپؐ کے سارے گناہ بخشے گئے ہیں- پہلے کے بھی اور بعد کے بھی تو آپ کیوں اتنا لمبا قیام فرماتے ہیں- آپؐ نے فرمایا کیا میں خدا کا عبد شکور نہ بنوں-جس نے مجھ پہ اتنا احسان کیا ہے کیا میں اس کا شکر ادا کرنے کے لئے نہ کھڑا ہوا کروں ‘‘۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح۔ باب قولہ لیغفرلک اللہ ما تقدم من دنبک)۔
پس جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ عبد شکور بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو دیکھنے کے بعد تو ہمیں بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہر احمدی کو اپنی عبادات میں ایک خاص ذوق پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ جھکنا چاہئے اور اس زمانے میں توخاص طور پر جب دنیا میں ہر طرف افراتفری پڑی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک جماعت میں ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے اس پر ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور اس کے عبادت گزار بندے بننے کی کوشش کریں-
اس شکر گزاری کے جذبے کے تحت جس کے اظہار کا ہمیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے تمام ان مہمانوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے خاموشی سے اس جلسے کو سنا اور اس کی برکات سے فیض پایا اور اب اس کوشش میں ہیں کہ اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں- اللہ تعالیٰ انہیں اپنی نیک خواہشات کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی طرح میں میزبانوں اور ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے گھروں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کو ٹھہرایا، ان کا رکنوں اور ان کارکنات کا جنہوں نے بے نفس ہو کر رات دن ایک کرکے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں- ہر کارکن چاہے وہ لنگر خانے میں کام کرنے والا کارکن تھا یا صفائی کے شعبے کا تھا یا آب رسانی کے شعبے کا تھا ان دنوں میں تو گرمی بھی کافی رہی ہے اور پانی کی ضرورت بھی محسوس ہوتی رہی تو پانی پلانے کے لئے چھوٹے بچوں نے ڈیوٹی دی اور اس ڈیوٹی کو خوب نبھایا اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو اور بڑھاتا چلا جائے۔ جب ربوہ میں جلسے ہوتے تھے تو یہی نظارے دیکھنے میں آیا کرتے تھے اس طرح اور مختلف شعبہ جات ہیں- ایم ٹی اے کے کارکن ہیں، تمام شعبوں کا تو نام لینا ممکن نہیں بہرحال سب کا شکریہ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہتر الفاظ جن سے شکریہ بھی ادا ہو جائے اور دعا بھی مل جائے وہ یہ ہیں کہ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا۔ اللہ تعالیٰ سب کو بہترین جزا دے۔
اس شکرانے کے ضمن میں ایک اور بات بھی کہنی چاہتا ہوں کہ جلسے کی آخری تقریر میں میں نے احباب جماعت کو وصیت کرنے اور اس بابرکت نظام میں شامل ہونے کی طرف بھی توجہ دلائی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں اور احباب جماعت نے ذاتی طو رپر بھی اس سلسلہ میں وعدے کئے ہیں اور وعدے آ بھی رہے ہیں- اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ اس عہد کو جلد از جلد نبھا سکیں اور جتنی تعداد میں میں نے خواہش کی تھی اس سے بڑھ کر اس بابرکت نظام میں وہ شامل ہوں- بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں جو دوسری جماعتی خدمات میں بعض دفعہ جب ان کو کوئی تحریک کی جائے تو پیش پیش ہوتے ہیں یا کم از کم اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکتے ہیں اس میں حصہ لیں لیکن وہ نظام وصیت میں شامل ہونے سے محروم ہیں- ان میں سے بھی کئی لوگوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اب اس نظام میں شامل ہوں گے۔ ایسے صاحب حیثیت لوگوں کو ایسے احمدیوں کو تو سب سے پہلے چھلانگ مار کر آگے آنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل فرمائے ہیں- ان کے شکرانے کے طور پر ہم اس نظام میں شامل ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے مزید کھلیں- اللہ تعالیٰ نے جو ان پر نعمتیں نازل فرمائی ہیں ان کا اظہار ہونا چاہئے اور وہ اپنے ذاتی اظہار کے۔ قربانیوں کی طرف توجہ دینے کا بھی اظہار ہونا چاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ ’’ حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے فضل اور اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے پر دیکھے‘‘۔
(ترمذب کتاب الادب باب ان اللہ یحب ان یری اثر نعمتہ علی عبدہ)
پس جہاں اپنی ذات پر اپنے خاندان پر یہ اثر دکھا رہے ہوں وہاں قربانیوں میں بھی ایسے ظاہر ہونا چاہئے اوریہ جو تسلسل قربانی کا ہے کبھی کبھار کی قربانی نہیں بلکہ تسلسل کی قربانی کا اظہار ہونا چاہئے تاکہ اور زیادہ شکر ان نعمت ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بدوں مشقت و محنت کے دکھائی ہے وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانے میں دکھائی گئی ہے۔ بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں- پس خداتعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجا لاؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصے میں آتے ہیں اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کر دعا مانگو وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے۔ حصہ عبادات میں صوم، صلوٰۃ وزکوٰۃ وغیرہ امور شامل ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 95-94 جدید ایڈیشن)
پس اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ اس کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے ہم بھی ان اعمال کو بجا لانے والے ہوں پھر جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ یہ نظام وصیت بھی ذہنوں اور مالوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض مسلمان کرتے ہیں کہ غلط طریق سے مال کمایااور پھر بازار میں ٹھنڈے پانی کی سبیل لگا دی یا برف ڈلوا دی یا مسجد بنوا دی یا اس کا کچھ حصہ بنوا دیا۔ یا حج کر آئے اور سمجھ لیا کہ ہمارے ناجائز ذریعے سے کمائے ہوئے مال پاک ہو گئے ہیں- ایسے لوگ تو دین کے ساتھ مذاق کرنے والے ہوتے ہیں- بلکہ یہاں پاک کرنے کے ذریعے سے یہ مطلب ہے کہ پاک ذرائع سے کمائی ہوئی جو دولت ہے اس کو جب پاک مقاصد کے لئے خرچ کیا جائے گا تو اس سے تمہارے اندر جہاں روحانی تبدیلیاں پیدا ہوں گی وہاں تمہارے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت پڑے گی۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی ہے رسالہ الوصیت میں اور تین دفعہ یہ دعا کی ہے کہ ایسے لوگوں کو جو اس نظام میں شامل ہوں نیک اور پاک لوگوں کی جماعت بنا دے۔ تو مختصراً آج میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں جلسے کے بابرکت اختتام پر آپ نے شکرانے کا اظہار کیا اور شکرانے کا اظہار کر رہے ہیں وہاں اس شکرانے کا عملی اظہار بھی کریں کیونکہ جہاں اس نظام میں شامل ہونے والے تقویٰ میں ترقی کریں گے وہاں جماعت کی مضبوطی کا باعث بھی بنیں گے۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے رسالہ الوصیت میں دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ایک تو یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد نظام خلافت کا اجراء اور دوسرے اپنی وفات پر آپ کو یہ فکر پیدا ہونا کہ ایسا نظام جاری کیا جائے جس سے افراد جماعت میں تقویٰ بھی پیدا ہو اور اس میں ترقی بھی ہو اور دوسرے مالی قربانی کا بھی ایسانظام جاری ہو جائے جس سے کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو جائے اور جماعت کی مالی ضروریات بھی باحسن پوری ہو سکیں- اس لئے وصیت کا نظام جاری فرمایا تھا۔ تو اس لحاظ سے میرے نزدیک میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نظام خلافت اور نظام وصیت کا بڑا گہرا تعلق ہے اور ضروری نہیں کہ ضروریات کے تحت پہلے خلفاء جس طرح تحریکات کرتے رہے ہیں، آئندہ بھی اسی طرح مالی تحریکات ہوتی رہیں بلکہ نظام وصیت کو اب اتنا فعال ہو جانا چاہئے کہ سو سال بعد تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف قائم رہیں بلکہ بڑھیں اور اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں اور قربانیاں پیدا کرنے والے بھی پید اہوتے رہیں- یعنی حقو ق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں- اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے پیدا ہوتے رہیں- جب اس طرح کے معیار قائم ہوں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خلافت حقہ بھی قائم رہے گی اور جماعتی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی۔ کیونکہ متقیوں کی جماعت کے ساتھ ہی خلافت کا ایک بہت بڑا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق دے اور ہمیشہ خلافت کی نعمت کا شکر ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں اور کوئی احمدی بھی ناشکری کرنے والا نہ ہو۔ کبھی دنیاداری میں اتنے محو نہ ہو جائیں کہ دین کو بھلا دیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ سعید آدمی ناکامی کے بعد کامیاب ہو کر اور بھی سعید ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ پر ایمان بڑھ جاتا ہے(یعنی جب ٹھوکر لگتی ہے تو اور بھی سعادت پیدا ہوتی ہے) اس کو ایک مزا آتا ہے جب وہ غور کرتا ہے کہ میرا خدا کیسا ہے اور دنیا کی کامیابی خداشناسی کا ایک بہانہ ہو جاتا ہے۔ ایسے آدمیوں کے لئے یہ دنیوی کامیابیاں حقیقی کامیابی کا(جس کو اسلام کی اصطلاح میں فلاح کہتے ہیں) ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں- میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ سچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوں میں ہرگز نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام شعبے دیکھ کر بھی انسان سچا اور دائمی سرور حاصل نہیں کر سکتا تم دیکھتے ہو کہ دولتمند زیادہ مال و دولت رکھنے والے ہر وقت خنداں رہتے ہیں-(فرمایا کہ) مگر ان کی حالت جرب یعنی خارش کے مریض کی سی ہوتی ہے جس کو کھجلانے سے راحت ملتی ہے۔ (کھجلی کا مریض جب کھجلی کرتا ہے تو اس کو بڑا مزا آ رہا ہوتا ہے) لیکن اس خارش کا آخری نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ خون نکل آتا ہے۔ پس ان دنیوی اور عارضی کا میابیوں پر اس قدر خوش مت ہو کہ حقیقی کامیابی سے دور چلے جاؤ بلکہ ان کامیابیوں کو خداشناسی کا ایک ایک ذریعہ قرار دو، اپنی ہمت اور کوشش پر ناز مت کرو اور مت سمجھو کہ ہماری کامیابی کسی قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے بلکہ یہ سوچو کہ اس رحیم خدا نے جو کبھی کسی کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے ہماری محنت کو بارور کیا‘‘۔ …… پھر فرمایا:’’ اس لئے واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مومن خدا کے حضور سجدات شکر بجا لائے کہ اس نے محنت کو اکارت تو نہیں جانے دیا۔ اس شکر کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خداتعالیٰ سے محبت بڑھے گی اور ایمان میں ترقی ہو گی او رنہ صرف یہی بلکہ اور بھی کامیابیاں ملیں گی۔ کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر کرو گے تو البتہ میں نعمتوں کو زیادہ کروں گا۔ اور اگر کفران نعمت کرو گے تو یاد رکھو کہ عذاب سخت میں گرفتار ہو گے۔ اس اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھو۔ مومن کا کام یہ ہے کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے اورخدا کی حمد کرتا ہے کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے رکھتا ہے اور ہر ابتلاء میں وہ ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے۔ بظاہر ایک ہندو اور ایک مومن کی کامیابی ایک رنگ میں مشابہ ہوتی ہے لیکن یاد رکھو کہ کافر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مومن کی کامیابی سے اس کے لئے نعمتوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ کافر کی کامیابی اس لئے ضلالت کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ اپنی نعمت، دانش اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہے۔ مگر مومن خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرکے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خدا سے ایک نیا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس میں تبدیلی ہونے لگتی ہے۔ …… اکثر لوگوں کے حالات کتابوں میں لکھے ہیں کہ اوائل میں دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور شدید تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے کوئی دعا کی اور وہ قبول ہو گئی اس کے بعد ان کی حالت ہی بدل گئی اس لئے اپنی دعاؤں کی قبولیت اور کامیابیوں پر نازاں نہ ہو بلکہ خدا کے فضل اور حمایت کی قدر کرو۔ قاعدہ ہے کہ کامیابی پر ہمت اور حوصلے میں ایک نئی زندگی آ جاتی ہے اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنی چاہئے۔ کیونکہ سب سے اعلیٰ درجے کی بات جو کام آنے والی ہے وہ یہی معرفت الٰہی ہے۔ اور یہ خداتعالیٰ کے فضل و کرم پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا……‘‘۔ فرمایا:’’ غرض اگر اس پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کام پڑنا ہے تو تقویٰ کا طریق اختیار کرو۔ مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کرے اور بدقسمت وہ ہے جو ٹھوکر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 99-98جدید ایڈیشن)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔ مسلمان کا پوچھنے پر الحمدللہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت و تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہوکوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 49جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ شکر گزار بندہ بنائے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصائح پر عمل کرنے والا بنائے۔ تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے چھوٹی سے چھوٹی نعمت سے لے کر بڑی بڑی نعمتوں کے ملنے پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے بنیں- اس کے شکر گزار رہیں- ہمیشہ عبد شکور بنے رہیں اور نظام خلافت اور نظام جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں- اور اس کے لئے قربانیاں بھی دیتے چلے جائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں