خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 16جنوری2004ء

والدین کے لئے دعا کرو اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور ان کو کوئی دکھ نہ پہنچے
اپنے والدین کی خدمت بجا لاؤ ورنہ اُس جنت سے محروم ہو جاؤ گے جو ان کے قدموں کے نیچے ہے
(احادیث نبویہ اور اُسوہ ٔ رسول ﷺکی روشنی میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا پرمعارف بیان )
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
16 جنوری2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَا اَوْ کِلٰھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا۔ (بنیٓ اسرآئیل:۲۴۔۲۵)

اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کے بارہ میں بڑی تاکید فرمائی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکیں- یا شرک کی تعلیم دیں- اس کے علاوہ ہربات میں ان کی اطاعت کا حکم ہے۔ اور یہ حکم اس لئے ہے کہ جو خدمت انہوں نے بچپن میں ہماری کی ہے اس کا بدلہ تو ہم نہیں اتار سکتے۔ اس لئے یہ حکم ہے کہ ان کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے لئے دعا بھی کرو کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور بڑھاپے کی اس عمر میں بھی ان کو ہماری طرف سے کسی قسم کا کبھی کوئی دکھ نہ پہنچے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدمت اور دعا کے باوجود یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ان کی بہت خدمت کر لی اور ان کاحق ادا ہو گیا۔ اس کے باوجود بچے جو ہیں اس قابل نہیں کہ والدین کا وہ احسان اتار سکیں جو انہوں نے بچپن میں ان پر کیا۔
اس ضمن میں جو دو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔
اس آیت میں سب سے پہلے یہ با ت بیان فرمائی کہ اللہ کے سوا کسی کی عباد ت نہ کرو اور وہ خدا جس نے تمہیں اس دنیا میں بھیجا اور تمہیں بھیجنے سے پہلے قسما قسم کی تمہاری ضروریات کا خیال رکھااور اس کا انتظام بھی کردیا۔ اور پھر یہ کہ اس کی عبادت کرکے اور اس کا شکر اداکرکے تم اس کے فضلوں کے وارث ٹھہروگے اور سب سے بڑا فضل جو اس نے ہم پر کیاوہ یہ ہے کہ تمہیں ماں باپ دئے جنہوں نے تمہاری پرورش کی، بچپن میں تمہاری بے انتہاء خدمت کی،راتوں کو جا گ جاگ کر تمہیں اپنے سینے سے لگایا۔ تمہاری بیماری اور بے چینی میں تمہاری ماں نے بے چینی اور کرب کی راتیں گزاریں ،اپنی نیندوں کو قربان کیا، تمہاری گندگیوں کو صاف کیا۔ غرض کہ کون سی خدمت اور قربانی ہے جو تمہاری ماں نے تمہارے لئے نہیں کی۔ اس لئے آج جب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تم منہ پرے کر کے گزر نہ جاؤ، اپنی دنیا الگ نہ بساؤاور یہ نہ ہو کہ تم ان کی فکر تک نہ کرو۔ اور اگر وہ اپنی ضرورت کے لئے تمہیں کہیں تو تم انہیں جھڑکنے لگ جاؤ۔ فرمایا :نہیں ، بلکہ وہ وقت یاد کرو جب تمہاری ماں نے تکالیف اٹھاکر تمہاری پیدائش کے تمام مراحل طے کئے۔ پھر جب تم کسی قسم کی کوئی طاقت نہ رکھتے تھے، تمہیں پالا پوسا، تمہاری جائز وناجائز ضرورت کو پورا کیا۔ اور آج اگر وہ ایسی عمر کو پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے جو ایک لحاظ سے ان کی اب بچپن کی عمر ہے،کیونکہ بڑھاپے کی عمر بھی بچپن سے مشابہ ہی ہے۔ ان کو تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔ تو تم یہ کہہ دو کہ نہیں ، ہم تو اپنے بیوی بچوں میں مگن ہیں ہم خدمت نہیں کرسکتے۔ اگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کچھ ایسے الفاظ کہہ دیں جو تمہیں ناپسند ہوں تو تم انہیں ڈانٹنے لگ جاؤ، یا مارنے تک سے گریز نہ کرو۔ بعض لوگ اپنے ماں باپ پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں-مَیں نے خود ایسے لوگوں کودیکھاہے، بہت ہی بھیانک نظارہ ہوتاہے۔اُف نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تمہاری مرضی کی بات نہ ہوبلکہ تمہارے مخالف بات ہوتب بھی تم نے اُف نہیں کرنا۔ اگر ماں باپ ہر وقت پیار کرتے رہیں ، ہربات مانیں ، ہروقت تمہاری بلائیں لیتے رہیں ،لاڈ پیار کرتے رہیں پھرتو ظاہر ہے کوئی اُف نہیں کرتا۔ فرمایا کہ تمہاری مرضی کے خلاف باتیں ہوں تب بھی نرمی سے، عزت سے، احترام سے پیش آنا ہے۔ اور نہ صرف نرمی اورعزت و احترام سے پیش آنا ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی ہے۔ اوراتنی پیار، محبت اور عاجزی سے ان کی خدمت کرنی ہے جیسی کہ کوئی خدمت کرنے والا کرسکتاہو۔ اور سب سے زیادہ خدمت کی مثال اگر دنیا میں موجود ہے تو وہ ماں کی بچے کے لئے خدمت ہی ہے۔ اب یہاں رہنے والے، مغرب کی سوچ رکھنے والے، بلکہ ہمارے ملکوں میں بھی، برصغیر میں بھی، بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ماں باپ کی خدمت نہیں کرسکتے، ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ لکھتے ہیں کہ جماعت ایسے بوڑھوں کے مراکز کھولے جہاں یہ بوڑھے داخل کروا دئے جائیں کیونکہ ہم تو کام کرتے ہیں ، بیوی بھی کام کرتی ہے، بچے ا سکول چلے جاتے ہیں اور جب گھر آتے ہیں تو بوڑھے والدین کی وجہ سے ڈسٹرب (Disturb)ہوتے ہیں ،اس لئے سنبھالنا مشکل ہے۔ کچھ خوف خدا کرنا چاہئے۔ قرآن توکہتاہے کہ ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو اور اس عمر میں اُن پررحم کے پرجھکا دو۔ جس طرح بچپن میں انہوں نے ہرمصیبت جھیل کر تمہیں اپنے پروں میں لپیٹے رکھا۔ تمہیں اگر کسی نے کوئی تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تو مائیں شیرنی کی طرح جھپٹ پڑتی تھیں- اب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے توکہتے ہو کہ ان کو جماعت سنبھالے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنبھالتی ہے لیکن ایسے بوڑھوں کو جن کی اولاد نہ ہویاجن کے کوئی اور عزیز رشتے دار نہ ہوں- لیکن جن کے اپنے بچے سنبھالنے والے موجود ہوں تو بچوں کا فرض ہے کہ والدین کو سنبھالیں- تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو اپنی طبیعتوں کو، اپنی سوچوں کو تبدیل کرنا چاہئے۔یہ نہیں کہ جب تک والدین سے فائدہ اٹھاتے رہے، اٹھا لیا، مکان اور جائیدادیں اپنے نام کروالیں ، اب ا ن کو پرے پھینک دو۔کسی احمدی کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے۔حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام تو اسلام کی بھلائی ہوئی تعلیم کودوبارہ دنیا میں رائج کرنے کے لئے تشریف لائے تھے، اس کے حُسن کی چمک دنیا کو دکھانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے نہ کہ ا س کے خلاف عمل کروانے کے لئے۔
اب ماں باپ کے حقوق اوران سے سلوک کے بارہ میں چند روایات پیش کرتاہوں-
نبی اکرم ﷺکے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہاکہ : اے اللہ کے رسول ؐ! مَیں نے اپنی ماں کو یمن سے اپنی پیٹھ کر اٹھا کرحج کرایاہے، اسے اپنی پیٹھ پر لئے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، اسے لئے ہوئے عرفات گیا، پھر اسی حالت میں اسے لئے ہوئے مزدلفہ آیا اورمنیٰ میں کنکریاں ماریں- و ہ نہایت بوڑھی ہے ذرابھی حرکت نہیں کر سکتی۔ مَیں نے یہ سارے کام اُسے اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے سرانجام دئے ہیں تو کیا مَیں نے اس کاحق ادا کر دیاہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’نہیں ، اس کا حق ادا نہیں ہوا‘‘۔ اس آدمی نے پوچھا : ’’کیوں ‘‘۔ آ پؐ نے فرمایا :’’اس لئے کہ اس نے تمہارے بچپن میں تمہارے لئے ساری مصیبتیں اس تمنا کے ساتھ جھیلی ہیں کہ تم زندہ رہومگرتم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا وہ اس حال میں کیا کہ تم اس کے مرنے کی تمنا رکھتے ہو۔تمہیں پتہ ہے کہ وہ چند دن کی مہمان ہے۔ (الوعی، العدد ۵۸، السنۃ الخامسۃ)
اب عام آدمی خیال کرتاہے کہ اتنی تکلیف اٹھاکر مَیں نے جو سب کچھ کیا تو مَیں نے بہت بڑی قربانی کی ہے۔ لیکن آپؐ فرماتے ہیں کہ نہیں- حق تو یہ ہے کہ حق اد ا نہ ہوا۔
پھر ایک روایت میں آتاہے کہ ہمیں ہشام بن عُروہ نے بتایا کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ مجھے اسماء بنت ابی بکرؓ نے بتایا میری والدہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں میرے پاس صلہ رحمی کا تقاضا کرتے ہوئے آئی تو میں نے نبی ﷺ سے اس کے بارہ میں دریافت کیا کہ کیا میں اپنی مشرک والدہ سے صلہ رحمی کروں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ۔ باب الھدیۃ المشرکین)
تو جہاں تک انسانیت کا سوال ہے، صرف والدہ کا سوال نہیں ، اس کے ساتھ تو صلہ رحمی کا سلوک کرنا ہی ہے، حسن سلوک کرنا ہی ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر انسانیت کا سوال آئے، کسی سے صلہ رحمی کا سوال آئے یا مدد کا سوال آئے تواپنے دوسرے عزیزوں رشتہ داروں سے بھی بلکہ غیروں سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔
پھرایک روایت ہے حضرت اَبُو اُسَید اَلسَّاعِدِیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضر ت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کر سکوں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں- تم ان کے لئے دعائیں کرو۔ ان کے لئے بخشش طلب کرو، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔ (ابو داؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی بر الوالدین)۔
تو یہ ہے ماں باپ سے حسن سلوک کہ زندگی میں تو جو کرناہے وہ توکرناہی ہے، مرنے کے بعد بھی ان کے لئے دعائیں کرو، ان کے لئے مغفرت طلب کرو اور اس کے علاوہ ان کے وعدوں کو بھی پوراکرو، ان کے قرضوں کو بھی ا تارو۔ بعض دفعہ بعض موصی وفات پاجاتے ہیں- وہ تو بے چارے فوت ہوگئے انہوں نے اپنی جائیداد کا ۱۰/۱ حصہ وصیت کی ہوتی ہے لیکن سالہا سال تک ان کے بچے، ان کے لواحقین ان کاحصہ وصیت ادا نہیں کرتے بلکہ بعض دفعہ انکار ہی کر دیتے ہیں ، ہمیں اس کی توفیق نہیں- گویا ماں باپ کے وعدوں کا پاس نہیں کر رہے، ان کی کی ہوئی وصیت کا کوئی احترام نہیں کر رہے۔ والدین سے ملی ہوئی جائیدادوں سے فائدہ تو اٹھا رہے ہیں لیکن ان کے جووعدے ان ہی کی جائیدادوں سے ادا ہونے والے ہیں وہ ادا کرنے کی طرف توجہ کوئی نہیں-جبکہ اس جائیداد کا جو دسواں حصہ ہے وہ تو بچوں کا ہے ہی نہیں- وہ تواس کی پہلے ہی وصیت کرچکے ہیں- تو وہ جو ان کی اپنی چیز نہیں ہے وہ بھی نہیں دے رہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بچوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اپنے والدین کے وعدوں کو پورا کرنے والے بنیں-یہاں تو یہ حکم ہے کہ صر ف ان کے وعدو ں کو ہی پورا نہیں کرنا بلکہ ان کے دوستوں کا بھی احترام کرناہے، ان کوبھی عزت دینی ہے اور ان کے ساتھ جو سلوک والدین کا تھا اس سلوک کو جاری رکھناہے۔
پھرایک روایت ہے آنحضرت ﷺکی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ آئیں اور حضور سے مل کر قحط اورمویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا۔ حضور ﷺنے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اورایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔ (طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ ۱۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۰ء)
اب خدمت صرف حقیقی والدین کی نہیں ہے بلکہ ہمارے آقا حضرت محمد ﷺکا اسؤہ حسنہ تو یہ ہے کہ اپنی رضاعی والدہ کی بھی ضرورت کے وقت زیادہ سے زیادہ خدمت کرنی ہے۔ اور اس کوشش میں لگے رہناہے کہ کسی طرح مَیں حق اداکروں- اور یہاں اس روایت میں ہے کہ مال چونکہ حضرت خدیجہ کا تھا،وہ بڑی امیر عورت تھیں اورگو کہ آپ نے اپنا تمام مال آنحضرت ﷺکے سپرد کر دیاتھا، آ پ کے تصرف میں دے دیا تھا، آپ کو اجازت تھی کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں لیکن پھربھی حضرت خدیجہ سے مشورہ کیااور ہمیں ایک اور سبق بھی دے دیا۔ بعض لوگ اپنی بیویوں کا مال ویسے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے تصرف میں نہیں بھی ہوتا ان کے لئے بھی سبق ہے۔
پھرایک روایت ہے حضرت ابو طفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو مقام جِعْرَانہ میں دیکھا۔ آپؐ گوشت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس دوران ایک عورت آئی تو حضورؐ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھادی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے جس کی حضورؐ اس قدر عزت افزائی فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ آنحضورﷺ کی رضاعی والدہ ہیں- (ابو داؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی بر الوالدین)
ایک بار حضور ؐتشریف فرما تھے کہ آ پ کے رضاعی والد آئے۔ حضور ؐنے ان کے لئے چادرکا ایک پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ ؐ نے دوسرا پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ ؐ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔(سنن ابوداؤد کتاب الادب با ب برالوالدین )۔ پوری کی پوری چادر اپنے رضاعی رشتہ داروں کے لئے دے دی اور آپ ؐایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ تویہ عزت اور احترام اور تکریم ہے جس کا نمونہ آپ ﷺنے پیش فرمایا۔ نہ صرف یہ کہ رضاعی والدین کا احترام فرما رہے ہیں بلکہ جب رضاعی بھائی آتاہے تو اس کے لئے بھی خاص اہتمام سے جگہ خالی کر رہے ہیں- اور یہ تمام عزت واحترام اس لئے ہے کہ آ پؐ نے جس عورت کا کچھ عرصہ دودھ پیا تھا دوسرے لوگ بھی اس کی طرف منسوب ہیں ، اس کے عزیز ہیں- آج کل تو بعض جگہ دیکھاگیاہے کہ قریبی عزیز بھی آ جائیں تو بچے اگر کرسیوں پر بیٹھے ہیں تو بیٹھے رہتے ہیں ، کوئی جگہ خالی نہیں کرتا۔ اور ان بچوں کے بڑے بھی یہ نہیں کہتے کہ اٹھو بچو، بڑے آئے ہیں ان کے لئے جگہ خالی کردو۔ تویہ مثالیں صرف قصے کہانیوں کے لئے نہیں دی جاتیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ ا ن پر عمل کیا جائے۔یہ حسین تعلیم ہمارے لئے عمل کرنے کے لئے ہے۔
پھرایک روایت میں آتاہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، مٹی میں ملے اس کی ناک۔ مٹی میں ملے اس کی ناک (یہ الفاظ آپؐ نے تین دفعہ دہرائے) لوگوں نے عرض کیا کہ حضور کون؟ آپؐ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب رغم انف من ادرک ابویہ)
تو یہ دیکھیں کس قدر ڈرایا گیاہے، آپ نے کس طرح بیزاری کا اظہار فرمایاہے بلکہ ایک طرح سے لعنت ہی ڈالی گئی ہے ایسے شخص پر کہ جنت میں جانے کے مواقع ملنے کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھایا کہ تم پرپھٹکار ہو خدا کی۔ اللہ تعالیٰ تمام ایسے بگڑے ہوؤں کو جو اپنے ماں باپ سے بدسلوکی کرتے ہیں راہ راست پر لائے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے ماں باپ سے اس طرح بدسلوکی کرتاہے وہ میری جماعت میں سے نہیں-……جیسا کہ فرمایا کہ جوشخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ( کشتی ٔنوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۹)
پھرایک روایت ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں- پھر اس نے پوچھا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں- اس نے پوچھا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں- اس نے چوتھی بار پوچھا اس کے بعد کون؟ آپؐ نے فرمایا ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے۔ پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار۔ (بخاری۔کتاب الادب۔ باب من احق الناس بحسن الصحبۃ)
ایک روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول ہے کہ رب کی رضا باپ کی رضامندی میں ہے، اور رب کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (الادب المفرد للبخاری۔ باب قولہ تعالیٰ و وصینا الانسان بوالدیہ حسنا)
حضرت عبداللہؓ بن عَمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیر گناہ ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے؟۔ فرمایا: ہاں وہ دوسرے آدمی کے ماں اور باپ کو گالی دیتا ہے تو ا پنے ہی ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب الایمان)۔ کیونکہ وہ بھی جواب میں گالی دے گا۔تو اس سے ایک سبق تو یہ ملا کہ گالی نہیں دینی اور دوسرے یہ کہ اپنے ماں باپ کو دعائیں دلوانی ہیں تواپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھلاؤ۔ تمہارے سے واسطہ رکھنے والے یہ کہیں کہ اللہ اس کے والدین کو جزاء دے جس نے اپنے بچوں کی ایسی اعلیٰ تربیت کی ہے۔
جنگ حنین میں بنوہوازن کے قریباً چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ ان میں حضرت حلیمہ کے قبیلہ والے اور ان کے رشتہ دار بھی تھے جووفد کی شکل میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اورحضور کی رضاعت کا حوالہ دے کرآزادی کی درخواست کی۔ (یعنی یہ حوالہ دیا کہ حضرت حلیمہ اس قبیلے کی ہیں، ان کا دودھ آنحضرت ﷺ نے پیا ہواہے )۔ آنحضرت ﷺ نے انصاراورمہاجرین سے مشورہ کے بعد سب کو رہا کردیا۔ ( طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ ۱۱۴۔ بیروت ۱۹۶۰ء)۔
یہ حسن سلوک تھا آپؐ کا۔ ذراسا بھی تعلق ہو توایسے کیا کرتے تھے۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کا رزق بڑھا دیا جائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔ (مسند احمد۔ جلد۳۔ صفحہ نمبر۲۶۶۔ مطبوعہ بیروت)۔
تویہاں عمر بڑھانے کا اور رزق میں برکت کاایک اصول بتا دیا گیا ہے کہ اگر کشائش چاہتے ہو، اپنے بچوں کی دور دورکی خوشیاں دیکھناچ اہتے ہو تو والدین سے حسن سلوک کرو۔ان کے تم پر جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو۔ یادرکھو کہ بچپن میں تمہیں انہوں نے بڑی تکلیف سے پالا ہے۔ اگر تمہاری طرف توجہ نہ دیتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تمہاری تو یتیمی کی حالت تھی۔ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ تمہیں کسی نے پوچھنا بھی نہیں تھا۔ وہ ماں باپ ہی ہیں جو بچے کو اس طرح پوچھتے ہیں، درد سے پوچھتے ہیں- تو جب تم بڑے ہوتے ہو تو تمہاری لکھائی پڑھائی کی کوشش کی طرف توجہ دیتے ہیں- اپنے پر ہر تکلیف وار د کرتے ہیں اور تمہیں پڑھاتے ہیں-کئی والدین ایسے ہیں جو فاقے کرتے ہیں اور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھ جائیں- تاکہ بڑے ہوکر وہ معاشرے میں عزت و احترام سے رہ سکیں، ہمارے والا ان کا حال نہ ہو۔ لیکن بعض ایسے ناخلف اور بدقسمت بچے ہوتے ہیں کہ جب وہ سب کچھ ماں باپ سے حاصل کرلیتے ہیں، تعلیم حاصل کرکے بڑے افسر لگ جاتے ہیں تو اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اور پھر ماں باپ کی کوئی پروا بھی نہیں ہوتی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی مثال دی ہے کہ کسی ہندو نے بڑی تکلیف برداشت کرکے اپنے لڑکے کو بی اے یا ایم اے کرایا اور اس ڈگری کو حاصل کرنے کے بعدوہ ڈپٹی ہوگیا۔ آجکل ڈپٹی ہونا کوئی بڑا اعزاز نہیں سمجھا جاتا لیکن پہلے وقتوں میں ڈپٹی ہونا بھی بڑی بات تھی۔ اُس کے باپ کو خیال آیا کہ میرا لڑکا ڈپٹی ہوگیاہے میں بھی اُس سے مل آؤں- چنانچہ جس وقت وہ ہندو اپنے بیٹے کو ملنے کے لئے مجلس میں پہنچا تو اس وقت اُس کے پاس وکیل اور بیرسٹر وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بھی اپنی غلیظ دھوتی کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گیا۔ باتیں ہوتی رہیں کسی شخص کو اس غلیظ آدمی کا بیٹھنا برا محسوس ہوا اور اُس نے پوچھا کہ ہماری مجلس میں یہ کون آبیٹھا ہے۔ ڈپٹی صاحب اس کی یہ بات سن کر کچھ جھینپ سے گئے اور شرمندگی سے بچنے کے لئے کہنے لگے یہ ہمارے ٹہلیاہیں- باپ اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر غصے کے ساتھ جل گیااور اپنی چادر سنبھالتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوااور کہنے لگا۔ جناب میں ان کا ٹہلیا نہیں ان کی ماں کا ٹہلیا ہوں ‘‘۔ (حضرت مصلح موعود ؓیہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ)۔’’ ساتھ والوں کو جب معلوم ہوا کہ یہ ڈپٹی صاحب کے والد ہیں تو انہوں نے اس کو بہت لعن طعن کی اور کہا کہ اگر آپ ہمیں بتاتے تو ہم اُن کی مناسب تعظیم و تکریم کرتے اور ادب کے ساتھ ان کو بٹھاتے۔ بہرحال اس قسم کے نظارے روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں کہ لوگ رشتہ داروں کے ساتھ ملنے سے جی چراتے ہیں تاکہ اُن کی اعلیٰ پوزیشن میں کوئی کمی واقع نہ ہوجائے۔ گویا ماں باپ کا نام روشن کرنا تو الگ رہا اُن کے نام کو بٹہ لگانے والے بن جاتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو اس نقطۂ نگاہ سے والدین کی عزت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ والدین کی عزت کرو۔ دنیا داروں میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو والدین کی پورے طور پر عزت کرتے ہیں اور زمینداروں اور تعلیم یافتہ طبقہ دونوں میں یہی حالات نظر آتے ہیں-اسی طرح بعض نوجوان اپنی ماؤں کی خبرگیری ترک کردیتے ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اماں جی کی طبیعت تیز ہے اور میری بیوی سے اُن کی بنتی نہیں ‘‘۔(حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ) ’’یہ کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ماں کا بھی بہرحال ایک مقام ہے۔ پس اس خطرناک نقص کو دورکرو اور اپنے والدین کی خدمت بجالاؤ۔ ورنہ تم اس جنت سے محروم ہوجاؤ گے۔ جو تمہارے ماں باپ کے قدموں کے نیچے رکھی گئی ہے۔(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ۵۹۳)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :

’’ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا (الدھر:۹)

اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولاد جو کمزور ہوتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرتے تو وہ گویا یتیم ہی ہے۔ پس ان کی خبر گیری اور پرورش کا تہیہ اس اصول پر کرے تو ثواب ہو گا۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم۔ صفحہ نمبر ۵۹۹ جدید ایڈیشن)
اس بات سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صدقہ کے طورپر ماں باپ کی خدمت کرنی ہے بلکہ بڑھاپے کی حالت میں وہ مسکینی کے زمرے میں آتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے لیکن تمہارے فرائض میں داخل ہے کہ ان کی خدمت کرو۔ کیونکہ تمہاری جو حالت بچپن میں تھی وہ یتیمی کی حالت تھی۔ والدین نے تمہیں یتیم سمجھ کے تو نہیں پالا پوسا بلکہ ایک محبت کے جذبے کے ساتھ تمہاری خدمت کی ہے۔ آج وقت ہے کہ اسی محبت اور اسی جذبے سے تم بھی والدین کی خدمت کرو۔پھروالدین کے حق میں دعائیں بھی کرنی چاہئیں- جس طرح باپ کی دعا بیٹے کے حق میں قبول ہوتی ہے اور جس طرح ہر قدم پر ماں باپ کی دعائیں بچوں کے کام آ رہی ہوتی ہیں- اسی طرح بچوں کی دعائیں بھی ماں باپ کے حق میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں-
ملفوظات میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظہر کے وقت ایک نووارد صاحب سے ملاقات کی اور ان کو تاکید سے فرمایا کہ وہ اپنے والد کے حق میں جو سخت مخالف ہیں دعا کیا کریں انہوں نے عرض کی کہ حضور میں دعا کیا کرتا ہوں اور حضور کی خدمت میں بھی دعا کے لئے ہمیشہ لکھا کرتا ہوں حضرت اقدس نے فرمایا کہ۔
’’توجہ سے دعاکرو باپ کی دعا بیٹے کے واسطے اور بیٹے کی دعا باپ کے واسطے قبول ہوا کرتی ہے اگر آپ بھی توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا بھی اثر ہوگا۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ نمبر۵۰۲ جدید ایڈیشن)
بٹالہ کے سفر کے دوران حضرت اقدس، شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ ’’ان کے حق میں دعا کیاکرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہئیے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو۔ اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کرسکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے شاید خداتعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے۔ اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا۔ دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ دل و جاں سے ان کی خدمت بجا لاؤ۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۴۹۲۔ جدید ایڈیشن)
پھر فرمایا کہ: صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بعض ایسے مشکلات آگئے تھے کہ دینی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ان کے والدین سے نزاع ہوگئی تھی۔ بہرحال تم اپنی طرف سے ان کی خیریت اور خبر گیری کے واسطے ہر وقت تیار رہوجب کوئی موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ دو۔ تمہاری نیت کا ثواب تم کو مل رہے گا۔ اگر محض دین کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدین سے الگ ہونا پڑا ہے تو یہ ایک مجبوری ہے۔ اصلاح کو مد نظر رکھو اور نیت کی صحت کا لحاظ رکھو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو۔ یہ معاملہ کوئی آج نیا نہیں پیش آیا حضرت ابراہیم ؑ کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ بہرحال خدا کا حق مقدم ہے۔ پس خدا کو مقدم کرو اورا پنی طرف سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی کوشش میں لگے رہو اور اُن کے حق میں دعا کرتے رہو اور صحت نیت کا خیال رکھو۔ (الحکم جلد ۲،نمبر۱۶۔مورخہ ۲؍مارچ۱۹۰۸ء صفحہ۴۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ۶۰۔۶۱)
پھرفرمایاکہ اگردین کی وجہ سے اختلاف پیدا ہو جاتاہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے حقوق ادا کرنے چھوڑ دو۔ تمہارے جو فرائض ہیں وہ تم پورا کرو۔اور ان کے لئے دعابھی کرتے رہو۔ شاید کسی وقت تمہاری دعائیں سنی جائیں اور اللہ تعالیٰ ان کو بھی راہ ہدایت دکھا دے۔ ان کو بھی اس کا پتہ چل جائے۔
پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی والدہ کے بارہ میں ہے کہ وہ قادیان آئی ہوئی ہیں- انہوں نے اپنی والدہ کی پیری اور ضعف کا اور ان کی خدمت کا جو وہ کرتے ہیں ذکر کیا یعنی بڑھاپے اور کمزور ی کا تو حضرت ؑ نے فرمایا:۔
” والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں- ایک وہ جس نے رمضان پایااور رمضان گزر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایااور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم و غم والدین اٹھاتے ہیں- جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے، کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو۔ چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو، ماں اس کو چھوڑنہیں سکتی‘‘۔
پھر حضرت اماں جان کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ہماری لڑکی کو ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا تھا ہمارے گھر سے اس کی تمام قے وغیرہ اپنے ہاتھ پر لیتی تھیں- ماں سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے۔ یہ طبعی محبت ہے۔ جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ خداتعالیٰ نے اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کیا ہے کہ

إنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَ إیْتَائِ ذِیْ الْقُرْبیٰ (النحل : 91 )۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ نمبر ۲۸۹۔۲۹۰ جدید ایڈیشن)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
’’پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے۔ اویس قرنی ؓ کے لئے بسا اوقات رسول اللہ ﷺ یمن کی طرف منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا۔ بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ موجود ہیں ، مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے۔ صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی۔ یا اویس ؓ کو یا مسیح ؑکو۔ یہ ایک عجیب بات ہے، جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ ان سے ملنے کو گئے، تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں- ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی۔ ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قومیں چوہڑے چمار بھی کم لیتے ہونگے۔ ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے۔ اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کرکے اس کو ماننا نہیں چاہتا، تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونے سے دوسروں کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے‘‘۔
فرمایا :’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی خیرو برکت کا منہ نہ دیکھیں گے۔ پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا رسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہو جاؤ۔ بہتری اسی میں ہے، ورنہ اختیار ہے۔ ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے۔‘‘(ملفوظات۔ جلد اول۔ صفحہ نمبر۱۹۵۔۱۹۶ جدید ایڈیشن)
حضرت اویس قرنی کا واقعہ بیان ہواہے اس کے بارہ میں تھوڑی سی وضاحت کردوں- کہ بعض لوگ اس واقعہ کو غلط رنگ میں اپنی اپنی دلیل دینے لگ جاتے ہیں کہ اگر کہو کہ فلاں دینی کام ہے یا جماعتی ضرورت ہے کچھ وقت دے دو تو والدین کی خدمت کابہانہ کرنے لگ جاتے ہیں- حالانکہ اپنے دنیاوی کام اسی طرح کر رہے ہوتے ہیں-کئی کئی دن والدین کی خبر بھی نہیں لے رہے ہوتے۔ اور جب اپنی دنیاوی ضروریات سے فارغ ہوکرکچھ وقت مل جاتاہے تو پھروالدہ کے پاس بیٹھ کر اپنے خیال میں خدمت انجام دے رہے ہوتے ہیں- تو یہاں تویہ ذکر ہے کہ اویس قرنی تو ہروقت اپنی والدہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ ہر وقت اسی خدمت پر کمر بستہ ہوتے تھے۔ ان کو تو دنیاوی کاموں کی ہوش ہی نہیں تھا کیونکہ ان کے تو اونٹ وغیرہ چرانے اوردوسرے جانور جو تھے ان کا کام بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیاہواتھا۔ جیساکہ بیان ہواہے کہ میرے کام تو فرشتے کرتے ہیں- تو یہ نہیں کہ دنیاوی کاموں کے لئے توہمارے پا س وقت ہو اور جب دین کے کام کے لئے ضرورت ہوتواویس قرنی کی مثالیں دینا شروع کر دیں- پھر ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو ماں کی محبت اورخدمت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن جب اپنا مفاد ہو تو ماں باپ سے سخت کلامی سے پیش آتے ہیں- اور ماؤں سے غصے کااظہار بھی کر رہے ہوتے ہیں- ان کو بعض دفعہ برا بھلا بھی کہہ رہے ہوتے ہیں- حالانکہ ماں باپ کے آگے تو اونچی آواز میں بولنابھی منع ہے۔ تو بعض دفعہ دینی خدمت نہ کرنے یا بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کرنے کے لئے ماں کی یا باپ کی خدمت کا بہانہ بنایا جاتاہے۔ اس لئے ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ ماں باپ کی خدمت کے نام پر کہیں نفس دھوکہ تو نہیں دے رہا اور دینی خدمت سے آدمی محروم نہ ہو رہاہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو فرمایا کہ :
’’ والدہ کا حق بہت بڑا ہے اور اس کی اطاعت فرض۔ مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا اس ناراضگی کی تہہ میں کوئی اور بات تو نہیں ہے۔ جو خدا کے حکم کے بموجب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذمہ کرتی ہو۔ مثلا اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو۔تو اس کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں- اور اگر کوئی ایسا مشروع امر ممنوع نہیں ہے جب،(بیوی کے بارہ میں پوچھا تھا کہ والدہ یہ کہتی ہے ) تو وہ خود( یعنی بیوی) واجب الطلاق ہو جاتی ہے۔
…… سب سے زیادہ خواہشمند بیٹے کے گھر کی آبادی کی والدہ ہوتی ہے اور اس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ بڑے شوق سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے خدا خدا کر کے بیٹے کی شادی کرتی ہے تو بھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آسکتی ہے کہ وہ بے جا طور سے اپنے بیٹے کی بیوی سے لڑے جھگڑے اور خانہ بربادی چاہے۔…… ایسے بیٹے کی بھی نادانی اور حماقت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ والدہ توناراض ہے مگر میں ناراض نہیں ہوں- …… والدہ اور بیوی کے معاملہ میں اگر کوئی دینی وجہ نہیں تو پھر کیوں یہ ایسی بے ادبی کرتا ہے۔ اگر کوئی وجہ اور باعث اور ہے تو فوراً اسے دور کرنا چاہئے۔ …… بعض عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں- پس سبب کو دور کرنا چاہئیے اور جو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹا دینا چاہئے اور والدہ کو خوش کرنا چاہئیے۔ دیکھو شیر اور بھیڑئیے اور اور درندے بھی تو ہلائے سے ہل جاتے ہیں اور بے ضرر ہو جاتے ہیں- دشمن سے بھی دوستی ہو جاتی ہے اگر صلح کی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ نمبر۷ ۴۹۔۴۹۸۔ مطبوعہ ربوہ)
مرد تو چونکہ مضبوط اعصاب کا ہوتاہے، قوام ہے اس لئے اگرگھر میں کسی ا ختلاف کی وجہ بن بھی جائے تو پیار سے محبت سے سمجھاکر حالا ت کو سنبھالیں-اسی طرح جوان بچیاں اور بہوئیں بھی ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بوڑھوں کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور ان سے اگر کوئی سخت بات بھی ہوتو برداشت کر لیں اور اس وجہ سے برداشت کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنی ہے توپھر خدا طاقت اور ہمت بھی دیتاہے اور حالات میں سدھار پیدا ہوتاہے اوراانشاء اللہ ہوتاچلا جائے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا

یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کر کہ جن میں ان کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو۔ اس آیت کے مخاطب توآنحضرت ﷺہیں لیکن دراصل مرجع کلام امت کی طر ف ہے کیونکہ آنحضرت ﷺکے والداور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہوچکے تھے۔ اوراس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند یہ سمجھ سکتاہے کہ جبکہ آنحضرتﷺکو مخاطب کر کے فرمایا گیاہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے۔ اوراسی کی طر ف ہی دوسری آیت اشارہ کرتی ہے۔

وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّا ٓاِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ

اِحسَاناً یعنی تیرے رب نے چاہا کہ تو فقط اسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر۔…… اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو۔ کیونکہ وہ بھی مجازی رب ہیں- اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ چرند بھی اپنی اولاد کو ان کی خوردسالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں- پس خدا کی ربوبیت کے بعد ان کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔(حقیقۃ الوحی صفحہ۲۰۴۔۲۰۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی خدمت کرنے والے اور ان سے حسن سلوک کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنی رضا کی راہوں پرہمیں چلائے۔
آج بنگلہ دیش میں ان کا جلسہ سالانہ بھی ہو رہا ہے۔ بڑے نامساعد حالات میں وہ اپنا جلسہ کر رہے ہیں- ان کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ہرلحاظ سے یہ جلسہ بابرکت فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں