خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 9؍جنوری2004ء

جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتاہے۔
وقف جدید کی مالی تحریک میں ۴۲۱ممالک کے چار لاکھ مخلصین شامل ہو چکے ہیں۔
وقف جدید میں مالی قربانی میں دنیا بھر میں امریکہ اول ، پاکستان دوم اور برطانیہ سوم رہا ۔
وقف جدید کے سینتالیسویں سال کا اعلان ۔ ایم ٹی اے کے دس سال اور بنگلہ دیش کے حالات کا تذکرہ
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
9؍ جنوری2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (آل عمران:۹۳)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو دو بڑی تحریکات جاری فرمائی تھیں ان میں سے ایک وقف جدید کی تحریک ہے۔ وقف جدید کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتاہے اور ۳۱؍دسمبر کو ختم ہوتا ہے اور ۳۱؍دسمبر کے بعد کے خطبے میں عموماً وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتاہے اور خطبہ جمعہ میں عموماً جماعت نے جو سال کے دوران مالی قربانی کی ہوتی ہے اس کا ذکر ہوتاہے۔
۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعود ؓکے ہاتھوں جاری کردہ یہ تحریک زیادہ تر پاکستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتی تھی یا کچھ حد تک ہندوستان میں- ۱۹۸۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح ا لرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام دنیا میں جاری فرما دیا اور بیرونی جماعتوں نے بھی اس کے بعد بڑھ چڑ ھ کر اس تحریک میں حصہ لینا شروع کیا اور قربانیاں دیں- آج کے جمعہ سے پہلے بھی ایک جمعہ گزر چکاہے اس مہینہ میں لیکن چونکہ مختلف ممالک سے رپورٹس آنی ہوتی ہیں تاکہ جائزہ پیش کیا جاسکے اس لئے گزشتہ جمعہ میں اس کا اعلان نہیں ہوا آج اس کا ا علان کیا جائے گا انشاء اللہ۔ لیکن اس جائزے اوراعلان کرنے سے پہلے مَیں مالی قربانیوں کے ضمن میں کچھ عرض کروں گا۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
حضر ت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر بیان کی ہے۔ فرمایا :

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ-

قرآن کریم میں سورۃ بقرہ میں جہاں پہلا رکوع شروع ہوتاہے وہاں متقی کی نسبت فرمایا ہے

وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ

یعنی جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں- یہ تو پہلے رکوع کا ذکر ہے۔ پھر اسی سورۃ میں کئی جگہ انفاق فی سبیل اللہ کی بڑی بڑی تاکیدیں آئی ہیں- …… پس تم حقیقی نیکی نہیں پاسکو گے جب تک تم مال سے خرچ نہیں کروگے۔ مِمَّا تُحِبُّوْنَ کے معنے میرے نزدیک مال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے

وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ ( العادیات :۹)

انسان کو مال بہت پیاراہے۔ پس حقیقی نیکی پانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز مال میں سے خرچ کرتے رہو۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ؍و ۸ ؍جولائی ۱۹۰۹ء۔ بحوالہ حقائق الفرقان جلد اول صفحہ ۵۰۰۔۵۰۱)
ایک روایت ہے حضر ت حسن رضی اللہ عنہ سے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ : ’’اے آدم کے بیٹے توُ اپنا خزانہ میرے پاس جمع کرکے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ کسی چورکی چوری کا ڈر۔ میرے پاس رکھا گیا خزانہ مَیں پورا تجھے دوں گا اس دن جبکہ توُ اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا‘‘۔(طبرانی)
دیکھیں کتنا سستا سودا ہے۔ آج اس طرح خزانے جمع کروانے کا کسی کو ادراک ہے، شعور ہے تو صرف احمدی کوہے۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم کو سمجھتاہے کہ

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ (البقرہ :۲۷۲)

تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے، اللہ میاں کے دینے کے بھی کیا طریقے ہیں کہ جو اچھا مال بھی تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا لوٹائے گا۔ بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ کئی گنا بڑھا کر لوٹایا جائے گا۔ تم سمجھتے ہوکہ پتہ نہیں اس کا بدلہ ملے بھی کہ نہ ملے۔ فرمایا اس کا بدلہ تمہیں ضرور ملے گا بلکہ اس وقت ملے گا جب تمہیں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہوگی، تم اس کے سب سے زیاہ محتاج ہوگے۔ اس لئے یہ وہم دل سے نکا ل دو کہ تم پر کوئی ظلم ہوگا۔ ہرگز ہرگز تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ لو گ دنیا میں رقم رکھنے سے ڈرتے ہیں- بینک میں بھی رکھتے ہیں تو اس سوچ میں پڑے رہتے ہیں کہ بینکوں کی پالیسی بدل نہ جائے۔ منافع بھی میرا کم نہ ہوجائے۔ اور بڑی بڑ ی رقوم ہیں- کہیں یہ تحقیق شروع نہ ہوجائے کہ رقم آئی کہاں سے۔ اور فکر اور خوف اس لئے دامن گیر رہتاہے، اس لئے ہروقت فکر رہتی ہے کہ یہ جو رقم ہوتی ہے دنیا داروں کی صاف ستھری رقم نہیں ہوتی، پاک رقم نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس میں یہی ہوتاہے کہ غلط طریقے سے کمایا ہوا مال ہے۔ گھروں میں رکھتے ہیں تو فکر کہ کوئی چور چوری نہ کر لے، ڈاکہ نہ پڑجائے۔ پھر بعض لوگ سود پر قرض دینے والے ہیں- کئی سو روپے سود پر قرض دے رہے ہوتے ہیں-لیکن چین پھر بھی نہیں ہوتا۔ سندھ میں ایک ایسے ہی شخص کے بارہ میں مجھے کسی نے بتایاکہ غریب اور بھوکے لوگوں کو جو قحط سالی ہوتی ہے۔ لوگ بیچارے آتے ہیں اپنے ساتھ زیور وغیرہ، سونا وغیرہ لاتے ہیں ، ایسے سودخوروں سے رقم لے لیتے ہیں ، اپنے کھانے پینے کا انتظام کر نے کے لئے اوراس پہ سود پھر اس حد تک زیادہ ہوتاہے کہ وہ قرض واپس ہی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ سود اتارنا ہی مشکل ہوتاہے،سود در سود چڑھ رہاہوتاہے۔ تواس طرح وہ سونا جو ہے یا زیور جوہے وہ اس قرض دینے والے کی ملکیت بنتا چلا جاتاہے۔ تو ایک ایسا ہی سود خور تھا اور فکر یہ تھی کہ مَیں نے بینک میں بھی نہیں رکھنا۔ تو اپنے گھر میں ہی، اپنے کمرے میں ایک گڑھا کھود کے وہیں اپنا سیف رکھ کے،تجوری میں سارا کچھ رکھا کرتا تھا۔ اور چالیس پچاس کلو تک اس کے پاس سونا اکٹھا ہوگیا تھا۔اوراس کے اوپر اپنا پلنگ بچھا کر سویا کرتا تھا،خطرے کے پیش نظر کہ کوئی لے ہی نہ جائے۔ اور سونا کیاتھا کیونکہ سونے کے اوپر تو چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ساری رات جاگتاہی رہتاتھا۔ اسی فکرمیں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہوگیا۔ تو وہ مال تو اس کے کسی کام نہ آیا۔ اب اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے وہ تو اللہ ہی بہتر جانتاہے۔لیکن ایسے لوگوں کی ضمانت خداتعالیٰ بہرحال نہیں دے رہا جب کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی ضمانت ہے کہ تمہیں کیا پتہ تم سے کیا کیا اعمال سرزد ہونے ہیں ، کیا کیا غلطیاں اورکوتاہیاں ہو جانی ہیں- لیکن اگرتم نیک نیتی سے اس کی راہ میں خرچ کروگے تو یہ ضمانت ہے کہ اعما ل کے پلڑے میں جوبھی کمی رہ جائے گی توچونکہ تم نے اللہ کی را ہ میں خرچ کیا ہوگا تو کبھی نہیں ہو سکتاکہ تم پرظلم ہو، اس وقت کمیوں کو اسی طرح پورا کیا جائے گا اور کبھی ظلم نہیں ہوگا۔
اس بارہ میں ایک اور روایت ہے۔ حضر ت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفا ق فی سبیل اللہ کرنے والا اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سایہ میں رہے گا‘‘۔(مسند احمد بن حنبل)
لیکن شرط یہ ہے کہ یہ خرچ کیاہوامال پاک مال ہو،پاک کمائی میں سے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اتنے اجر اگر لینے ہیں اور اپنے مال کے سائے میں رہناہے تو گند سے تو اللہ تعالیٰ ایسے اعلیٰ اجر نہیں دیا کرتا۔ اور جن کا مال گندہ ہو ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے نہیں ہوتے اور اگر کہیں خرچ کر بھی دیں-اگر لاکھ روپیہ جیب میں ہے اور ایک روپیہ نکال کر دے بھی دیں گے تو پھر سو آدمیوں کو بتائیں گے کہ مَیں نے یہ نیکی کی ہے۔ لیکن نیک لوگ، دین کا درد رکھنے والے لوگ، جن کی کمائی پا ک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہواور اللہ تعالیٰ بھی ان کی بڑی قدر کرتاہے۔ جیساکہ حدیث میں آتاہے کہ :
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی۔ اوراللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتاہے،تواللہ تعالیٰ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہوجائے گی۔جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتاہے یہاں تک کہ وہ ایک بڑا جانور بن جاتاہے۔
(بخاری کتاب الزکوٰۃ)
آج جماعت میں ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جواس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کے بزرگوں نے تکلیفیں اٹھا کر اپنی پاک کمائی میں سے جو قربانیاں کیں اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلوں کے اموال ونفوس بے انتہا برکت ڈالی۔
پھر روایت ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :’’مَیں نے مسجد نبوی کے منبر پر رسول اللہ ﷺکو یہ کہتے ہوئے سنا :
’’اے لوگو! جہنم کی آگ سے بچو اگر چہ تمہارے پاس کھجور کا آدھاہی ٹکڑا ہو، وہی دے کر آگ سے بچو۔ اس لئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا انسان کی کجی کو درست کرتاہے۔ بُری موت مرنے سے بچاتاہے اور بھوکے کا پیٹ بھرتاہے‘‘۔(ترغیب بحوالہ ابو یعلی وبزار)
تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کی ہوئی قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس دنیا میں بھی راستے سے بھٹکنے سے بچاتاہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے شخص سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں جن سے اس کا انجام بھی بخیر ہو۔
حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے۔ ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا۔ دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا بھی ہے۔(بخاری کتاب الزکوۃ باب انفاق المال فی حقہ)
ایک روایت میں آتاہے، عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اَلشُّحُّ یعنی بخل سے بچو! یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی (قوموں ) کو ہلاک کیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ۱۵۹مطبوعہ بیروت)
الحمدللہ ! کہ آج جماعت میں ایسے لاکھوں افراد مل جاتے ہیں جو بخل توعلیحدہ بات ہے اپنے اوپر تنگی وارد کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں- اور بخل کو کبھی بھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے۔
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’مَیں یقینا سمجھتاہوں کہ بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو شخص سچے دل سے خداتعالیٰ پر ایمان لاتاہے وہ اپنا مال صرف اس ما ل کو نہیں سمجھتا جو اس کے صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خداتعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتاہے اور امساک اس سے دُورہوجاتاہے(یعنی کنجوسی اس سے دور ہو جاتی ہے) جیساکہ روشنی سے تاریکی دُور ہوجاتی ہے ‘‘۔ (تبلیغ رسالت۔ جلد دہم صفحہ ۵۵)
پھر فرمایا :’’قوم کو چاہئے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجا لاوے۔ مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں چاہئے۔ دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔ رسول کریمﷺ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کوبھی اس امر کا خیال ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بہت کچھ ہو سکتاہے۔ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتاتو اُسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے ‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۵۸۔۳۵۹ جدید ایڈیشن)
ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر ایک مُد(اناج وغیرہ) ملتا (تو وہ اس میں سے صدقہ کرتا) اور اب ان کا یہ حال ہے کہ ان میں سے بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار ہے۔ (بخاری کتاب الاجارہ۔ باب من آجر نفسہ لیحمل علی ظہرہ ثم تصدق بہ ……)
اسی سنت کی پیروی کرتے ہوئے آج بھی جماعت میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں عورتوں نے بھی سلائی کڑھائی کرکے یامرغی کے انڈے بیچ کر اپنے استعمال میں لائے بغیر خلیفہ ٔوقت کی طرف سے کی گئی تحریکات میں حصہ لیا۔اور اس طرح سے پہلوں سے ملنے کی پیشگوئی کو بھی پورا کیا۔
حضرت خلیفہ اوّل کا واقعہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کے بارہ میں لکھاہے لیکن ہر دفعہ پڑھنے سے ایمان میں ایک تازگی پیدا ہوتی ہے اور قربانی کی ایک نئی روح پیدا ہوتی ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر مَیں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کاحق ادا کرتے۔ ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں :
’’مَیں آ پ کی راہ میں قربان ہوں- میرا جو کچھ ہے میرانہیں آ پ کا ہے۔ حضرت پیرومرشد میں کما ل راستی سے عرض کرتاہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تو مَیں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجا لاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کردوں-حضر ت پیرو مرشد نابکار شرمسار عرض کرتاہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے۔ میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیاجائے۔ پھرجو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو۔ مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں- دعافرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو‘‘۔(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۳۵۔۳۶)۔(یعنی پیسے بھی دے رہے ہیں اور فرمایا کہ اس کے بعد جو آمد ہو وہ بھی اسی کام کو جاری رکھنے کے لئے خرچ ہو)۔
پھر حضر ت منشی ظفر احمد صاحب کی قربانی کا بھی ایک واقعہ ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ :
’’ ایک دفعہ اوئل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لدھیانہ میں کسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت حضرت صاحب کے پاس ا س رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی۔ منشی صاحب کہتے تھے کہ میں اس وقت حضرت صاحب کے پاس لدھیانہ میں اکیلا آیا ہوا تھا۔ حضرت صاحب نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت یہ اہم ضرورت درپیش ہے۔ کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کر سکے گی۔ میں نے عرض کیا حضرت انشاء اللہ کر سکے گی۔ اور میں جا کر روپے لاتا ہوں- چنانچہ میں فوراً کپورتھلہ گیا۔ اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کر نے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حاصل کئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں لا کر پیش کر دیئے حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپور تھلہ کو (کیونکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے تھے کہ اس رقم کا جماعت نے انتظام کیا ہے) دعا دی۔ چند دن کے بعد منشی اروڑا صاحب بھی لدھیانہ گئے تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ ’’منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی۔ ‘‘ منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’حضرت کو ن سی امداد؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں ‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا۔ ’’ یہی جومنشی ظفر احمد صاحب جماعت کپور تھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے۔‘‘ منشی صاحب نے کہا ’’ حضرت! منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا۔ اور میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا۔ ‘‘ اس کے بعد منشی اروڑا صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا۔ میں نے کہا منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کر دی۔ اس میں آپ کی ناراضگی کی کیا بات ہے۔ مگر منشی صاحب کا غصہ کم نہ ہوا اور وہ برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں بتایا۔ پھر منشی اروڑا صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے۔ اللہ! اللہ! یہ وہ فدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود مہدی معہود کو عطا ہوئے۔ ذرا غور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں مگر ایک اکیلا شخص اور غریب شخص اٹھتا ہے اور جماعت سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا زیور فروخت کر کے اس رقم کو پورا کر دیتا ہے۔ اور پھر حضرت صاحب کے سامنے رقم پیش کرتے ہوئے یہ ذکر نہیں کرتا کہ یہ رقم میں دے رہا ہوں یا کہ جماعت۔ تاکہ حضرت صاحب کی دعا ساری جماعت کو پہنچے۔ اور اس کے مقابل پر دوسرا فدائی یہ معلوم کر کے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور میں اس خدمت سے محروم رہا۔ ایسا پیچ و تا ب کھاتا ہے کہ اپنے ووست سے چھ ماہ تک ناراض رہتا ہے کہ تم نے حضرت صاحب کی اس ضرورت کا مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا۔ (الفضل ۴ ستمبر ۱۹۴۱ء بحوالہ اصحاب احمد روایات حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپور تھلوی صفحہ۶۱۔۶۲ )
اب کوئی دنیا دار ہو تو اس بات پر ناراض ہو جائے کہ تم روز روز مجھ سے پیسے مانگنے آ جاتے ہو۔ لیکن یہاں جنہوں نے اگلے جہان کے لئے اور اپنی نسلوں کی بہتری کے سود ے کرنے ہیں ان کی سوچ ہی کچھ اور ہے۔ اس بات پر نہیں ناراض ہو رہے کہ کیوں پیسے مانگ رہے ہو بلکہ اس بات پرناراض ہو رہے ہیں کہ مجھے قربانی کا موقع کیوں نہیں دیا۔
پھر ایک واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چوہدری رستم علی صاحب آف مدار ضلع جالندھر کے بارہ میں کہ’’ وہ کورٹ انسپکٹر تھے ان کی ۸۰روپے تنخواہ تھی۔ حضرت صاحب کو خاص ضرورت دینی تھی۔ آ پ نے ان کو خط لکھا کہ یہ خاص وقت ہے اور چندے کی ضرورت ہے۔ انہی دنوں گورنمنٹ نے حکم جاری کیاکہ جو کورٹ انسپکٹر ہیں وہ انسپکٹر کردئے جائیں- جس پر ان کو نیا گریڈ مل گیا اور جھٹ ان کے ۸۰ روپے سے ۱۸۰ روپے ہوگئے۔ اس پر انہوں نے حضرت صاحب کولکھاکہ ادھر آ پ کا خط آیا اور اُدھر ۱۸۰ روپے ہوگئے۔ اس لئے یہ اوپر کے سو روپے میرے نہیں ہیں ، یہ حضرت صاحب کے طفیل ملے ہیں اس واسطے وہ ہمیشہ سوروپیہ علیحدہ بھیجا کرتے تھے‘‘۔ (روزنامہ’ الفضل‘ ربوہ۔ ۱۵؍مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۲)
پھر ایک واقعہ ہے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کا۔ ان کا تھوڑا ساتعارف بھی کرا دوں- یہ حضر ت ام ناصر جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی پہلی بیگم تھیں، ان کے والد تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے نانا ہوئے۔ تو ان کے بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے لکھاہے کہ:
’’ جب انہوں نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعویٰ کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود کی بیعت کرلی۔ حضرت مسیح موعود نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے اور ان کی مالی قربانیاں اس حدتک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت مسیح موعود نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں- حضرت مسیح موعودکا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جب کہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں ہورہا تھا اور آپ کو اس میں روپیہ کی ضرورت تھی۔ حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں لنگرخانہ دوجگہ پر ہوگیا ہے۔ ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں اور اس کے علاوہ مقدمہ پر بھی خرچ ہورہا ہے لہٰذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں- جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ قریباً چارسوپچاس روپے ملی تھی۔ وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضروریات کے لئے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح موعود لکھتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں- غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کے لئے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں-
(تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء۔ انوارالعلوم جلد ۹صفحہ ۴۰۳)
اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں کو بھی اسی اخلاص اور وفا کے ساتھ قربانیوں کی توفیق دے۔ ان کی نسلیں اب دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص اور وفا میں بہت بڑھے ہوئے بھی ہیں ، اللہ تعالیٰ مزید بڑھائے۔
حضر ت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’ میں یقینا جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریاکاری کے موقعوں میں تو صدہا روپیہ خرچ کریں- اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں- شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خِست اور بخل کو نہ چھوڑے۔ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے نبیﷺ نے بھی کئی مرتبہ صحابہؓ پر چندے لگائے۔ جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رہے … جو ہمیں مدد دیتے ہیں- آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گے۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد۸صفحہ ۶۶)
جماعت میں بہت سے خاندان اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے بزرگوں کی ایسی قربانیوں اور مدد کی وجہ سے وہ آج مالی لحاظ سے کہیں کے کہیں پہنچے ہوئے ہیں-اگر ہم اپنی نسلوں کو بھی دینی اور دنیاوی لحاظ سے خوشحا ل دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی چاہئے کہ قربانیوں کے یہ معیار قائم رکھیں اور قائم رکھتے چلے جائیں اور اپنی نسلوں میں بھی اس کی عادت ڈالیں-
حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’ پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھیرایا ہے یعنی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے جیسا کہ وہ فرماتا ہے…… اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو اور جو کچھ ہم نے عقل اور علم اور فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ۔ جو لوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجا لاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں-‘‘ ( اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۴۱۸۔۴۱۹)
پھر فرمایا: ’’میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ مجھے خد۱ئے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذرّیت کو نہایت ضرورت ہے۔ سو میں اس لئے مستعد کھڑاہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیّبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدّم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے اُ ن علوم اور برکات کو ایشیاؔ اور یورپؔ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خداتعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں ‘‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۵۱۶)
فرماتے ہیں :۔ ’’ چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس (یعنی ہر شخص) یہ عہد کرے کہ مَیں اتنا چندہ دیا کروں گا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے عہد کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتاہے۔ اس دفعہ تبلیغ کے لئے جو بڑا بھاری سفر کیا جاوے اس میں ایک رجسٹر بھی ہمراہ رکھا جاوے۔ جہاں کوئی بیعت کرنا چاہے اس کا نام اور چندے کا عہد درج رجسٹر کیا جاوے۔
اب یہ بات پہلے دن سے ہی نومبایعین کو سمجھا دینی چاہئے۔ شروع میں اگر وہ باشرح چندہ عام وغیرہ نہیں دیتے یانہیں دے سکتے تو کسی تحریک میں مثلاً وقف جدید میں یا تحریک جدید میں چندہ لیں ، پھرآہستہ آہستہ ان کو عادت پڑ جائے گی اور پھر ان کو بھی چندوں کی ادائیگی میں مزا آنے لگے گااور ایک فکر پیدا ہوگی۔جیساکہ ہم میں سے بہت سے ہیں جن کو فکر ہوتی ہے، بہت سارے لوگ خطوں میں لکھتے ہیں کہ بڑی فکرہے ہم نے اتنا وعدہ کیاہوا ہے وقف جدید کے چندے کا یا تحریک جدید کے چندے کا اورپورا کرناہے، وقت گزر رہاہے،دعا کریں پورا ہوجائے۔تو جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ یہ ہمدردی ہمیں نومبایعین سے بھی ہونی چاہئے اور ان کو بھی چندوں کی عادت ڈالنی چاہئے۔
پھر فرمایا :کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کواس بات کا علم نہیں کہ چندہ بھی جمع ہوتاہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خداتعالیٰ سے پکا عہد کرلو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا اور ناواقف لوگوں کویہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں- اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کرسکتے توپھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ؟ نہایت درجہ کا بخیل اگرایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کے لئے الگ کرے تووہ بھی بہت کچھ دے سکتاہے۔ ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتاہے۔ اگر کوئی چار روٹی کھاتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے اس سلسلہ کے لئے الگ رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لئے اسی طرح سے نکالا کرے …‘‘۔ (البدر، جلد ۲ نمبر ۲۶۔ صفحہ ۲۰۱۔ بتاریخ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء)
پھر آپ اپنی ایک رؤیا اور ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ رؤیا دیکھا کہ ایک دیوار پر ایک مرغی ہے۔ وہ کچھ بولتی ہے۔ سب فقرات یاد نہیں رہے مگر آخری فقرہ جو یاد رہا یہ تھا:

اِنۡ کُنۡتُمۡ مُسۡلِمِیۡنَ۔

اگر تم مسلمان ہو۔اس کے بعد بیداری ہوئی۔ یہ خیال تھا کہ مرغی نے یہ کیا الفاظ بولے ہیں- پھر الہام ہوا:

اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُسۡلِمِیۡنَ۔

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ اگر تم مسلمان ہو۔فرمایا کہ مرغی کا خطاب اور الہام کا خطاب ہر دو جماعت کی طرف تھے۔ دونوں فقروں میں ہماری جماعت مخاطب ہے۔ چونکہ آجکل روپیہ کی ضرورت ہے۔ لنگر میں بھی خرچ بہت ہے اور عمارت پر بھی بہت خرچ ہو رہا ہے اس واسطے جماعت کو چاہئے کہ اس حکم پر توجہ کریں-
پھر فرمایا کہ :مرغی اپنے عمل سے دکھاتی ہے کہ کس طرح انفاق فی سبیل اللہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ انسان کی خاطر اپنی ساری جان قربان کرتی ہے اور انسان کے واسطے ذبح کی جاتی ہے۔ اسی طرح مرغی نہایت محنت اور مشقت کے ساتھ ہر روز انسان کے واسطے انڈا دیتی ہے۔
ایسا ہی ایک پرند کی مہمان نوازی پر ایک حکایت ہے کہ دو پرندے تھے۔ درخت پر ان کا گھونسلہ تھا۔ درخت کے نیچے ایک مسافر کو رات آگئی۔ جنگل کا ویرانہ اور سردی کا موسم۔ درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا۔ نراور مادہ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ یہ غریب الوطن آج ہمارا مہمان ہے اور سردی زدہ ہے۔ اس کے واسطے ہم کیا کریں؟ سوچ کر ان میں یہ صلاح قرار پائی کہ ہم اپنا آشیانہ توڑ کر نیچے پھینک دیں اور وہ اس کو جلا کر آگ تاپے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ بھوکا ہے۔ اس کے واسطے کیا دعوت تیار کی جائے۔ اور تو کوئی چیز موجود نہ تھی۔ ان دونو ں نے اپنے آپ کو نیچے اس آگ میں گرادیا تاکہ ان کے گوشت کا کبا ب ان کے مہمان کے واسطے رات کا کھانا ہو جائے۔ اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کی ایک نظیر قائم کی۔
اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :سو ہماری جماعت کے مومنین اگر ہماری آواز کو نہیں سنتے تو اس مرغی کی آواز کو سنیں-مگر سب برابر نہیں- کتنے مخلص ایسے ہیں کہ اپنی طاقت سے زیادہ خدمت میں لگے ہوئے ہیں- خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔‘‘ ( ملفوظات جلد ۴ صفحہ۵۸۶۔۵۸۷جدید ایڈیشن )
اب بھی جن لوگوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر مالی قربانیوں میں حصہ لیاہے اور لے رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’ تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خداتعالیٰ سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خودبخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا۔ لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا۔ یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجا لا کر خداتعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلوتہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجا لائے گی۔ تم یقینا سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں- میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرہ محتاج نہیں- ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ۴۹۷۔۴۹۸ )
اللہ نہ کرے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسی سوچ والا ہو جو سچائی کی روشنی پا کر پھر اندھیروں میں بھٹکنے والاہواور گمراہی کی موت مرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ا س سے بچائے۔
اب گزشتہ سال کے دوران وقف جدید کی مالی قربانیوں کا جائزہ پیش کرتاہوں-مختصر تعارف تو شروع میں وقف جدید کا کروا دیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۸۵ء میں اس کو تمام ممالک کے لئے جار ی فرمایا اس وقت سے ملکوں کا بھی مقابلہ شروع ہوا ہواہے۔اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۲۴ممالک اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے۔ اور جیساکہ مَیں نے پہلے بتایا کہ ۳۱؍دسمبر ۲۰۰۳ء کو وقف جدید کا چھیالیسواں سال ختم ہوا تھا اور یکم جنوری سے سینتالیسواں سال شروع ہوچکا ہے۔تو گزشتہ سال کے جو اعدادوشمار ہیں ان کے مطابق وقف جدید کی مد میں کل وصولی ۱۸لاکھ ۸۰ ہزار پاؤنڈ ہے اور یہ وصولی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳لاکھ ۷۰ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے گزشتہ سال کی نسبت۔ الحمدللہ۔ اور وقف جدید میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد بھی ۴لاکھ ۸ہزار تک پہنچ چکی ہے اور گزشتہ سال کی نسبت ۲۸ہزار افراد زیادہ شامل ہوئے ہیں- الحمدللہ۔
گزشتہ سال میں یعنی ۴۶ویں سال میں وقف جدید میں دنیا بھر کی جماعتوں میں جماعت امریکہ سب سے آگے رہی ہے۔ اس طرح امریکہ اوّل ہے،پاکستان دوسرے نمبر پہ۔ لیکن گزشتہ سال پاکستان اول تھا اورامریکہ دوسرے نمبر پرتھا اور اس سے ایک سال پہلے بھی امریکہ نمبر ایک تھا اورپاکستان نمبر دو تھا۔ یہ مقابلہ بڑا آپس میں چل رہاہے دونوں کا۔ لیکن امسال امریکہ نے بہت بڑی Lead دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قائم رکھے۔ امسال انہوں نے قریباً گزشتہ سال کی نسبت ۷۰ فیصد زائد وصولی کی ہے۔ لیکن بہرحال پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کے مقابلہ میں اور اس لحاظ سے انہوں نے بھی ترقی کی ہے ۱۲فیصد وصولی زائد ہوئی ہے۔ جبکہ دو سالوں سے یعنی پچھلے سال بھی انگلستان کی جماعت تیسرے نمبرپر تھی اورامسال بھی تیسرے نمبر پرہی آئی ہے۔انہوں نے اسے Maintain رکھا ہواہے اللہ تعالیٰ انہیں اور قدم بڑھانے کی توفیق دے۔
تو اب مجموعی طورپر پہلی دس جماعتیں جوہیں دنیاکی ان میں (۱)امریکہ،(۲)پاکستان،(۳) برطانیہ، (۴) جرمنی،(۵) کینیڈا،(حالانکہ کینیڈا کی جماعتیں کوشش کریں تو یہ اپنی پوزیشن بہت بہتر کرسکتی ہیں )۔(۶)بھارت،(۷)انڈونیشیا،(۸) بلجیم،(۹)سویٹزرلینڈ اور (۱۰)آسٹریلیا۔
اب چندہ دینے کے لحاظ سے بھی امریکہ کی پہلی پوزیشن ہی ہے اور جیساکہ مَیں نے بتایاہے کہ باقی جماعتوں کوکافی پیچھے چھوڑدیاہے۔ ان کی توجہ اب مساجد کی تعمیر کی طرف بھی ہوئی ہے۔ اور امریکہ کے ماحو ل میں مخلصین جماعت میں جو نیکیوں اور قربانیوں میں سبقت لے جانے کی روح پیدا ہوئی ہے خدا کرے کہ یہ قائم رہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان کے سر اللہ تعالیٰ کے حضور اور اس کے آستانے پرجھکے رہیں اوریہ قدم جو آگے بڑھا ہے پیچھے نہ ہٹے۔
امریکہ کی جماعتوں میں بھی،بتا دیتاہوں بعض دفعہ جماعتوں کو بھی شوق ہوتاہے کہ ہمارا بھی ذکر ہوجائے۔ تو امریکہ کی جماعتوں میں Silicon Valley اول ہے، لاس اینجلیس دوم اور میری لینڈ نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
پھر پاکستان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۶۶ء میں اطفال کے سپرد بھی وقف جدید کا کام کیاتھاکہ وہ بھی چندہ دیاکریں- اور اس وقت سے دفتر اطفال علیحدہ چل رہاہے وقف جدید میں- تو ان کا علیحدہ علیحدہ موازنہ بھی پیش کردیتاہوں- بالغان یعنی بڑوں میں پہلی پوزیشن لاہور کی ہے،اور دوسری کراچی کی اور تیسری ر بوہ کی۔ اوراطفال میں اول کراچی، دوم لاہور اور سوئم ربوہ۔
اسی طرح اضلاع کی جو قربانیاں ہیں ان میں پاکستان کے ا ضلاع میں پہلا نمبر ہے اسلام آباد کا، دوسرا راولپنڈی کا، راولپنڈی کا مجموعی قربانیوں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت تیزی سے قدم آگے بڑھ رہاہے۔ اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور یہ قدم بڑھتا چلاجائے۔ پھرتیسرے نمبر پرسیالکوٹ ہے، چوتھے پر فیصل آباد،پانچویں پر گوجرانوالہ، چھٹے پر میر پور خاص، ساتویں پر شیخوپورہ، آٹھویں پر سرگودھا، نویں پر گجرات اور دسویں پر بہاولنگر۔
اسی طرح دفتر اطفال میں اضلاع میں اسلام آباد نمبر ایک پر، سیالکوٹ نمبر دو پر، گوجرانوالہ نمبر تین پر، فیصل آباد نمبر چار پر، راولپنڈی نمبر پانچ پر، شیخوپورہ نمبر چھ پر، میر پور خاص نمبر سات پر،سرگودھا نمبر آٹھ پر،نارووال نمبر نو اور بہاولنگرنمبر دس۔
اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکتیں نازل فرمائے اور مالی قربانیوں کے میدان میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں- اس کے ساتھ ہی مَیں وقف جدید کے سینتالیسویں سال کا اعلان کرتاہوں-
اس کے علاوہ آج ایم ٹی اے کے بارہ میں بھی کچھ بتانا چاہتاہوں- جیساکہ پروگراموں سے سب کو اندازہ ہو گیاہوگاکہ ۷؍جنوری کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کی باقاعدہ نشریات کوشروع ہوئے دس سال پورے ہوگئے ہیں- تو اس عرصہ میں والنٹیئر ز نے اس کام کو خوب چلایاہے اوردنیا حیران ہوتی ہے کہ یہ سب کام رضاکارانہ طورپر بغیرکسی باقاعدہ ٹریننگ کے کس طرح ہوتاہے لیکن جو خلوص اورجذبہ اوروفا اورلگن ان ناتجربہ کار لوگوں میں ہے ان دنیاداروں کو کیا پتہ کہ ہزاروں پاؤنڈ خرچ کرکے بھی تم نہیں خرید سکتے۔ اس کے لئے تو یہ عہد چاہئے کہ مَیں جان، مال، عزت اوروقت کو قربان کرنے کے لئے ہردم تیار رہوں گا۔ تویہ تو وہ پیارے لوگ ہیں ، وفاؤں کے پتلے ہیں جو نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات۔ ان میں لڑکے بھی ہیں ، خواتین بھی ہیں ، لڑکیاں بھی ہیں ، مرد بھی ہیں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء بھی ہیں اوراپنی ذاتی ملازمتوں اور کام کرنے والے لوگ بھی ہیں جو اپنی رخصتیں بھی ایم ٹی اے کے لئے قربان کرتے ہیں اوراس با ت سے خوش ہیں کہ ان کو اپنے وفا کے عہد کو نبھانے کی توفیق مل رہی ہے۔ ان میں سے بہت سو ں میں وہ روح بھی ہے جس کی مثال میں نے پہلے دی تھی کہ کیوں ساٹھ روپے اپنی جیب سے خرچ کئے اورہمیں قربانی کاموقعہ کیوں نہ دیا۔ ان میں سے کچھ توہمیں سامنے نظر آجاتے ہیں جیسے کیمرہ مین ہیں جو اس وقت بھی آپ کو نظر آ رہے ہیں اورخطبے کو آپ تک پہنچا رہے ہیں- بہت سے ایسے بھی ہیں جو پیچھے رہ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں-اورپروگرام بنارہے ہیں کچھ ان میں سے ایڈیٹنگ وغیرہ کررہے ہیں ، کچھ ریکارڈنگ کر رہے ہیں- ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ہوئے ان نشریات کو پوری دنیاتک پہنچا رہے ہیں-تو یہ تو یہاں کی مرکزی ٹیم کے لوگ ہیں-
پھرمختلف ممالک میں پروگرام بنانے والے ہیں- مختلف ممالک کو اس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے،جماعتوں کو یہ بھی کہہ دوں کو جس طرح جماعتوں کی طرف سے پروگرام بن کے آنے چاہئے تھے اس طرح نہیں آرہے۔ افریقن ممالک سے بہت کم ہیں پروگرام۔ یورپ سے اس طرح نہیں جس طرح آنے چاہئیں- ایشیا کے بہت سے ممالک ہیں جہاں مختلف پروگرام بن سکتے ہیں ، ڈاکومینٹریز بن سکتی ہیں- وہاں کے اوربہت سارے پروگرام ہیں اوران ملکوں میں جو اس چیز کے ماہرین ہیں بہت سی جگہوں پر ایسے لوگ ہیں جو احمدیوں کے واقف ہیں یا بعض جگہوں پر احمدی خود ہیں ،ان سے استفادہ کیا جاسکتاہے،ان سے مشورہ کیا جاسکتاہے،پروگراموں میں جدت پیدا کی جاسکتی ہے، نئے نئے پروگرام بنائے جاسکتے ہیں- مختلف نوع کے پروگرام بنانے چاہئیں- تو یہاں لندن کی ٹیم جس طرح کام کرتی ہے، اگر دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسی طر ح،اس کے علاوہ امریکہ میں بھی ٹیم ہے جو کام کررہی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے،آگے پہنچانے کی حد تک،پروگرام بنانے کی حد تک نہیں- تو اگر دنیا کے دوسرے ممالک بھی باقاعدہ کام شروع کردیں توعین ممکن ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہواورکام زیادہ ہوں-
بہرحال یہ کام توانشاء اللہ تعالیٰ بڑھے گا اور بڑھناہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی اسی میں ہے۔اور یہ کام اللہ تعالیٰ نے اُس خلیفۃ المسیح رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور میں شروع کروایا جس کے منہ سے یہ الفاظ بھی نکلوائے کہ

ساتھ میرے ہے تائید ربّ الوریٰ

اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ تائید رب الوریٰ ہمیشہ کی طرح جماعت کے ساتھ رہے گی اوریہ خداکا وعدہ ہے جو ہمیشہ پورا ہوناہے۔ یہ خداکاوعدہ اپنے پیارے مسیح الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے ہے کہ ’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘۔ تو اب اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیاہے۔ فرمایا کہ مَیں نے یہ کام کرناہے تم لوگوں نے تو صرف ہاتھ لگا کر ثواب کماناہے۔ وہی لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تائید کے یہی نظارے ہم ہروقت دیکھ رہے ہیں اور ایم ٹی اے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک اب یہ پیغام پہنچ رہاہے۔ اورجو کمی رہ گئی تھی وہ Asia Sat 3کے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہے۔ پہلے ایشیا میں کم تھا پہلے امریکہ میں بھی اسی طرح۔ پروگرام جن جگہوں پرنہیں پہنچ رہے تھے یااتنے اچھے سگنل نہیں تھے۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں جو طوفان آیاہے اس سے وہاں کا سیٹلائٹ جس کے ساتھ ہمارا تعلق تھا اس کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اور چند دن پروگرام نہیں آتے رہے۔ اس کے بعد اس کمپنی نے تو کہہ دیا کہ ہم اس کام کو نہیں چلا سکتے آپ کہیں اور بات کردیں- اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نیامعاہدہ ایسی کمپنی کے ساتھ ہوا جن کا پھیلاؤ اس سے زیادہ تھاجو پہلے سیٹلائٹ کاتھا اوران کے سگنل بھی زیادہ مضبوط تھے۔ اورپھریہ کہ جو خرچ پہلے ہو رہاتھااس سے کم خرچ پرمعاہدہ ہوا۔ تویہاں تووہی مثال صادق آتی ہے ’کُبے کو لات راس آگئی‘ کہ ٹھیک ہے چاردن کی تکلیف تو برداشت کرنی پڑی ہے لیکن اس سے ہمارے خرچ میں بھی کم آئی اور پھیلاؤ میں بھی زیادتی ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری پردہ پوشی فرماتا رہے اور تائید ونصرت فرماتا چلا جائے۔ ایم ٹی اے کے کارکنان جوہیں یہ اپنے لئے بھی دعا کریں اورجماعت بھی ان کے لئے دعاکرے کہ خداتعالیٰ ان کوخدمت کا موقع دیتارہے اوران کے کام کومزید جلا بخشے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت محنت اورلگن سے کام کر رہے ہیں-اور مر کزی ٹیم میں مختلف قوموں کے لوگ ہیں-عرب بھی ہیں ، بوزنین بھی ہیں ، دوسرے یورپ کے لوگ بھی ہیں ، پاکستانی قومیت کے لوگ جو یہاں آباد ہوئے ہوئے ہیں وہ بھی ہیں ، افریقن بھی ہیں- تو اس طرح ہر قوم کے لوگ اسی خدمت کے جذبے سے کام کررہے ہیں-
ایک فکرمند ی والی خبر بھی ہے۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ کچھ عرصہ سے مولویوں نے جماعت کے خلاف فتنہ برپاکیا ہواتھا اورمساجد پرحملہ وغیرہ بھی ہو رہے تھے۔ اسی طرح رمضان میں ایک احمدی کو شہید بھی کردیا۔ اب لگتاہے کہ حکومت بھی ان مولویوں کا ساتھ دینے پرتلی ہوئی ہے اور احمدیوں کے خلاف کچھ قانون پاس کرنے کی کوشش کررہے ہیں- اللہ تعالیٰ تما م احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ثبات قدم عطا فرمائے اور دشمنوں کی تدبیر انہی پرلوٹا دے۔ اے اللہ !تو نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا۔ آج بھی ہمیں اپنی تائید ونصرت کے نظارے دکھا۔ بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ صبر، حوصلہ اور دعا سے کام لیں- ہمارا سہارا صرف خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے حضور جھک جائیں اورجھکے رہیں- یہاں تک کہ اس کی تائید ونصرت کے نظارے نظر آنے شروع ہوجائیں- اللہ تعالیٰ ابتلا کا یہ دور لمبا نہ کرے اوردشمنوں کی جلد از جلد پکڑ کرے۔ وہاں کی حکومت کو بھی چاہئے کہ ہمسایوں سے سبق لیں اور جو ان کے کام ہیں حکومت چلانے کے وہ چلائیں- کسی کے مذہب میں دخل اندازی نہ کریں-ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ڈرناچاہئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں