خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍فروری 2009ء

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا تعالیٰ کے وہ پہلوان ہیں جن کو خود خدا تعالیٰ نے جری اللہ کہہ کر مخاطب فرمایا ہے۔
پیشگوئی مصلح موعود کی اہمیت وافادیت کا پُرمعارف بیان
یہ نشان مُردوں کو زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہترہے۔
پیشگوئی مصلح موعوداسلام کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کا ایک خاص نشان ہے
حضرت مصلح موعودؓ کی غیر معمولی اسلامی خدمات پر غیروں کا خراج تحسین
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 20؍فروری 2009ء بمطابق20؍تبلیغ 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا تعالیٰ کے وہ پہلوان ہیں جن کو خود خدا تعالیٰ نے جری اللہ کہہ کر مخاطب فرمایا ہے۔ خداتعالیٰ نے یہ خطاب آپ کو کیوں عطا فرمایا؟اس لئے کہ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ، آنحضرت ﷺ اور اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی اور آپ اسلام کے دفاع کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ہر مذہب کے بارہ میں آپ کا گہرا مطالعہ اور علم تھااور ہر مذہب کے مقابل پر اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے آپ ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ جب ہندوستان میں عیسائی مشنریز کا زور ہوا اور اسلام اور بانی اسلام ﷺ کے خلاف سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ اس زمانہ میں لاتعداد پمفلٹ اور اشتہارات تقسیم ہوئے جس نے مسلمانوں کو عیسائیت کی جھولی میں ڈالنا شروع کر دیا اور جو عیسائیت میں شامل نہیں ہوئے ان میں سے لاتعداد مسلمان ایسے تھے جن کے ذہنوں میں اسلام کی تعلیم کے خلاف شبہات پیدا ہونے لگے۔ اور پھر عیسائیت کے اس حملے کے ساتھ ہی آریہ سماج اور برہمو سماج اٹھے۔ یہ تحریکیں بھی پورے زور سے شروع ہوئیں اور مسلمانوں کا اس وقت یہ حال تھا کہ بجائے اس کے کہ دوسرے مذاہب کامقابلہ کریں آپس میں دست و گریباں تھے ایک دوسرے پر تکفیر کے فتوے لگا رہے تھے۔ اس وقت اسلام کی اس نازک حالت پر اگرکوئی حقیقت میں فکر مند تھا اور اسلام کا دفاع کرنا چاہتا تھا تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تھے۔ اس وقت اسلام پر جو حملے ہو رہے تھے آپ نے ان سب کے توڑ کے لئے ایک کتاب لکھی جس کا نام براہین احمدیہ رکھا جس میں آپ نے قرآن کریم کو کلام الٰہی اور ہر لحاظ سے مکمل کتاب کے طور پر پیش کیا اور اسی طرح آنحضرت ﷺ کی نبوت اور آپ کا افضل ہونا ثابت کیا اور ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا۔ جس نے تمام مذاہب جو اسلام کے مقابلہ پر تھے اُن کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ اسلام کے خلاف ہر قسم کے اوچھے اورگھٹیا حملے کرنے میں اور زیادہ تیز ہو گئے۔ آپ کے اس نئے انداز نے جو آپ نے براہین احمدیہ میں پیش فرمایا اورآپ کا اسلام کے دفاع کا، اسلام کی تعلیم کی خوبصورتی بیان کرنے کا جو طریق تھا اس کو بہت سے مسلمان علماء نے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ لیکن جب آپ نے اشتہاروں وغیرہ کے ذریعہ سے اسلام کے پیغام کو مزید وسعت دی تو مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ آپ کے خلاف ہو گیا اور غیروں کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی۔ آپؑ نے اُس زمانہ میں اسلام کا پیغام جس جوش سے دنیا تک پہنچایا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے اور آپ کے ایک صحابی حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحب کے حوالہ سے حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے یہ بیان کیاہے کہ اُس وقت آپ نے 20ہزار کی تعداد میں اشتہار چھپوایا اور دنیا کے مختلف حصوں میں جہاں بھی اس زمانہ میں ڈاک جا سکتی تھی تمام بادشاہوں اور ارباب حکومت کو، وزیروں کو، مدبرین کو، مصنفین کو، علماء کو، نوابوں وغیرہ کو وہ اشتہاربھجوایا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب آپ کا دعویٰ مسیحیت نہیں تھا بلکہ مجدد کے طور پر آپؑ نے پیغام دیا تھا اور اسلام کی خوبیاں بیان کی تھیں۔ بہرحال اس پیغام سے جب یہ دنیا میں مختلف جگہوں پر گیا تھا تودنیا کے لوگوں میں ایسی خاص کوئی ہل جل پیدا نہیں ہوئی لیکن ہندوستان کے اندر جو دوسرے مذاہب تھے جن کا اندازہ تھا کہ اب ہم نے مسلمانوں کو اپنے اندر سمیٹا ہی سمیٹا، ان پر ایک زلزلہ آگیا۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اسلام کے دفاع میں ایک کتاب لکھی گئی ہے اور اب براہ راست مقابلہ کے لئے اور اسلام کی عظمت بیان کرنے کے لئے اشتہارات بھی تقسیم کئے جا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ غیر مسلم جو بھی حربہ اسلام کے خلاف استعمال کر سکتے تھے انہوں کیا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض مسلمان بھی اپنی کینہ پروری کی وجہ سے ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور آپ کے خلاف ہو گئے۔ بہرحال اس صورت حال میں آپ نے بڑے درد سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ مَیں تیرے آخری اور کامل دین اور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ جو تیرے بہت زیادہ پیارے ہیں ان کے دفاع کے لئے سب کچھ کر رہا ہوں اس لئے اے اللہ تُو میری مدد کر۔ اور اس سوچ کے ساتھ آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ایک چلہ کشی کریں۔ یعنی چالیس دن تک علیحدہ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ سے خاص دعائیں کریں تاکہ خداتعالیٰ سے اسلام کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کا خاص تائیدی نشان مانگیں۔ اس کے لئے پہلے آپ نے استخارہ کیاکہ کس جگہ پر چلہ کشی کی جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ بتایا گیا کہ یہ چلہ کشی کا مقام ہوشیارپور ہو گا۔ چنانچہ آپ نے اس مقصد کے لئے ہوشیارپور کا سفر اختیارکیا۔ آپ کے ساتھ اس وقت تین ساتھی تھے جن میں ایک تو مولوی عبداللہ سنوری صاحب تھے، حافظ حامد علی صاحب تھے اور فتح خان صاحب تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک دوست شیخ مہر علی صاحب کو جو ہوشیار پور کے تھے خط لکھا کہ مَیں وہاں دو ماہ کے لئے آرہا ہوں۔ میرے لئے ایک علیحدہ گھر کا انتظام کر دیں تاکہ علیحدگی میں صحیح طرح خداتعالیٰ کی عبادت ہو سکے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو بھی کہہ دیاکہ اس عرصہ میں کوئی مجھے نہ ملے اور کسی قسم کی ملاقاتیں نہیں ہوں گی۔ بہرحال شیخ صاحب نے اپنا ایک مکان جو شہر سے باہر تھا اس میں آپ کا انتظام کروا دیا۔ آپ وہاں چلّہ کشی کے لئے 22جنوری 1886ء کو پہنچے اور دوسری منزل میں جا کر اپنے ٹھہرنے کا فیصلہ فرمایا اور اپنے ساتھیوں کو ہدایت کر دی۔ (جیسا کہ بعد میں انہوں نے بتایا)کہ نہ کوئی مجھے ملے اور نہ تم لوگوں نے مجھ سے کوئی بات کرنی ہے حتیٰ کہ کھانے وغیرہ کے لئے جب کھانا لے کر آؤ تومیرے کمرے میں رکھ دینا۔ جب مَیں نے کھانا ہو گا کھا لوں گا۔
بہرحال اس چلّہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ پر بہت سے انکشافات فرمائے۔ چنانچہ 20فروری 1886ء کو آپ نے وہیں سے ایک اشتہار شائع فرمایا اور اسے مختلف علاقوں میں بھجوایا۔ اس میں بہت ساری پیشگوئیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے بڑی شان سے آپ کی زندگی میں پوری کیں اور بعد میں بھی پوری کرتا گیا۔ جماعت میں 20فروری کے حوالہ سے ہر سال ایک جلسہ منعقد کیا جاتا ہے۔ اس لئے مَیں اس اس کی اہمیت اور کس شان سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی یعنی پیشگوئی حضرت مصلح موعود۔ اس کاکچھ ذکر کروں گا۔
آج بھی اتفاق سے 20فروری ہے۔ یہ جو پیشگوئی تھی یہ آپ نے اپنے ایک بیٹے کی پیدائش اور اس کی خصوصیات کے بارے میں کی تھی اور جیسا کہ مَیں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ موعود بیٹے کی پیدائش کی پیشگوئی آپ نے انہی دعاؤں کے دوران اللہ تعالیٰ سے علم پا کر کی تھی جب آپ اللہ تعالیٰ سے اسلام اور بانی اسلام ﷺ کی صداقت کا نشان دشمنان اسلام کا منہ بند کرنے کے لئے مانگ رہے تھے۔ پس یہ پیشگوئی کوئی معمولی پیشگوئی نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی بھی اور اس پیشگوئی کا مصداق بھی اس زمانے میں اسلام کی عظمت ثابت کرنے کا ایک نشان ہے۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک تقدیر ہے کہ 1889ء میں جس سال حضرت مسیح موعودؑ کو بیعت لینے کا اذن ہوا اسی سال میں اس پیشگوئی کا مصداق موعود بیٹا پیدا ہوا۔ بہرحال اس پیشگوئی کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔ آپ نے جو اشتہار دیا اس میں فرمایا کہ :
’’پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر کے متعلق ہے آج 20فروری 1886ء میں جو مطابق 15جمادی الاوّل ہے برعایت ایجاز و اختصار کلمات الہامیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل رسالہ میں درج ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ‘‘۔ فرمایا’’پہلی پیشگوئی

بِاِلْہَامِ اللّٰہ تَعَالٰی وَاِعْلَامِہِ عَزَّوَجَلَّ

خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے

(جَلَّ شَاْنُہٗ وَعَزَّاِسْمُہٗ)

مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفرکو(جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر !تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں وہ موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جوخدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خد اکے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی ﷺ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک ذکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام

عَنْمَوَائِیْل

اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے۔ وہ نوراللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا‘‘ لکھا ہے’’(اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند

مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخِرِ۔ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَا لْعلَاءِ۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء

جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اورخدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا

وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیَّا۔

(اشتہار 20؍فروری 1886ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 103-100۔ مطبوعہ لندن)
یہ پیشگوئی کے الفاظ ہیں اور اگر اس کی جزئیات میں جائیں تویہ تقریباً 52 پوائنٹس بنتے ہیں اور پیشگوئی کے بارے میں جو بعض دوسرے الہامات تھے ان کو اگر شامل کریں تو حضرت مصلح موعودؓ نے خود ہی ایک جگہ 59 پوائنٹس بھی لکھے ہیں۔ تو یہ ہے وہ عظیم پیشگوئی جس کے پورا ہونے کے لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبرپا کر یہ بتایا کہ 9سال کے عرصہ میں یہ لڑکا پیدا ہو گا اور اِن خصوصیات کا حامل ہو گا جو مَیں نے بیان کی ہیں۔ تفصیل بیان کی تو وقت زیادہ ہو جائے گا اس لئے مختصرا ً یہ بیان کر رہا ہوں۔
اس پیشگوئی کے کچھ عرصہ بعدجب آپ نے اشتہار شائع کر دیا اور اعلان ہوا تو آپ کے ہاں ایک بچی کی ولادت ہوئی جس کا نام عصمت تھا۔ اس پر مخالفین نے بہت شور مچایا کہ آپ کی پیشگوئی غلط ثابت ہو گئی۔ آپ نے فرمایا کہ مَیں نے تو معیّن عرصہ دیا تھا اور یہ نہیں کہا تھا کہ فوری طور پر پیدائش ہو گی۔ بہرحال پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا اس کا نام بشیر رکھا گیا اور یہ بشیر اوّل کہلاتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد بچپن میں ہی ان کی بھی وفات ہو گئی تو مخالفین نے اس پر بڑا شورمچایا بلکہ ان دونوں بچوں کی پیدائش سے پہلے جب آپ نے پیشگوئی کی تھی تو پنڈت لیکھرام نے بڑے گھٹیا الفاظ میں آپ کی پیشگوئی کے ہر فقرے کے مقابلہ پر آپ کی اس پیشگوئی کے رد ّکے فقرے کہے تھے۔ مثلاً ایک فقرہ پیشگوئی کا یہ ہے کہ’’ایک ذکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل سے ہو گا‘‘۔ اس کے مقابلے پر لیکھرام نے لکھا کہ مجھے بھی خدا نے بتایا ہے کہ آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی۔ غایت درجہ (زیادہ سے زیادہ) تین سال تک شہرت رہے گی نیز اگر کوئی لڑکا پیدا ہو گا تو وہ رحمت کا نشان نہیں زحمت کانشان (نعوذ باللہ) ہو گا۔ اور بہت سی خرافات تھیں۔
مصلح موعود کی پیشگوئی پورا ہونے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو یہ وعدہ فرمایا تھاکہ اب تیری نسل تجھ سے ہی دنیا میں پھیلے گی تو آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جسمانی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں پھیلایا ہوا ہے۔ اور لیکھرام کی اولاد کا تو پتہ نہیں کہ وہ کہیں ہے بھی کہ نہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو روحانی اولاد ہے وہ دنیا میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ ہر ملک میں یہ ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔ بہرحال بشیر اوّل کے فوت ہونے پر دشمن نے اور بھی تالیاں بجائیں بڑے خوش ہوئے اور لیکھرام کے جو چیلے تھے مزید اچھلنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارہا کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو عرصہ بتایا ہے اس کا انتظار کرو۔ اگر کہو کہ یہ لمبا عرصہ ہے تو کون یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ اتنی زندگی ہو بھی سکتی ہے کہ نہیں کجا یہ کہ بیٹے کی پیشگوئی ہو۔ پھر بیٹے کے بارہ میں بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہہ دیا، تُکّا لگا دیا۔ لوگوں کے بھی بیٹے ہوتے ہیں۔ بیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ اپنی زندگی کے بارہ میں فرمایا کہ اس وقت تک زندگی بھی رہے گی۔ یا پھر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے بات ہی کرنی ہے۔ جس طرح لیکھرام نے اپنی طرف سے الہام بنا کر پیش کر دیا ہے آپ نے بھی کر دیا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ بیٹے کے ساتھ نشانات بھی ہیں۔ جب وہ نشانات پورے ہوں گے تو دنیا خود جان لے گی کہ اعلان کرنے والا یقینا خداتعالیٰ سے اطلاع پاکر اعلان کرنے والا ہے جو حق ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گو نو برس سے بھی دو چند ہوتی اوس کی عظمت اورشان میں کچھ فرق نہیں آسکتا۔ بلکہ صریح دلی انصاف ہریک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخص آدمی کے تولّدپر مشتمل ہے، انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 117-116)
یعنی صرف لڑکے کی خبر نہیں دی بلکہ ایک ایسے لڑکے کی خبر دی ہے جو اس عرصہ میں پیدا ہو گا، عمر پائے گا، اسلام کی خدمت کرے گا۔ آنحضرت ﷺ کے نام کو پھیلائے گا اور پھرزمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ بہرحال دشمنان اسلام کی طرف سے مختلف اعتراضات ہوتے رہے۔ 9سال کی مدت پر بھی جیساکہ مَیں نے کہا اعتراض ہوا اور بشیر اوّل کی وفات پر دشمن بڑا خوش تھا۔ بشیر اول کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
‘’دوسری نکتہ چینی مخالفوں کی یہ ہے کہ لڑکا جس کے بارے میں پیشگوئی 8؍ اپریل 1886ء کے اشتہار میں کی تھی وہ پیدا ہو کر صغر سنی (چھوٹی عمر) میں فوت ہو گیا۔ اس کا مفصل جواب اسی تقریر میں مذکور ہے اور خلاصہ جواب یہ ہے کہ آج تک ہم نے کسی اشتہار میں نہیں لکھا کہ یہ لڑکا عمر پانے والا ہو گا اور نہ یہ کہا کہ یہی مصلح موعود ہے‘‘۔ یعنی جو لڑکا پیدا ہوا تھا بشیر اول وہی عمر پانے والے یا مصلح موعود ہیں۔ ’’بلکہ ہمارے اشتہار 20فروری 1886ء میں بعض ہمارے لڑکوں کی نسبت یہ پیشگوئی موجود تھی کہ وہ کم عمری میں فوت ہوں گے۔ پس سوچنا چاہئے کہ اس لڑکے کی وفات سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی یا جھوٹی نکلی۔ بلکہ جس قدر ہم نے لوگوں میں الہامات شائع کئے اکثر ان کے اس لڑکے کی وفات پر دلالت کرتے تھے۔ چنانچہ 20 فروری 1886ء کے اشتہار کی یہ عبارت کہ ایک خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے‘‘۔ یہ جوپیشگوئی مَیں نے پڑھی اس کے یہ الفاظ تھے۔ فرماتے ہیں ’’یہ مہمان کا لفظ درحقیقت اسی لڑکے کا نام رکھا گیا تھا اور یہ اس کی کم عمری اور جلد فوت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہو جاوے اور جو قائم مقام ہو اور دوسروں کو رخصت کرے اس کا نام مہمان نہیں ہو سکتا اور اشتہار مذکور کی یہ عبارت کہ وہ رِجس سے (یعنی گناہ سے) بکلّی پاک ہے۔ یہ بھی اس کی صغر سنی کی وفات پر دلالت کرتی ہے‘‘۔ (چھوٹی عمر میں وفات پر دلالت کرتی ہے)’’اور یہ دھوکہ کھانا نہیں چاہئے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے وہ مصلح موعود کے حق میں ہے۔ کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفّٰیکے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘(پہلے جو تین چار لائنوں کے الفاظ ہیں وہ بشیر اول کے بارہ میں ہیں۔ مصلح موعود کی جو پیشگوئی ہے وہ اس لفظ سے شروع ہوتی ہے۔ الفاظ اس کے یہی ہیں۔ فرمایا کہ’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیاہے اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التواء میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے، پیدا ہو کر پھر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت الٰہیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اوربشیر اول جو فوت ہو گیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا۔ اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا’‘۔ (سبزاشتہار۔ روحانی خزائن جلد نمبر 2صفحہ467-466۔ حاشیہ)
بہرحال 12جنوری 1889ء کو پیشگوئی کے تین سال کے بعد یہ لڑکا پیدا ہوا جن کا نام مرزابشیر الدین محمود احمد رکھا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب سرالخلافہ میں (یہ کتاب 1894ء میں لکھی گئی تھی) تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’میرا ایک چھوٹا بیٹاجس کا نام بشیر تھا‘‘(بشیر اول مراد ہے)’’اللہ تعالیٰ نے اسے شیر خواری میں ہی وفات دے دی۔ ……تب مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ ہم اسے از راہ احسان تمہارے پاس واپس بھیج دیں گے۔ ایسا ہی اس بچے کی والدہ نے رؤیا میں دیکھا کہ بشیر آگیا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں آپ سے نہایت محبت کے ساتھ ملوں گا اور جلد جدا نہ ہوں گا اور اس الہام اور رؤیا کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسرا فرزند عطا فرمایا۔ …… تب مَیں نے جان لیا کہ یہ وہی بشیر(موعود) ہے اور خداتعالیٰ اپنے وعدں میں سچا ہے۔ چنانچہ مَیں نے اس بچے کا نام بشیرہی رکھا اور مجھے اس کے جسم میں بشیر اوّل کا حلیہ دکھائی دیتا ہے‘‘۔
(سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 381۔ عربی سے ترجمہ)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم فرزند کی ذات میں، حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد کی ذات میں، جو بشیر ثانی ہیں، پیشگوئی مصلح موعود بڑی شان سے پوری ہوئی۔ جس کا اظہار ایک دنیا نے کیا۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات کے بعد خلیفہ بنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے 52سال آپ کی خلافت رہی اور آپ کے زمانہ میں جماعت نے جس طرح ہندوستان سے باہر نکل کر ترقی کی ہے یہ بھی اس پیشگوئی کی سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ کے دور کا احاطہ کریں تو ایک وقت میں اس بارہ میں کچھ کہنا مشکل کیا ناممکن ہے۔ لیکن اس وقت مَیں پیشگوئی کے پورا ہونے کے جو خاص نشانات ہیں اور اس سلسلہ میں بعض واقعات حضرت مصلح موعود کی اپنی زبان میں اور جوغیروں نے بیان کئے وہ بیان کروں گا۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جو مصلح موعود تھے اس وقت تک اپنے بارے میں اعلان نہیں فرمایا کہ میں مصلح موعود ہوں جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا نہیں دیا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر 1944ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مَیں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ سے اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہو گی۔ پہلے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی بعض شہادتیں جو غیروں کی ہیں وہ پیش کر دیتا ہوں۔
ایک معزز غیر احمدی عالم مولوی سمیع اللہ خاں صاحب فاروقی نے قیام پاکستان سے پہلے’’اظہار حق‘‘ کے نام سے ایک ٹریکٹ میں لکھا کہ’’آپ کو (یعنی مسیح موعو د کو) اطلاع ملتی ہے کہ مَیں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی قبول کر یں گے‘‘۔ اس پیشگوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو اور پھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت موجودہ خلیفہ ابھی بچہ ہی تھے اور مرزا صاحب کی جانب سے انہیں خلیفہ مقرر کرانے کے لئے کسی قسم کی وصیت بھی نہ کی گئی تھی بلکہ خلافت کا انتخاب رائے عامہ پر چھوڑد یا گیا تھا۔ چنانچہ اس وقت اکثریت نے(حضرت) حکیم نورالدین صاحب(رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ جس پر مخالفین نے محولہ صدر پیشگوئی کا مذاق بھی اڑایا لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد مرزا
بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مقرر ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کے زمانے میں احمدیت نے جس قدر ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے۔ خود مرزا صاحب کے وقت میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ خلیفہ نورالدین صاحب کے وقت میں بھی خاص ترقی نہ ہوئی تھی لیکن موجودہ خلیفہ کے وقت میں مرزائیت قریباً دنیا کے ہر خطے تک پہنچ گئی اور حالات یہ بتلاتے ہیں کہ آئندہ مردم شماری میں مرزائیوں کی تعداد 1931ء کی نسبت دگنی سے بھی زیادہ ہو گی۔ بحالیکہ اس عہد میں مخالفین کی جانب سے مرزائیت کے استیصال کے لئے جس قدر منظم کوششیں ہوئیں ہیں پہلے کبھی نہیں ہوتی تھیں ‘‘۔
(یہ ایک غیر از جماعت کے تاثرات ہیں کچھ نہ کچھ حق تو لکھنا جانتے تھے۔ آج کل کے علماء کی طرح بالکل ہی اندھے نہیں تھے۔ )۔
‘’الغرض آپ کی ذریت میں سے ایک شخص پیشگوئی کے مطابق جماعت کے لئے قائم کیا گیا اور اس کے ذریعہ جماعت کو حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی من و عن پوری ہوئی۔ (’’اظہار الحق‘‘ صفحہ 16۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 287-286)
پھر ایک غیر مسلم صحافی ارجن سنگھ جو’’رنگین‘‘ اخبار امرتسر کے ایڈیٹر تھے، لکھتے ہیں کہ’’مرزا صاحب نے 1901ء میں جبکہ میرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب موجود ہ خلیفہ ابھی بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی۔ (انہوں نے 1901ء میں لیا ہے۔ اس لئے انہوں نے درثمین کے شعر دئیے ہیں) ؎

بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہو گا ایک دن محبوب میرا
کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا
دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا‘‘

کہتے ہیں ’’یہ پیشگوئی بے شک حیرت پیدا کرنے والی ہے۔ 1901ء میں نہ میرزا بشیرالدین محمود احمد کوئی بڑے عالم و فاضل تھے اور نہ آپ کی سیاسی قابلیت کے جوہر کھلے تھے۔ اس وقت یہ کہنا کہ تیرا ایک بیٹا ایسا اور ایسا ہو گا، ضرور روحانی قوت کی دلیل ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ مرزا صاحب نے ایک دعویٰ کرکے گدّی کی بنیاد رکھ دی تھی اس لئے آپ کو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ میرے بعد میری جانشینی کا سہرا میرے لڑکے کے سر پر رہے گا لیکن یہ خیال باطل ہے اس لئے کہ میرزا صاحب نے خلافت کی یہ شرط نہیں رکھی کہ وہ ضرور میرزاصاحب کے خاندان سے اور آپ کی اولاد سے ہی ہو۔ چنانچہ خلیفہ اوّل ایک ایسے صاحب ہوئے جن کا مرزا صاحب کے خاندان سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ پھر بہت ممکن تھا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اوّل کے بعد بھی کوئی اور صاحب خلیفہ ہو جاتے چنانچہ اس موقع پر بھی مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور خلافت کے لئے امیدوار تھے لیکن اکثریت نے میرزا بشیرالدین صاحب کا ساتھ دیا اور اس طرح آپ خلیفہ مقرر ہو گئے۔
اب سوال یہ ہے(خود لکھتے ہیں یہ ارجن سنگھ صاحب) کہ اگر بڑے میرزا صاحب کے اندر کوئی روحانی قوت کام نہ کر رہی تھی تو پھرآخر آپ یہ کس طرح جان گئے کہ میرا ایک بیٹا ایسا ہو گا۔ جس وقت میرزا صاحب نے مندرجہ بالا اعلان کیا ہے اس وقت آپ کے تین بیٹے تھے۔ آپ تینوں کے لئے دعائیں بھی کرتے تھے لیکن پیشگوئی صرف ایک کے متعلق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک فی الواقعہ ایسا ثابت ہوا ہے کہ اس نے ایک عالم میں تغیر پیدا کر دیا ہے‘‘۔ (رسالہ’’خلیفہ قادیان‘‘ طبع اول صفحہ 8-7۔ از ارجن سنگھ ایڈیٹر ’’رنگین‘‘ امرتسر۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ288-287)
پھر پسر موعود کے بارے میں اس پیشگوئی میں ایک یہ بات بھی تھی کہ’’تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو‘‘۔ اس میں بھی غیروں کی شہادت دیکھیں کیا ہے۔
زمیندار اخبار میں مولوی ظفر علی خاں صاحب نے لکھا ہے۔ یہ مشہور مصنف مسلم لیڈر تھے اور بڑے زبردست مقرر تھے۔ کہتے ہیں۔ ’’کان کھول کر سن لو۔ تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے۔ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے۔ تمہارے پاس کیا دھرا ہے۔ …… تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا۔ …… مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے اشارہ پر اس کے پاؤں پرنچھاور کرنے کو تیار ہے…… مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں۔ مختلف علوم کے ماہر ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے۔ (’’ایک خوفناک سازش‘‘۔ صفحہ 196۔ مظہر علی اظہر۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 288)
پھر اولوالعزم ہونے اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کئے جانے کے بارہ میں غیروں کی شہادت ہے۔ خواجہ حسن نظامی دہلوی ایک مشہور صحافی ہیں ان کی شہادت ہے۔ انہوں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’اکثر بیمار رہتے ہیں‘‘۔ حضرت مصلح موعودؓ بچپن سے ہی بیمار تھے خود انہوں نے لکھا ہے کہ مَیں بچپن سے ہی بہت کمزور تھا آنکھوں کی بیماری تھی۔ پڑھ نہیں سکتا تھا۔ آنکھیں اتنا ابل جاتی تھیں کہ نظر ہی کچھ نہیں آتا تھا۔ استاد میری شکایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس کرتے تھے بلکہ ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب نے شکایت کی کہ اس کو حساب نہیں آتا، یا اس کو پڑھنا نہیں آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہنس کے ٹال دیا کرتے تھے کہ ہم نے اس سے کوئی کاروبار نہیں کروانا اور نوکری نہیں کروانی۔ اور حضرت خلیفہ اولؓ سے پوچھا کرتے تھے کہ کیوں آپ کیا کہتے ہیں ؟ وہ کہتے تھے۔ نہیں بالکل ٹھیک ہے۔ بہرحال جو ظاہری دنیاوی تعلیم تھی وہ کسی قسم کی آپ نے نہیں لی بلکہ دینی تعلیم بھی حضرت خلیفہ اوّل کی مطب میں بیٹھ کر صرف لیکچر میں سنا کرتے تھے۔ تو یہ ہے علوم ظاہر و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اس بارہ میں خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں۔ کہ’’اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں ان کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں۔ انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کرکے اپنی مغلئی جوانمردی کو ثابت کر دیا اور یہ بھی کہ مغل ذات کارفرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے۔ سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں ‘‘۔
(اخبار ’’عادل‘‘ دہلی۔ 24؍ا پریل 1933ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 288)
پھر پیشگوئی میں الفاظ تھے کہ’’اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا’‘۔ یہ پیشگوئی بھی کس شان سے پوری ہوئی ہے۔ آج تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ جہاد کے خلاف ہیں اور کشمیریوں کے خلاف ہیں لیکن جو کوششیں حضرت مصلح موعودؓ نے کی تھیں میں ان کے بارہ میں کچھ بتاتا ہوں۔ تحریک آزادی کشمیر آپؓ نے شروع کی تھی کیونکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی جو بنائی تھی اس کا سہرا آپ کے سر پر ہے۔ اس میں بہت بڑے بڑے مسلم لیڈر سرذوالفقار علی خان، ڈاکٹر اقبال، خواجہ حسن نظامی، سید حبیب مدیر اخبار’’سیاست‘‘ وغیرہ شامل ہوئے اور ان سب کے مشورہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو اس کمیٹی کا صدر چنا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کشمیری مسلمان جو مدتوں سے انسانیت کے ادنیٰ حقوق سے بھی محروم تھے ان کو آزادی دلوائی گئی۔ مسلم پریس نے حضرت مصلح موعودؓ کے ان شاندار کارناموں کا اقرار کیا اور آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہاں تک لکھا۔ کہ ’’جس زمانے میں کشمیر کی حالت نازک تھی اور اس زمانے میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا۔ انہوں نے کام کی کامیابی کو زیر نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا۔ اس وقت اگر اختلاف عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی اور اُمّت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا‘‘۔
(اخبار ’’سیاست‘‘ 18؍مئی1933ء۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 289)
عبدالمجید سالک صاحب تحریک آزادی کشمیرکا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’شیخ محمدعبداللہ (شیر کشمیر) اور دوسرے کارکنان کشمیر مرزا محمود احمد صاحب اور ان کے بعض کارپردازوں کے ساتھ… اعلانیہ روابط رکھتے تھے اور ان روابط… کی بنا محض یہ تھی کہ مرزا صاحب کثیر الوسائل ہونے کی وجہ سے تحریک کشمیر کی امداد کئی پہلوؤں سے کر رہے تھے۔ (وسائل تو اتنے نہیں تھے لیکن وسائل کا صحیح استعمال تھا) اور کارکنان کشمیر طبعاً ان کے ممنون تھے‘‘۔ (’’ذکر اقبال‘‘ صفحہ 188۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 289)
سید حبیب صاحب جو ایک معروف صحافی تھے اور اخبار ’’سیاست’‘لاہور کے ایڈیٹر تھے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبر بھی تھے جب حضرت مصلح موعود نے کمیٹی سے استعفیٰ دیا تو انہوں نے اپنے اخبار میں 18مئی 1933ء کی اشاعت میں لکھاکہ میری دانست میں اپنی اعلیٰ قابلیت کے باوجود ڈاکٹر اقبال اور مولوی برکت علی صاحب دونوں اس کام کو چلا نہیں سکیں گے اور یوں دنیا پر واضح ہو جائے گا کہ جس زمانے میں کشمیر کی حالت نازک تھی اس زمانے میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجو د مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا، انہوں نے کام کی کامیابی کو زیر نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا۔ اس و قت اگر اختلاف عقائد کی وجہ سے (حضرت) مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو یہ تحریک بالکل ناکام رہتی اور اُمّت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا۔ میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے۔ مختصراً یہ کہ ہمارے انتخاب کی موزونیت اب دنیا پر واضح ہو جائے گی‘‘۔
(الفضل 28؍مئی 1933ء۔ بحوالہ ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون /جولائی2008ء صفحہ 324-323)
اب پتہ لگ جائے گا کہ کتنا کام کرتی ہے کشمیر کمیٹی اور دنیا نے پھر دیکھ لیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس صورت حال کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’نہایت قلیل عرصے کی جنگ کے بعد اس طرح کا ایک نظام قائم کر دیا یا اس کمیٹی نے عوام کی تحریک میں اتنا زور پیدا کر دیا کہ حکومت انگریزی نے بھی ہتھیار ڈال دئیے اور کشمیر کا صدیوں کا غلام آنکھیں کھول کر آزادی کی ہوا کھانے لگا اور اہل کشمیر کو اسمبلی ملی۔ پریس کی آزادی ملی۔ مسلمانوں کو ملازمتوں میں برابری کے حقوق ملے۔ فصلوں پر قبضہ ملا۔ تعلیم کی سہولتیں ملی۔ جو بات نہیں ملی اس کے ملنے کا رستہ کھل گیا۔ اہل کشمیر نے پبلک جلسوں میں امام جماعت احمدیہ زندہ باد اور صدر کشمیر کمیٹی زندہ باد کے نعرے لگائے۔ (ماخوذ از سلسلہ احمدیہ۔ مطبوعہ 1939ء صفحہ409)
جب ان کو آزادی ملی تو غیروں نے بھی یہ نعرے لگائے۔ کشمیر والوں کا جن کی رستگاری کا موجب ہوئے اس وقت حال یہ تھاکہ اس طرح غلام بنائے گئے تھے کہ خود حضرت مصلح موعودؓاس کاقصّہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم کشمیر میں گئے ہوئے تھے۔ ہمارے پاس کافی سامان تھا تو مَیں نے ایک سرکاری افسرصاحب کو کہا کہ ہمیں مزدور کا انتظام کر دو۔ تو سڑک پر ایک آدمی چلا جا رہا تھا۔ اس نے کہا ادھر آؤ اور اسے سامان اٹھوا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص بڑاہائے وائے کرنے لگ گیا۔ تو مَیں نے اسے کہا کہ کشمیری تو بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ تم سے سامان نہیں اٹھایا جا رہا۔ اس نے کہا مَیں تواپنے علاقے کا بڑا زمیندار ہوں اور اِس وقت میری شادی ہو رہی ہے بلکہ آج دولہا بھی ہوں۔ مَیں تو سڑک پر جا رہا تھا تو اس نے پکڑ کے مجھے آپ کا سامان پکڑادیا۔ کیونکہ ان کی حکومت ہے اس لئے مَیں ان کے سامنے چوں چرا نہیں کر سکتا۔ تو یہ ان کا حال تھا کہ اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی ایک عام چھوٹے سے سرکاری افسر کے سامنے بول نہیں سکتے تھے۔
پھر علوم ظاہری و باطنی جو قرآن کریم کا دینی علم ہے اس کے بارہ میں غیروں کا کیاکہنا ہے۔
علامہ نیاز فتح پوری صاحب مدیر ماہنامہ نگار لکھتے ہیں کہ’’تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میر ے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیاہے۔ آپ کی تبحر علمی، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسن استدلال، اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا کاش کہ مَیں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔ کل سورۃ ھود کی تفسیر میں حضرت لوط علیہ السلام پر آپ کے خیالات معلوم کرکے جی پھڑ ک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ آپ نے ھٰؤُلَآءبَنَاتِیْ کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں۔ خدا آپ کو تا دیر سلامت رکھے‘‘۔
(الفضل 17؍نومبر 1963ء۔ صفحہ 3۔ بحوالہ ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون، جولائی 2008ء صفحہ325-324)
دوسرے مفسرین تو نعوذ باللہ حضرت لوط علیہ السلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لوگوں کو کہا کہ میری بیٹیوں کو لے جاؤ اور میر ے مہمانوں کو تنگ نہ کرو۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے بالکل نئے انداز میں اس کی تفسیر پیش کی ہوئی ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ مضمون ہے۔
پھر قرآن کریم کے بارے میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں کہ:
‘’قرآن اور علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی، اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں، ان کا اللہ(تعالیٰ) انہیں صلہ دے۔ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح و تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے۔
(بحوالہ ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون، جولائی 2008ء صفحہ325)
علوم ظاہری سے پُر کئے جانے کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود لکھا ہے کہ ’’اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ علوم ظاہری سیکھے گا نہیں بلکہ خدا(تعالیٰ) کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے‘‘ اور پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ’’یہاں علوم ظاہری سے مراد حساب اور سائنس وغیرہ علوم نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہاں ’’پر کیا جائے گا’‘کے الفاظ ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے اور خداتعالیٰ کی طرف سے حساب اور سائنس اور جغرافیہ وغیرہ علوم نہیں سکھائے جاتے بلکہ دین اور قرآن سکھایا جاتا ہے۔ پس پیشگوئی کے ان الفاظ کا کہ’’وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا’‘ یہ مفہوم ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم دینیہ اور قرآنیہ سکھلائے جائیں گے اور(خداتعالیٰ)خود اس کا معلم ہو گا‘‘۔
(انوارالعلوم۔ جلد17صفحہ 565)
اس ضمن میں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مجھے سکھایا آپؓ ایک خواب کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک جگہ کھڑا ہوں مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ آسمان پر سے مجھے ایسی آواز آئی جیسے گھنٹی بجتی ہے یا جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اسے ٹھکوریں تو اس میں سے باریک سی ٹن ٹن کی آواز پیداہوتی ہے۔ پھرمیرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی یہاں تک کہ تمام جَوّ میں پھیل گئی، (تمام آسمان میں پھیل گئی)۔ اس کے بعد مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ آواز متشکل ہو کر تصویر کا چوکٹھا بن گئی۔ پھر اس چوکٹھے میں حرکت پیدا ہونی شروع ہوئی اور اس میں ایک نہایت ہی حسین اور خوبصورت وجود کی تصویر نظر آنے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اس میں سے کُود کر ایک وجود میرے سامنے آگیا اور کہنے لگا مَیں خدا کا فرشتہ ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ مَیں تمہیں سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں۔ مَیں نے کہا سکھاؤ وہ سکھاتا گیا، سکھاتا گیا اورسکھاتا گیا یہاں تک کہ جب وہ اِیَّاکَ نَعْبُد وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن تک پہنچا تو کہنے لگا کہ آج تک جس قدر مفسرین گزرے ہیں ان سب نے یہیں تک تفسیر کی ہے لیکن مَیں تمہیں آگے بھی سکھانا چاہتا ہوں۔ مَیں نے کہا سکھاؤ۔ چنانچہ وہ سکھاتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر اس نے مجھے سکھا دی‘‘۔ (انوارالعلوم۔ جلد 17صفحہ 570)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’دوسری خبر اس پیشگوئی میں یہ دی گئی تھی کہ وہ باطنی علوم سے پُر کیا جائے گا۔ باطنی علوم سے مراد وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خداتعالیٰ سے خاص ہیں جیسے علم غیب ہے۔ جسے وہ اپنے ایسے بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپرد کرتا ہے تاکہ خداتعالیٰ سے ان کا تعلق ظاہر ہو اور وہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان تازہ کر سکیں ‘‘۔ (انوارالعلوم۔ جلد 17صفحہ 579)
آپ کی بے شمار رؤیا ہیں۔ اس ضمن میں اپنی ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ایک اور خبر جو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس جنگ کے متعلق بتائی اور نہایت ہی عجیب رنگ میں پوری ہوئی(یہ جنگ عظیم کی بات ہے) وہ یہ ہے کہ مَیں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ مَیں انگلستان گیا ہوں اور انگریزی گورنمنٹ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ ہمارے ملک کی حفاظت کریں۔ مَیں نے اس سے کہا کہ پہلے مجھے اپنے ذخائر کا جائزہ لینے دو (تمہارا جو ذخیرہ ہے اس کا جائزہ لینے دو) پھر مَیں بتاسکوں گا کہ مَیں تمہارے ملک کی حفاظت کا کام سرانجام دے سکتا ہوں یا نہیں۔ اس پر حکومت نے مجھے اپنے تمام جنگی محکمے دکھائے اور مَیں ان کو دیکھتا چلا گیا۔ آخرمیں مَیں نے کہا کہ صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے۔ اگر مجھے ہوائی جہاز مل جائیں تومَیں انگلستان کی حفاظت کا کام کر سکتا ہوں۔ جب مَیں نے یہ کہا تو معاً میں نے دیکھا کہ امریکہ کی طرف سے ایک تار آیا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں کہThe American government has delivered 2,800 aeroplanes, to British government. یعنی امریکن گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سو ہوائی جہاز برطا نوی گورنمنٹ کو بھجوا دیئے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی‘‘۔
کہتے ہیں کہ مَیں نے یہ خواب چوہدری ظفراللہ صاحب کو بھی سنا دی تھی۔ چند دنوں کے بعد جب میں مسجد میں تھا تو مجھے فون آیا۔ مَیں فون سننے گیا تو پتہ چلا کہ چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کا فون ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے اخبار میں خبر نہیں دیکھی۔ مَیں نے کہا نہیں۔ کیا خبر ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ کی خواب پوری ہو گئی۔ ابھی ابھی ایک سرکلر آیا ہے۔ پہلے محکمے میں آیا تھا۔ اب اخبار میں بھی خبر آگئی ہے کہ امریکی حکومت نے برطانوی حکومت کو 2800جنگی جہاز دئیے ہیں۔ (ماخوذ از انوارالعلوم جلد 17صفحہ603)
اسی طرح بیلجیئم کے بادشاہ کے متعلق کہتے ہیں کہ’’1940ء کو ہزاروں لوگوں کے مجمع میں مَیں نے اپنے کشف کا ذکر کیا تھا جو تین دن کے اندراندر پورا ہو گیا۔ (یہ بھی غیب کی خبر تھی اور وہ یہ تھا کہ مَیں نے دیکھا کہ ’’ایک میدان ہے جس میں اندھیرا سا ہے اور اس میں ایک شخص سیاہی مائل سبزسی وردی پہنے کھڑا ہے جس کے متعلق مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بادشاہ ہے۔ پھر الہام ہوا Abdicated۔ میں نے اپنے اس کشف کا ذکر 26 مئی کو کیا تھا جب لوگ حکومت برطانیہ کی کامیابی کے متعلق دعا کرنے کے لئے جمع تھے اور مَیں نے اس کی تعبیر یہ کی تھی کہ کوئی بادشاہ اسی جنگ میں معزول کیا جائے گا۔ یا کسی معزول شدہ بادشاہ کے ذریعہ کوئی تغیر واقع ہو گا۔ چنانچہ اس الہام پر ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ خداتعالیٰ نے بیلجیئم کے بادشاہ لیوپولڈ کو ناگہانی طور پر معزول کر دیا۔ Abdicated کا مطلب یہی ہے کہ Denouncement or Default۔ مطلب ہے کہ کسی اعلان کے ذریعہ سے یا عملاً اپنے فرائض منصبی کے ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کو فارغ کر دیا جائے۔ گویا یا تو خود کہہ رہے ہیں کہ مَیں بادشاہت سے الگ ہوتا ہوں یا ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ وہ بادشاہت کے فرائض ادا نہ کر سکے۔ کہتے ہیں کہ بعینہٖ ایسے ہوا اور بیلجیئم گورنمنٹ نے یہ الفاظ استعمال کئے اوراس نے کہا کہ ہمارا بادشاہ جرمن قوم کے ہاتھ میں ہے اور اب وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتا۔ پس اب بیلجیئم کی قانونی گورنمنٹ ہم ہیں نہ کہ بادشاہ۔
(ماخوذ از انوارالعلوم جلد 17صفحہ606-605)
اس طرح کے بہت سارے واقعات ہیں۔ پھر اپنے بارے میں کہ’’خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا‘‘۔ فرمایا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح نشان پورے کئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ میرا حافظ و ناصر ہوتا رہااور دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’اب دیکھو! اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس الہام کی صداقت میں متواتر میری حفاظت اور نصرت کی ہے۔ مجھے اس وقت تک کوئی ایسا الہام نہیں ہوا جس کی بناء پر مَیں یہ کہہ سکوں کہ مَیں انسانی ہاتھوں سے نہیں مروں گا۔ لیکن بہرحال مَیں اس یقین پر قائم ہوں کہ جب تک میرا کام باقی ہے اس وقت تک کوئی شخص مجھے مار نہیں سکتا۔ میرے ساتھ متواتر ایسے واقعات گزرے ہیں کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنا چاہا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ان کے حملوں سے مجھے محفوظ رکھا۔ فرمایا کہ’’ایک دفعہ میں جلسے پر تقریر کررہا تھا اور تقریر کرتے کرتے میری عادت ہے کہ مَیں گرم گرم چائے کے ایک دو گھونٹ پی لیا کرتا ہوں تاکہ گلادرست رہے کہ اسی دوران میں جلسہ گاہ میں سے کسی شخص نے ملائی کی ایک پیالی دی اور کہا کہ یہ جلد ی سے حضرت صاحب تک پہنچا دیں کیونکہ حضور کو تقریر کرتے کرتے ضعف ہو رہا ہے۔ چنانچہ ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو پیالی ہاتھوں ہاتھ پہنچانی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے سٹیج پر پہنچ گئی۔ سٹیج پر اچانک کسی شخص کو خیال آگیا اور اس نے احتیاط کے طور پر ذرا سی ملائی چکھی تو اس کی زبان کٹ گئی۔ تب معلوم ہوا کہ اس میں زہر ملی ہوئی ہے۔ اب اگر وہ ملائی مجھ تک پہنچ جاتی اور مَیں خدانخواستہ اسے چکھ بھی لیتا تو کچھ نہ کچھ اس کا اثر ضرور ہو جاتا اور تقریر رک جاتی۔
(ماخوذ ازانوارالعلوم جلد 17صفحہ628)
پھر اسی طرح فرمایا کہ ایک دفعہ ایک پٹھان لڑکا آیا چھرا لے کے اور مَیں اس کو ملنے کے لئے نکل ہی رہا تھا کہ عبدالاحد خاں صاحب نے اس کی حرکتوں سے اسے پہچان لیا کہ ہتھیار اس کے پاس ہے اور پکڑ لیا۔
(ماخوذ ازانوارالعلوم جلد 17صفحہ630-629)
پھر اسی طرح کے اور بعض واقعات ہیں۔
پھر اسیروں کی رستگاری کے لحاظ سے فرماتے ہیں۔ کشمیر کا واقعہ ہے جو اس پیشگوئی کی صداقت کا زبردست ثبوت ہے اور ہر شخص ان واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تویہ تسلیم کئے بغیرنہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے کشمیریوں کی رستگاری کے سامان پیدا کئے اور ان کے دشمنوں کو شکست دی۔ فرمایا کہ کشمیر کی قوم اس طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی کہ گورنمنٹ کا یہ فیصلہ تھا کہ زمین ان کی نہیں بلکہ راجہ صاحب کی ہے گویا سارا ملک ایک مزارع کی حیثیت رکھتا تھا اور راجہ صاحب کا اختیار تھا کہ جب جی چاہا ان کو نکال دیا۔ انہیں نہ درخت کاٹنے کی اجازت تھی اور نہ زمین سے کسی اور رنگ میں فائدہ اٹھانے کی۔
(ماخوذ ازانوارالعلوم جلد 17صفحہ615)
ایک بات اس میں یہ تھی کہ’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں بڑی شان سے پوری ہوئی اور دنیا میں بہت سارے مشن کھلے۔ بلکہ بعض مشن بعد میں بند بھی ہوئے۔ آپ کے زمانے میں سیلون، ماریشس، سماٹرا، سٹیریٹس سیٹلمنٹس(Straits Settlements)، چین، جاپان، بخارا، روس، ایران، عراق، شام، فلسطین، مصر، سوڈان، ابی سینیا، مراکو، چیکو سلواکیہ، پولینڈ، رومانیہ، یونائیٹڈ سٹیٹس، ارجنٹائن، یوگو سلاویہ۔ تقریباً کوئی 35-34 ممالک میں مشن کھلے اور تبلیغ اسلام پھیلی اور فرمایا کہ ہزاروں مسیحی میرے ذریعہ سے اسلام میں داخل ہوئے۔ اس طرح میرے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی جو تبلیغ ہے وہ ساری دنیا پر حاوی ہو جاتی ہے۔
(ماخوذ ازانوارالعلوم جلد 16صفحہ611)
پس اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی چند باتیں مَیں نے بیان کی ہیں۔ اس پیشگوئی کی عظمت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے۔ جس کو خدائے کریم جلّشانہٗ نے ہمارے نبی کریم رؤف رحیم محمد مصطفی ﷺ کی صداقت وعظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلیٰ واولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے۔ کیونکہ مردے کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الٰہی میں دعا کرکے ایک روح واپس منگوایا جاوے۔ ………اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہ و ببرکت حضرت خاتم الانبیاء ﷺ خدا وند کریم نے اس عاجز کی دعا کوقبول کرکے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظاہر یہ نشان احیائے موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ نشان مردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے۔ مردے کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے۔ مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔ جولوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت ﷺ کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات۔ جلد اول صفحہ 115-114)
یہ پس منظر اور اہمیت اس پیشگوئی کی ہے جو مختصراً مَیں نے بیان کی ہے اور اس پیشگوئی کی شان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس آخری اقتباس میں ہم نے دیکھی اور سنی۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ اب بعض لاعلم احمدی جو مختلف جگہوں سے خطوں میں لکھ دیتے ہیں، یہاں بھی سوال کر دیتے ہیں کہ ہم یوم مصلح موعود کیوں مناتے ہیں، باقی خلفاء کے دن کیوں نہیں مناتے ان پر واضح ہو گیا ہو گا کہ مصلح موعود کی پیشگوئی کا دن ہم ایمانوں کو تازہ کرنے اور اس عہد کو یاد کرنے کے لئے مناتے ہیں کہ ہمارا اصل مقصد اسلام کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کو دنیا پر قائم کرنا ہے۔ یہ کوئی آپ کی پیدائش یا وفات کا دن نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذریت میں سے ایک شخص کو پیدا کرنے کا نشان دکھلایا تھا جو خاص خصوصیات کا حامل تھا اور جس نے اسلام کی حقانیت دنیا پر ثابت کرنی تھی۔ اور اس کے ذریعہ نظام جماعت کے لئے کئی اور ایسے راستے متعین کر دئیے گئے کہ جن پہ چلتے ہوئے بعد میں آنے والے بھی ترقی کی منازل طے کرتے چلے جائیں گے۔
پس یہ دن ہمیں ہمیشہ اپنے ذمہ داری کا احساس کرواتے ہوئے اسلام کی ترقی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دلانے والا ہونا چاہئے نہ کہ صرف ایک نشان کے پورا ہونے پر علمی اور ذوقی مزہ لے لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک بات اور واضح کرنا چاہتا ہوں کل ہی مَیں نے ڈاک میں دیکھا کہ کسی ملک کی انصاراللہ کی تنظیم کا ایک پروگرام تھا کہ ہم نے یوم مصلح موعودؓپربڑا وسیع کھیلوں کا پروگرام رکھا ہے اور تھوڑا ساعلمی موضوع پر بھی پروگرام ہو گا، اجلاس ہو گا۔ انصاراللہ کا کھیل کود سے کیا کام ہے؟ انصار کو تو چاہئے تھا کہ اپنے عہد کی طرف توجہ کرتے اور ان راستوں پر چلنے کی کوشش کرتے جن پر چلانے کے لئے مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے راہنمائی فرمائی ہے اور انصاراللہ کی تنظیم قائم فرمائی ہے تاکہ ہم آنحضرت ﷺ کے پیغام کو جلد سے جلددنیا میں پھیلانے والے بن سکیں اور مجھے امید ہے کہ انصاراللہ جس نے یہ پروگرام بنایا ہے، مَیں نام نہیں لینا چاہتا، وہ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں گے اور آئندہ بھی لوگ اس کی احتیاط کریں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں