خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍فروری 2009ء

’’اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘
کی پُرمغز، روح پرور تشریح
مسلمانوں کی کمزور حالت کی بہتری اور مسلمان ممالک کے عزت و وقار کے بحال کرنے کا واحد حل اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کو قبول کرناہے۔
مومن ہمیشہ روحانی ترقیات کے حصول کی کوشش جاری رکھتا ہے۔
دعا سے ہی خدائے رحمان کی محبت حاصل ہو تی ہے۔
ایک خوفناک تباہی اور آفت آنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت، اُمّت مسلمہ اور تمام انسانیت کو محفوظ رکھے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 13؍فروری 2009ء بمطابق13 ؍تبلیغ 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس دعا میں مسیح موعودؑ کی بعثت کی پیشگوئی بھی ہے۔ اس میں محمدی سلسلہ سے ہی مسیح موعود کے پیدا ہونے کی پیشگوئی بھی ہے۔ اور اس میں امام الزمان کو قبول کرنے کا حکم بھی ہے اور مسلمانوں کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ مسلمانوں کی کمزور حالت کی بہتری اور مسلمان ممالک کے عزت و وقار کے بحال کرنے کے لئے اور قائم کرنے کے لئے یہی ایک واحد حل اور راستہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کو قبول کر لیں۔ اللہ کرے کہ اس حقیقت کو سمجھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے حوالہ سے ہماری روحانی اور مادی ترقی کے لئے جو ہدایات فرمائی ہیں آج مَیں اُن میں سے چند ایک آپ کے سامنے رکھوں گا تاکہ اندازہ ہو کہ اس دعا میں کتنی وسعت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ ہمارا مطمح نظر کیا ہونا چاہئے؟ اپنی حالتوں کی درستی اور ہر لحاظ سے ترقیات کے لئے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے، ہمیں کس طرح دعائیں مانگنی چاہئیں۔ بہرحال اقتباسات تو مَیں پیش کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے چند باتیں اسی ضمن میں کرنا چاہتا ہوں تاکہ مزید وضاحت ہو جائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ھدٰیکے معانی کا خلاصہ جو مختلف لغات سے اخذ کیا ہے اور وہ اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے اس میں تین باتیں بیان فرمائی ہیں کہ راستہ دکھانا، راستے تک پہنچانا اور آگے چل کر منزل مقصود تک پہنچانا۔ اب راستہ دکھانا اور راستے تک پہنچانا ایک چیز نہیں ہے۔ بظاہر ایک چیز لگ رہی ہے۔ راستہ آدمی دُور کھڑے ہو کر دکھا دیتا ہے کہ یہ راستہ فلاں جگہ تک جاتا ہے اور راستے تک پہنچانا یہ ہے کہ اس راستے پر چھوڑ کے آنا جو اس منزل تک لے جاتا ہے اور پھر یہ کہ اس راستے پر ساتھ چل کے اس منزل تک پہنچانا۔ یہ اس کے معانی ہیں اور قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے مختلف آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا ذکر فرمایا ہے۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کی دعا میں ہم اس حوالے سے دعا مانگتے ہیں اور مانگنی چاہئے کہ اے اللہ ! تُو ہمیں ایسے راستے پر چلا، اس طرح ہماری راہنمائی فرما جو اچھا راستہ بھی ہو۔ نیکی کی طرف لے جانے والا راستہ بھی ہو اور پھر ہم اس پر چل کر نیکی کو حاصل بھی کر لیں۔ صرف راستے کی نشاندہی نہ ہو جائے بلکہ ہم اس پر چلتے رہیں اور نیکی کو حاصل بھی کر لیں۔ اور پھر یہ کہ اپنے اس مقصود کو یعنی نیکی کو جلدی حاصل کر لیں اور اس کے بعد پھر مزید اگلے رستوں پر چلنا شروع کر دیں۔
پس اس دُعا کے ساتھ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا۔ ایک مومن کبھی تسلّی پکڑ کر نہیں بیٹھ سکتا۔ بلکہ کوشش کرے گا کہ ہمیشہ روحانیت میں بھی آگے بڑھے اور دنیاوی ترقیات میں بھی نئی منزلیں حاصل کرے۔ دنیاوی ترقیات میں توہم عموماً آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑی شدید کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن روحانیت میں اس لحاظ سے کوشش نہیں ہو رہی ہوتی۔ بہرحال اس دعا میں روحانی بھی اور مادی بھی دونوں طرح کی کوششوں کا ذکر ہے۔ دوسرے اس دعا میں رہبانیت کا بھی رد ّہے۔ جو کہتے ہیں کہ فقیر بن گئے، علیحدہ ہو گئے، دنیا سے کٹ گئے اس کا بھی رد ّہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے تو پیدا کرکے ساتھ ہی اپنی بے شمار نعمتیں بھی پیدا کی ہیں۔ اس دعا میں ان کے حصول کی کوشش کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی جوساری نعمتیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں جو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ دنیا سے کٹ جایا جائے۔
پھر جیسا کہ مَیں نے کہا دنیاوی میدان کے علم و معرفت میں ترقی کی دعا بھی ہے۔ روحانی میدان میں آگے بڑھتے چلے جانے کی اور خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لئے بھی یہ دعا ہے اور ہدایت کیونکہ صرف خداتعالیٰ ہی دے سکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ

اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَالْھُدٰی (البقرۃ:121)

کہ یقینا اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ اس لئے یہ دعا بھی سکھائی کہ کسی بھی معاملے میں ہدایت حاصل کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ سے مانگو کہ

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

ہمیں سیدھے راستے پر ہدایت دے۔ ہر چیز جو مانگی جا رہی ہے اس کے لئے جو راستے معین ہیں ان کی طرف ہدایت دے تاکہ ہم ان پر صحیح طرح چل بھی سکیں، ان کو حاصل بھی کر سکیں اور نہ صرف حاصل کر سکیں بلکہ جلد از جلد حاصل کر سکیں۔ تو یہ دُعا ترقی کے حصول کے لئے ابھارتی رہتی ہے۔ کیونکہ اس دُعا کے ساتھ ایک انسان اللہ تعالیٰ سے یہ کہتا ہے کہ مجھے ایسے راستے پر چلا جہاں میرے تمام کام جائز ذرائع سے ہی ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے ایک منزل پر پہنچ جاؤں تو اگلی منزل کی طرف راہنمائی فرما تاکہ بغیر وقت کے ضیاع کے اگلی منزلوں کی طرف بھی رواں دواں ہو جاؤں اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا جاؤں۔
یہاں ایک بات اور واضح کرنی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِھْدِناَ کی دعا سکھائی ہے۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کہ ہمیں صحیح رستے پر چلا۔ بے شک انسان اپنی ذاتی ترقی کے لئے بھی دعا مانگتا ہے لیکن جب ایک جماعت میں شامل ہو گئے تو ہماری سوچوں اور دعاؤں کے دھارے جماعت کو سامنے رکھ کر بھی ہونے چاہئیں۔ اس لئے جب آپ یہ دعا کر رہے ہوں گے تو ذاتی کمزوریاں دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ جب یہ تصور کرکے دعا مانگی جائے گی کہ

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

ہمیں سیدھے راستے پر اور کامیابی کے راستے پر اور جلد منزلیں حاصل کرتے چلے جانے والے راستے پر چلا تو اپنا جائزہ بھی انسان لے گا کہ مَیں بحیثیت فرد جماعت اس میں کیا کردار ادا کر رہا ہوں۔ مَیں نے اپنی روحانیت کو کس حد تک بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ حقوق العباد کی ادئیگی کی کس حد تک کوشش کی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ سے ’ہمیں ہدایت کے راستے دکھا‘ کی دعا مانگتے ہیں تو پھر ذاتی رنجشیں کیسی؟ہم نے تو مل کر ان راستوں پر چلنا ہے جہاں ذاتی فائدے بھی حاصل ہو رہے ہوں اور جماعت کی ترقی کے لئے بھی اور اس کی مضبوطی کے لئے بھی کوششیں ہو رہی ہوں۔ ہمیں اپنی روحانی حالتوں کی بہتری کے سامان کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو رہی ہو۔ اپنی علمی حالتوں کی بہتری کی طرف بھی توجہ پیدا ہو رہی ہو اور اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی طرف بھی توجہ پیدا ہو رہی ہو۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق ترقی اور ہدایت کے راستے کھولتا چلا جاتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے

وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی (سورۃ محمد:18)

یعنی اور وہ لوگ جو ہدایت پاتے ہیں اللہ ان کو ہدایت میں زیادہ کرتا جاتا ہے۔
پس نیکیوں پر قائم رہنے، استقامت دکھانے، اللہ تعالیٰ سے مزید ہدایت کی دعا مانگتے رہنے سے ذاتی روحانی ترقی بھی ہے اور جماعتی روحانی ترقی بھی ہے اور دونوں حالتوں میں ہر قسم کی مادی ترقی بھی ہے۔ پس یہ دعا کوئی معمولی دعا نہیں ہے جو ہم نماز میں تکرار سے پڑھتے ہیں۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں، بلکہ دل سے نکلی ہوئی یہ دعائیں اگر ہوں تو پھر یہی کامیابیوں کے نئے سے نئے راستے کھولتی چلی جاتی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے مختلف مضامین کے حوالے سے بیان فرمایا ہے۔
آپؑ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ یہ دعا لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے فرماتے ہیں :
‘’پس خلاصہ یہ ہے کہ

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کی دعا انسان کو ہر کجی سے نجات دیتی ہے اور اس پر دین قویم کو واضح کرتی ہے‘‘۔ اسلام کا یہ دین جوہمیشہ قائم رہنے والاہے اس کو واضح کرتی ہے کہ اس کے کیاکیا راستے ہیں ’’اور اس کو ویران گھر سے نکال کر پھلوں اور خوشبوؤں بھرے باغات میں لے جاتی ہے اور جو شخص بھی اس دعا میں زیادہ آہ و زاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو خیر و برکت میں بڑھاتا ہے‘‘۔
(کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 136۔ تفسیر حضر ت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول صفحہ 233)
’’یہ دعا ضروری نہیں کہجب نمازمیں سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہو تو صرف ایک دفعہ پڑھ لی بلکہ بار بار اس کو دوہراؤ تاکہ دماغ میں بار بار اس کے معانی آئیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف مزید جھکنے کی طرف توجہ پیدا ہو۔ اس دعا کی قبولیت کے لئے شدت دل سے ایک آہ نکل رہی ہو‘‘۔
فرماتے ہیں کہ’’دعا سے ہی نبیوں نے خدائے رحمان کی محبت حاصل کی اور اپنے آخری وقت تک ایک لحظہ کے لئے بھی دعا کو نہ چھوڑا اور کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس دعا سے لاپرواہ ہو یا اس مقصد سے منہ پھیر لے۔ وہ نبی ہو یا رسولوں میں سے کیونکہ رشد اور ہدایت کے مراتب کبھی ختم نہیں ہوتے‘‘۔ (انبیاء کے لئے بھی یہ نہیں کہ ایک مرتبہ پر پہنچ گئے تو منزل پر پہنچ گئے اور منزل حاصل کر لی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو ان کی استعدادیں پیدا کی ہیں ان کے لحاظ سے ان کے لئے بھی آگے رستے کھلے ہیں)۔ فرمایا ’’رشد اور ہدایت کے مراتب کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ بے انتہا ہیں اور عقل و دانش کی نگاہیں ان تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی اور اسے نماز کا مدار ٹھہرایا’‘۔ (یہ ایک محور ہے۔ نما زکا ایک بنیادی نکتہ ہے کہ

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کی دعا خاص طور پر کرو۔ ’’تالوگ اس کی ہدایت سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے ذریعہ توحید کو مکمل کریں اور (خداتعالیٰ کے) وعدوں کو یاد رکھیں اور مشرکوں کے شرک سے نجات پاویں۔ اس دعا کے کمالات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے‘‘۔ (ایک تو رشد اور ہدایت کے یہ مرتبے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہر منزل پر پہنچ کر نئی منزلیں ملتی جاتی ہیں۔ دوسرے ہر طبقے کے جو لوگ ہیں وہ اس دعا سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور اٹھا سکتے ہیں۔ کمزور ایمان بھی ایمان میں ترقی کرنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھائے گابلکہ دہریہ اور لامذہب بھی اس سے فائدہ اٹھائے گا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ اگر نیک نیتی سے دعا مانگی جائے تو ہر ایک کے مرتبہ کے لحاظ سے یہ دعا اس کو اگلی منزلوں کی طرف لے جاتی ہے)’’اور ہر فرد پر بھی حاوی ہے۔ وہ ایک غیر محدود دعا ہے جس کی کوئی حد بندی یا انتہا نہیں اور نہ اس کی کوئی غایت یا کنارا ہے‘‘ (کوئی اس کی منزل نہیں اس کاکوئی کنارانہیں) ’’پس مبارک ہیں وہ لوگ جو خدا کے عارف بندوں کی طرح اس دعا پر مداومت اختیار کرتے ہیں زخمی دلوں کے ساتھ جن سے خون بہتا ہے اور ایسی روحوں کے ساتھ جو زخموں پر صبر کرنے والی ہوں اور نفوس مطمٔنہ کے ساتھ‘‘۔ (ایک درد کے ساتھ یہ دعائیں مانگیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ ایسے درد کے ساتھ جو انتہائی درد ہو جیسے زخموں کا درد ہے اور اس پر بھی انسان صبر کر رہا ہوتا ہے اور مانگتا چلا جاتا ہے، اس کے علاج کرتا چلاجاتاہے اور اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رکھتے ہوئے نفوس مطمئنہ کے ساتھ اپنی آخری منزل تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وہ منزل کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا۔ ) فرمایا کہ’’یہ وہ دعا ہے جو ہر خیر، سلامتی، پختگی اور استقامت پر مشتمل ہے اور اس دعا میں ربّ العالمین کی طرف سے بڑی بشارتیں ہیں ‘‘۔ (کراما ت الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 137-136۔ تفسیر حضر ت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول صفحہ 234-233حاشیہ)
یہ بشارتیں کیا ہیں ایک دو مثالیں مَیں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ(التغابن:12)

اور جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت کے راستوں کی طرف پھیر دیتا ہے، ان پر چلاتا ہے۔ پھر فرمایا

وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَھْتَدُوْا(النور:54)

کہ اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پاؤ جاؤ گے۔
یہاں اس آیت میں جو مضمون چل رہاہے، اس سے مراد پہلے آنحضرت ﷺ کی اطاعت ہے۔ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤگے۔ اور ہدایت کیا ہے؟ جیسا کہ شروع میں مَیں نے بتایا کہ ترقی کی منزلوں پر آگے قدم بڑھانا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور محبت کو آنحضرت ﷺ کی پیروی اور اطاعت سے مشروط کیا ہے۔ اس کا بھی قرآن کریم میں ذکر ہے۔ پس

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کی دعا ایمان میں مضبوطی، ہدایت میں آگے بڑھتے چلے جانے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اپنے بندے کوبے شمار انعامات سے نوازتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صراط مستقیم کی قسمیں اور ان پر ہدایت پانے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘’حقیقی نیکی پر قدم مارنا صراط مستقیم ہے‘‘۔ (صراط مستقیم کیا ہے؟ صحیح اور حقیقی نیکی پر چلنا)اور اسی کا نام توسط اور اعتدال ہے‘‘۔ (یعنی میانہ روی اور اعتدال ہے) ’’کیونکہ توحید فعلی جو مقصود بالذات ہے وہ اسی سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی حقیقی توحید جو انسان کا ایک مقصد ہے اسی سے ثابت ہوتی ہے کہ اعتدال پر انسان رہے اور وہ کس طرح؟) فرمایا’’اور جو شخص اس نیکی کے حاصل کرنے میں متساہل رہے وہ درجہ تفریط میں ہے اور جو شخص اس سے آگے بڑھے وہ افراط میں پڑتا ہے‘‘۔ (وہ جو نیکی حاصل کرنے میں سستی دکھاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں ان میں کمی کر رہا ہے اور جو زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں پڑنے کی زیادتی کر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً بعض مسائل ہیں۔ مختلف قسم کے مسائل پر آدمی بحث کر رہا ہوتا ہے یا نیکی کا اظہار ہے، نیکی کرنا بڑی اچھی بات ہے۔ نیکی کو پھیلانا بڑی اچھی بات ہے لیکن بعض مسائل ایسے ہیں یا حکمت ایسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے جماعتی نظام کی طرف سے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس میں گو مداہنت اختیار نہیں کرنی، کمزوری نہیں دکھانی لیکن بہتری یہی ہے کہ بعض حالات میں خاموش رہا جائے اور امام کی طرف سے، خلیفہ وقت کی طرف سے یہ ہدایت ہوتی ہے کہ یہاں ذرا خاموشی اختیار کی جائے۔ لیکن بعض لوگ جوش میں آکر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضرو رت سے زیادہ جوش دکھاتے ہیں اور پھر اُس ماحول میں، اُس معاشرے میں باقی جماعت کے افراد کے لئے مشکل کا باعث بن جاتے ہیں۔ اسی لئے حدیث میں بھی آیا ہے کہ

اَلْاِمَامُ جُنَّۃ۔

امام جو ہے وہ ڈھال ہے۔ اس کے پیچھے رہ کر اس کے فیصلوں کے مطابق چلنے کی کوشش کرو۔ اگر زیادہ جوش دکھاؤ گے، زیادہ آگے بڑھو گے، اپنی مرضی کرو گے، گو کہ یہ نیکیاں ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کو بجا لاؤ لیکن یہ افراط میں شامل ہو جائے گا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر کمزوری دکھاتے ہو تو وہ بھی غلط ہے۔ اگر ضرورت سے زیادہ موقع محل کے حساب سے غلط کام کرتے ہو۔ زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہو تو وہ بھی غلط ہے)۔ فرماتے ہیں کہ ’’ہر جگہ رحم کرنا افراط ہے۔ کیونکہ محل کے ساتھ
بے محل کا پیوند کر دینا اصل پر زیادتی ہے‘‘۔ (اب ہر جگہ رحم کرنا یہ بھی غلط ہے۔ ایک عادی چور ہے، ایک عادی مجرم ہے اس کو بخش دینا، ہر دفعہ بخش دینا تاکہ وہ جرم کرتا چلا جائے یہ بھی بے محل ہے اور یہ افراط ہے)۔ فرماتے ہیں ‘’اور یہی افراط ہے اور کسی جگہ بھی رحم نہ کرنا یہ تفریط ہے‘‘۔ (اور پھر اتنے ظالم ہو جانا کہ اگر کہیں معاف کرنے سے در گزر کرنے سے، عفو کرنے سے اصلاح ہوتی ہو تو وہاں بھی نہ بخشنا اور ضرور سزا دینا اور سزا کے لئے سفارش کرنا۔ یہ بھی غلط ہے)۔ ’’کیونکہ اس میں محل بھی فوت کر دیا‘‘۔ ……… (یہاں بھی اس مناسبت سے سزا دینے کا یا نہ دینے کا جو اصل موقع ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ وضع شے کا اپنے محل پر کرنا یہ توسط اور اعتدال ہے کہ جو صراط مستقیم سے موسوم ہے‘‘۔ (ہر کام کا اپنے موقع اور محل کے حساب سے کرنایہی اعتدال ہے۔ یہی میانہ روی ہے اور یہی اختیار کرنی چاہئے اور یہی چیز ہے جس کا نام صراط مستقیم ہے)۔ ’’جس کی تحصیل کے لئے کوشش کرنا ہر ایک مسلمان پر فرض کیا گیا ہے اور اس کی دعا ہر نماز میں بھی مقرر ہوئی ہے۔ جو صراط مستقیم کو مانگتا رہے کیونکہ یہ امر اس کو توحید پر قائم کرنے والا ہے‘‘۔ (کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو افراط اور تفریط سے بچاتی ہیں۔ زیادتی اور کمی سے بچاتی ہیں۔ ایک میانہ روی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ ایک درمیانی راستے پر چلاتی ہیں۔ یہ چیزیں پھر توحید کی طرف لے جاتی ہیں)۔ ’’کیونکہ صراط مستقیم پر ہونا خدا کی صفت ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ جو ہے وہ ہمیشہ سیدھے راستے پر ملتا ہے۔ اس لئے اگریہ چیزیں ہوں گی تو انسان توحید کی طرف چلے گا)۔ ’’علاوہ اس کے صراط مستقیم کی حقیقت حق اور حکمت ہے۔ پس اگر وہ حق اور حکمت خدا کے بندوں کے ساتھ بجا لایا جائے تو اس کا نام نیکی ہے‘‘۔ (فرمایا کہ اس کے علاوہ صراط مستقیم جو ہے وہ حق، سچائی اور حکمت ہے۔ موقع محل کے لحاظ سے عمل کرنا ہے۔ اگر یہ حق اور حکمت جو ہے خدا کے بندوں کے ساتھ بجا لائی جائے تو اسی کو نیکی کہتے ہیں)۔ اور اگر خداکے ساتھ بجا لایا جائے تو اس کا نام اخلاص اور احسان ہے‘‘۔ (اب یہاں احسان سے کوئی غلط نہ سمجھ لے۔ یہاں احسان کے معنی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری ہیں۔ اگر صراط مستقیم کایہ حق استعمال ہو رہاہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص ہے اور اس کی کامل فرمانبرداری ہے۔ اگر بندوں کے ساتھ کر رہے ہیں تو یہ کامل نیکی ہے)۔ فرمایا کہ’’اوراگر اپنے نفس کے ساتھ ہو تو اس کا نام تزکیہ نفس ہے‘‘۔ (اگر صراط مستقیم پر چلانا اپنے نفس کے لئے ہے تو تیسری حالت اپنے آپ کے لئے اپنے نفس کو پاک کرنا ہے)۔ فرمایا کہ ‘’اور صراط مستقیم ایسا لفظ ہے کہ جس میں حقیقی نیکی اور اخلاص باللہ اور تزکیہ نفس تینوں شامل ہیں‘‘۔ (حقیقی نیکی بھی اس میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خالص تعلق بھی اس میں ہے اور اپنے آپ کو پاک کرنا بھی اس میں ہے)۔ ’’اب اس جگہ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ صراط مستقیم جو حق اور حکمت پر مبنی ہے تین قسم پر ہے‘‘۔ (پھر حقیقی نیکی، صراط مستقیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خالص تعلق صراط مستقیم ہے۔ نفس کو پاک کرنا، تزکیہ نفس کرنا صراط مستقیم ہے۔ تو فرمایا کہ یہ چیزیں تین قسم پر مبنی ہیں، ان کا انحصار تین چیزوں پر ہے)۔ ’’علمی اور عملی اور حالی اور پھریہ تینوں تین قسم پر ہیں‘‘۔
یہ گو بڑا مشکل حوالہ ہے، پہلے میرا خیال تھا کہ نہ پیش کرو ں لیکن کیونکہ بہت سارے ایک توحوالے پڑھتے نہیں۔ دو سرے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں بہت سے احمدی ہیں جن کو یہ ان کی زبان میں میسر نہیں ہے اور مضمون بڑا ضروری تھا۔ اس لئے مَیں نے کہا کہ بیان کر دوں۔ فرمایا کہ اس کی پھر آگے تین قسمیں ہیں۔ یعنی علمی، اور عملی اور حالی چیزوں کی پھر آگے تین قسمیں ہیں۔ ) ’’علمی میں حق اللہ اور حق العباد اور حق النفس کا شناخت کرنا ہے‘‘۔ (ان کی پہچان)’’اور عملی میں ان حقوق کو بجا لانا‘‘۔ (علمی چیز کیا ہے؟ یہ جو تین حق ہیں اللہ کا حق، بندوں کا حق اور اپنے نفس کا حق، اس کی پہچان یہ علمی چیز ہے۔ اور عملی صورت یہ ہے کہ ان حقوق پر عمل کرنا، ان کو بجا لانا۔ ان کو ادا کرنا)۔ فرمایا کہ’’مثلاً حق علمی یہ ہے کہ اس کو ایک سمجھنا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کا جو علمی حق ہے وہ یہ ہے کہ اس کو ایک سمجھا جائے)۔ ’’اوراس کو مبدء تمام فیوض کا اور جامع تمام خوبیوں کا‘‘ (یعنی تمام فیض اسی سے پھوٹتے ہیں۔ وہی پیدا کرتا ہے اور تمام خوبیاں اسی کے اندرموجود ہیں)’’مرجع اور مآب ہر ایک چیز کا‘‘(اسی کی طرف ہر چیز نے واپس لوٹنا ہے)۔ ’’اورمنزہ ہر ایک عیب اور نقصان سے جاننا اور جامع تمام صفات کاملہ ہونا‘‘(جتنی بھی صفات ہیں، تمام صفات کامل کا مظہر صر ف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ایک مومن کو یہ اس پہ یقین ہونا چاہئے
‘’اورقابل عبودیت ہونا اسی میں محصوررکھنا’‘ (یعنی حقیقی بندگی جو ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات تک ہی ہے۔ اگر آدمی نے کسی کی بندگی اختیار کرنی ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کی بندگی اختیار کی جا سکتی ہے)۔ فرمایا کہ’’یہ تو حق اللہ میں علمی صراط مستقیم ہے اور عملی صراط مستقیم یہ ہے جو اس کی طاعت اخلاص سے بجا لانا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے معاملے میں عملی صراط مستقیم کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی خالص طاعت کرنا، حکموں پہ چلنا)’’اور طاعت میں اس کا کوئی شریک نہ کرنا اور اپنی بہبودی کے لئے اسی سے دعا مانگنا‘‘۔ (جب بھی ضرورت ہو اسی کے آگے جھکنا۔ اسی سے دعا مانگنا)‘‘ اور اسی پر نظر رکھنا اور اسی کی محبت میں کھوئے جانا۔ یہ عملی صراط مستقیم ہے کیونکہ یہی حق ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’اور حق العباد میں علمی صراط مستقیم یہ جو اُن کو اپنا بنی نوع خیال کرنا‘‘ (کہ جو بندوں کے حقوق ہیں ان میں عملی صراط مستقیم کیا ہے؟ ان کو بنی نوع خیال کرنا کہ یہ بھی ہماری طرح کے انسان ہیں اور اس سے بڑھ کر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ غریب ہیں، امیرہیں، سب برابر ہیں اور اللہ کے بندے ہیں۔ ان میں کوئی زیادہ بڑی خوبیاں نہیں ہیں)۔ ’’اور ان کو بندگان خدا سمجھنا اور بالکل ہیچ اور ناچیز خیال کرنا‘‘۔ (جہاں تک مخلوق کا سوال ہے وہ اللہ کے بندے ہیں اور کوئی طاقت ان میں نہیں)۔ ’’کیونکہ معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے جو ان کا وجود ہیچ اور ناچیز ہے اور سب فانی ہیں ‘‘۔
ہر انسان جو دنیا میں آیا وہ فانی ہے اس نے اس دنیا سے جانا ہے۔ بعض لوگ بعض لوگوں کو اتنا اٹھا لیتے ہیں کہ اس کی وفات کے بعد پھر ان کو کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا ہوتا۔ بعض لوگ خداتعالیٰ کے دَر کو بھی اس غم میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اولاد ہے یا بعض اور دوسرے پیارے ہیں۔ تو فرمایا کہ’’معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے جو اُن کا وجود ہیچ اور ناچیز ہے اور سب فانی ہے‘‘۔ (لیکن یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ بندہ خدا نہیں بن سکتا جیسا کہ آپؑنے فرمایا۔ ہر ایک چیز ہیچ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جوہر ایک کے حفظ مراتب رکھے ہیں ان کا خیال بہرحال رکھنا ہے۔ سارے بنی نوع انسان ہیں لیکن یہ کہنا کہ سب برابر ہیں اور افسر اور ماتحت کا فرق ختم ہو جائے، بڑے یا چھوٹے کا فرق ختم ہو جائے۔ ، یہ نہیں۔ یہ تو بہرحال قائم رہنا ہے۔ لیکن جہاں تک انسان ہونے کا سوال ہے سب ایک ہیں اور برابر ہیں)۔ پھر فرمایا ’’یہ توحید علمی ہے‘‘۔ (بندوں کے حقوق جب اس طرح ادا ہورہے ہوں گے تو یہ بھی علمی توحید ہے)۔ ’’کیونکہ اس سے عظمت ایک ذات کی نکلتی ہے‘‘۔ (حقوق بندوں کے ادا ہورہے ہیں۔ ان کی طرف توجہ ہے لیکن اب توحید کی طرف توجہ پھیر دی کہ جب تم یہ کرو گے تو اس سے بھی توحید ابھر کر سامنے آرہی ہے کیونکہ یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ سوائے خداتعالیٰ کی ذات کے ہر چیز فانی ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی حیثیت سے سب برابر ہیں۔ پھر یہ توجہ دلائی ہے کہ ایک خدا ہے جس کی تمام مخلوق ہے اور پھر اس سے توحید کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔ ) فرمایا ’’کیونکہ اس سے عظمت ایک ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی نقصان نہیں اور اپنی ذات میں کامل ہے‘‘۔ (اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا پتہ لگتا ہے کہ یہی ایک ذات ہے جو اپنی ذات میں کامل ہے)۔ پھر فرمایا’’اور عملی صراط مستقیم یہ ہے (کہ) حقیقی نیکی بجالانا یعنی وہ امر جو حقیقت میں اُن کے حق میں اصلح اورراست ہے بجالانا یہ توحید عملی ہے‘‘۔ (عملی صراط مستقیم کیا ہوگی ؟یہ کہ ایسی نیکی بجالاناکہ عمل حقیقت میں اس کے حق میں اصلح اورراست ہویعنی جو کام صحیح اور درست ہے اس کو کرنا۔ ہر ایسا کام جس میں کسی قسم کی غلطی کا یا ناجائز ہونے کا شائبہ بھی ہو اس کو ادانہ کرنا، یہ صراط مستقیم ہے اور یہ توحید عملی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بندے کے بھروسے کا اس بات پر عملی اظہار ہے کہ مَیں نے کوئی ناجائز، غلط کام نہیں کرنا اور جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ ہوگا تو کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا اور یہ پھر اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے پر توجہ پھیرتا ہے)۔ ’’کیونکہ موحد کی اس میں یہ غرض ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق سراسر خدا کے اخلاق میں فانی ہوں اور حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے‘‘۔ (کیونکہ یہ جو ایک خدا کی عبادت کرنے والا ہے۔ اس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوگی کہ اس کے اخلاق وہی ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جو اللہ تعالیٰ بندوں سے ایکسپیکٹ (Expect) کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی اپنی صفات ہیں۔ …… فرمایا کہ ’’حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ جو جو نفس میں آفات پیدا ہوتے ہیں ‘‘(یعنی نفس کے حق میں علمی صراط مستقیم کیا ہے؟ یہ کہ نفس میں جو ایسی آفتیں نازل ہوتی ہیں، مشکلوں میں پڑتا ہے یا غلط قسم کے کاموں میں پڑتا ہے’’جیسے عُجب’‘(یعنی غرور ہے)، اورریا اور تکبر اورحقد‘‘(یعنی کینہ ہے)’’اور حسد ہے غرور اور حرص ہے اور بخل اور غفلت اور ظلم ان سب سے مطلع ہونا‘‘۔ ……۔ (اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم یہ ہے کہ انسان کو ان سب کا پتہ ہو کہ یہ ساری چیزیں برائیاں ہیں اور انسان کو تباہ کرتی ہیں۔ ان سب سے مطلع ہونا۔ ان کا علم ہونا یہ نفس کے بارے میں علمی صراط مستقیم ہے)۔ فرمایا کہ’’اورجیسے وہ حقیقت میں اخلاق رذیلہ ہیں ویسا ہی ان کو اخلاق رذیلہ جاننا۔ یہ علمی صراط مستقیم ہے’‘۔ (یہ سب باتیں جو ہیں جس طرح یہ برائیاں ہیں گھٹیا چیزیں ہیں کہ ان کوحقیقت میں اس طرح ہی جاننا، یہ علمی صراط مستقیم ہوگا)۔ پھر فرمایا’’اور یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے‘‘۔ (نفس کا جو ان برائیوں کاعلم ہے اس کو اس سے پتہ لگے گا)۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف اپنے نفس کے حالات کی وجہ سے بھی توجہ پھرے گی اور ان برائیوں کو جاننے کی وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف توجہ پیدا ہوگی۔ فرمایا کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے۔ جس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ انسانوں میں سب برائیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ ان سے بچنا ہے اوراللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہوئے بچنا ہے۔ اس سے پھر توحید کا اظہار پیدا ہوگا۔ فرمایا کہ’’عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے‘‘۔ (وہی ایک ذات اللہ تعالیٰ کی ہے جو پاک ہے اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ باقی ہر مخلوق میں عیب ہیں اور انسان میں جو یہ عیب گنوائے گئے اس کے علاوہ بھی بہت سارے عیوب ہیں۔ انسان ان کی پاکیزگی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے۔ پھر توحید کا بیان آگیا)۔ فرمایا کہ’’اورحق النفس میں عملی صراط مستقیم یہ ہے جو نفس سے ان اخلاق رذیلہ کا قلع قمع کرنا اور صفت تخلّی عن رذائل اور تحلّی بالفضائل سے متصف ہونا‘‘۔ (انسان کا جو نفس ہے اس کی عملی صراط مستقیم یہ ہے کہ یہ جو سارے گھٹیا اور ذلیل قسم کے اخلاق بتائے گئے ہیں ان کو ختم کرنا۔ یہ عملی صورت ہوگی۔ ان کے لئے عملی قدم انسان اٹھائے گا اور صفت تخلّی عن رذائل اور تحلّی بالفضائل، یعنی جواپنی گھٹیا اور ذلیل حرکتیں ہیں ان سے اپنے آپ کو خالی کرنا اور جو نیکیاں ہیں ان کو اپنے اندر لاگو کرنا۔ اس زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا جو اللہ تعالیٰ نے فضائل بتائے ہیں۔ جو نیکیاں بتائی ہیں ان سے اپنے آپ کو سجانا، ان سے متصف ہونا۔ اپنے نفس کے لئے یہ چیز ہے۔ یہ عملی صراط مستقیم ہے اور فرمایا کہ’’یہ عملی صراط مستقیم ہے۔ یہ توحید حالی ہے‘‘ (یہ جو نفس کے لئے عملی صراط مستقیم جو نفس کے لئے ہے اسی سے انسان کا حال ظاہر ہوجاتا ہے اور پھریہ اللہ تعالیٰ کی توحید حالی کا اظہار کررہی ہوتی ہے)۔ ’’کیونکہ موحّد کی اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ تا اپنے دل کو غیر اللہ کے دخل سے خالی کرے اور تا اس کو فنافی تقدس اللہ کا درجہ حاصل ہو‘‘۔ (اور جو بھی اللہ تعالیٰ کے غیر ہیں، دوسری دنیاوی چیزیں ہیں ان سے اپنے دل کو خالی کرنا اور اس کو فنا فی تقدس کا درجہ دینا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور تقدس کے مقام کا جو درجہ ہے وہ حاصل کرنا)۔ ’’اور اس میں اور حق العباد میں جو عملی صراط مستقیم ہے ایک باریک فرق ہے اور وہ یہ ہے جو عملی صراط مستقیم حق النفس کا وہ صرف ایک ملکہ ہے جو بذریعہ ورزش کے انسان حاصل کرتا ہے‘‘۔ (عملی صراط مستقیم جو حق النفس کا ہے وہ صرف ایک خاص ملکہ ہے، ایک خاص چیز ہے جو انسان ورزش سے حاصل کرتا ہے۔ ورزش کا مطلب ہے روحانی ورزش، عبادت، اللہ تعالیٰ کے لئے خاص طور پر ایک مجاہدہ کرنا)۔ ’’اور ایک بالمعنی شرف ہے خواہ خارج میں کبھی ظہور میں آوے یا نہ آوے‘‘۔ (یہ ایک ایسا حقیقی بزرگی کا مقام ہے جو بظاہر نظر آتا ہو یا نہ نظر آتا ہو لیکن اس کوشش کی وجہ سے جو انسان اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدے کررہا ہوتا ہے اس سے اس کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ آپ کو یاہر ایک کو نظر آئے)۔ ’’لیکن حق العباد جو عملی صراط مستقیم ہے وہ ایک خدمت ہے اور تبھی متحقق ہوتی ہے‘‘(ظاہرہوتی ہے، واضح ہوتی ہے) کہ جب افراد کثیرہ بنی آدم کو خارج میں اس کا اثر پہنچے‘‘۔ (جب دنیا کی مخلوق کی جو اکثریت ہے وہ ان کونظر آرہی ہو اور اس کا اثر پہنچ رہا ہو۔ یعنی بندہ اللہ تعالیٰ کے اور ایک انسان دوسرے بندوں کے حقوق ادا کررہا ہو)۔ فرمایاکہ ‘’اور شرط خدمت کی ادا ہو جائے۔ غرض تحقق عملی صراط مستقیم حق العباد کا ادائے خدمت میں ہے‘‘(کہ ایک صحیح اور ثابت شدہ چیز ہے وہ تبھی ثابت ہوگی جب بندہ دوسرے بندوں کی خدمت کا حقیقی طور پر حق ادا کررہا ہو۔ ایسی صورت جب ہوگی تبھی عملی صراط مستقیم ہوگی)۔ فرمایا کہ’’اور عملی صراط مستقیم حق النفس کا صرف تزکیہ نفس پر مدار ہے’‘(اور جو صراط مستقیم ہے جس کے لئے آدمی دعا کرتا ہے، اپنے نفس کے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے کہ

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم،

اس کا حقیقی نتیجہ تب ہی نکلے گا جبکہ انسان اپنے نفس کی پاکیزگی کی طرف کوشش کررہا ہو)۔ ’’کسی خدمت کا ادا ہونا ضروری نہیں ’‘۔ (اپنے نفس کی ادائیگی کے لئے ضروری نہیں ہے کہ دوسروں کی خدمت بھی کی جارہی ہو)۔ فرمایا کہ’’یہ تزکیہ نفس ایک جنگل میں اکیلے رہ کر بھی ادا ہوسکتا ہے۔ لیکن حق العباد بجز بنی آدم کے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے فرمایا گیا جو رہبانیت اسلام میں نہیں ‘‘۔
(الحکم 24؍ستمبر 1905ء۔ صفحہ 5-4۔ ؟؟؟ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلامجلداول صفحہ237-236)
اب نفس کا تزکیہ اکیلا انسان جنگل میں رہ کے بھی کرسکتا ہے۔ لیکن ایک معاشرے میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔ وہ دوسرے بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے اور تبھی وہ صراط مستقیم پہ چلنے والا انسان کہلائے گا جب اپنے ساتھیوں کے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے، اپنے معاشرے کے، اپنے ہمسائے کے حق ادا کررہا ہو۔ تو یہ ایک ایسی وضاحت ہے جو اگر سمجھ آجائے تو یہ راستے دکھاتی ہے، راستے تک پہنچاتی ہے اورپھر انسان منزل تک پہنچتا ہے۔ اس کے گہرے مطلب سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد چاہئے۔ اس لئے فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہو کہ

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔

اس اقتباس میں تمام نیکیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضاکے حصول اور اس کی توحید کے قیام پر مرکوز کر دیا گیا ہے اور یہی حقیقی ہدایت ہے جس کے لئے ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ اس ضمن میں ایک جگہ نفوس کو شرک کی باریک راہوں سے پاک کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دعا کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:
‘’پھر جان لو کہ

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

کی آیت میں نفوس کو شرک کی باریک راہوں سے پاک کرنے اور ان راہوں کے اسباب کو مٹانے کی طرف عظیم اشارہ (پایا جاتا) ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس آیت میں نبیوں کے کمالات کے حاصل کرنے اور ان(کمالات) کے دروازوں کو کھولے جانے کی استدعا کی ترغیب دی ہے کیونکہ زیادہ تر شرک نبیوں اور ولیوں کے متعلق غلو کرنے کی وجہ سے دنیا میں آیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے نبی کو ایسا یکتا اور منفرد اور ایسا وحدہٗ لاشریک گمان کیا جیسے ذات ربّ العزت ہے ان کا مآل کار یہ ہوا کہ انہوں نے کچھ مدت کے بعد اُسی نبی کو خداتعالیٰ کے مقابلے پہ لائے اورمعبود بنالیا‘‘۔ (آخرکار نتیجہ یہ نکلا کہ اس نبی کو معبود بنالیا، ۔ ’’اسی طرح(حضرت عیسیٰ کی تعریف میں) مبالغہ آرائی کرنے اور حد سے بڑھنے کی وجہ سے عیسائیوں کے دل بگڑ گئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی فساد اور گمراہی کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور اس طرف بھی اشارہ فرماتا ہے کہ (اللہ تعالیٰ سے) انعام پانے والے لوگ یعنی رسول، نبی اور محدث اس لئے مبعوث کئے جاتے ہیں کہ لوگ ان بزرگ ہستیوں کے رنگ میں رنگین ہوں، نہ اس لئے کہ وہ ان کی عبادت کرنے لگیں اور انہیں بتوں کی طرح معبود بنالیں۔ پس ان بااخلاق پاکیزہ صفات والی ہستیوں کو دنیا میں بھیجنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ(ان کا) ہر متبع ان صفات سے مُتصف ہو نہ یہ کہ انہیں کو پتھر کا بت بنا کر اس پر ماتھا رگڑنے والا ہو‘‘۔
(کراما ت الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ89۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلامجلد اول صفحہ271۔ حاشیہ)
اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ولی بنو، ولی پرست نہ بنو اور پیر بنو پیر پرست نہ بنو۔ ہمارے ہاں بھی پیر پرستی کا بعض جگہوں پربڑا رواج ہوگیا ہے اور بعض لوگوں نے کاروبار بھی بنالیا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے بعض چینل 24 گھنٹے چل رہے ہوتے ہیں کہ کتاب کھولی اچھا کیا استخارہ کرانا ہے اور وہیں دوچار لفظ پڑھے اور کہہ دیا کہ ’اس کا رشتہ کامیاب ہوگا یا نہیں کامیاب ہوگا‘۔ مجھے بھی بعض شکایات آتی ہیں۔ بعض جگہوں پہ بعض عورتیں اور مرد پانچ گھنٹے، چھ گھنٹے میں استخارہ کرکے جواب دے دیتے ہیں۔ اپنی مرضی کے رشتے کروا دیتے ہیں اور اس کے بعد جب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ تمہارا قصور ہے ہمارا استخارہ ٹھیک تھا۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ خود دعائیں نہیں کرتے۔ خود توجہ نہیں۔ خود نمازوں کی پابندی نہیں اورایسے لوگوں پر اندھا اعتقاد ہے جنہوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے۔ احمدیوں کواس قسم کی چیزوں سے خاص طور پر بچنا چاہئے۔
فرماتے ہیں کہ’’پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں سمجھ بوجھ اور عقل رکھنے والوں کو اشارہ فرمایا ہے کہ نبیوں کے کمالات پروردگار عالم کے کمالات کی طرح نہیں ہوتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا، بے نیاز اور یگانہ ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ لیکن نبی ایسے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے سچے متبعین میں سے ان کے وارث بناتا ہے۔ پس ان کی امت ان کی وارث ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ پاتے ہیں جو ان کے نبیوں کو ملا ہو بشرطیکہ وہ ان کے پورے پورے متبع بنیں اور اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آیت

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ (آل عمران:32)

میں اشارہ فرمایا ہے‘‘۔
(کراما ت الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ89۔
تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلامجلد اول صفحہ272-271۔ حاشیہ)
پس یہ دعا توحید کی طرف لے جاتی ہے۔
پھر آپ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اسلام کا نام استقامت ہے فرماتے ہیں کہ:
’’قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے‘‘ (یعنی اسلام کا نام استقامت رکھا ہے۔ )’’جیسا کہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے،

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر۔ ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے۔ واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پہ نظر کرکے سمجھی جاتی ہے‘‘۔ (یعنی ہر چیز کی جو استقامت کی حالت ہے وہ اس کی جو بنیادی غرض ہے اس پر نظر رکھ کے سمجھی جاتی ہے) ’’اور انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے‘‘(انسان کے پیدا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان خدا کے لئے پیدا کیاگیا ہے۔ )’’پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیاہے ایسا ہی درحقیقت خدا کے لئے ہو جائے اور جب وہ اپنے تمام قویٰ سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلاشبہ اس پر انعام نازل ہو گا۔ جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب آفتاب کی طرف کی کھڑکی کھولی جائے تو آفتاب کی شعاعیں ضرور کھڑکی کے اندر آجاتی ہیں ……۔
فرمایا کہ’’اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے۔ اس کی طرف اللہ جل شانہ‘ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے

مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلاً (بنی اسرائیل :73)

یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا ہے اور خدا کو دیکھنے کا اس کو نور نہ ملا وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا‘‘۔
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد12صفحہ344)
پس یہ اندرونی غلاظتیں ایک دفعہ میں اور بغیر کسی کوشش کے نہیں دھل جاتیں جیسا کہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ دعا کی ضرورت ہے اورتب ہی پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ظاہر ہوتا ہے اور پھر وہ اچانک انسان کو اپنے نور میں لپیٹ لیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:’’انسان کا اسم اعظم استقامت ہے‘‘ اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں ‘‘۔
مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں۔ جب انسان انسانیت میں ترقی کرے تو اس کو فرمایا کہ یہ استقامت ہے اور یہی اسم اعظم ہے کہ انسان انسانیت میں ترقی کرتا چلا جائے۔ فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ نے

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمْ

میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ37 جدید ایڈیشن)
پس انسانیت میں جو لامحدود کمالات ہیں۔ ہر انسان کو، ہر مومن کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کی وسعت ہے اور اس کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔
پھر ہماری اس دعا کرنے کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کس طرح اس دعا کو وسیع کرنا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’دعا کے بارہ میں یہ یاد رکھناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں دعا سکھلائی ہے یعنی

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

اس میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں۔ (1) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے‘‘۔ (پوری دنیا کا جو انسان ہے اس کو اپنی دعا میں،

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

میں شریک رکھے۔ ) ’’(2) تمام مسلمانوں کو‘‘(اپنی دعا میں شریک رکھو۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صراط مستقیم پہ چلائے۔ ) ’’تیسرے ان حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں۔ پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے اور یہی منشاء خداتعالیٰ کا ہے کیونکہ اس سے پہلے اسی سورۃ میں اس نے اپنا نام

ربّ العالمین

رکھا ہے جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے جس میں حیوانات بھی داخل ہیں۔ پھر اپنا نام رحمان رکھاہے اور یہ نام نوع انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مومنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے۔ کیونکہ رحیم کا لفظ مومنوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ

رکھا ہے اور یہ نام جماعت موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے۔ کیونکہ یوم الدین وہ دن ہے جس میں خداتعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی۔ سو اس تفصیل کے لحاظ سے

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کی دعا ہے۔ پس اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا میں تمام بنی نوع انسان کی ہمدردی داخل ہے اور اسلام کا اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہو‘‘۔
(الحکم 29؍اکتوبر1898ء۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول صفحہ 298)
پس ساری باتیں جو آپ نے سنیں یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم دنیا کی ہدایت کے لئے دعا کریں۔ مسلمانوں کی ہدایت کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انسانیت کو بھی تباہ ہونے سے بچائے۔ آج کل جس نہج پر خداتعالیٰ کو بھول کر انسانیت چل رہی ہے، ایک ملک دوسرے ملک سے جس طرح(ظاہراً نہیں بھی) تواندر ہی اندر پر خاش رکھے ہوئے ہے، ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بڑی تیزی سے اس طرف جا رہے ہیں جہاں جنگ عظیم کا بڑا واضح امکان نظر آرہا ہے۔ اس سے پھر انسانیت کی تباہی ہونی ہے۔ اس لئے ہمیں یہ دعا خاص طور پر کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جہاں جنگ کے شر سے اور جنگ کی آفات سے سب احمدیوں کو محفوظ رکھے وہاں مسلم امہ کو بھی محفوظ رکھے اور تمام انسانیت کو بھی محفوظ رکھے۔ اگر ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا بالکل آگ کے کنارے پر کھڑی ہے اور کسی وقت بھی یہ کنارا گرے گا اور ایک خوفناک تباہی اور آفت آنے والی ہے۔ اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس طرف خاص توجہ دیں۔ اگر آج دنیا میں کوئی بچا سکتے ہیں تو احمدی دعاؤں سے بچا سکتے ہیں کیونکہ یہی لوگ ہیں جو حقیقی مومن بھی ہیں اور اس جماعت میں شامل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہے۔ پس خاص کوشش سے اپنے اندر بھی تبدیلیاں پید کرتے ہوئے اور دنیا کی تباہی کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں