خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍جولائی 2009ء

قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضر ت مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں۔
مسلمانوں کوچاہئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر بیٹھا سمجھنے کی بجائے جو عیسائیوں کا نظریہ ہے، آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آپ کی اُمّت میں سے آنے والے کو ہی مانیں کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شان بلند ہوتی ہے۔
قرآن شریف میں ہر ایک جگہ رفع سے مراد رفع روحانی ہے۔ تمام مومنوں اور رسولوں اور نبیوں کا مرنے کے بعد رفع روحانی ہوتاہے۔ اور کافر کارفع روحانی نہیں ہوتا۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 10؍جولائی 2009ء بمطابق10؍وفا 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے لفظ رَفَع اور اس کے معانی کا ذکر کیا تھا اور یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو ان آیات کی تفسیر فرمائی ہے جن میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق میں

رَافِعُکَ اِلَیَّ

یا

بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہ ُ اِلَیْہِ

کا ذکر آتا ہے اس کا خداتعالیٰ کی قدوسیت کو قائم رکھتے ہوئے حقیقی مطلب کیا ہے؟ اس مضمون کو آگے چلاتے ہوئے مَیں آج یہ بیان کروں گاکہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ بھی قرآن کریم میں کسی نبی کے بارہ میں اس قسم کے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کا ذکر ملتا ہے۔ جس سے اس نبی کے بارہ میں بھی مع جسد عنصر ی آسمان پر جانے کے واقعہ کومنطبق کیا جا سکتا ہو۔
اس سلسلہ میں قرآن کریم کی ایک آیت ہے جو حضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ یہ سورۃ مریم کی آیات 58-57 ہیں کہ

وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ۔ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا(مریم :58-57)

اور اس کتاب میں ادریس کا ذکر بھی کر۔ یقینا وہ بہت سچا(اور) نبی تھا اور ہم نے اس کا ایک بلند مقام کی طرف رفع کیا تھا۔
اب دیکھیں ان آیات میں حضرت ادریسعلیہ السلام کو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ مقام دیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں تو لکھا ہے کہ بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہ ُ اِلَیْہِ کہ خداتعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔ لیکن حضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں لکھاہے کہ وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کہ ہم نے اسے ایک بلند مقام پر اٹھا لیا۔ پس مسلمانوں کو تو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور اب جبکہ خداتعالیٰ کے برگزیدہ اور امام الزمان نے خداتعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ تمام معاملہ جو ہے، آسمان پر جانے کا وہ روز روشن کی طرح کھول دیا ہے کہ تمام انبیاء کا رفع ہوتا ہے اور روحانی ہوتا ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی رفع ہوا اور وہ روحانی رفع تھا۔ او ر یہ جو قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رفع کا دو آیات میں ذکر کیا گیا ہے یہ خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا اور اس سیاق و سباق کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام لگایا تھا کہ جو صلیب پر چڑھتا ہے وہ لعنتی موت مرتا ہے۔ نعوذ باللہ۔ اس الزام سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بری کرنے کے لئے قرآن کریم میں یہ فرمایا کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ اللہ تعالیٰ نے قدرتی موت دی اور اس کی طرف رفع ہوا۔
عیسائیوں کے پاس تو اس کی کوئی دلیل نہیں تھی اور ویسے بھی عیسائیت میں بعد میں بہت کچھ متن میں تحریف ہوئی اور ردّوبدل ہوئی اور تثلیث کا نظریہ پیش کیا گیا اور انہوں نے اس چیز کے زیر اثر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لعنتی موت مرنے کو، صلیب پر مرنے کو، کفّارہ کا نام دے دیا او ر پھر یہ نظریہ قائم کیا کہ پھر آپؑ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گئے اور مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے اور خداتعالیٰ کے ساتھ بیٹھ کر آسمان پر خدائی امور سرانجام دے رہے ہیں اور آخری زمانہ میں دنیا میں عدالت لگانے کے لئے آئیں گے اور جو بھی اس وقت تین خداؤ ں پر یقین نہیں رکھے گا وہ پکڑا جائے گا۔ بہرحال یہ آج کل کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام آسمان پر خدائی امورکوانجام دینے کے لئے بیٹھے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایاکہ مسلمانوں میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا رفع جسمانی سمجھ کر آخری زمانہ میں ان کے اترنے اور خونی مہدی کے ساتھ مل کر دنیا کو مسلمان کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور یہ نظریہ قائم ہے۔ اس ضمن میں میں بتا دوں کہ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے ایران کے صدر کا ذکر کیاتھا کہ ان کا بھی یہ نظریہ ہے۔ وہ ایک اردو اخبار کی خبر تھی جس سے یہ غلط تاثر ملاتھا۔ گوکہ انہوں نے کہا یہی تھاکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زندگی میں یہ تعلیم نہیں دیتے رہے لیکن مَیں نے انگریزی خبر کا جو اصل حوالہ نکالا ہے جس کا اخبار والوں نے اردو میں ترجمہ کیا تھا اس میں آگے جا کے پھر یہی لکھا ہے کہ جب وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور مہدی کے ساتھ مل کر کام کریں گے تو پھر اصلا ح ہوگی۔ بہرحال مسلمانوں کا جو بھی نظریہ ہے وہ انہوں نے پیش کیا ہے۔ اور مسلمان جو ہیں ان میں سے اکثر یت یہی نظریہ رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام آخری زمانہ میں آئیں گے اور خونی مہدی کے ساتھ مل کر دنیا کو مسلمان بنائیں گے اور جو مسلمان نہیں ہوگا اس کو قتل کیا جائے گا۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانہ کے امام اور مسیح الزمان کو مان کر اس ظالمانہ خونی انقلاب کا حصہ بننے سے بچے ہوئے ہیں۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند اقتباسات پیش کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے حضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے متعلق بائبل کیا کہتی ہے وہ بھی پیش کردوں تاکہ اس حوالے سے بھی ادریس علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کا موزانہ ہو جائے۔ بائبل حضرت عیسیٰ کے بارہ میں توکہتی ہے کہ وہ آسمان پرچڑھ گئے۔ لیکن حضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں بھی پیدائش باب 5آیت 24میں لکھاہے کہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور وہ غائب ہو گیا۔ کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا۔ یہ بائبل کے الفاظ کااردو ترجمہ ہے اورانگریزی بائبل میں بھی اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ ہیں کہ’’For God took him‘‘۔
پس اگر بائبل میں مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بارہ میں لوقاباب 24 آیت 51 میں لکھا ہے۔ تو ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں بھی جنہیں بائبل حنوک کہتی ہے، اوپر اٹھائے جانے کا ذکر ہے۔ اگر اوپر اٹھایا جانا خدا بننے کا معیار ہے تو حضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اس معیار پر پورا اترتے ہیں اور اگر ادریس علیہ السلام وہ مقام حاصل نہیں کر سکے توپھر عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت بھی ثابت نہیں ہوتی۔
جہاں تک قرآن کریم کا سوال ہے تو قرآن کریم کی جو آیت مَیں نے ابھی پڑھی ہے اس میں حضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت زیادہ شاندار رفع کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ پس بائبل اور قرآن دونوں میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ بھی کسی نبی کے اس طرح اٹھائے جانے کا ذکر ہے اور یہ بات اس چیز کا ردّ کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی غیر معمولی ہستی یا شخصیت تھے یا ان کاکوئی غیر معمولی مقام تھا۔ عیسائی اب نہیں مانتے اور عیسائیت کی تعلیم اتنی توڑی مروڑی جا چکی ہے کہ انہوں نے تو نہیں ماننا لیکن جومسلمان ہیں ان کو تو اس آیت سے راہنمائی لینی چاہئے۔ خداتعالیٰ کا تو یہ وعدہ ہے اور ایک سچا وعدہ ہے اور قیامت تک سچا رہے گا کہ قرآن کریم کی تعلیم میں کبھی بھی تحریف نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت کے سامان فرماتا ہے۔
اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے راہنمائی کے لئے اپنے ایک برگزیدہ کو بھیج دیا تو اس وقت پھر کوئی بھی توجواز نہیں رہتا کہ غلط قسم کی تفسیر یں اور تشریح کی جائے۔ یہاں مَیں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ یہودی لٹریچر میں حضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام جن کو یہ حنوک کہتے ہیں ان کے بارہ میں کافی تفصیل موجود ہے اور واضح لکھا ہے کہ انہیں دنیا کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا لیکن جب دنیا گناہوں سے بھر گئی تو خداتعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ بہرحال یہ تو یہودیوں کا نظریہ ہے۔
جہاں تک ہمارا سوال ہے ہم تو انہیں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا خداتعالیٰ کا سچا نبی سمجھتے ہیں۔ جنہیں خداتعالیٰ نے ایک بلند مقام عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ ہر نبی کو جب اس دنیا میں بھیجتا ہے تو اس دنیا میں بھی بلند مقام عطا فرماتا ہے جو اس کی روحانی بلندی کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ تاکہ دنیا کی اصلاح کر سکے اور جن لوگوں میں بھیجا گیا ہے ان کی اصلاح کر سکے۔ اور اگلے جہان میں بھی انبیاء کو ایک ارفع و اعلیٰ مقام ملتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ:
‘’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا’‘

(یہ سورۃ مریم کی 58ویں آیت ہے۔ )’’یعنی ہم نے اس کو یعنی اس نبی کو عالی مرتبہ کی جگہ پر اٹھا لیا۔ اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ جو لوگ بعد موت خداتعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ان کے لئے کئی مراتب ہوتے ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس نبی کو بعد اٹھانے کے یعنی وفات دینے کے اُس جگہ عالی مرتبہ دیا۔ نواب صدیق حسن خان اپنی تفسیر فتح البیان میں لکھتے ہیں کہ اس جگہ رفع سے مراد رفع روحانی ہے جو موت کے بعد ہوتا ہے۔ ورنہ یہ محذور لازم آتا ہے کہ وہ نبی مرنے کے لئے زمین پر آوے‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 385۔ حاشیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’افسوس ان لوگوں کو آیت

اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ

میں یہ معنی بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت میں پہلے

مُتَوَفِّیْکَ

کا لفظ موجود ہے اور بعد اس کے

رَافِعُکَ۔

پس جبکہ صرف لفظ

رَافِعُکَ

میں معنی موت لئے جا سکتے ہیں تو

مُتَوَفِّیْکَ

اور

رَافِعُکَ

کے معنی کیوں موت نہیں ہیں ‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 385حاشیہ)
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر نہیں گئے۔ بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں۔ بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت یحییٰؑ اور حضرت آدمؑ اور حضرت ادریسؑ اور حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یوسفؑ وغیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں ؟ اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیونکر معراج کی رات میں آنحضرت ﷺ نے ان سب کو آسمانوں میں دیکھا۔ اوراگراٹھائے گئے تھے تو پھر ناحق مسیح ابن مریم کی رفع کے کیوں اَور طور پر معنے کئے جاتے ہیں۔ تعجب کہ

تَوَفِّی

کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے جابجا ان کے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے۔ کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جا ملے جو ان سے پہلے اٹھائے گئے تھے۔ اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو مَیں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیونکر پہنچ گئے۔ آخر اٹھائے گئے تبھی تو آسمان میں پہنچے۔ کیا تم قرآن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ کیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو مسیح کے بارہ میں آیا ہے؟ کیا اس کے اٹھائے جانے کے معنی نہیں ہیں ؟

فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ(یو نس:33)’‘۔

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 438)
پس یہ نہ صرف عقلی دلائل ہیں بلکہ قرآن کے صحیح فہم و ادراک سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ ثابت فرمائے ہیں۔
ایک صاحب جو اپنے آپ کو بڑا عالم دین کہتے ہیں ان کا پہلے بھی مَیں ایم ٹی اے کے حوالہ سے ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں جو یہ ماننے کو تیار نہیں کہ رفع جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے۔ ہمارے ایک احمدی نوجوان جو اُن سے انٹرویو لینے گئے تھے ان سے انہوں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ مَیں تمہارے علماء سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں اور مرزا صاحب کی کتابیں بھی مَیں نے بہت پڑھی ہیں۔ اور خلاصہ یہ تھا کہ حضرت مرزا صاحب کی تحریریں مجھے اس بارہ میں قائل نہیں کر سکیں۔ ہدایت دینا تو خداتعالیٰ کا کام ہے۔ ابوجہل اور بہت سے سرداران مکہ جو تھے اگر وہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں نور نہیں دیکھ سکے یا قرآن کریم کی تعلیم کو ایک شاعرانہ کلام کہتے رہے تو وہ ان کی عقل کا قصور ہے۔ ان کی بدقسمتی تھی۔ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی شان میں تو اس سے کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ جن کو اللہ تعالیٰ نے نورِفراست عطا فرمایا، جن کی فطرت سعید تھی، انہوں نے قبول کیا۔ پس اگر آپ کے غلام کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو یہ بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’قرآن شریف میں ہر ایک جگہ رفع سے مراد رفع روحانی ہے۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے کہ

وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا’‘۔

ایک تو مثال دی تھی نواب صدیق حسن خان کی کہ انہوں نے اس کو رفع روحانی قرار دیا۔ لیکن مسلمانوں میں بھی بعض ایسے لوگ اُس زمانے میں تھے اور اب بھی شاید بعض ہوں جو یہ کہتے ہیں

وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا

جو ہے اس سے مراد روحانی رفع ہے۔ فرمایا کہ’’اس پر خود تراشیدہ قصہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص ادریس تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے مع جسم آسمان پر اٹھا لیا تھا‘‘۔ اب یہ یہودی نظریہ توہے جو مَیں نے بیان کیا لیکن اگر کسی مسلمان کا یہ نظریہ ہے تو پھر اس کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کس کی پیروی کر رہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’لیکن یاد رہے کہ یہ قصہ بھی حضرت عیسیٰعلیہ السلامکے قصے کی طرح ہمارے کم فہم علماء کی غلطی ہے اور اصل حال یہ ہے کہ اس جگہ بھی رفع روحانی ہی مراد ہے۔ تمام مومنوں اوررسولوں اور نبیوں کا مرنے کے بعد رفع روحانی ہوتا ہے۔ اور کافر کا رفع روحانی نہیں ہوتا۔ چنانچہ آیت

لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآء’‘

(سورۃ اعراف 41ویں آیت میں ہے یعنی ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے)۔ ’’کا اسی کی طرف اشارہ ہے۔ اور اگرحضرت ادریسؑ معہ جسم عنصری آسمان پر گئے ہوتے تو بموجب نص صریح آیت

فِیْھَا تَحْیَوْنَ’‘

(کہ اسی میں جیو گے۔ یہ قصہ آدم کے بارہ میں بیان ہو رہاہے۔ کہ یہیں جیو گے، یہیں زمین میں مرنا ہو گا۔ یہ سورۃ اعراف کی آیت 26 ہے۔ فرمایا کہ)’’جیسا کہ حضرت مسیح کا آسمانوں پر سکونت اختیار کر لینا ممتنع تھا ایسا ہی ان کا بھی آسمان پر ٹھہرنا ممتنع ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ اس آیت میں قطعی فیصلہ دے چکا ہے کہ کوئی شخص آسمان پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ بلکہ تمام انسانوں کے لئے زندہ رہنے کی جگہ زمین ہے۔
علاوہ اس کے اس آیت کے دوسرے فقرہ میں جو

فِیْھَا تَمُوْتُوْن

ہے یعنی زمین پر ہی مرو گے، صاف فرمایا گیا ہے کہ ہر ایک شخص کی موت زمین پر ہو گی۔ پس اس سے ہمارے مخالفوں کو یہ عقید ہ رکھنا بھی لازم آیا کہ کسی وقت حضرت ادریسؑ بھی آسمان پر سے نازل ہوں گے‘‘۔ اگر یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت ادریسؑ آسمان پر زندہ ہیں تو پھر ان کو بھی حضرت عیسیٰؑ کی طرح نیچے اترنا ہو گا۔ فرمایا کہ’’حالانکہ دنیا میں یہ کسی کا عقیدہ نہیں ‘‘(یعنی یہ عقیدہ نہیں کہ حضرت ادریسؑ دوبارہ اتریں گے) فرمایا کہ’’طرفہ یہ کہ زمین پر حضرت ادریسؑ کی قبر بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ کی قبر موجود ہے‘‘۔
(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 238-237۔ حاشیہ)
پس خلاصہ یہ کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح حضرت ادریسؑ کے رفع کو رفع جسمانی سمجھتے ہو تو پھر حضرت ادریسؑ کے اترنے کا عقیدہ کیوں نہیں رکھتے ؟ ان کے اترنے کا بھی عقیدہ ہونا چاہئے۔
پس اگر دلائل سے دیکھا جائے تو کوئی نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کلام اور دلائل اور براہین کا مقابلہ کر سکے۔ مسلمانوں پر حیرت ہے کہ ایک طرف تو ختم نبوت کے غلط معنی کرتے ہوئے یہ ماننے کو تیار نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی اُمّت میں سے کوئی نبی آسکتا ہے اور باوجود قرآن کریم کی اس خبر کے کہ

وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:3)

یعنی اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی مبعوث کرے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ اس کو پڑھتے ہیں پھر بھی مانتے نہیں اور آنحضرت ﷺ کے الفاظ کہ

اِمَامُکُمْ مِّنْکُمْ

پر غور نہیں کرتے۔ اور پھر ساتھ ہی آنحضرت ﷺ سے محبت کا دعویٰ بھی ہے۔ یہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیعلیہ السلام نے مسیحیت اور مہدویت کا دعویٰ کرکے اور اپنے آپ کو نبی اور رسول کہہ کر نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کی توہین کی ہے اور ان کے مقام کو گرایا گیا ہے۔ حالانکہ یہی آنحضرت ﷺ کی عظمت اور شان ہے کہ آپؐ کی اُمّت میں سے، آپؐ سے عشق و محبت کی وجہ سے، خداتعالیٰ ایک شخص مبعوث فرمائے جس کا مقام نبوت کا مقام ہو اور وہ نبوت کا مقام صرف خداتعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے نہ ہو جیساکہ سابقہ انبیاء کا تھا۔ ان کو یہ درجہ ملتا رہا اور اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سے یہ درجہ ملتا رہا اس تعلق کی وجہ سے، جن میں سے بعض نبی صاحب شریعت تھے اور بعض غیر تشریعی نبی تھے جو اپنے سے پہلے نبیوں کی شریعت پر کار بند تھے اور اُسی تعلیم کو انہوں نے جاری رکھا۔ بلکہ آنے والے مسیح کا مقام اور رتبہ اور اس کا رفیع الشان ہونا صرف آنحضرت ﷺ کی پیروی کی وجہ سے تھا اور آپ کی اُمّت میں سے ہونے کی وجہ سے تھا اور آپ کے ساتھ عشق و محبت کی وجہ سے تھا اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تھا کہ آخرین میں مسیح موعود مبعوث ہو گا۔
پس مسلمانوں کو چاہئے کہ عیسیٰعلیہ السلامکو زندہ آسمان پر بیٹھا سمجھنے کی بجائے جو عیسائیوں کا نظریہ ہے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آپؐ کی اُمّت میں سے آنے والے کو ہی مانیں کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے اور آنحضرت ﷺ کی ہی شان بلند ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے یہ کہا کہ عیسیٰ کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے۔ اصل میں مرزا صاحب کو یہ کہنے میں اسلام کے زندہ ہونے سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ اپنے دعویٰ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں میں اور عیسائیوں میں بھی رفع کا جو رائج نظریہ ہے اس کے خلاف ہیں اور دوبارہ اترنے کے قائل نہیں بلکہ عیسیٰعلیہ السلامکو فوت شدہ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوں کو عقل دے۔
ہم احمدی تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب سے ارفع و اعلیٰ مقام آنحضرت ﷺ کا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی آنحضرت ﷺ ہی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت میں یہ ممکن ہوتا کہ کوئی انسان جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر جا سکتا تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہی تھی اور اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ آنحضرت ﷺ نے معراج کے واقعہ میں جہاں انبیاء کو دیکھا، ان سب انبیاء کو جن کو ہر ایک فوت شدہ تسلیم کرتا ہے انہی میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی دیکھا اور حضرت ادریسؑ کو بھی دیکھا۔ اور حضرت عیسیٰعلیہ السلام کو جہاں دوسرے آسمان پردیکھا وہاں

وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا

کے مطابق ان سے دو درجے اوپر ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔ اور یہی حدیثوں سے ملتا ہے۔ اور آپؐ خود جو تھے وہ

سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی

تک چلے گئے۔ کیونکہ آپ کا مقام سب سے بلند تھا۔ بلکہ معراج کا واقعہ جو بیان کیا جاتا ہے اس میں جب آنحضرت ﷺ کو چھٹے آسمان سے اوپر لے جایا گیا جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام ملے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ

رَبِّ لَمْ اَظُنَّ ان یُّرْفَعَ عَلَیَّ اَحَدٌ۔

اس کا ترجمہ یہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہے کہ’’اے میرے خداوند مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ کوئی نبی مجھ سے بھی اوپر اٹھایا جائے گا اور اپنے رفع میں مجھ سے آگے بڑھ جائے گا‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’اب دیکھو کہ رفع کا لفظ محض تحقق درجات کے لئے استعمال کیا گیا ہے‘‘۔
(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 276)یعنی درجات کو ثابت کرنے کے لئے۔
پس یہاں آپ سورۃ بقرہ کی آیت 254 جو ہے اس کا ذکر فرما رہے ہیں جس میں ذکر ہے کہ

وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ(البقرۃ:254)

یعنی بعض کو بعض دوسروں پر درجات میں بلندکیا، رفع دیا گیا۔ فرمایا کہ’’آیت… (اور) احادیث نبویہ کی رو سے یہ معنی کھلے کہ ہر یک نبی اپنے درجہ کے موافق آسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اپنے قرب کے انداز کے موافق رفع سے حصہ لیتا ہے‘‘۔ (ازالہ اوھام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 276)
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے مقام اور سب سے افضل ہونے کے بارہ میں جو قرآن کریم میں فرمایا کہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ اس کی غلط تشریح کرکے دوسرے مسلمان جہاں آپ ﷺ کے مقام کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں وہاں دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ختم نبوت کا مقام نہیں سمجھتے (نعوذ باللہ) انہوں نے اس مقام کو اونچا کرنے کے لئے اس کی کیا خوبصورت تشریح فرمائی ہے۔ اور یہی تشریح اور تفسیر جو ہے وہ ہر احمدی کے ایمان کا حصہ ہے اور اس سے آنحضرت ﷺ کی بلند اور ارفع شان کا ایک شان کے ساتھ اظہار بھی ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’پس اس بات کو خوب غور سے یاد رکھو کہ جب آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت کا شرف پہلے سے حاصل ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پھر آئیں اور اپنی نبوت کھو دیں ‘‘۔
پہلی بات تو یہ کہ جب آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو یہ نہیں ہو سکتاکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام جن کو پہلے نبوت مل چکی تھی اللہ تعالیٰ ان کا پہلا اعزاز چھین کر آنحضرت ﷺکی پیروی میں ان کو دوبارہ اس دنیا میں بھیجے اور وہ اپنی پہلی نبوت کو چھوڑ کر آنحضرت ﷺ جن کی مہر کے نیچے کسی اور کو نبوت مل سکتی ہے، کی نبوت کے آخر میں پھرآئیں۔ تو فرمایا کہ اگر وہ دوبارہ آئیں گے تو اپنی نبوت کھو دیں گے۔ جو پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کو اعزاز دیا تھا وہ ضائع ہو جائے گا۔ کیونکہ اب ان کو بہرحال آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنی پڑے گی اور یہ ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون نہیں ہے۔
فرمایا کہ’’یہ آیت آنحضرت ﷺ کے بعد مستقل نبی کو روکتی ہے۔ البتہ یہ امر آنحضرت ﷺ کی شان کو بڑھانے والا ہے کہ ایک شخص آپؐ ہی کی امت سے آپؐ ہی کے فیض سے وہ درجہ حاصل کرتا ہے جو ایک وقت مستقل نبی کو حاصل ہو سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ خود ہی آئیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ پھر اس خاتم الانبیاء والی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے اور خاتم الانبیاء حضرت مسیح ٹھہریں گے اور آنحضرت ﷺ کا آنا بالکل غیر مستقل ٹھہر جاوے گا کیونکہ آپ پہلے بھی آئے اور ایک عرصہ کے بعد آپ رخصت ہو گئے اور حضرت مسیحؑ آپ سے پہلے بھی رہے اور آخر پر بھی وہی رہے‘‘۔ (اگر یہ مانا جائے کہ حضرت عیسیٰؑ نے آنا ہے تو آنحضرت ﷺ کے خاتم النبییّن ہونے کو یہ بات جھٹلاتی ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ تو آئے، دنیا میں اپنا مشن پورا کیا اور وفات پا گئے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پہلے بھی آئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو جسم کے ساتھ اٹھا لیا اور پھر دوبارہ نبوت کے ساتھ بھیجے گا)۔ ’’غرض اس عقیدے کے ماننے سے کہ خود ہی حضرت مسیحؑ آنے والے ہیں بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے جو کفر ہے‘‘۔
(الحکم جلد 7نمبر 8۔ مورخہ 28؍فروری 1903ء صفحہ 4-3)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’رسول کریم ﷺ کے الفاظ مقدسہ ایسے صاف تھے کہ خود اس مطلب کی طرف رہبری کرتے تھے کہ ہرگز اس پیشگوئی میں نبی اسرائیلی کا دوبارہ دنیا میں آنا مراد نہیں ہے اور آنحضرت ﷺ نے بار بار فرما دیا تھاکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث

لَانَبِیَّ بَعْدِی

ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت کریمہ

وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن (الاحزاب:41)

سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہو چکی ہے۔ پھر کیونکر ممکن تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کے رو سے آنحضرت ﷺ کے بعد تشریف لاوے۔ اس سے تو تمام تارو پودا اسلام درہم برہم ہو جاتا تھا اور یہ کہنا کہ’’حضرت عیسیٰؑ نبوت سے معطل ہو کر آئے گا‘‘ نہایت بے حیائی اور گستاخی کا کلمہ ہے۔ کیا خداتعالیٰ کے مقبول اور مقرب نبی حضرت عیسیٰعلیہ السلام جیسے اپنی نبوت سے معطل ہو سکتے ہیں ‘‘۔ (یہ اگر کہا جائے کہ وہ نبوت سے معطل ہو کر آئیں گے تو یہ بھی نہایت گستاخی کی بات ہے کیونکہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک رتبہ دیا اور نبوت کا مقام دے کر اور قرآن کریم میں ذکر کرکے اور ہر طرح کے الزامات سے بری کرکے ان کے رفع کے بارہ میں فرمایا اور پھر اللہ تعالیٰ کہہ دے کہ نہیں اب نبوت تمہاری ختم ہو گئی۔ )
فرمایا ’’پھر کون سا راہ اور طریق تھا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آتے۔ غرض قرآن شریف میں خداتعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کا نام خاتم النبیین رکھ کر اور حدیث میں خود آنحضرت ﷺ نے

لَانَبِیَّ بَعْدِیْ

فرما کر اس امر کا فیصلہ کر دیا تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے آنحضرت ﷺ کے بعد نہیں آسکتا اور پھر اس بات کو زیادہ واضح کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ آنے والا مسیح موعود اسی اُمّت میں سے ہو گا۔ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث

اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ

اور صحیح مسلم کی حدیث

فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ

جو عین مقام ذکر مسیح موعود میں ہے صاف طو رپر بتلا رہی ہے کہ وہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہو گا‘‘۔
(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 218-217۔ حاشیہ)
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اس زمانے میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مسیح موعود اسی امت میں سے آئے گا اور یہ بلند مقام اس کو خداتعالیٰ نے دیا اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتاہے دیتا ہے اور اس بلند مقام کے بعد جو آپ کو آنحضرت ﷺ کی پیروی میں ہونے کی وجہ سے ملا، آپ سے عشق و محبت کی وجہ سے ملا۔ آپ کو نبی بھی کہا گیا اور رسول بھی۔ بعض احمدی بھی ہیں جن کا صحیح مطالعہ نہیں، یا جماعت کے ساتھ پورے طور پر منسلک نہیں۔ خطبات اور پروگرام وغیرہ نہیں دیکھتے اور سنتے یا نئے شامل ہونے والے ہیں جن کو تربیت کی کمی ہے یا مداہنت وجہ ہے یا کسی اور وجہ سے پوری طرح حق کا اظہار نہیں کر سکتے۔ وہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی کہنے پر سوچ میں پڑ جاتے ہیں یا پوری طرح دوسروں کے سامنے اظہار نہیں کرتے۔ یا یہ کہ اگر نبی مان لیا تو پھر یہ کہہ دیا کہ رسول نہیں ہے۔ یہ جو چیز ہے اورجو ایسی باتیں ہیں وہ جماعتی تعلیم کے خلاف ہیں حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے خلاف ہیں۔ بعض شکایات مجھے پہنچی ہیں، ان ہی ملکوں میں سے بعض جگہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کر دیتے ہیں۔ اپنی تبلیغ کرتے ہوئے بھی بعض باتیں کر دیتے ہیں۔ یا آپس میں جب غیروں کے ساتھ مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو اس طرح کی باتیں ہو جاتی ہیں۔ تو اس بارہ میں واضح ہو جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا ہے کہ آنے والے مسیح ومہدی کو آنحضرت ﷺ کی پیروی میں نبوت کا مقام بھی ملنا تھا اور رسول ہونے کا بھی اور یہ دونوں چیزیں نبی ہونا اور رسول ہونا ایک ہی بات ہے۔
اس بار ہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک الہام

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ

کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ مقام ہماری جماعت کے لئے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس میں خداوند قدیر فرماتا ہے کہ خدا کی محبت اِسی سے وابستہ ہے کہ تم کامل طور پر پیرو ہو جاؤ اور تم میں ایک ذرہ مخالفت باقی نہ رہے اور اس جگہ جو میری نسبت کلام الٰہی میں رسول اور نبی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ رسول اور نبی اللہ ہے یہ اطلاق مجاز اور استعارہ کے طور پر ہے کیونکہ جو شخص خدا سے براہ راست وحی پاتا ہے اور یقینی طورپر خدا اس سے مکالمہ کرتا ہے جیسا کہ نبیوں سے کیا، اُس پر رسول یا نبی کا لفظ بولنا غیر موزون نہیں ہے۔ بلکہ یہ نہایت فصیح استعارہ ہے۔ اسی وجہ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور انجیل اور دانی ایل اور دوسرے نبیوں کی کتابوں میں بھی جہاں میرا ذکر کیا گیا ہے۔ وہاں میری نسبت نبی کا لفظ بولا گیا‘‘۔
(اربعین نمبر 3روحانی خزائن جلد 17صفحہ 413۔ حاشیہ)
اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرے اور کہیں بھی ہم کسی قسم کی کمزوری دکھانے والے نہ ہوں۔
رَفَع کے معنی کے سلسلہ میں ایک اور بات بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ رَفَع صرف انبیاء کے ساتھ ہی مشروط نہیں ہے بلکہ مومنوں کا بھی رفع ہوتا ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’جب کہ ایک مومن سب باتوں پر خداتعالیٰ کو مقدم کر لیتا ہے تب اس کا خدا کی طرف رَفع ہوتا ہے۔ وہ اسی زندگی میں خداتعالیٰ کی طرف اٹھایا جاتاہے اورایک خاص نور سے منور کیا جاتا ہے۔ اس رَفع میں وہ شیطان کی زد سے ایسا بلند ہوجاتا ہے کہ پھر شیطان کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہر ایک چیز کا خداتعالیٰ نے اس دنیا میں بھی ایک نمونہ رکھا ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان جب آسمان کی طرف چڑھنے لگتا ہے تو ایک شہاب ثاقب اس کے پیچھے پڑتا ہے۔ جو اس کو نیچے گرا دیتا ہے۔ ثاقب روشن ستارے کو کہتے ہیں اس چیز کو بھی ثاقب کہتے ہیں جو سوراخ کر دیتی ہے اور اس چیز کو بھی ثاقب کہتے ہیں جو بہت اونچی چلی جاتی ہو۔ اس میں حالت انسانی کے واسطے ایک مثال بیان کی گئی ہے۔ جو اپنے اندر ایک نہ صرف ظاہری بلکہ ایک مخفی حقیقت بھی رکھتی ہے۔ جب ایک انسان کو خداتعالیٰ پر پکا ایمان حاصل ہو جاتا ہے تو اس کا خداتعالیٰ کی طرف رفع ہو جاتا ہے اور اس کو ایک خاص قوت اور طاقت اور روشنی عطا کی جاتی ہے۔ جس کے ذریعہ سے وہ شیطان کو نیچے گرا دیتا ہے۔ ثاقب مارنے والے کو بھی کہتے ہیں۔ ہر ایک مومن کے واسطے لازم ہے کہ وہ اپنے شیطان کو مارنے کی کوشش کرے اور اسے ہلاک کر ڈالے۔ جو لوگ روحانیت کی سائنس سے ناواقف ہیں وہ ایسی باتوں پر ہنسی کرتے ہیں مگر دراصل وہ خود ہنسی کے لائق ہیں۔ ایک قانون قدرت ظاہری ہے۔ ایسا ہی ایک قانون قدر ت باطنی بھی ہے۔ ظاہری قانون باطنی کے واسطے بطور ایک نشان کے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اپنی وحی میں فرمایا ہے کہ

اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ الْنَّجْمِ الثَّاقِب

یعنی تو مجھ سے بمنزلہ نجم ثاقب ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ مَیں نے تجھے شیطان کے مارنے کے واسطے پیدا کیا ہے۔ تیرے ہاتھ سے شیطان ہلاک ہو جائے گا۔ شیطان بلند نہیں جا سکتا۔ اگر مومن بلندی پر چڑھ جائے تو شیطان پھر اس پر غالب نہیں آسکتا۔ مومن کو چاہئے کہ وہ خداتعالیٰ سے دعا کرے کہ اس کو ایک ایسی طاقت مل جائے جس سے وہ شیطان کو ہلاک کر سکے۔ جتنے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں ان سب کا دور کرنا شیطان کو ہلاک کرنے پر منحصر ہے۔ مومن کو چاہئے کہ استقلال سے کام لے۔ ہمت نہ ہارے۔ شیطان کو مارنے کے پیچھے پڑا رہے آخر وہ ایک دن کامیاب ہو جائے گا۔ خداتعالیٰ رحیم و کریم ہے جو لوگ اس کی راہ میں کوشش کرتے ہیں وہ آخر ان کو کامیابی کا مونہہ دکھا دیتا ہے۔ بڑا درجہ انسان کا اسی میں ہے کہ وہ اپنے شیطان کو ہلاک کرے‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 421-420)
اللہ تعالیٰ ہمیں رفع کے حقیقی معنی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور رفع کی صرف علمی بحث میں پڑے رہنے والے نہ ہوں بلکہ اپنے اعمال کی درستی اور خداتعالیٰ سے تعلق بڑھانے والے ہوں تاکہ اس تعلق اور قرب کی وجہ سے ہمیشہ شیطان کو ہلاک کرنے والوں میں شامل رہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں