خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍جولائی 2009ء

مہمان کی فوری خاطر مدارات کرنا اور اپنے وسائل کے لحاظ سے بہترین خاطر تواضع کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے۔
مہمان نوازی اور خدمت بغیر کسی تکلّف، کسی بدل اور کسی تعریف کے ہو اور خالصۃً اس لئے ہو کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلیٰ اخلاق اپنا نے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی ہمارا مقصود اور مطلوب ہونا چاہئے۔
(مہمان نوازی سے متعلق قرآن مجید، احادیث نبویہ اور آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ کے واقعات اور
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات اور آپ کی حیات طیبہ کے واقعات کے حوالہ سے احباب کو اہم نصائح)
مکرم چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ (سابق مبلغ انڈونیشیا) اور مکرمہ صاحبزادی امتہ المومن صاحبہ اہلیہ مکرم صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب کی وفات پر ان کا ذکر خیراور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 17؍جولائی 2009ء بمطابق17؍وفا 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

مہمان نوازی ایک ایسا خلق ہے جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر میں دو جگہ آپؑ کی مہمان نوازی کا ذکر ہوا ہے اور اس ذکر میں پہلی بات تو یہ کہی گئی کہ جب آنے والے مہمان نے سلام کیا تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی سلام کا جواب دیا۔ گو اس کے سادہ معنی یہی ہیں کہ آنے والے نے بھی سلامتی بھیجی اور جواب میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی سلامتی بھیجی۔ لیکن مفردات میں جو لغت کی کتاب ہے اس میں ایک فرق ظاہر کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ آنے والے نے سَلَامًا کہا لیکن حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب میں سَلَامٌ کہا اور اس میں رفع یا پیش کاجو استعمال کیا گیا ہے یہ زیادہ بلیغ ہے۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس ادب کو ملحوظ رکھا جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے کہ

وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَا (النسآء : 87)

اور جب تمہیں کوئی دعا دے تو اُسے بہتر دعا سے جواب دو۔ اور اس سَلَامٌ کہنے سے یہ دعا بنتی ہے کہ تم پر ہمیشہ سلامتی رہے۔
پس یہ نبی کے اخلاق اور دعا کا اعلیٰ معیار ہے جس کا آنے والے مہمان جو گو اجنبی تھے ان کو نہیں جانتے تھے ان پر فوری طور پر اس کا اظہار ہوا۔ اور یہ مثال دے کر ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم لوگ جو آنحضرت ﷺ کی اُمّت میں سے ہو تمہارے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور دعا دینے کے معیار ہمیشہ اس حکم کے تحت ہونے چاہئیں کہ ہمیشہ دوسرے سے بڑھ کر دعا دو۔

وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَا

تمہاری دعا اس سے بہتر دعا ہو جو تمہیں دی گئی ہے تاکہ مہمان کو یہ احساس ہو کہ میرے آنے سے میزبان کو خوشی ہوئی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ کس طرح انہوں نے فوری طورپر مہمانوں کی مہمان نوازی کی تیاری شروع کر دی۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ

فَرَاغَ اِلٰی اَھْلِہٖ فَجَآءبِعِجْلٍ سَمِیْنٍ(الذٰریٰت:27)

وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لے آیا، یعنی پکا کر۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ(ھود:70)

کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا۔
پس مہمان کی فوری خاطر مدارات کرنا اور اپنے وسائل کے لحاظ سے بہترین خاطر تواضع کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے تبھی تو تعریفی رنگ میں یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ مضمون جو ان آیات میں اس سے پہلے اور بعدمیں بیان ہو رہا ہے اس کا براہ راست اس مہمان نوازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوطؑ کی طرف جانے والے لوگ تھے جو اس قوم کے غلط کاموں کی وجہ سے انہیں عذاب کے آنے کے وقت کی خبر دینے کے لئے جا رہے تھے اور راستے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس رکے۔ ان کو بھی لوط کی قوم پر آنے والے عذاب کی اطلاع دی اور ساتھ ہی ایک اولاد کی خوشخبری بھی سنائی۔ پس یہاں اس مہمان نوازی کا ذکر کرکے ایک اعلیٰ وصف کو بیان کیا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ ان لوگوں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام واقف نہیں تھے، جان پہچان والے نہیں تھے لیکن کیونکہ ظاہر بات ہے کہ اس وقت اس جنگل میں سفر کرنے والے تھے، مسافر تھے، اور ان کو یہ احساس ہوا کہ بشری تقاضے کے تحت بھوک بھی محسوس کر رہے ہوں گے اس لئے آپ نے فوراً اس خیال سے کہ ان کو بھوک لگی ہو گی بغیر کسی سوال کے کہ کھائیں گے یا نہیں کھائیں گے، ضرورت ہے یا نہیں ہے ان کے لئے مہمان نوازی کرنے میں مصروف ہو گئے۔ پس یہ وصف ایسا ہے جو خدا کو پسند ہے اور اسلام کا بھی یہ خاصہ ہے۔ آنحضرت ﷺ تو نبوت سے پہلے ہی اس خوبی سے اتنے زیادہ متصف تھے کہ یہ آپ کا امتیازی نشان تھا۔ عربوں کے متعلق کہا جاتاہے کہ بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں اور یہ سچ بات بھی ہے اور اُس زمانہ میں اور اب بھی عرب مہمان نواز ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ کا تو یوں لگتا ہے کہ یہ مہمان نوازی کرنا ایک خاص شان رکھتا تھا۔
تبھی تو جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی ہے تو آپؐ بڑی گھبراہٹ میں اپنے گھر تشریف لائے۔ اور جب حضرت خدیجہؓ کے سامنے اس وحی کے نازل ہونے کا ذکر کیا تو اس وقت بھی آپ پر بڑی گھبراہٹ طاری تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو جو تسلی کے الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپؐرشتہ داری کے تعلقات کا پاس رکھتے ہیں۔ لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں اور وہ اخلاق حمیدہ جو دنیا سے ختم ہو چکے ہیں ان کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں۔ مصیبت زدوں کی مدد اور حمایت کرتے ہیں۔ تو ان اوصاف کے مالک کو خدا کس طرح ضائع کرسکتا ہے۔ (صحیح بخاری باب بدء الوحی) اب ان تمام اعلیٰ اوصاف کے ساتھ مہمان نوازی کا ذکر کرنا یقینا اس بات کی تصدیق ہے کہ آپ کا مہمان نوازی کا معیار اس قدر بلند تھا کہ جو دوسروں کے مقابلے میں ایک امتیازی شان رکھتا تھا اور نبوت کے دعوے کے بعد تو یہ مہمان نوازی ایک ایسی اعلیٰ شان رکھتی تھی کہ جس کی مثال ہی کوئی نہیں ہے۔
اس بارہ میں آپؐ کے اُسوہ حسنہ کو دیکھیں تو صرف وہاں یہ نہیں ہے کہ سلامتی بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں بلکہ کھانے پینے کی مہمان نوازی کے علاوہ بھی یا استقبال کرنے کے علاوہ بھی ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں جن کے معیار اعلیٰ ترین بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
مَیں آپؐ کے اس اسوہ حسنہ کی چند مثالیں پیش کروں گا۔ آپؐنے مہمان کو کھانے کا انتظام کے احسن رنگ میں کرنے سے ہی صرف عزت نہیں بخشی بلکہ مہمان کے جذبات کا خیال بھی رکھا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال بھی رکھا اور اس کے لئے قربانی کرتے ہوئے بہتر سہولیات اور کھانے کا انتظام بھی کیا۔ اس کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ سے خدمت بھی کی اور اس کی تلقین بھی اپنے ماننے والوں کو کی کہ یہ اعلیٰ معیار ہیں جو مَیں نے قائم کئے ہیں۔ یہ میرا اسوہ اس تعلیم کے مطابق ہے جو خداتعالیٰ نے مجھ پر اتاری ہے۔ تم اگر مجھ سے تعلق رکھتے ہو تو تمہارا یہ عمل ہونا چاہئے۔ تمہیں اگر مجھ سے محبت کا دعویٰ ہے تو اس تعلق کی وجہ سے، اس محبت کی وجہ سے، میری پیروی کرو۔ اور یہ مہمان نوازی اور خدمت بغیر کسی تکلف، کسی بدل اور کسی تعریف کے ہو اور خالصتاً اس لئے ہو کہ خداتعالیٰ نے یہ اعلیٰ اخلاق اپنانے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہمارا مقصود اور مطلوب ہونا چاہئے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ پہلے دن تم مہمان کی خوب خاطر کرو، اچھی طرح مہمان نوازی کرو اور تین دن تک عام مہمان نوازی بھی ہونی چاہئے کیونکہ یہ مہمان کا حق ہے اور فرمایا کہ اگر تمہیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہے تو پھر مہمان کی عزت و تکریم کرو۔
پس مہمان نوازی بھی ایک اعلیٰ خلق ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی دیتا ہے ویسے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی جو تم کرتے ہو اس کا اجر پاؤ گے۔ لیکن یہ نیکی ایسی ہے کہ جب خوش دلی سے کی جائے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کی جائے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو کھینچنے والی بنتی ہے اور ایمان میں مضبوطی کا باعث بنتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی مہمان نوازی ایک تو مہمان نوازی کے جذبہ سے ہوتی تھی لیکن ایک یہ بھی مقصد ہوتا تھا کہ اگر کوئی کافر مہمان یا دوسرے کسی مذہب کا مہمان ہے تو وہ آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور مہمان نوازی دیکھ کر یہ سوچے کہ جس تعلیم کے یہ علمبردار ہیں، جس تعلیم کے یہ پھیلانے والے ہیں یہ اسی تعلیم کا اثر ہو گا کہ اتنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اور یوں اس مہمان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور آپؐیہ مہمان نوازی کرتے بھی اس لئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف توجہ پیدا ہو تاکہ اس کی دنیا کے ساتھ ساتھ عاقبت سنور جائے۔ پس آپؐکی مہمان نوازی صرف ظاہری خوراک کے لئے نہیں ہوتی تھی جس سے مہمان کی ظاہری بھوک مٹے بلکہ روحانی خوراک مہیا کرنے کے لئے بھی ہوتی تھی تاکہ اس کی آخرت کی زندگی کے بھی سامان ہوں اور یہی تعلیم آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو دی کہ تمہارے ہر کام کے پیچھے خدا تعالیٰ کی رضا ہونی چاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے، جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کافر تھا حضرت رسول کریم ﷺ کے ہاں مہمان بنا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہ کر لانے کے لئے فرمایا جسے وہ کافر پی گیا۔ پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ (اور آپؐ کے اس اسوہ کو دیکھ کر، اس حسن سلوک کو دیکھ کر کہ بغیر کسی چوں چراں کے، بغیر کسی احسان جتانے کے، بغیر کسی قسم کے اشارہ کے آپؐ نے جتنی مجھے بھوک تھی، جتنا مَیں پینا چاہتا تھا یا آزمانا چاہتا تھا بہرحال مجھے اتنا دودھ اور خوراک مہیا کی۔ اس کو دیکھ کر) اگلی صبح اس نے اسلام قبول کر لیا۔ تو آنحضرت ﷺ نے اگلے دن پھر اس کے لئے بکری کے دودھ کا انتظام کیا تو ایک بکری کا دودھ وہ پی گیا اور دوسری بکری کا دودھ لانے کے لئے فرمایا تو پورا ختم نہیں کر سکا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھانا کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں بھرتا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل مسند باقی المکثرین من الصحابۃ)
اور اسلام قبول کرنے سے پہلے اسے آپؐ نے کچھ نہیں کہا اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے یہ نہیں کہا کہ یہی حکم ہے کہ تم بھوک چھوڑ کر کھاؤ۔ جہاں تک مہمان ہونے کے ناطے اس کاحق تھا اسے پوری خوراک جو گزشتہ رات دیکھ کر دی تھی اس کا انتظام کیا، اسے پیش کی لیکن اس نے خود ہی انکار کر دیا۔ تب آپؐ نے یہ بات فرمائی کہ مومن ایک آنت سے پیتا ہے اور کافر سات آنتوں سے۔ اس کے اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے مقام کا احساس بھی اسے دلادیا کہ انسان کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔
جب حبشہ کے مہاجرین واپس آئے تو ان کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کا بھیجا ہوا ایک وفد بھی تھا تو آنحضرت ﷺ خود ان کی مہمان نوازی فرماتے رہے۔ جب صحابہؓ نے عرض کی کہ حضور! جب ہم خدمت کرنے کے لئے موجود ہیں تو آپؐ کیوں تکلیف فرماتے ہیں۔ تو ہمارے آقا ﷺ نے کیا خوبصورت جواب دیا جو علاوہ مہمان نوازی کے اعلیٰ اصول کے اپنے مظلوم صحابہ کی عزت افزائی کا اظہار بھی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم احسان کا بدلہ احسان ہی ہے، اس پر عمل کی بھی ایک شاندار مثال ہے اور شکر گزاری کے جذبے کا بھی ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا ان لوگوں نے ہمارے صحابہ کو عزت دی تھی اس لئے مَیں پسند کرتا ہوں کہ ان کی مہمان نوازی اور خدمت مَیں خود اپنے ہاتھوں سے کروں تاکہ ان کے احسانوں کا کچھ بدلہ ہو۔ حبشہ کے قافلہ کے لوگ بھی آپؐ کے اس طرح مستعدی سے مہمان نوازی کرنے کو دیکھ کر حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ کیسا بادشاہ ہے جو اپنے ہاتھ سے ایک عام آدمی کی مہمان نوازی کر رہا ہے اور یہ مہمان نوازی کرکے انسانی شرف کے بھی عجیب و غریب معیار قائم کر رہا ہے جو نہ پہلے کبھی دیکھنے کو ملے نہ سننے کو۔
پھر ایک یہودی جب رات اپنے پیٹ کی خرابی کی وجہ سے بستر گندا کرکے صبح صبح شرم کے مارے اٹھ کر چلا گیا تو آنحضرت ﷺ نے بغیر کسی کو مدد کے لئے بلانے کے خود ہی اس کا بستر دھونا شروع کردیا اور جب کسی وجہ سے راستے میں اس کو یاد آیا کہ مَیں اپنی فلاں چیز بھول آیا ہوں وہ واپس آیا تو آپؐ کو بستر دھوتے دیکھ کر بڑا شرمسار ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عیسائی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے یا یہ وہی واقعہ ہے یا دوسرا کوئی واقعہ ہے لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ آپؐ کے اس عمل کو دیکھ کر وہ مسلمان ہو گیا۔ تو یہ بے نفسی کی انتہا ہے۔
بخاری کی ایک روایت ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ کی قوت قدسی سے جو عظیم انقلاب آپؐ کے صحابہ میں پیدا ہوا وہ بھی سنہری حروف سے لکھا جانے والا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور ﷺ کے پاس آیا۔ آپؐ نے اپنے گھر میں کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ایک انصاری نے عرض کیا حضور مَیں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت ﷺ کے مہمان کی خاطر مدارت کا انتظام کرو۔ بیوی نے جواب دیا آج گھر میں صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا اچھا کھانا تیار کرو۔ پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو بہلا پھسلا کر تھپتھپا کر سلا دو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا اور چراغ جلایا اور بچوں کو بھوکا ہی سلا دیا۔ پھر جب مہمان کھانے کے لئے آیا توچراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اورجا کر چراغ بجھا دیا۔ پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھ کر بظاہر کھانے کی آوازیں نکالتے رہے اور مہمان بھی یہ سمجھتا رہا کہ میرے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھوکے سو گئے۔ صبح جب انصاری حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا ہے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ

وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن(الحشر:10)

یعنی یہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص لوگ جو ہیں اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورت مند اور بھوکے ہوتے ہیں اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
(بخاری کتاب المناقب با ب یؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ)
پھرآنحضرت ﷺ کے پاس ایک گروپ ایسے مہمانوں کا تھا جو مستقل آپ کے در پر پڑے رہتے تھے۔ صرف اس لئے کہ آنحضرت ﷺ کی کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے اور یہ ان کا اُمّت پر بھی احسان ہے، ہم پر بھی احسان ہے کہ اس حالت میں رہ کر ہم تک روایات اور احادیث پہنچائی ہیں۔ مالک بن ابی عامر سے ایک لمبی روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص طلحہ بن عبیداللہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے ابو محمد تم اس یمانی شخص یعنی ابوہریرہ کو نہیں دیکھتے کہ یہ تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو جاننے والا ہے۔ ہمیں اس سے ایسی ایسی احادیث سننے کو ملتی ہیں جو ہم تم سے نہیں سنتے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے وہ باتیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسکین تھے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان بن کر پڑے رہتے تھے۔ ان کا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا تھا۔ ہم لوگ کئی کئی گھروں والے اور امیر لوگ تھے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس دن میں کبھی صبح کبھی شام آیا کرتے تھے۔ (ترمذی کتاب المناقب۔ باب ما جاء فی صفۃ اوانی الحوض) تو یہ تھا ان لوگوں کا طریقہ جنہوں نے ہم تک روایات پہنچائیں۔
اب کوئی اس سے یہ خیال نہ کرے کہ یہ لوگ آپؐ کے اقوال سننے کے بہانے پڑے رہتے تھے ویسے نکمے تھے، فارغ روٹیاں توڑتے رہتے تھے۔ ایسا نہیں بلکہ ان لوگوں پر بھی ایسے دن آئے جب ان کو فاقے برداشت کرنے پڑے اور ان پرفاقے اس لئے نہیں آتے تھے کہ آنحضرت ﷺ پوچھتے نہیں تھے۔ یا ان سے تنگ آجاتے تھے جیسا کہ پہلے ابھی روایت میں بیان ہوا ہے، جب آپؐ نے گھر پیغام بھیجا کھانے کا تو پیغام آیا کہ ہمارے پاس تو سوائے پانی کے کچھ نہیں ہے تو آنحضرت ﷺ کے گھر میں بھی کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا۔
اسی تعلق میں حضرت ابوہریرہؓ کی ایک دلچسپ روایت ہے۔ ایک دفعہ جب ایسی نوبت آئی۔ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ ابتدائی ایام میں بھوک کی وجہ سے مَیں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا یا زمین سے لگاتا تاکہ کچھ سہارا ملے۔ ایک دن میں ایسی جگہ پر بیٹھ گیا جہاں سے لوگ گزرتے تھے۔ میرے پاس سے حضرت ابوبکرؓ گزرے، مَیں نے ان سے ایک آیت کا مطلب پوچھا۔ میری غرض یہ تھی کہ مجھے کھانا کھلائیں گے لیکن وہ آیت کا مطلب بیان کرکے گزر گئے۔ پھر حضرت عمرؓ کا گزرہوا مَیں نے ان سے بھی اس آیت کا مطلب پوچھا۔ ان سے بھی غرض یہی تھی کہ کھانا کھلائیں گے۔ وہ بھی آیت کا مطلب بتا کے گزر گئے۔ پھر میرے پاس آنحضرت ﷺ گزرے تو آپؐ نے میری حالت دیکھ کر اور میرے دل کی کیفیت دیکھ کر بڑے مشفقانہ انداز میں فرمایا ابوہریرہ! مَیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! حاضر ہوں آپؐ نے فرمایا میرے ساتھ آؤ۔ آپؐ کے پیچھے پیچھے ہو لیا جب آپؐ گھر پہنچے اور اندر جانے لگے تو مَیں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی۔ مَیں آپؐ کی اجازت سے اندر آگیا۔ آپؐ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا۔ آپؐ نے گھر والوں سے پوچھا کہ وہ دودھ کہاں سے آیا ہے۔ گھر والوں نے بتایا کہ فلاں شخص یا فلاں عورت یہ دودھ کا پیالہ دے گئی ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا: ابوہریرہ۔ مَیں نے کہا یا رسول اللہؐ حاضر ہوں۔ آپؐ نے فرمایا سب صُفّہ میں رہنے والوں کو بلا لاؤ۔ یہ لوگ اسلام کے مہمان تھے اور ان کا نہ کوئی گھر بار تھا نہ کاروبار۔ جب حضور ﷺ کے پاس صدقے کا مال آتا تو ان کے پاس بھیج دیتے اور خود کچھ نہ کھاتے اور اگر کہیں سے تحفہ آتا توآپ صفہ والوں کے پاس پہلے بھیجتے اور خود بھی کھاتے۔ بہرحال حضور ﷺ کا فرمان کہ میں ان کو بلا لاؤں مجھے بڑا ناگوار گزرا کہ ایک پیالہ دودھ ہے اور یہ اہل صفہ میں کس کس کے کام آئے گا۔ میں اس کا زیادہ ضرورت مند تھا تاکہ پی کر کچھ تقویت حاصل کروں، طاقت حاصل کروں۔ پھر یہ بھی خیال آیا جب اہل صفہ آجائیں اور مجھے ہی حضور ﷺ ان کو پلانے کے لئے فرمائیں تو یہ اور بھی بُرا ہو گا پھر توبالکل ختم ہو جائے گا کچھ بھی نہیں ملے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کا فرمان تھا اس لئے آپؓ گئے اوران کو بلالائے۔ اور جب سب آگئے اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ تو ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ان کو باری باری پیالہ پکڑاتے جاؤ۔ اور مَیں نے دل میں یہ خیال کیاکہ مجھے تو اب یہ نہیں ملتا۔ بہرحال مَیں پیالہ لے کر ہر آدمی کو پکڑاتا گیا اور وہ پیتے گئے۔ اور جب دوسرے تیسرے کے پاس پہنچا یہاں تک کہ آخر تک پہنچا مَیں نے پیالہ آنحضرت ﷺ کو دیا کہ سب اچھی طرح پی چکے ہیں۔ آپؐ نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا ابوہریرہ!۔ مَیں نے کہا یا رسول اللہؐ فرمائیے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا اب تو صرف ہم دونوں رہ گئے ہیں۔ مَیں نے عرض کی حضور ٹھیک ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور خوب پیو۔ جب مَیں نے بس کیا تو فرمایا ابوہریرہ اورپیو۔ مَیں پھر پینے لگا چنانچہ جب مَیں پیالے سے منہ ہٹاتا آپؐ فرماتے ابوہریرہ اور پیو۔ اور جب مَیں اچھی طرح سیر ہو گیا تو عرض کیا جس ذات نے آپؐ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے اس کی قسم اب تو بالکل گنجائش نہیں۔ چنانچہ مَیں نے پیالہ آپؐ کو دے دیا اور آپؐ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر بسم اللہ پڑھ کر دودھ نوش فرمایا۔
ان اصحاب صفہ کو آپؐ مہمان سمجھتے تھے اس لئے ان سب کو پہلے پلایا۔ اگر آپؐ خود ہی پہلے پی لیتے تو یہ برکت تو پھر بھی قائم رہنی تھی۔ لیکن مہمان نوازی کے تقاضے کے تحت آپؐ نے پہلے ان مہمانوں اور غریبوں کو پلایا۔ ان لوگوں کا اس طرح حضورؐکی مجلس میں انتظار میں بیٹھنا آنحضرت ﷺ پسند فرماتے تھے۔ اس لئے ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوہریرہ کے بھائی کو کہا کہ یہ لوگ سیکھنے کے لئے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ تم ان کے گھروں اور کاروبار کی نگرانی کیا کرو اور انتظام سنبھالا کرو۔
پھر فتح مکہ کے بعد جب باہر سے وفود کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو آپؐان کی بڑی عزت فرماتے تھے۔ حضرت بلالؓ جو آپ کے ذاتی امور اور خرچ وغیرہ کا حساب رکھتے تھے انہیں فرماتے تھے کہ ان کی خوب مہمان نوازی کرو اور ان کے لئے تحفوں وغیرہ کا انتظام کرو۔ اسی طرح ایک وفد بحرین سے آیا۔ یہ ربیعہ قبیلے کا وفد تھا اور یہ قبیلہ آنحضرت ﷺ کے جد امجد کے بھائی سے منسوب ہوتا تھا اور یہ لوگ بہت عرصہ پہلے آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے ہجرت کرکے بحرین چلے گئے تھے۔ ان کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ بہت خوش ہوئے کہ دو بچھڑے بھائیوں کی نسلیں آپس میں مل رہی ہیں۔ بڑے تپاک سے ان کا استقبال کیا۔ ان کے سردار کو اپنے قریب بٹھایا اور بڑی محبت و شفقت سے اس سے پیش آئے اورانصار کو فرمایا کہ ان کی خوب مہمان نوازی کرنا کیونکہ انہیں تم سے ایک نسبت ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لوگ بھی تمہاری طرح از خود مسلمان ہو کر آئے ہیں۔ اگلے دن پھر اس وفد کے ارکان جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائیوں نے تمہاری مہمان نوازی اچھی طرح کی ہے۔ ٹھیک طرح کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ہمارے بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہمارے لئے بہترین کھانے اور بہترین بستر کا انتظام کیا اور صبح ہوتے ہی ہمیں قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کی باتیں بتائیں۔ پس یہ نمونے تھے جو آپ کے صحابہ کے تھے۔ انصار نے تو ہجرت کے وقت مہاجرین کے ساتھ بھی اخوت کا ایک مثالی نمونہ قائم کیا تھا اور اب توآنحضرت ﷺ کی قوت قدسی نے ان کے اس عمل کو اور بھی صیقل کر دیا تھا۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو اس کی حیثیت کے مطابق اس کی عزت اور تکریم کرو۔
(ابن ماجہ۔ ابواب الادب باب اذا اتاکم کریم قوم فاکرموہ)
بے شک سرداروں کی اور معززآدمیوں کی عزت و تکریم کا آپؐ نے حکم دیا لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے ہر مہمان چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم آپؐ اس کی عزت فرمایا کرتے تھے اور یہی حکم مسلمانوں کو دیا تھا۔ بلکہ ایک دفعہ مُضَّرقبیلے کے لوگ برے حالوں میں بغیر لباس کے ننگے تلواریں ٹانگی ہوئی تھیں آپؐ کے پاس پہنچے آپؐ ان کی حالت دیکھ کر بے چین ہو گئے اور فوراً مدینہ کے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں ان کے لئے کھانے اور خوراک و لباس کا انتظام کرنے کو کہا اور جب تک آپؐ کو تسلی نہیں ہو گئی کہ یہ سارا انتظام ہو گیا ہے۔ آپؐ بے چین رہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ آپؐ کا چہرہ اس طرح چمک رہا تھا کہ جس طرح سونے کی ڈلی چمک رہی ہوتی ہے۔
تو یہی حال اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادقؑ کا تھا۔ اخبار البدر 24جولائی 1904ء کی ایک رپورٹ میں لکھا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گورداسپور کے ایک سفر پر تھے وہاں بھی جو دوست ملنے کے لئے آتے آپؑ ان کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے۔ لکھتے ہیں کہ’’اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مہمان نوازی کا رسول اللہ ﷺ کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں۔ جن لوگوں کو کثرت سے آپؐ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو(خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو یا نہ داخل ہو) ذرا سی بھی تکلیف حضورؑکو بے چین کر دیتی ہے۔ مخلصین احباب کے لئے تو اور بھی آپ کی روح میں جوش شفقت ہوتا ہے۔ اس امر کے اظہار کے لئے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کرتے ہیں :
میاں ہدایت اللہ صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے۔ آج انہوں نے رخصت چاہی جس پر حضرت اقدسؑنے فرمایا کہ آپ جا کر کیا کریں گے۔ یہاں ہی رہیے، اکٹھے چلیں گے۔ آپؑ کا یہاں رہنا باعث برکت ہے۔ اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلا دو۔ اس کا انتظام کر دیا جاوے۔
پھر اس کے بعد آپ نے عام طور پر جماعت کو مخاطب کرکے فرمایا کہ چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم اہل عملہ کو نہ ہو۔ (جو کام کرنے والے ہیں ان کو نہ ہو)۔ اس لئے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ جس شئے کی اس کو ضرورت ہو وہ بلاتکلف کہہ دے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو وہ گنہگار ہے ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے‘‘۔ (میاں ہدایت اللہ صاحب جن کا ذکر ہے ان کو خاص طورپر حضرت مسیح موعودؑ نے بعد میں سید سرور شاہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہرضرورت کا خیال رکھا کریں)۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ 79-78جدید ایڈیشن)
پھر آپؑ کو مہمان کا کس قدر خیا ل رہتا تھااس کا اظہار آپؑ کے ان فقرات سے ہوتا ہے کہ اپنی تکلیف کا احساس نہ کرتے ہوئے مہمان کے جذبات کے خیال سے، آپؑ ان سے ملاقات کے لئے باہر تشریف لاتے تھے۔ ایک دفعہ سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ’’آج میری طبیعت علیل تھی اور مَیں باہر آنے کے قابل نہ تھا۔ مگر آپ کی اطلاع ہونے پر مَیں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے اس واسطے اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آگیا ہوں ‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ3 16جدید ایڈیشن)
حضرت اقدس نے ایک موقع پر منشی عبدالحق صاحب کو مخاطب کرکے یہ فرمایا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان آرام وہی پا سکتا ہے جو بے تکلف ہو۔ پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلّف کہہ دیں۔ پھر جماعت کو مخاطب کرکے فرمایا کہ دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ یہ کہہ کر آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔
(ملفوظات جلد 2صفحہ 80جدید ایڈیشن)
ایک دفعہ آپؑنے فرمایا کہ مہمان کا دل شیشے کی طرح ہوتا ہے ذرا سی ٹھوکر لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لئے بہت خیال رکھا کرو۔
آپ نے ایک موقع پر فرمایا اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ و شتم تک بھی نوبت پہنچ جائے(گالی گلوچ بھی تمہیں کرے) تو تم کو چاہئے کہ چپ کر رہو۔
ایک د فعہ فرمایا کہ’’لنگر خانہ کے مہتمم کو تاکیدکر دی جاوے کہ وہ ہر ایک کی احتیاج کو مدنظر رکھے۔ مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اسے خیال نہ رہتا ہو، اس لئے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے۔ کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دست کش نہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ مہمان توسب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے اور ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو مدنظر رکھیں۔ بعض وقت کسی کو بیت الخلاء کا ہی پتہ نہیں ہوتا۔ تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے‘‘۔ فرمایا ’’مَیں تو اکثر بیمار رہتا ہوں اس لئے معذور ہوں۔ مگر لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائمقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں ‘‘۔
(اخبار الحکم۔ 24؍نومبر1904ء۔ صفحہ 2-1)
پس یہ چھوٹی چھوٹی ضروریات جو ہیں ان کا بھی آپؑخیال فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب رضی اللہ عنہ نے سیرت المہدی میں ایک روایت مولوی عبداللہ سنوری صاحب کے حوالے سے لکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیت الفکر میں (مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے) لیٹے ہوئے تھے اور مَیں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرے کی کھڑکی پر لالہ شرمپت یا شاید ملاوامل نے دستک دی۔ مَیں اٹھ کر کھڑکی کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ۔ جلد اول صفحہ 160۔ مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چار برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپؑ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ جون کا مہینہ تھا، مکان نیا نیا بنا تھا۔ مَیں دوپہر کے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی لیٹ گیا حضرت صاحب ٹہل رہے تھے میں ایک دفعہ جاگا تو آپؑ فرش پر میری چارپا ئی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپؑ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے۔ مَیں نے عرض کیا آپؑ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سو رہوں۔ مسکرا کر فرمایا مَیں توآپ کا پہرہ دے رہا تھا کہ لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ۔ مؤلفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓصفحہ41)
مولوی حسن علی صاحب مرحوم نے اپنے واقعہ کا خود اپنے قلم سے ذکر کیا جو ان کی کتاب تائید حق میں چھپا ہے۔ لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھے بہت تعجب سا گزرا۔ ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ مجھ کو پان کھانے کی بری عادت تھی۔ امرتسر میں تو مجھے پان ملا لیکن بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا۔ ناچار الائچی وغیرہ کھا کر گزارا کیا۔ میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نامعلوم کس وقت میری اس بری عادت کا تذکرہ کر دیا۔ جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی کو روانہ کیا۔ دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان کو موجود پایا۔ سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا تھا۔
(سیرت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۔ جلد اول صفحہ136-135۔ مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ)
دیکھیں کس طرح غیروں کے لئے بھی اور اپنوں کے لئے بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کا آپؑ خیال فرمایا کرتے تھے۔ حیرت ہوتی ہے اس قدر مصروفیت کے باوجود آپؑ ان ساری باتوں کاخیال رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کئی مرتبہ الہاماً فرمایا کہ

یَاتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق

کہ اس قدر لوگ تیری طرف آئیں گے جن راستوں پر وہ چلیں گے وہ راستے عمیق ہو جائیں گے اور فرمایا کہ

وَلَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاس

اور لوگوں کی کثرت ملاقات سے تھک نہ جانا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے جو بہت سے واقعات ہیں۔ جب کثرت سے لوگ آتے تھے اور آپؑ ان کی مہمان نوازی کا حق بھی ادا کرتے تھے اور ان کو بڑی بشاشت سے ملتے بھی تھے، اور یہ کیوں نہ ہوتا کہ یہ آپؑ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت تھی۔ آپؑ کے محبوب کی سنت تھی اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی اس بات کی تصدیق فرمائی تھی۔ آج یہ ہمارا کام ہے کہ اس نیک صفت کو ہمیشہ اپنے اوپر جاری رکھیں لوگوں کے ذاتی مہمان آتے ہیں جن میں خونی رشتے ہوتے ہیں رحمی تعلق ہوتے ہیں، قرابت داریاں ہوتی ہیں دوستیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن آج کل، ان دنوں میں ہمارے پاس وہ مہمان آرہے ہیں جو آئندہ جمعہ کو شروع ہونے والے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آرہے ہیں۔ اور یہ جلسہ اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر خالصتاً دینی اغراض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شروع فرمایا تھا۔ اور اس میں شامل ہونے والوں کوبھی خا ص دعاؤں سے بھی نوازا تھا۔ پس اس لحاظ سے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاص مہمان ہیں جوخالصتاً دینی غرض سے آرہے ہیں اور ہم یہی امید رکھتے ہیں کہ اس لئے آتے ہوں گے اور آرہے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی ہم نے کرنی ہے اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنی ہے اور دینی بھائیوں کے رشتے کی وجہ سے کرنی ہے۔ پس ہمارا فرض ہے، جن کے سپرد جلسہ کی ڈیوٹیاں کی گئی ہیں کہ پوری محنت، اعلیٰ اخلاق، صبر، حوصلے اور دعا کے ساتھ ان کے سپرد جو کام کئے گئے ہیں ان کو سرانجام دیں۔ ہر مہمان کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بھی خیال رکھیں۔ ان کی ہر تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں اور جلسہ کا نظام جو ہے وہ ہر شامل ہونے والے سے ایسا حسن سلوک کرے جس طرح وہ اس کا خاص مہمان ہے۔ اللہ تعالیٰ سب ڈیوٹی دینے والوں کو اپنے فرائض احسن رنگ میں سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت ابھی جمعہ کے بعد مَیں دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ایک افسوسناک اطلاع یہ ہے کہ چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ جو ہمارے بڑے پرانے مربی سلسلہ تھے، 14؍جولائی کو ہسپتال میں 81سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ نے 1939ء میں قادیان کے مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا 1949ء میں جامعہ احمدیہ احمد نگر سے مولوی فاضل کیا اور پھر جامعۃ المبشرین سے شاہد کا امتحان پاس کیا۔ آپ کی بیرون ملک پہلی تقرری سیرالیون مغربی افریقہ میں ہوئی۔ پھر وہاں سے واپسی پر مرکز سلسلہ میں مختلف ادارہ جات میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پھر جرمنی اور انڈونیشیا میں بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پائی۔ انڈونیشیا میں آپ کی خدمت کا دوربہت لمبا ہے جو33سال کے عرصے پر محیط ہے۔ وہاں اس دوران آپ کو مربی انچارج کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ 1996ء میں باقاعدہ سروس سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ پھر انڈونیشیا میں جماعتی خدمات بجا لاتے رہے۔ کچھ عرصہ جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کے پرنسپل بھی رہے اور 2002ء میں مستقل طور پر ربوہ واپس چلے گئے اور وفات تک وہیں مقیم تھے۔ آپ کو 1966ء میں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ بڑے نیک، مخلص، باوفا اور خدمت دین کا جذبہ رکھنے والے فدائی واقف زندگی تھے۔ ان کی طبیعت میں بڑی سادگی تھی۔ خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رکھے۔ ان کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر دے اور ان کے نمونے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرمہ صاحبزادی امۃ المومن صاحبہ کا ہے جو صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ ان کی وفات 14 ؍جولائی کو 68سال کی عمر میں ہوئی ہے

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحب کی پوتی اور صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کی نواسی تھیں اور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب و محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ کی بیٹی تھیں۔ آپ 1939ء میں پیدا ہوئی تھیں اور مرزا نعیم احمد صاحب سے آپ کی شادی ہوئی۔ اس طرح آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بہو بنیں۔ بہت صبر کرنے والی حوصلہ مند اور بڑی حلیم الطبع مخلص خاتون تھیں۔ والدین فوت ہوئے، خاوند فوت ہوئے بڑے حوصلہ اور صبر سے یہ سارے صدمے برداشت کئے۔ کبھی ان کی زبان پہ شکوہ نہیں ہوتا تھا۔ مَیں نے دیکھا ہے ہمیشہ مسکراتی رہتیں۔ بشاشت سے ملتیں اور انہوں نے بڑی لمبی بیماری کاٹی ہے۔ بڑی تکلیف دہ بیماری کاٹی ہے۔ لیکن ہمیشہ صبر اور تحمل سے یہی کہتی رہتی تھیں کہ ٹھیک ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں حالانکہ وہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک انتہائی تکلیف دہ بیماری تھی۔ کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ مجھے اتنی تکلیف ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو ہمیشہ نیکیوں پر قائم رکھے۔ ان کے تین بیٹے یادگار ہیں۔
اب جمعہ کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا ان دونوں کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں