خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍جولائی 2009ء

ہم تو اس زمین میں جس کا نام حدیقۃ المہدی رکھا گیاہے ہدایت کے باغ لگانے آئے ہیں۔ پیار ومحبت کی فصلیں کاشت کرنے آئے ہیں۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کا یہ سفرخدا تعالیٰ کی خاطرہے اس لئے اس سفر کو دنیاو ی فائدے کا ذریعہ کبھی نہ بنائیں۔
(جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کو ہمسایوں کا خیال رکھنے، ٹریفک کے قواعد کی پابندی، عبادتوں کے قیام، اعلیٰ اخلاق کے اظہار، صبر اور حوصلہ کا مظاہرہ کرنے، جلسہ کے پروگراموں میں سنجیدگی سے شامل ہونے، اپنے ماحول پر نظر رکھنے، صفائی کا خاص خیال رکھنے، ویزا وغیرہ سے متعلق قوانین کی پابندی کرنے اورمیزبانوں پر بوجھ نہ ڈالنے وغیرہ امور سے متعلق نہایت اہم تاکیدی نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 24؍جولائی 2009ء بمطابق24؍وفا 1388 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی۔ آلٹن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہUK کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ UK جماعت گزشتہ 25 سال سے اب اُن جلسوں کے انعقاد کا انتظام کرتی ہے جو ایک لحاظ سے بین الاقوامی جلسے ہیں۔ کیونکہ خلیفۂ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے مختلف ممالک سے احمدی مہمان تو حسب توفیق زیادہ سے زیادہ یہاں آنے کی کوشش کرتے ہی ہیں لیکن غیراز جماعت احباب بھی جو جماعت احمدیہ کو دنیا کی باقی اسلامی جماعتوں سے یا کسی بھی قسم کی دینی جماعتوں سے مختلف سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ یہ جماعت دوسروں سے مختلف ہے اور اسی وجہ سے اپنی نیک خواہشات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہاں آکے پیغام بھی پڑھتے ہیں۔ ان کی بھی ایک تعداد ہے جوافریقہ کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے بھی آتی ہے اور ایک خاص اثر لے کر جاتی ہے۔ ان کے تاثرات جیسا کہ مَیں جلسے کے بعد کے خطبے میں ہر سال بیان کیا کرتا ہوں وہ تو اُس وقت ہی بیان ہوں گے۔
اس وقت مَیں احمدی احباب کو جن میں میزبان بھی اور مہمان بھی شامل ہیں، چند باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔ زیادہ تر مہمانوں کو توجہ دلاؤں گا۔ جہاں تک میزبانوں اور ڈیوٹی دینے والے کارکنان کا تعلق ہے، انہیں تو مَیں گزشتہ خطبے میں عمومی طور پر مہمان نوازی کے اسلوب، اسوہ رسول ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کے حوالے سے بتا چکا ہوں۔ آج بعض اور باتیں ہیں جن میں سے چند ایک میزبانوں کے لئے اور باقی مہمانوں کے لئے ہیں وہ بیان کروں گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ایک لحاظ سے یہ جلسہ بین الاقوامی جلسہ کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اس میں وہ غیر از جماعت بھی شامل ہوتے ہیں جو جماعت کے بارے میں نیک جذبات رکھتے ہیں اور مختلف پروگراموں میں اپنے اپنے وقت کے مطابق تینوں دن شامل ہوتے رہتے ہیں۔
اور پھر ہمارے ہمسائے ہیں جن میں سے بعض ابھی تک ہمیں ان مسلمانوں کے زُمرہ میں شامل کرتے ہیں جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ شدت پسند ہیں جس کی وجہ سے ان کے خیال میں دنیا میں فساد برپا ہے۔ مَیں عموماً غیروں کی مجالس میں جب بھی مجھے موقع ملے ان کی یہ غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور بتاتاہوں کہ اسلام کی تعلیم شدت پسندی کی تعلیم نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم تو پیار اور صلح کی تعلیم ہے اور اس تعلیم کو خوب نکھار کر اس زمانے میں ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رکھا ہے۔ اس حوالے سے جو مَیں نے پہلے کہا کہ مَیں بعض انتظامی باتیں کروں گا۔ تو پہلے مَیں اس حوالے سے غیروں کے لئے جو اسلامی تعلیم کے بارہ میں غلط تاثر رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ان کے سامنے اس تعلیم کو پیش کرتا ہوں جس میں اسلام کی حسن و خوبی واضح ہوتی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑ ہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں، عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے‘‘۔
(تحفہ ٔ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 259)
پھرآپؑ فرماتے ہیں کہ ‘’اسلام جو پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا۔ اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا۔ اور تمام دنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کو حاصل ہے جس نے انبیاء کی نسبت یہ تعلیم دی کہ

لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ(البقرۃ:137)

یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں یہ تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو رد کردیں ‘‘۔
پس جب دوسروں کے بزرگوں کی اور بڑوں کی اور انبیاء کی عزت کی جائے توپیار اور محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں اور مبعوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یا جن کے ماننے والے ان کو خدا کا برگزیدہ سمجھتے ہیں اور ایک جماعت ان کے پیچھے چلنے والی ہے۔ ان کی عزت کریں۔ پس اس تعلیم کے ہوتے ہوئے اسلام کو شدت پسند اور دہشت گرد مذہب کہنا اور اس بنا پر ان لوگوں پر بدظنی بھی کرنا اور پھر بلاوجہ کے اعتراض بھی تلاش کرنا نہ صرف انصاف کے خلاف ہے بلکہ ظلم ہے۔
اس لئے میں اپنے ایسے ہمسایوں سے کہوں گا کیونکہ جمعہ کے وقت بھی بعض دفعہ بعض آئے ہوتے ہیں یا نمائندے آئے ہوتے ہیں، اس ذریعہ سے ان تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ ہمارے متعلق ہر قسم کی بدظنیوں کو نکال کر اپنے دل صاف کریں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں تو یہ حکم ہے کہ اپنے دشمن سے بھی اپنا سینہ صاف رکھو اور اس کے لئے دعا کرو۔ بلکہ ہمارے دین اسلام میں تو ہمسائے کے اس قدر حقوق ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ نے ایک وقت میں یہ گمان کیا کہ کہیں ہمسائے ہماری جائیدادوں کے بھی وارث نہ ٹھہرائے جائیں۔ پس جن کے دلوں میں کچھ تحفظات ہیں وہ بے فکر رہیں۔ ہم تو اس زمین میں جس کا نام حدیقۃ المہدی رکھا گیا ہے ہدایت کے باغ لگانے آئے ہیں۔ پیار و محبت اور حقوق العباد کی فصلیں کاشت کرنے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بہت ساری اکثریت ان غیروں کی بھی ہے جو ہمارے سے ہمدردی کا سلوک رکھتے ہیں۔ ہمارے لئے ہر طرح کی مدد کے لئے ہر وقت تیار و کمر بستہ ہیں۔ گزشتہ سالوں میں جلسہ کے دنوں میں بعض دقّتیں پیش آئی تھیں جن میں بہتوں نے ہماری مدد کی اور اس سال بھی جلسے کے انعقاد کے لئے ہمارے حق میں رائے دی، مَیں ان سب کا بھی شکر گزار ہوں۔ اور سب احمدیوں کو بھی ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
دوسرے مَیں اپنے دوستوں اور ہمدردوں اور ان لوگوں کو بھی جن کو ہمارے بارہ میں کچھ تحفظات ہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا اسلام کی تعلیم تو تمام مذہب کے بانیان کو عزت کی نظر سے دیکھنے کی تعلیم ہے اور ہم اپنے ایمان کی وجہ سے سب انبیاء کی عزت کرتے بھی ہیں۔ لیکن جب ہمارے نبی، ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق مغرب میں بیہودہ لٹریچر شائع ہوتا ہے۔ ان کو، قرآن کریم کو، آپ کی ازواج کو، صحابہ کوجب تحقیر اور توہین کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھرمسلمان اس پر اپنا ردّ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ اور جو مسلمان جماعت احمدیہ میں شامل نہیں اور خلافت کی نعمت سے محروم ہیں ان کے ردّ عمل راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے پھر ایسے ہوتے ہیں جس سے شدت پسندی کا اظہار ہوتا ہے۔ جہاں تک جماعت احمدیہ کا سوال ہے جماعت احمدیہ بھی رد عمل ظاہر کرتی ہے لیکن ہمارا رد عمل اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو دنیا پر ظاہر کرنے کا ہوتا ہے۔ بہرحال مسلمانوں کے اس غلط رد عمل کی وجہ سے مغرب کے نام نہاد لکھنے والے اور سکالرز لغو کتابیں لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرتے ہیں۔ اور جب بھی مَیں نے یہ بات یہاں کے مختلف طبقوں میں کی، انہوں نے ہمیشہ مجھ سے اتفاق کیا کہ امن قائم رکھنے اور محبت و پیار بڑھانے کے لئے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
پس ہمارے وہ ہمسائے جن کے ذہنوں میں غلط تاثر ہے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہم تو یہاں آئے ہی پیار و محبت کی فصلیں کاشت کرنے ہیں۔ پیار اور محبت سے دل جیتنے کے لئے آئے ہیں اور مخالفت میں جو بھی اور جیسا بھی لوگ ہمارے ساتھ سلوک کر رہے ہیں ہماری طرف سے ان کے لئے نیک جذبات کا اظہار ہی ہوتا ہے۔
احمدیوں سے مَیں کہتاہوں کہ یہ غیروں کو مخاطب کرکے جو مَیں نے ایک لمبی بات کی ہے، اس لئے کر دی ہے کہ آپ لوگ بھی دل میں یہ احساس رکھیں کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔ علاوہ مہمان ہونے کی ذمہ داری کے جس کا مَیں ذکر کروں گا ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ ڈیوٹی دینے والا بھی ہو۔ اور یہ اس کی ایک ذمہ واری بھی ہے۔ پس ہر احمدی جو بھی اس جلسے میں شامل ہے، مرد ہے یا عورت ہے، جوان ہے یا بوڑھا ہے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھے کہ ہر سال کسی نہ کسی ہمسائے کو کسی شکایت کا موقع مل جاتا ہے۔ گو اکثریت اس حقیقت کو جانتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اتنے بڑے مجمع میں ہر کام میں 100فیصد پر فیکشن (Perfection) پیدا نہیں ہو سکتی اوروہ کمزوریوں اور کمیوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ لیکن ہماری طرف سے ایسی کوشش ہونی چاہئے کہ اس وقت نہ ہمدردوں کو اور نہ ہی جو ہمارے غیر ہمدرد ہیں یا جوکمیوں کو تلاش کرنے کی فکر میں رہتے ہیں ان کو موقع مہیا کریں کہ جلسہ کی وجہ سے یہاں کی آبادی کو کسی بھی قسم کی دقت کا سامنا کرنا پڑے۔ بعض لوگ اعتراض کرنے کے لئے عادتاً بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے کہ کبھی ایسے بہانے تلاش کرنے والوں کو کوئی موقع نہ ملے۔
جلسہ سالانہ کی انتظامیہ نے ٹریفک کے اصول و ضوابط بنائے ہیں ان کی پابندی کریں۔ بلکہ یہاں ملکی قانون کے مطابق ٹریفک کے قواعد و ضوابط جو ہیں ان کی پابندی کرنا ہر ایک پر فرض ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ چھوٹی سڑک ہے تو جہاں چاہے گاڑی کھڑی کر دیں۔ بعض یورپ سے آنے والے بھی بے احتیاطی کر جاتے ہیں اور بعض انگلستان کے رہنے والے بھی بے احتیاطی کرتے ہیں۔ اگر ہر کوئی سڑک پر گاڑی کھڑی کرنے لگ جائے تو سڑکیں تو بالکل بلاک(Block) ہو جائیں گی۔ پھر ہمارے دونوں طرف جو آبادیاں ہیں۔ ایک طرف آلٹن کا شہر ہے اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا گاؤں یا قصبہ ہے ان کی سڑکوں پر گھروں کے سامنے کبھی گاڑیاں کھڑی نہ کریں۔ دو سال پہلے بھی گھر والوں کو یہ شکایت ہوئی تھی۔ خاص طور پر بارش کے دنوں میں جب ٹریفک زیادہ ہو گئی تھا۔ اب تو ٹریفک کاانتظام کیا گیا ہے۔ لیکن آج بھی ہو سکتا ہے کہ بارش کی وجہ سے تھوڑی سی اندر آنے میں دِقّت پیدا ہو توایسی صورت میں گاڑیاں باہربالکل کھڑی نہیں کرنی۔ جو دو سال پہلے شکایت پیدا ہوئی تھی اس کی وجہ سے بہت زیادہ ہمسائے ایسی صورت میں ہمارے متعلق باتیں کرنے لگ گئے تھے۔ گو اس بارے میں انتظامیہ نے اب کافی توجہ دی ہے اور اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ایسا واقعہ نہ ہو لیکن کسی بھی احمدی کوایسی حرکت ہی نہیں کرنی چاہئے کہ انتظامیہ کو انہیں توجہ دلانے کی ضرورت پڑے۔ ہر احمدی کو خود اس ذمہ واری کا احساس ہونا چاہئے، چاہے وہ کہیں سے بھی آیا ہوا ہے۔ خود احتیاط کریں اور جیسا کہ مَیں نے کہا اسلام نے تو ہمسائے کے بہت حقوق رکھے ہیں اور حدیقۃ المہدی کے دائیں بائیں رہنے والے تمام لوگ جماعت کے ہر فرد کے جو یہاں جلسے میں شامل ہونے آتا ہے اس کے ہمسائے ہیں۔ جہاں تک پارکنگ کا سوال ہے۔ گاڑی لانے والوں کے لئے بارش کی صورت میں بھی انتظامیہ نے پارکنگ کا انتظام کیا ہوا ہے۔ لیکن جیسا کہ گزشتہ سال تجربہ کیا گیا تھا اور اس سال کے دوران میں ایک عرصے سے جماعتوں کو بتایا جا رہا ہے اور مناسب بھی یہی ہے کہ اپنی گاڑیاں لانے کی بجائے لندن سے آلٹن تک جو ٹرین کا انتظام کیا گیا ہے اور یہ بڑا سستا انتظام ہے اس کو استعمال کریں۔ سٹیشن تک لانے لے جانے کے لئے لندن مسجد میں بھی اور بیت الفتوح سے بھی بس کی شٹل سروس کا انتظام کیا گیا ہے اور آلٹن سے حدیقۃ المہدی لانے کے لئے بھی بسوں کا انتظام ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی خاطر جلسے میں شامل ہونے کا ارادہ کیا ہے تو بعض چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور دقتوں کو نظر انداز کرنا چاہئے۔
بعض لوگ یہ باتیں بھی کر دیتے ہیں کہ جب چھوٹی سڑک تھی اور ٹریفک کی دِقّتیں تھیں بارش کا خطرہ تھا تو یہ جگہ کیوں لی؟ تو آپ جلسے کے لئے جہاں بھی جگہ لیں گے اس دِقّت کا تو سامنا کرنا پڑے گا۔ اس دِقّت کا سامنا اسلام آباد میں بھی کرنا پڑتا تھا حالانکہ وہاں جلسے میں شامل ہونے والوں کی تعداد اس وقت بہت تھوڑی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ وہاں کی آبادی کو بھی اور احمدیوں کو بھی اس کی عادت پڑ گئی۔ وہاں بھی ٹریفک کی وجہ سے ہمسایوں کو شروع میں جو اعتراض ہوتے تھے آہستہ آہستہ وہ ان کے عادی ہو گئے اور وہ اعتراضات دور ہو گئے تو یہاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ وہ دور ہو جائیں گے۔ لیکن ایک احمدی کا کام ہے کہ کسی بھی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ بلکہ ہر احمدی اپنا ایسا نمونہ دکھائے کہ اگر کسی کے دل میں احمدیوں کے بارے میں کوئی منفی سوچ ہے بھی تو وہ آپ کا رویّہ دیکھ کر دل میں شرمندہ ہو اور احمدیوں کے متعلق اپنی منفی سوچ بدل کر مثبت سوچ پیدا کرے۔ بلکہ دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور ہمارے سے تعلق کو اپنے لئے عزت سمجھے۔
ہر احمدی احمدیت کا سفیر ہے۔ یہ ہر وقت ہر ایک کے ذہن میں رہنا چاہئے کہ آپ احمدیت کے سفیر ہیں۔ اس بات کی توقع کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھاکہ ہمارے مرید ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کریں۔ مرید ہو کر پھر کون بدنام کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ تمہارے اخلاق ایسے اعلیٰ ہوں، تم وہ پاک نمونہ دکھلانے والے ہو کہ ہر احمدی پر اٹھنے والی انگلی جماعت احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نیک نامی کا باعث بننے والی ہو۔ جلسہ سالانہ کا اصل مقصد تو پاک تبدیلیاں پیدا کرنا تھا۔ پس یہ پاک تبدیلیاں ہیں جو ایک احمدی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
ان دنوں میں جہاں آپ کی طرف سے عبادتوں سے اس کے اظہار ہو رہے ہوں۔ وہاں اپنوں اور غیروں سے اعلیٰ اخلاق سے پیش آنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے۔ بے شک مَیں نے کارکنان کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ہر وقت مہمان نوازی پر مستعد رہیں اور کبھی کسی مہمان کو شکوے کا موقع نہ دیں۔ لیکن مہمان کا بھی فرض ہے کہ وہ ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے، اپنے اندر صبر و حوصلہ پیدا کرے۔ اگر کبھی کسی کارکن سے اونچ نیچ ہو جائے تو یاد رکھیں کہ وہ بھی انسان ہیں۔ ان سے بھول چوک ہو سکتی ہے۔ بعض کارکنان کئی کئی دنوں سے کام کر رہے ہیں۔ بعض کو 24گھنٹوں میں صرف 2گھنٹے سونے کا موقع ملتا ہے اور بشری تقاضے کے تحت اگر ایسی حالت میں کوئی کسی بات پر کسی مہمان کو تسلّی بخش جواب نہ دے یا اس کے خیال میں اس کی مہمان نوازی کا حق ادا نہ ہو رہا ہو تو مہمان کو بھی صرف نظر کرنا چاہئے اور کارکن کو معاف کرنا چاہئے۔ اکثریت توUK کے رہنے والے مہمانوں کی ہے جو مختلف شہروں سے آئے ہیں اور یہاں جیسا کہ مَیں نے کہا ساری دنیا سے مہمان آرہے ہوتے ہیں۔ احمدی بھی اور غیر از جماعت بھی۔ اگر کوئی کارکن مقامی مہمان کو چھوڑ کر باہر سے آنے والے مہمان کی طرف زیادہ توجہ دے دے، جو دینی چاہئے، تو پھر مقامی مہمانوں کو برا نہیں منانا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہونے کا نمونہ بھی یعنی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مہمان بنے تو آپؑ نے کیانمونہ پیش کیا وہ بھی ہمارے سامنے ہے اور یہ نمونے آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مرتبہ کسی سفر پر تھے، کام میں مصروف تھے اور اس و جہ سے آپؑ نے رات کا کھانا نہیں کھایا۔ رات گئے بھوک کا احساس ہوا تو آپؑ نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو سب کام کرنے والے پریشان تھے کہ کھانا توجتنے وہاں لوگ آئے ہوئے تھے کام کرنے والے تھے سب کھا چکے ہیں اور کچھ بھی نہیں بچا۔ رات بازار بھی بند تھے کہ کسی ہوٹل سے کھانا منگوا لیا جاتا۔ حضور علیہ السلام کے علم میں جب یہ بات آئی کہ کھانا ختم ہو گیا ہے اور سب انتظام کرنے والے پریشان ہیں کہ کھانا فوری طور پر جلدی جلدی پکانے کا انتظام کیا جائے۔ آپؑ نے فرمایا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھو دستر خوان پر روٹی کے کچھ بچے ہوئے ٹکڑے ہوں گے وہی لے آؤ۔ چنانچہ آپؑ نے ان ٹکڑوں میں سے ہی تھوڑاسا کھا لیا اور انتظام کرنے والوں کو تسلی کروائی۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اگر حضور علیہ السلام اُس وقت کھانا پکانے کا حکم دیتے تو ہمارے لئے یہ باعث عزت ہوتا اور ہم اس بات پر فخر محسوس کرتے اور اسی میں برکت تھی۔ لیکن آپؑ نے ہماری تکلیف کا احساس کرتے ہوئے روک دیا کہ کوئی ضرورت نہیں۔
پس یہ نمونے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں کو بھی دکھانے چاہئیں۔
مجھے جلسے کے دنوں میں بھی اور ویسے بھی بعض لنگر خانوں کی شکایات ملتی رہتی ہیں اور جب تحقیق کرو تو اُتنی لاپرواہی مہمان کے بارہ میں نہیں برتی گئی ہوتی جتنا بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے مہمان کے جذبات ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن مہمانوں کو بھی اصل حقائق بیان کرنے چاہئیں۔ ربوہ میں تو اب جلسے نہیں ہوتے جب جلسے ہوا کرتے تھے تو اس وقت وہاں بھی شکایات پیدا ہوتی تھیں۔ اب ربوہ میں دارالضیافت جو لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے وہاں ابھی بھی باقاعدہ لنگر چلتا ہے۔ اگر کبھی انتظامیہ سے غلطی ہو جائے تو احمدی مہمان وہاں بھی بہت زیادہ زود ر نجی کا اظہار کرتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اکثر انتظامیہ ان لوگوں سے معذرت بھی کر لیتی ہے۔ اسی طرح مجھے قادیان کے لنگر خانے کی بھی شکایات آجاتی ہیں اور یہاں خلیفۂ وقت کی موجودگی کی وجہ سے مستقل لنگر چلتا ہے اس لئے یہاں بھی شکایات پیدا ہوتی رہتی ہیں اور خاص طور پر جلسے کے دنوں میں شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ باقی دنیا میں عام دنوں میں تو لنگر نہیں چل رہا ہوتا کیونکہ وہاں ابھی لنگر کا اتنا وسیع انتظام نہیں ہے اور نہ لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ لیکن جلسے کے دنوں میں لنگر چلتا ہے۔ وہاں بھی شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ تو بہرحال کارکنان کی طرف سے یہ کوتاہیاں جو ہیں وہ ہوتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں۔ کارکنان کا فرض ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر میں آئے اس کی پوری عزت کی جائے اسے احترام دیا جائے۔ جہاں جہاں مستقل لنگر چلتے ہیں وہاں کے کارکنان کو میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہاں کوئی بھی مہمان آئے چاہے وہ وہاں مقامی رہنے والا ہو، ربوہ کا یا قادیان کا، یہاں کے بھی آتے ہیں، ان کے جذبات کا احترام کریں اور کبھی کوئی چبھتی ہوئی بات نہ کریں۔ بہرحال مہمان نوازی کی وجہ سے یہ باتیں مَیں نے عام لنگر خانوں کے بارہ میں بھی ضمناً کہہ دیں۔
لیکن مہمانوں کی طرف دوبارہ لوٹتے ہوئے میں پھر یہی کہوں گا کہ انہیں بھی صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ جلسے کے ان دنوں میں کیونکہ سب والنٹیئرزہیں، مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، یونیورسٹیوں، کالجوں کے طلباء ہیں۔ اس ماحول میں رہنے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ ان کی کمزوریوں سے صَرفِ نظر کریں اور ان کے جذبے کی قدر کریں جس کے تحت انہوں نے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے۔
جہاں تک غیر از جماعت مہمانوں کا سوال ہے ان کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے تاکہ ان کی مہمان نوازی زیادہ بہتر رنگ میں کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں کہ’’جب تمہارے پاس کسی قوم کا کوئی معزز شخص آئے تو اس کا بہت زیادہ احترام و اکرام کرو‘‘۔
یہاں جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان کا مقصد جلسہ سننا اور اس سے روحانی فائدہ اٹھانا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توواضح فرمایا ہے کہ یہ جلسہ کوئی دنیاوی میلوں کی طرح نہیں ہے۔ دنیاوی میلوں کی جو حالت ہوتی ہے اُس میں تو سارا دن لوگ پھرتے رہتے ہیں، تماشے دیکھتے رہتے ہیں لغو محفلیں سجتی رہتی ہیں، کھانا پینا اور شور شرابے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں تو تین دن اگر انسان جسمانی غذا کی بجائے روحانی غذا کی طرف توجہ دے تو تبھی اپنے عہد بیعت کا حق ادا کرنے والا سچا احمدی کہلا سکتا ہے۔ پس اس بات کو لازمی بنائیں کہ جلسے کی کارروائی کے جو بھی پروگرام ہیں اس میں مردبھی اور عورتیں بھی نوجوان بھی اور بوڑھے بھی سنجیدگی سے شامل ہوں اور جو بات سنیں، جو تقریریں سنیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ کوئی عورت، کوئی مرد، کوئی نوجوان، کوئی بچہ ان دنوں میں جلسے کی کارروائی کے دوران باہر پھرتا، ٹولیوں میں بیٹھا اور کھیلتا ہوا نظر نہ آئے۔ عورتوں کے لئے چھوٹے بچوں کی مارکی علیحدہ ہے اس لئے کہ بچے روتے اور شور مچاتے ہیں اور دوسری بڑی عورتیں جو بغیر بچوں کے ہیں یا جن کے بچے بڑے ہو چکے ہیں وہ ڈسٹرب ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے بچے جو چھوٹے نہیں اور جنہوں نے رونے دھونے کی عمر گزار دی ہے۔ سات آٹھ سال کی عمر کے ہیں۔ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان کو والدین کو سمجھا کر اپنے ساتھ لانا چاہئے کہ جلسہ پر ہم جا رہے ہیں اور وہاں دو تین گھنٹے کا جو ایک سیشن ہوتا ہے اس میں تم نے آرام سے بیٹھنا ہے۔ کئی بچے ہیں جنہیں مائیں سمجھا کے لاتی ہیں اور وہ بچے بڑے آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان مجالس کا احترام بچپن سے ہی بچوں میں پیدا کریں اور اس کی ٹریننگ سارا سال گھروں میں دیں اور یہ دینی بھی چاہئے۔ مجھے بعض دفعہ شکایات ملتی رہتی ہیں کہ سارا سال اطفال کے اور ناصرات کے جو اجلاس ہوتے ہیں ان میں بچوں کو خاموش بیٹھ کر پروگرام سننے کی طرف توجہ نہیں دلائی جاتی۔ ناصرات میں تو کم ہے لیکن اطفال میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد(یہ شرارتی طبیعت زیادہ ہوتی ہے لڑکوں میں) یہ باتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اگر سارا سال ماں باپ بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی بچوں کی اس نہج سے تربیت کریں تو جلسوں میں ایسی شکایات نہ ہوں۔ چھوٹے بچوں کی ایک خاصی تعداد یہاں اللہ کے فضل سے ڈیوٹی بھی دے رہی ہوتی ہے اور بڑے پیارے انداز میں ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک خاصی تعداد ایسی بھی ہے جو ڈیوٹی نہیں دیتی۔ دوسرے شہروں سے آئے ہیں اور دوسرے ملکوں سے آئے ہیں۔ وہ ضرور کھیل کود اور شور شرابے کی وجہ سے جلسہ سننے والوں کو ڈسٹرب کر رہے ہوتے ہیں۔
تو اس لحاظ سے بھی جلسے میں شامل ہونے والوں کا فرض ہے کہ پیار سے اپنے بچوں کی تربیت کریں اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب بچوں کو یہ احساس ہوکہ ہمارے بڑے بھی جلسے کے پروگرام غور سے سن رہے ہیں اور جلسے کے تقدس کا ان کو خیال ہے۔ ہماری یہ دینی مجالس تو ایسی ہونی چاہئیں کہ بجائے اس کے کہ کارکنات (مردوں کے جلسے میں تو نہیں ہوتا لیکن عورتوں کی مارکی میں ہوتا ہے)یہ نوٹس لے کر کھڑی ہوں کہ خاموشی سے جلسے کی کارروائی سنیں۔ آپ خود یہ اہتمام کر رہی ہوں کہ کسی بھی قسم کی توجہ دلانے کی ضرورت ہی نہ پڑے اور خود ہی خاموشی سے کارروائی سنیں۔
پھر ایک اہم بات جس کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ ہے اپنے ماحول اور اردگر د پر نظررکھنا۔ جماعت کی حفاظت تو خداتعالیٰ نے کرنی ہے اور ہمیشہ سے کرتا آرہا ہے۔ یہی ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔ اگر ہم اس سے مدد مانگتے ہوئے اس کی طرف جھکے رہیں تو جماعت سے تعلق بھی مضبوط ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے حفاظت کے حصار میں بھی رہیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ مَیں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں اور یہ بھی کہ آخری غلبہ آپ کا ہے۔ اور یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو بحیثیت جماعت ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے گا انشاء اللہ۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جماعت نے ترقی کرنی ہے۔ لیکن مخالف اور دشمن ہمیشہ اس تاک میں رہتا ہے کہ کسی طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے اور انفرادی طور پر بعض دفعہ قربانیاں بھی دینی بھی پڑتی ہیں۔ بعض دفعہ ہماری بے احتیاطیوں کی وجہ سے بھی مخالفین فائدہ اٹھاتے ہیں اور آج کل دنیا کے جو حالات ہیں اس میں جو ظاہری احتیاطیں ہیں وہ کرنی اور بڑی پابندی کے ساتھ کرنی عقل کا تقاضا بھی ہے اور خداتعالیٰ کا حکم بھی ہے۔ اس لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ انتظامیہ نے اس دفعہ یہ انتظام بھی کیا ہے کہ سکینر لگائے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات جلسہ گاہ تک پہنچنے میں کچھ زائد وقت بھی لگ جائے۔ ایک توصبر اور حوصلے کے ساتھ نئے طریق کے مطابق اپنی چیکنگ کروانے میں انتظامیہ سے پورا تعاون کریں۔ بلکہ جو چیکنگ کرنے والے ہیں وہ کارکنان کو بھی یا جس کو جانتے ہیں ان کو بھی اگر وہ ایک دفعہ باہر جاکر دوبارہ اندر آتا ہے تو سکینر میں سے گزاریں۔
دوسرے ہر شامل ہونے والا خود بھی اپنے ماحول پر نظر رکھے۔ کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ ہر مخلص احمدی ہر وقت جماعت کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس لئے اس کا بھی تقاضاہے کہ اپنے ماحول پر بھی نظر رکھے۔ اور اس لحاظ سے ان دنوں میں انتظامیہ کی اس طرح بھی مدد کریں کہ اگر کسی کے بارے میں بھی شک ہو کہ یہ مشکوک ہے یا کسی بھی قسم کی ایسی حرکت ہے تو انتظامیہ کو اس کی اطلاع دیں۔ خاص طور پر خواتین کو اس بارہ میں ہوشیار رہنا چاہئے۔ لجنہ کی طرف کوئی بھی عورت مکمل طورپر چہر ہ ڈھانپ کر پھرنے والی اور وہاں بیٹھنے والی نہ ہو۔ کئی سال پہلے یہاں ایک واقعہ ہو چکا ہے کہ عورت کے بھیس میں ایک مرد کو پکڑا گیا تھا۔ تو یہ نہ سمجھیں کہ اب ہم ہوشیار ہو چکے ہیں کہ چیکنگ بھی اچھی طرح ہو رہی ہے اس لئے بے فکر ہو جائیں۔ ریلیکس (Relax) ہو جائیں۔ بے فکری کی حالت میں ہی بعض نقصانات اٹھانے پڑ جاتے ہیں اس لئے ہمیشہ ایک مومن کو چوکس رہنا چاہئے۔
پھر صفائی ہے۔ اس کا بھی خاص خیال رکھیں۔ جلسے کے ماحو ل میں کبھی گند زمین پر نہ پھینکیں۔ یہ نہ سمجھیں کارکنان موجود ہیں وہ بعد میں اٹھا لیں گے۔ خود ہی معین جگہیں جہاں بنائی گئی ہیں جہاں ڈسٹ بن رکھے گئے ہیں وہاں جا کر اپنا گند پھینکیں چاہے وہ ڈسپوز ایبل گلاس ہے کاغذ ہے، کوئی بھی چیز ہے۔ اگر وہاں جاکے گند پھینکیں گے تو تھوڑی سی تکلیف ہو گی مگر ماحول صاف رہے گا۔ اور پھر اسی طرح غسل خانے ہیں، ٹائلیٹس ہیں وہاں بھی مہمان یہ کوشش کریں کہ استعمال کے بعدانہیں اچھی طرح صاف کر دیں اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے کسی کا مقام گرتا ہو۔ جو کارکن اور کارکنات صفائی پر مقرر ہیں وہ بھی اکثر صاحب حیثیت اور اچھے خاندان والے ہوتے ہیں۔ صفائی کرنے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ عزت بڑھتی ہے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ جہاز پر بھی جب آپ سفر کر رہے ہوں تو وہاں بھی ٹائیلٹس میں لکھا ہوتا ہے کہ اگلے مسافر کی سہولت کے لئے غسلخانے کو صاف کرکے جائیں۔ کارکنان کی انسپیکشن (Inspection) جس دن ہوئی ہے ان کو ایک مثال دی تھی ایک خاتون کی کہ وہ بڑی چاہت سے عورتوں میں صفائی پر ڈیوٹی لگوایا کرتی تھیں اور جب بھی کوئی غسلخانہ استعمال کرتا فوری طور پر جا کے اس کو صاف کرتی تھیں اور ان کودیکھ کر کسی کو خیال آیا کہ یہ لگتی تو بڑی رکھ رکھاؤ والی خاتون ہیں پتہ کروں کہ کون ہے تو انہوں نے جب اس بارہ میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ آپا مجیدہ شاہنواز مرحومہ ہیں۔ ایک سرکاری افسر کی بیٹی تھیں۔ ایک بڑے کاروباری شخص کی بیوی تھیں۔ لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے جذبے سے یہ کام کیا اور کرتی رہیں۔ جماعت کے لئے بے انتہا مالی قربانیاں کرنے والی تھیں۔ لیکن اس مالی قربانی کو کافی نہیں سمجھا اور خدمت کے جذبے سے سرشار رہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو بھی جماعت سے مضبوط تعلق قائم کرنے کی توفیق دے۔ بہرحال صفائی توآنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق ایمان کا حصہ ہے۔ پس مومنوں کا کام ہے کہ ہر اس چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی اختیار کریں۔ جس کے بارہ میں اللہ اوراس کے ر سولؐ نے حکم دیا ہے اور صفائی تو مومن ہونے کی نشانی بتائی گئی ہے۔ ایمان کا حصہ بتایا گیا ہے۔ اس لئے ہر مہمان اور جلسہ میں شامل ہونے والا اس طرف توجہ دے اور یہ خیال نہ کرے کہ مَیں تو جاتا ہوں اور پیچھے سے شعبہ صفائی والے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ اور آج خاص طور پر جبکہ بارش ہو رہی ہے ذرا سابھی گند جو ہے وہ زیادہ نظر آتا ہے۔ کیچڑ والے بوٹ لے کے جب آپ غلسخانوں میں جائیں گے تو گند ہوگا۔ کوشش کریں، ایک تو وہاں انتظامیہ کوشش کرے کہ کوئی ٹاٹ یا ایسی چیزیں رکھے دیں کہ جوتے صاف کرکے لوگ اندر جائیں کیونکہ آج بارش کی پیشگوئی ہے اور ہو سکتا ہے سارا دن ہوتی رہے۔
پھر آج کل سوائن فلو پھیلا ہوا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی اس کی احتیاط کے بارے میں ہو شیار کیا جا رہا ہے اور ایم ٹی اے پر بھی اعلان ہو رہا ہے۔ اس کے لئے بھی ایک تو جو ظاہری تدبیر ہے اس کے مطابق انتظامیہ نے یہ انتظام کیا ہے کہ ہر آنے والے کو ہومیو پیتھک دوائی دینی ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ آج دی گئی ہے کہ نہیں۔ لیکن نہیں دی گئی تو دوبارہ جب باہر جائیں اور اس سکینر میں سے گزریں تووہ دوائی دی جانی چاہئے۔ اس بارہ میں ہر مہمان کو، ہر آنے والے کو تعاون کرنا چاہئے۔ دوسرے اگر کسی کو کسی بھی قسم کا فلو کا شک ہو تو دوسرے کا خیال کرتے ہوئے جلسہ پر آنے سے پہلے اپنے متعلقہ ڈاکٹر سے مشورہ لیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمد ی کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔ ہر قسم کی بیماریوں سے محفوظ رکھے اور جلسہ میں شامل ہونے والے جلسے کی برکات کو سمیٹتے ہوئے گھروں کو جائیں۔
پھر جو دوسرے ممالک سے مہمان آئے ہوئے ہیں خاص طور پر پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان وغیرہ سے اور اسی طرح افریقین ممالک سے انہیں مَیں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اپنے ویزے کی مدت ختم ہونے سے بہت پہلے واپس جانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ اس مرتبہ خاص طور پر مختلف ملکوں میں یو کے ایمبسیی کے ویزا دینے والے جو شعبے ہیں انہوں نے بعض جگہ احمدیوں کو حالانکہ وہ اکثر یہاں آنے والے تھے اعتراض کرکے ان کے ویزے واپس کر دئیے ہیں کہ احمدی جلسہ کے نام پر جاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے۔ گو یہ بات بالکل غلط ہے اور گزشتہ چھ سات سال سے تو مجھے علم ہے کہ جو بھی لوگ یہاں آتے ہیں واپس جاتے ہیں اور جو اگر یہاں رہے ہوں گے تو ان کی تعداد4، 5 سے زیادہ نہ ہو گی اور ان کو بھی سزا ملتی ہے جب وہ یہاں جلسہ کے ویزے پر آکررہ جاتے ہیں۔ لیکن بہرحال اگر نہ ہونے کے برابر بھی یہاں لوگ رہتے ہیں تو یہ بھی ایک غلط حرکت ہے اور جماعت کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ کیونکہ اس سے دوسروں کے جلسے کی نیت سے یہاں جلسے پرآنے کے راستے بھی بند ہوتے ہیں اور یہ بات ایسی ہے جو کسی طرح بھی ایک احمدی کے شایان شایان نہیں۔
پھر جلسہ کے انتظام کے تحت رہائش کاانتظام ہے، مہمان نوازی کا بھی انتظام ہے۔ یہ عموماًدو ہفتے کے لئے ہوتا ہے۔ اس کے بعد بغیر میزبان کی اجازت کے رہنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ یہ بن بلائے مہمان بننے والی بات ہے جو اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ اور اسی طرح جو لوگ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں ان کو بھی ان کا احسان مند ہو نا چاہئے کہ انہوں نے انہیں اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور بلاوجہ کا بوجھ ان پر نہیں ڈالنا چاہئے۔ بعد میں بعض لوگ میرے پاس بھی آتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں کہ اتنے دن کے لئے آئے تھے لیکن جس عزیز کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اس کا رویّہ اب ایسا ہے کہ ہم اب جماعتی انتظام کے تحت ٹھہرنا چاہتے ہیں۔ نہ بھی ٹھہرنے کا کہیں توشکوہ کرتے ہیں۔ تو مہمانوں کو پہلے ہی اتنے عرصے کے لئے آنا چاہئے جو دوسروں پر بوجھ نہ ہو اور شکوے کبھی پیدا ہی نہ ہوں۔ جلسہ کا مقصد تو محبت بڑھانا ہے۔ اگر آپس کی محبت بڑھنے کی بجائے کم ہوتی ہے تو پھر جلسہ میں شامل ہونے کا مقصد پورا نہیں ہو رہا۔ پس جہاں گھر والوں کو میزبانوں کو حوصلہ دکھانا چاہئے وہاں مہمانوں کو بھی خیال رکھنا چاہئے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کا یہ سفر خداتعالیٰ کی خاطر ہے۔ اس لئے اس سفر کو دنیاوی فائدے کا ذریعہ کبھی نہ بنائیں۔ خالصتاً للہ یہ آپ کا سفر ہو اور اس سفر کو للّٰہی سفر بنانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک اوراہم بات یہ بھی ہے کہ آپ کا پروگرام جو شائع ہوا ہوا ہے اس میں بعض ہدایات لکھی ہوئی ہیں ان کو ضرور پڑھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آج تو محکمہ موسمیات کی وجہ سے بارش کی پیشگوئی تھی۔ یہ بھی دعا کریں کہ اب اس کے بعد بارش بھی رک جائے۔ اللہ تعالیٰ موسم بھی صاف کر دے اور باقی دن جو ہیں ان میں ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے آرام سے جلسہ کی کارروائی سن سکیں کیونکہ بارش کی صورت میں جو مارکی پہ پڑتی ہے تو آواز اتنی ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بعض کو صاف الفاظ بھی سمجھ نہ آرہے ہوں۔ اس لئے دقت ہوتی ہے۔ پھر چلنے پھرنے میں دقت ہو گی۔ بچوں عورتوں کو دقت ہو گی۔ تو یہ دعا کریں اللہ تعالیٰ موسم کو بھی ہمارے حق میں کر دے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں