خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 21؍اپریل 2006ء

اخلاقی معجزات اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار تبلیغ کے میدان بھی ہمارے لئے کھولیں گے اور اگلی نسلوں کی تربیت کے بھی سامان پیدا کریں گے۔
ہر احمدی کو،ہر بڑے کو، ہر عہدیدارکو، ہر ذمہ دار کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے تبھی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی اور تبھی جماعت کی ترقی کے سامان پہلے سے بڑھ کر پیدا ہوں گے۔
صرف روایتی بکسٹال یا عشرہ تبلیغ منانے سے مقصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس کے لئے مزید بھی پلاننگ کرنی ہوگی۔
احباب جماعت کو اعلیٰ اخلاقی نمونے دکھانے،باہم محبت و پیار سے رہنے، تبلیغ و تربیت اور اطاعت نظام کا پابند بننے کی نہایت اہم تاکیدی نصائح
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 21؍ اپریل 2006ء (21؍شہادت 1385ہجری شمسی)بمقام مسجد بیت الھدیٰ۔سڈنی (آسٹریلیا)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو تین دن تک میرا آسٹریلیا کا دورہ انشاء اللہ اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ اس دورے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ میں شمولیت اور خطابات کی توفیق ملی، وہاں جماعت کے تقریباً تمام افراد سے انفرادی ملاقاتیں بھی ہوئیں اور دوسرے پروگرام بھی ہوئے۔ اس براہ راست رابطے سے بہت کچھ دیکھنے، سمجھنے اور سننے کا موقع ملا۔ عمومی طور پر جماعت آسٹریلیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں کسی جماعت سے بھی پیچھے نہیں ہے۔ تاہم بعض کمیاں بھی ہوتی ہیں جن پر نظر رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ ان کمزوریوں اور خامیوں کودور کیا جائے۔ کیونکہ ہمارے معیار اور ہماری نظر تو ہمیشہ اونچی رہتی ہے اور قدم ترقی کی طرف بڑھنے چاہئیں۔ اور اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بیعت کرنے والوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔
اس وقت یہاں کے احمدیوں کی ایک بہت بڑی اکثریت پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے جو کہ مختلف وقتوں میں یہاں آتے رہے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ان میں پڑھے لکھے بھی ہیں جو اپنے علم کی وجہ سے یہاں ملازمتوں کی تلاش میں آئے، کاروباری بھی ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت بڑی تعداد جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی ہے جن کو پاکستان کے حالات کی وجہ سے یہاں اسائلم ملا۔ اور یہ لوگ چھوٹے موٹے کاروبار کر رہے ہیں یا ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے بعض کی اولادیں اچھا پڑھ لکھ گئی ہیں، کچھ پڑھ رہی ہیں اور ماشاء اللہ اکثریت تعلیمی میدان میں اچھی ہے، یہ ایک بڑا اچھا شگون ہے کیونکہ نوجوانوں میں اگر پڑھنے کی عادت نہ ہو تو اپنی استعدادیں ضائع کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان نوجوانوں کا جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق بھی ہے۔ جلسہ کی ڈیوٹیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب نے بڑی اچھی طرح اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔ اور بڑے جوش اور جذبے سے سارے کام کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔
پھر یہاں رہنے والے احمدیوں میں ارد گرد کے ملکوں میں سے فجیئن (Fijian) احمدیوں کی بڑی تعداد ہے چند ایک اَور بھی ہیں جن میں آسٹریلین بھی ہیں اور متفرق قوموں کے بھی۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اکثریت پاکستانیوں کی ہے تمام ان پاکستانی خاندانوں کے نوجوان جو یہاں پیدا ہوئے یا پلے بڑھے اور فجیئن احمدی یا دوسرے غیر پاکستانی احمدی ان سب کی نظریں ان تجربہ کار درمیانی عمر کے یا بڑی عمر کے احمدیوں پر ہیں جو پاکستان سے آئے تھے۔ان سب کے خیال میں آپ لوگ دین کو جاننے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں یا کم از کم ہونے چاہئیں۔ پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ لوگوں نے اسے محسوس نہ کیا اور اس ذمہ داری کا جس طرح حق بنتا ہے اس کو نہ نبھایا تو اگر آئندہ آپ کی نئی نسل بگڑتی ہے، کسی کو اپنے بڑوں کی وجہ سے ٹھوکر لگتی ہے یا غیر پاکستانی احمدی جو پاکستانیوں کو دینی علم کے لحاظ سے اپنے سے بہتر سمجھتے ہیں ان کو آپ کے رویوں یا عملوں سے کوئی ٹھوکر لگتی ہے تو یقینا یہ ایک بہت بڑا ظلم ہو گاجو آپ اپنی جان پر بھی کر رہے ہوں گے اور دوسرے احمدیوں پر بھی۔ اس لئے ہمیشہ اپنے نمونے قائم کرنے کے لئے جائزے لیتے رہیں اور خاص طور پر دوسروں سے تعلقات نبھانے اور معاملات نمٹانے کے تعلق میں ہر احمدی کو ایک نمونہ ہونا چاہئے۔ لیکن پرانے احمدیوں اور ان لوگوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا موقعہ دیا ہے۔ خاص طور پر اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے اور پھر عموماً اپنے ماحول میں اپنی ایک پہچان قائم کرنی چاہئے۔
لیکن نوجوانوں اور غیر پاکستانی احمدیوں سے جو یہاں رہتے ہیں ان سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ آپ نے بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کی ہے۔ آپ نے مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مانا ہے،نہ کہ کسی اور کو۔ اس لئے آپ کے سامنے جو نمونے ہونے چاہئیں، آپ کے سامنے ہر وقت جو تعلیم ہونی چاہئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ کی تعلیم ہونی چاہئے اور آپؑ کے نمونے ہونے چاہئیں۔ آپ نے یہ نہیں دیکھنا کہ فلاں بڑے یا فلاں پاکستانی احمدی کے نمونے کیا ہیں بلکہ آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کیا توقعات وابستہ فرمائی ہیں۔ ورنہ یاد رکھیں خداتعالیٰ نے یہ نہیں کہنا کہ تمہیں اس لئے معاف کیا جاتا ہے کہ تم فلاں شخص کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے تھے۔ ہر ایک نے اپنا حساب دینا ہے۔ اس لئے یہ نہ دیکھیں کہ فلاں احمدی یا فلاں عہدیدار کیا کرتا ہے۔ یہ دیکھیں اور ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں کہ جس شخص کی بیعت میں ہم شامل ہوئے وہ خدا کی طرف سے ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی جماعت سے جڑا رہنے کا ارشادہے۔ اللہ کے خلیفہ سے جو مسیح و مہدی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے تعلق جوڑنے کا ارشاد ہے۔ پس ہر احمدی چاہے وہ پاکستان کا رہنے والا ہے یعنی پاکستان سے یہاں آکر آباد ہوا ہے یا کسی دوسرے ملک سے۔ نوجوان ہے یا بوڑھا ہے، مرد ہے یا عورت ہے کہ اپنے اعمال کا وہ خود ذمہ دار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ آپ فرماتے ہیں :
’’ اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا ہے جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو، اپنے دلوں کو پاک کرو، اور اپنے مولیٰ کو راضی کرو۔
دوستو! اس مسافر خانہ میں محض چند روز کے لئے ہو۔ اپنے اصلی گھروں کو یاد کرو۔ تم دیکھتے ہو کہ ہر سال کوئی نہ کوئی دوست تم سے رخصت ہو جاتا ہے۔ ایسا تم بھی کسی سال اپنے دوستوں کو داغ جدائی دے جاؤ گے۔ سو ہوشیار ہو جاؤ اور پُر آشوب زمانے کی زہر تم پر اثر نہ کرے۔ اپنی اخلاقی حالتوں کو بہت صاف کرو۔ کینہ اور بغض اور نخوت سے پاک ہو جاؤ۔ اور اخلاقی معجزات دنیا کو دکھلاؤ‘‘۔ (اربعین نمبر4روحانی خزائن جلد 17صفحہ443-442)
پس غور کریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ نیک نیتی سے ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم نے اس مسیح کو دیکھ لیا جس کی بہت سے پیغمبروں نے خواہش کی تھی۔ ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا زمانہ تھا جس میں آپ کے صحابہ نے آپ کو جسمانی طور پر بھی دیکھا اور پھر ہر روز آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کے نظارے بھی دیکھے۔ اور ان نظاروں کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ بھی کیا۔ لیکن آج ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر ہر دن کے طلوع ہونے پراللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ایک نئے رنگ کی بارش برستا دیکھتے ہیں تو یہ فضل بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ جو جماعت پر بارشیں ہو رہی ہیں یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر دنہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا نیا جلوہ دکھا کر ہمیں آپ ہی کو دکھا رہا ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی ان جلووں کے پیچھے دیکھ رہے ہیں۔ پس اس وقت کی قدر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے چمٹتے ہوئے جو حقیقت میں آپ کے آقا و مطاع پر اتری ہوئی تعلیم ہی ہے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور اس کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے چلے جائیں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے کسی شخص کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اس خاتم الاولیاء کی طرف دیکھیں جس کے بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اور جس کو آپ نے قبول کیا۔ اپنی راہیں ہمیشہ درست رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے اور جس راہ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑا ہے اس راہ سے کبھی بھٹکنے والے نہ بنیں۔ اپنے معاملے خدا سے صاف رکھیں اور اپنا قبلہ درست رکھیں۔ اپنے دلوں کو پاک رکھیں، اپنے دلوں کے داغ دھونے کی کوشش کریں۔ دوسروں کے دل میں جھانکنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے، مرنے کے بعد نہ کسی دوسرے کا بوجھ ہمارے پلڑ ے میں ڈالنا ہے، نہ ہمارا بوجھ کسی دوسرے کے پلڑے میں ڈالنا ہے۔ پس دلوں کو پاک رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے دل میں ہمیشہ جھانکتے رہیں، اپنے گریبان پر ہمیشہ نظر رکھیں، اسی سے مولیٰ راضی ہو گا، اسی سے ماحول میں فتنہ و فساد ختم ہو گا۔ اسی سے اعلیٰ اخلاق قائم ہوں گے، اسی سے کینے دور ہوں گے۔ اسی سے ہر کوئی اپنے آپ کوبغض اور حسد کی آگ سے بچانے والا ہو گا۔ اور اسی سے اخلاقی معجزات دنیا کے سامنے آئیں گے۔ اور دنیا کو ہماری طرف توجہ پیدا ہو گی۔ لیکن اگر ہم ان گھٹیا باتوں میں ہی پڑے رہے کہ فلاں میرا اچھا کھانا برداشت نہیں کر سکتا یا فلاں، فلاں کام کیوں نہیں کرتا تو نہ کبھی کینے ختم ہو ں گے، نہ کبھی بغض ختم ہوں گے، نہ حسد ختم ہوں گے اور نہ اخلاقی معجزات رونما ہوں گے۔ یاد رکھیں یہی اخلاقی معجزات اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار تبلیغ کے میدان بھی ہمارے لئے کھولیں گے اور اگلی نسلوں کی تربیت کے سامان بھی پیدا کریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔:
’’یقینا یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا۔ مومن جس قدر متقی ہو جاتا ہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اورایذا کو پسند نہیں کرتا۔ مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہو سکتا ‘‘۔
فرماتے ہیں :’’ہم خود دیکھتے ہیں ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔ کوئی دکھ اور تکلیف جو پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچایا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کی ہزاروں خطائیں بخشنے کو اب بھی تیار ہیں۔ پس تم بھی جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو، یاد رکھو کہ تم ہرشخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلا تمیز مذہب و قوم ہر ایک سے نیکی کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 219جدید ایڈیشن)
تو دیکھیں یہ ہے آپؑ کا اسوہ، آپؑ کی ہم سے توقعات کہ غیروں سے بھی ہمدردی کرو۔ جب غیروں سے اس قدر سلوک کرنا ہے تو آپس میں کس قدر پیار و محبت سے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ مومن کی یہ نشانی بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان اور مکمل یقین رکھتے ہیں ان کا آپس کا سلوک

رُحَمَآء بَیْنَھُمْ (الفتح:30)

کا مصداق ہے۔یعنی آپس میں ایک دوسرے سے بہت ملا طفت کرنے والے ہیں۔ محبت اور پیار کا سلوک کرنے والے ہیں۔ اس لئے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے کے لئے اپنے معاملات میں جب تک شکوے شکایتیں بند نہیں کریں گے ان لوگوں میں شمار نہیں ہو سکتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہ تمام معیار کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک اللہ تعالیٰ سے مدد نہ مانگیں کیونکہ شیطان جو برائیوں پر اکسانے والا ہے اس کا مقابلہ خدا کی مدد اور اس کے رحم کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑ انا اور اس سے مدد مانگنا ضروری ہے۔ اس کے رحم کوجذب کرنے کے لئے یہ باتیں بھی ضروری ہیں اور اس کے ساتھ پاک دل ہو کر برائیوں سے بچنے کی کوشش بھی کی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے یہ نہایت سخت اور دیر پا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دور ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دور کرنے والی قوت ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کرکے پامال کر سکے اور وہ بھی خداتعالیٰ کے رحم سے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد 21 صفحہ206)
پس اس رحم کو جذب کرنے کے لئے جہاں خداتعالیٰ سے تعلق جوڑیں وہاں کوشش کریں کہ ان برائیوں کو دور بھی کیا جائے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس کا فضل اور رحم اور مدد طلب کرتے ہوئے ایک مصمّم اور پکے ارادے کے ساتھ برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ ہمیں ان ادنیٰ خواہشات اور نفسانی خواہشات سے بچاتا ہے۔ لیکن بظاہر دعا تو ہم خداتعالیٰ سے یہ مانگ رہے ہوں گے کہ اے اللہ! مجھے میرے نفس کے کینوں سے پاک کر، مجھے غصہ کی لعنت سے بچا۔ میرے اندر سے حسد کی بیماری دور کر لیکن اس کو دور کرنے کے جو طریقے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں ان کو ہم اختیار نہ کریں بلکہ ان برائیوں میں بڑھ رہے ہوں تو یہ دعا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعا نہیں ہو گی۔
اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اپنے غصے کو ٹھنڈا کرواور نہ صرف ٹھنڈا کرو بلکہ دوسرے کو معاف بھی کرو۔ اور نہ صرف معاف کرو بلکہ احسان کا سلوک بھی کرو۔ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم غصے میں ہو اور اگرکھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آیا ہے تو بیٹھ جاؤ۔ بیٹھے ہوئے ہو تو لیٹ جاؤ تاکہ تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو۔ منہ اور سر پر پانی کے چھینٹے ڈالو۔ وضو کرو۔ تو جب غصے ٹھنڈے کرنے کی کوشش کریں گے تو کینے بھی ختم ہوں گے اور حسد بھی ختم ہو گی۔ جو لوگ کام کرنے والے ہیں جو لوگ دین کا علم رکھنے والے ہیں وہ اگر اپنے رویے نہیں بدلیں گے تو دوسروں کو کیا کہہ سکتے ہیں۔ کام کرنے والوں سے میری مراد جماعتی خدمات کرنے والے ہیں۔ دوسروں کو کیا کہیں گے۔ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپنے نفس کو شیطان سے محفوظ رکھو۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو کام تم نہیں کرتے اس کے بارے میں دوسرے کو بھی نہ کہو۔ پہلے اپنے گریبان میں جھانکو پہلے اپنا محاسبہ کرو، پہلے اپنی اصلاح کرو پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ دو۔ پس ہر احمدی کو، ہر بڑے کو، ہر عہدیدار کو، ہر ذمہ دار کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے تبھی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو گی۔ اور تبھی جماعت کی ترقی کے سامان پہلے سے بڑھ کر پیدا ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لئے(جس کو اللہ تعالیٰ نمونہ کے طورپر انتخاب کرتا ہے‘‘۔ آپ نمونہ بن رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ:’’ اور وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے)…… اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں ‘‘۔ اور اپنے ہر ایک فعل اور حرکت و سکون میں نگاہ رکھے کہ وہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کے لئے ہدایت کا نمونہ قائم کرتا ہے‘‘……۔ پس ہر احمدی دوسرے کے لئے ہدایت کا نمونہ قائم کرنے والا ہے۔ فرمایا:’’نگاہ رکھے کہ وہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کے لئے ہدایت کا نمونہ قائم کرتا ہے یا کہ نہیں۔’’ اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہاں تک تدبیرکا حق ہے، تدبیر کرنی چاہئے اور کوئی دقیقہ(تدبیر کا) فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ یعنی کسی میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہئے۔’’ یاد رکھو‘‘ تقویٰ اور نیکی کے حصول کے لئے تدابیر میں لگے رہنا بھی ایک مخفی عبادت ہے۔ اگر نیکی اور تقویٰ چاہتے ہو تو اس کے لئے ’’تدبیر بھی ایک مخفی عبادت ہے اس کو حقیر مت سمجھو‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 201 جدید ایڈیشن)
یہ جو تم کوششیں کرتے ہو نیکی کرنے کی یا نیک اخلاق دکھانے کی اس کو چھوٹا مت سمجھو، تھوڑا مت سمجھو اور معمولی مت سمجھو۔ فرمایا:’’جب انسان اس کوشش میں لگا رہتا ہے تو عادت اللہ یہی ہے کہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راہ کھول دی جاتی ہے ‘‘جو بدیوں سے بچنے کی راہ ہے۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ201 حاشیہ نمبر 3 جدید ایڈیشن)
فرمایا: ’’مَیں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجے میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگاہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امّارہ خداتعالیٰ کے نزدیک لوّامہ ہوجاتا ہے۔ اور ایسی قابل قدر تبدیلی پالیتا ہے کہ یا تو وہ امارہ تھا جو لعنت کے قابل تھا …… یا اب جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خداتعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ نمبر202 جدید ایڈیشن)
نفس امّارہ اور لوّامہ کیا ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ امارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا۔ جذبات پھر بے قابو ہو جاتے ہیں، جلدی غصے میں آ جاتا ہے اور برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اندازے سے نکل جاتا ہے اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے۔ شیطان کے پنجے میں گویا گرفتار ہوتا ہے اور اس کی طرف بہت جھکتا ہے۔ لیکن لوّامہ کی حالت میں اپنی خطا کاریوں پر نادم ہوتا ہے اور شرمسار ہو کر خدا کی طرف جھکتا ہے۔ مگر اس حالت میں بھی ایک جنگ رہتی ہے کبھی شیطان کی طرف جھکتا ہے اور کبھی رحمن کی طرف۔ پس اگر ہم اللہ سے رحم مانگتے ہوئے رحمن کی طرف جھکنے کی کوشش کرتے رہیں گے تو ایک وقت ایسا آئے گا جس میں ایک نفس کی تیسری قسم بھی ہے جسے نفس مطمئنہ کہتے ہیں وہ حاصل ہو گی۔ کہ جو کام بھی کرنا ہے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنا ہے۔ یہی ایک راہ ہے جس سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ دل کو چین اور سکون ملتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
جس قدر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کے معیار کو بڑھاتا جائے گا اسی قدر وہ خدا کا قرب پانے والا ہو گا۔ یہ دنیاداری کی چھوٹی چھوٹی باتیں نفسانی خواہشات، نام و نمود، غصہ، حسد، جھوٹ،غرض کہ تمام برائیاں دور ہو جائیں گی۔ پس نفس مطمئنہ اور امّارہ کے درمیان لوّامہ ہے۔ انسان جتنا زیادہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے گا مطمئنہ کی طرف جھکتا چلا جائے گا۔ پس اصل چیز اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنے کی ہے۔ اپنے جائزے لیتے رہنے کی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو برا بھلا کہہ دیا تو جس کو بُرا بھلا کہا جاتا ہے وہ اس قدر غصے میں آ جاتا ہے کہ مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ جس طرح اس نے ساری زندگی برائی کی نہ ہو۔ فرمایا کہ اگر ہر کوئی اپنی برائیوں پر نظر رکھے تو کسی کے کچھ کہنے پر کبھی غصے میں نہ آئے اور صبر اور برداشت سے کام لے۔ اور جب ہر کوئی صبر اور برداشت سے کام لے گا تو بہت سے چھوٹے چھوٹے مسائل اور گلے شکوے پیدا ہی نہیں ہوں گے یا پیدا ہوتے ہی ختم ہو جائیں گے۔
ایک بزرگ کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ وہ بازارمیں جا رہے تھے تو ایک شخص نے ان کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور کوئی دنیا کا عیب یا برائی نہیں تھی جو اس نے نہ نکالی ہو یا ان کو نہ کہی ہو۔ وہ چپ کرکے یہ ساری باتیں سنتے رہے تو برا بھلا کہنے والا شخص جب خاموش ہو گیا تو ان بزرگ نے کہا کہ اگر تو یہ تمام برائیاں جو تم نے مجھ میں گنوائی ہیں واقعی میرے اندر موجود ہیں تو مَیں بھی اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں تم بھی میرے لئے مغفرت کی دعا کرو۔وہ گالیاں نکالنے والا شخص بے قرار ہو کر اس بزرگ سے چمٹ گیا اور کہا کہ مَیں غلط ہوں۔ یہ برائیاں آپ میں نہیں ہیں۔ تو ان بزرگ نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ تم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔
تو یہ طریق ہیں بات کو ختم کرنے اور نیکیوں کو پھیلانے کے ورنہ ایسے لوگ جو جھگڑے کرکے جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کاٹے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے واضح طور پر فرمایا ہے۔ پس اگر غلطیاں سرزد ہو جائیں تو صرف نظر سے کام لینا چاہئے۔ اور اگر کوئی حد سے تجاوز کر گیا ہے برداشت سے باہر ہوچکا ہے اور اس میں جماعت کی بدنامی کا بھی امکان ہے تو پھر متعلقہ بڑے نظام کو، نظام جماعت کو یا خلیفہ وقت کو اطلاع دے کر پھر خاموش ہو جانا چاہئے۔ دوسروں کو غیروں کو یاکسی بھی تیسرے شخص کو یہ احساس کبھی پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص یا فلاں فلاں عہدیدار ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد رکھتے ہیں۔ غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں۔ آج زید سے غلطی ہوئی ہے تو کل بکر سے بھی ہو سکتی ہے اس لئے کینے دلوں میں رکھتے ہوئے کبھی کسی بات کے پیچھے نہیں پڑ جانا چاہئے۔ہر ایک میں کئی خوبیاں اور اچھائیاں بھی ہوتی ہیں وہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ یہی چیز ہے جس سے محبت اور پیار کی فضا پیدا ہو گی۔ پس ہر ایک کو اپنے نمونے قائم کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ عہدیدار ہے یا عام احمدی ہے، مرد ہے یا عورت ہے۔ اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کریں۔ جب غیر معمولی مثالی نمونے ہر جگہ قائم ہوں گے تو جماعت کی تبلیغی لحاظ سے بھی ترقی ہو گی اور تربیتی لحاظ سے بھی ترقی کرے گی۔آئندہ نسلیں بھی احمدیت کی تعلیم پر حقیقی معنوں میں قائم ہونے والی پیدا ہوں گی بلکہ یہ نسلیں جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ بنیں گی۔ زبان ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے محبتیں بھی پنپتی ہیں اور قتل و غارت بھی ہوتی ہے۔ اس کا صحیح استعمال بھی انتہائی ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کے سوال پر اسلام کی یہ خوبی بیان فرمائی کہ وہ لایعنی باتوں کو چھوڑ دے۔ بلا مقصد کی بے تکی باتوں کو چھوڑ دے ایسی باتوں کو چھوڑ دے، جن سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اعلیٰ اخلاق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے، منافق کا جنازہ پڑھ دیا ہے بلکہ اپنا مبارک کرتہ بھی دے دیا ہے‘‘۔ فرمایا کہ:’’ اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے ‘‘اپنے آپ کو نہ دیکھتا رہے، ’’یہ اصلاح نہیں ہوتی۔ زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں۔اس لئے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے۔ دیکھو کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے۔ پھر وہ شخص کیسا بے وقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تربیت نہیں کرتا۔ ہرشخص کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ262جدید ایڈیشن)اور یہی گُر ہے جس کو اگر ہر فرد اپنا لے تو جماعت کی ایک امتیازی شان قائم ہو سکتی ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں۔ مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے۔ اگر خدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا۔ پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے! ‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 590جدید ایڈیشن)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت اعلیٰ مقصد کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔ آپ کی شرائط بیعت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
پس ہر احمدی جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شمار کرتا ہے اس پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ یہ عہد آپ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کر رہے ہیں۔ جس عہد کا مَیں ذکر کر رہا ہوں وہ عہد بیعت میں ہم نے کیا ہے۔ ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے دوسروں کوبھی کہنے کا ہمیں کیا حق ہے۔ پس جیسے کہ مَیں نے پہلے کہا تھا تبلیغی میدان میں ترقی کرنے کے لئے بھی اپنی عملی حالتوں کو درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے یہی فرمایا ہے کہ اگر تم خود اپنی اخلاقی حالتوں کو درست نہیں کر رہے تو دوسروں کو تم کیا کہو گے۔
پس اس حوالے سے دوسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں، اپنی عملی حالتوں کو درست کرتے ہوئے خدائے رحمن کا بندہ بنتے ہوئے اس کے اس خوبصورت اور حسین پیغام کو جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا اور جس کے پھیلانے کا کام اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے سپرد کیا ہے اس کو ملک میں پھیلائیں یہ اپنے جائزے لیں، دیکھیں، کہاں کہاں کمیاں ہیں، کہاں کمزوریاں ہیں ان کو پورا کرتے ہوئے اس کام کو بھی سنجیدگی سے سرانجام دینے کی کوشش کریں۔ اس میں ابھی بھی بہت بڑا خلا باقی ہے۔ جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیموں کا نظام بھی اس بارے میں پلاننگ کریں۔ صرف روایتی بک سٹال یا صرف عشرہ تبلیغ منانے سے مقصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ صرف اتنا کام ہی کامیابی نہیں دلائے گا اس کے لئے مزید پلاننگ بھی کرنی ہو گی۔ انفرادی رابطے ہیں اَور دوسری چیزیں ہیں۔ مختلف قوموں کے بارے میں جو یہاں آباد ہیں معلومات جمع کرکے پھر ان میں تبلیغ کے نئے ذرائع تلاش کریں، ہر طبقے کے پاس پہنچنے کی کوشش کریں اورپھر قائم شدہ رابطوں کو ہمیشہ قائم رکھیں، ان کے ساتھ مسلسل تعلق اور رابطہ رکھیں۔
اس ضمن میں یہ بھی بات کہنی چاہتا ہوں کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے بلکہ چند ایک جو احمدی ہوئے ہیں ان کی شکایت بھی ہے کہ یہاں اکثریت کیونکہ پاکستانیوں کی ہے یہ ہمیں اپنے اندر جذب نہیں کرتے۔ اجلاس وغیرہ میں بھی ایسی زبان ہونی چاہئے کہ جو یہاں کی زبان ہے یعنی انگریزی میں کارروائی ہو تاکہ جو یہاں جزائر سے آئے ہوئے احمدی ہیں وہ بھی سمجھ سکیں۔ گو اکثر کو اردو بھی آتی ہے لیکن انگریزی میں زیادہ آسانی ہے۔ یہاں کے رہنے والے بھی ہیں جو بچے یہاں پلے بڑھے ہیں ان کو بھی انگریزی زبان زیادہ سمجھ آجاتی ہے۔ سوائے چند ایک بڑی بوڑھیوں کے یا بوڑھوں کے یا اَن پڑھوں کے، جن کو سمجھ نہیں آتی ان کے لئے ترجمے کا انتظام ہو سکتا ہے۔ یا مختصراً اُردو میں کوئی پروگرام ہو سکتا ہے۔ تو بہرحال غیر پاکستانی احمدیوں کے یہ شکوے دور ہونے چاہئیں کہ ہم یہاں آ کر یوں محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم جماعت کا حصہ نہیں ہیں یہ بہت خطرناک صورت ہو سکتی ہے۔ ان نئے آنے والوں سے کام بھی لیں، ان کے شکوے دور کریں۔ مَیں نے جائزہ لیا ہے، ان نئے آنے والوں کے لئے بعض سے مَیں نے یہ پوچھا ہے یہ کس حد تک صحیح ہے، بہرحال مجھے ان سے جو معلومات ملی ہیں یہی ہیں کہ یہاں ان کو باقاعدہ کوئی سکھانے کا انتظام نہیں ہے۔ عورتوں کے لئے دینی تربیت کا، تعلیم کا انتظام لجنہ کرے۔ مردوں کے لئے ذیلی تنظیمیں انتظام کریں، مجموعی طور پر جماعت جائزہ لے۔ اگر اس سلسلے میں ذیلی تنظیمیں پوری طرح فعال نہیں تو جماعتی نظام کے تحت انتظام ہو اور نگرانی ہو۔ اور جو ذیلی تنظیمیں سست ہیں ان کے بارے میں مجھے اطلاع بھی دیں۔ تو جب اس طرح کام کریں گے تبھی ہر احمدی کو جماعت کا فعال حصہ بنائیں گے۔جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں بعض فجین احمدیوں کو بھی شکوہ ہے کہ بعض دفعہ یہاں آ کر وہ اپنے آپ کو اوپرا محسوس کرتے ہیں۔ توان سے مَیں کہتا ہوں اس کا ایک یہ بھی علاج ہے۔ وہ احمدی ہوئے ہیں انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور سمجھا ہے وہ اپنے آپ کو اتنا زیادہ جماعتی کاموں میں لگائیں کہ انتظامیہ ان سے کام لینے پر مجبور ہو۔ تبلیغ کا بہت بڑا میدان خالی پڑا ہے۔ ہر احمدی کے لئے کھلا ہے۔ اس میں آگے بڑھیں ذاتی رابطے کرکے اَور طریقے اپنا کر تبلیغ کا کام کریں۔ اس کام کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں۔ مردوں میں تو مَیں نے دیکھا ہے اللہ کے فضل سے نوجوانوں میں دوسری قوموں کے بھی کافی لڑکے کام کرنے والے ہیں۔ بعض عورتوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو اور عورتوں کو خاص طور پر چاہئے اپنی استعدادوں کے مطابق اور اپنے دائرے کے مطابق تبلیغ کے میدان میں آگے آئیں۔ بہرحال انصاراللہ کی تنظیم اور لجنہ اماء اللہ کی تنظیم اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم ان سب کو جائزے لینے چاہئیں کہ کیوں یہ شکوے پیدا ہوتے ہیں۔ چاہے وہ دو چار کی طرف سے ہی ہوں۔ لیکن شکوے رکھنے والے بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ انصاراللہ کے صدر بھی شاید فجی کے رہنے والے ہیں۔ وہ آسانی سے اپنے لوگوں کی نفسیات دیکھ کر پروگرام بنا سکتے ہیں۔ لجنہ کو بھی جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ غیر پاکستانی احمدیوں کی یا ایسے نوجوان پاکستانیوں کی جو لمبے عرصہ سے ملک سے باہر ہیں اور ان کا معاشرہ بالکل بدل چکا ہے ان کی فہرست بنائیں اور پھر دیکھیں کہ ان کو کس طرح جماعت کا فعال حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اپنی کوشش کریں تاکہ ان کے شکوے دور ہو جائیں۔ بہرحال اس کے لئے جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں دونوں طرف سے دلوں کو کھولنے اور بلند حوصلے دکھانے کی ضرورت ہے۔ ہر طبقے کو اپنے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا۔ ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت کا ایک نظام ہے اور یہ خلیفہ وقت کے ماتحت ہے اس لئے نظام کی اطاعت بھی فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر ایک کو تقویٰ پر چلتے ہوئے جہاں رحمن خدا سے تعلق جوڑنے کی توفیق دے وہاں اللہ تعالیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے اور اطاعت نظام کا پابند بننے کی بھی توفیق دے۔ اورآج سے آپ لوگوں میں وہ روح پیدا کر دے جس کا اثر ہر دیکھنے والے کو آپ میں نظر آئے۔ اور آپ لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو جلد از جلد اس ملک کی اکثریت میں پھیلانے والے ثابت ہوں۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں