خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 05؍مئی 2006ء

اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا۔
احمدی ہونے کے بعد اپنے نیک نمونے قائم کرنا اور احمدیت کے پیغام کو پہنچانا ہر احمدی کا فرض ہے
تبلیغ کے لئے مختلف جگہوں پر جا کر جائزہ لیں۔چھوٹی جگہوں پر پیغام پہنچانے اور قبولیت کے امکانات عموماً زیادہ ہوتے ہیں ۔
ایمان میں مضبوطی تبھی پیدا ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو۔ اور پھر یہ ہے کہ اپنے دینی علم میں اضافہ کرنے کی کوشش ہو۔عورتوں کو بھی دینی علم سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 05؍مئی 2006ء (05؍ہجرت 1385ہجری شمسی)بمقام مسجد’ بیت المقیت‘، آک لینڈ (نیوزی لینڈ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰ صَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ۔ (الاعراف:206)

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس خطبہ کے ساتھ جماعت احمدیہ نیوزی لینڈ کے جلسہ سالانہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی مرتبہ مختلف ملکوں کے جلسوں پر بتا چکا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے انعقاد کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر میں یہ تھا کہ آپؑ کے ماننے والوں کے دل اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے بن جائیں۔ اور ہر احمدی اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مالک بھی بن جائے۔ ایک احمدی اور غیر احمدی میں بڑا واضح فرق نظر آنے لگ جائے۔ پس جو جلسہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آج سے قریباً 116سال پہلے شروع فرمایا تھا۔ آج اسی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش پر عمل کرتے ہوئے اور اُن مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے تمام احمدی دنیا میں جلسہ سالانہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ پس آپ کا جلسہ بھی اسی مقصد کے لئے ہو رہا ہے۔اس لئے سال کے دوران اگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان مقاصد کو حاصل نہیں کر سکے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لئے بیان فرمائے ہیں، جس مقصد کے لئے آپؑ نے جماعت احمدیہ کا قیام فرمایا، جس مقصد کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا تو یہاں جب آپ خالصتاً روحانی ماحول حاصل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ (اس دوران ٹرین گزرنے کی آواز پر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ یہاں سے جہاز گزرتا ہے یا ٹرین گزرتی ہے۔ کہا گیا حضور! ٹرین گزرتی ہے تو حضور انور نے فرمایا آپ کی ٹرین بھی جہاز کی طرح ہے)۔ اور نہ صرف جلسہ کے ان دو دنوں میں اس بات کا خیال رکھیں بلکہ بعد میں بھی ا س طرف توجہ دیتے رہیں۔ تبھی ہم احمدیت کے پیغام کو احسن رنگ میں دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں،تبھی ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو خدا کے قریب لا سکتے ہیں۔اور اگر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا نہ کیں تو ہماری کسی بات کا اثر نہیں رہے گا۔ یہ جو ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے احمدیت کا پیغام ساری دنیا میں پھیلانا ہے اس کے لئے پہلے اپنے اندر بھی تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ پس ہر احمدی کواس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ہر وقت اس کے دل میں یہ احساس رہے کہ اب وہ احمدی ہو گیا ہے اور اگر اس میں کوئی پاک تبدیلی نظر نہ آئی تو اس کا احمدی ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، یہ احساس کہ مَیں احمدی ہوں اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہے تب ہو گا جب ہر وقت آپ کو یہ فکر رہے گی کہ میرے ہر عمل کو خداتعالیٰ دیکھ رہا ہے اور جب یہ احساس ہو گا کہ میرے ہر عمل کو، میرے ہر کام کو خدا دیکھ رہا ہے تو پھر اس کی یاد بھی دل میں رہے گی۔ پانچ وقت نمازوں کی طرف بھی توجہ رہے گی۔ اور اس کے باقی احکامات پر عمل کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تمام طاقتوں کا احساس رہے گا تو ہر وقت سوتے جاگتے، چلتے پھرتے اس کو یاد رکھیں گے۔ اور اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں گے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری زبانیں اس کے ذکر سے چلتے پھرتے تر رہیں گی تو ہر وقت نیکی کی باتوں کا احساس دل میں رہے گا۔ اور یہی نیکی کی باتوں کا احساس ہے جو پھر انسان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتاہے۔ یہ احساس پاک تبدیلیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
تو یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ توجہ دلائی ہے کہ عاجزی سے گڑ گڑاتے ہوئے اور اللہ کا خوف دل میں قائم رکھتے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے رہواور صبح شام اس کی پناہ مانگو، اس سے مدد مطلب کرو کہ وہ تمہیں صحیح راستے پرچلائے۔ اگر تم اس طرح نہیں کرو گے تو تم غافلوں میں شمار ہو گے۔ اور جیسا کہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو دم غافل سو دم کافر۔ تو اسلام قبول کرنے کے بعد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت میں داخل ہونے کے بعد پھر یہ غفلتیں !! بڑی فکرمندی کی بات ہے۔
پس ہمیں صبح و شام اللہ کے ذکر میں مشغول ر ہنے اور اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے دن ڈرتے ڈرتے بسر ہونے چاہئیں یعنی یہ فکر ہوکہ اللہ ہماری کسی زیادتی کی وجہ سے ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور جب یہ فکر ہو گی تو یقینا اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں رہے گا اور اس کی یاد بھی دل میں رہے گی۔اس کا ذکر بھی زبان پر رہے گا اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش بھی رہے گی۔ اس کی مخلوق سے اچھے تعلقات رکھنے کی طرف توجہ بھی رہے گی۔ نظام جماعت سے تعلق بھی رہے گا۔ خلافت سے وفا کا تعلق بھی رہے گا۔تو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوں گی۔
پھر آپؑ نے فرمایا ہے کہ تمہاری راتیں بھی اس بات کی گواہی دیں کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی۔ جب راتوں کو تقویٰ سے گزارنے کا خیال رہے گا تو ہر قسم کی لغویات اور بیہودگیوں سے انسان بچا رہے گا۔ آج کی دنیا میں ہزار قسم کی برائیاں اور آزادیاں ہیں اور ایسی دلچسپیوں کے سامان ہیں جو اللہ کے ذکر سے غافل رکھتے ہیں۔ پس یہ جو آج کل نام نہاد سلجھی ہوئی Civilised دنیا یا سوسائٹی میں چیزیں ہیں جس کو سوسائٹی میں بڑا رواج دیا جا رہا ہے اور بڑا پسند کیا جاتا ہے عورتوں مردوں کا میل ملاپ ہے، آپس میں گھلنا ملنا ہے، اٹھنا بیٹھنا ہے، نوجوانوں کا رات گئے تک مجلسیں لگانا ہے یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو اللہ کے ذکر سے دور کرنے والی ہیں۔پس ہر احمدی کو ہر وقت ایسی لغویات سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا چاہئے۔ہر ایسی چیز جو آپ کے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے میں روک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ چیزیں کبھی ذہنی سکون نہیں دے سکتیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ شاید یہ دنیا کی مادی چیزیں حاصل کرکے اس کو ذہنی سکون مل جائے گا حالانکہ ان دنیاوی چیزوں کے پیچھے جانے سے انہیں مزید حاصل کرنے کی حرص بڑھتی ہے اورکیونکہ ہر کوئی ہر چیز حاصل نہیں کر سکتا، اس کوشش میں بے سکونی بڑھتی چلی جاتی ہے۔
پس ہر احمدی کو ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس کے دل کا اطمینان اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہی ہے اورپھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ضمانت بھی دی ہے۔ دنیا میں بہت ساری چیزیں بیچنے والے، مارکیٹ کرنے والے، دنیاوی چیزیں بنانے والے بڑے بڑے اشتہار دیتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز خریدو تو 100فیصدی سکون یا Satisfactionمل جائے گی، تسلی ہو گی، لیکن کبھی ہوتی نہیں۔ جتنا بڑا چاہے کوئی دعویٰ کرے۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دیتا ہے کہ میرا ذکر کرنے والوں کو، حقیقی طور پر میرا ذکر کرنے والوں کو، ان حکموں پر عمل کرنے والوں کومَیں اطمینان قلب دوں گا۔ دل کو چین اور سکون ملے گا۔ جیسا کہ فرمایا

اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد:29)

یعنی سمجھ لو کہ اللہ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔ اور یہ ذکر نمازوں کے علاوہ بھی ہونا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہر وقت اللہ کی یاد یہ ذکر ہی ہے۔ اگر اللہ کا خوف دل میں رہے تو آدمی مختلف دعائیں مختلف وقتوں میں پڑھتا رہتا ہے۔ کئی کام اس لئے نہیں کرتا کہ اللہ کا خوف آ جاتا ہے۔ تو اس بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اللہ کا ذکر صرف نمازوں میں نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہے۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قَعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (آل عمران:191)

یعنی عقلمندانسان اور مومن وہی ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے بھی اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ہر وقت ان کے دل میں اللہ کی یاد ہوتی ہے۔ یہ صحیح مومن کی نشانی ہے کیونکہ اس ذکر سے ایمان بھی بڑھتا ہے اور انسان میں جرأت بھی پیدا ہوتی ہے۔
ایک اور جگہ اس بارے میں فرماتا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الانفال:46)

یعنی اے مومنو! جب تم کسی گروہ کے، کسی فوج کے مقابلہ پر آؤ تو قدم جمائے رکھو۔ اللہ کو بہت یاد کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ پس کسی برائی کے مقابلے پر کھڑا ہونے کے لئے،دل میں جرأت پیدا کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ شیطان بھی انسان کا بہت بڑا دشمن ہے۔ آج کی دنیا میں دجل کے مختلف طریقے ہیں۔ دجل مختلف قسم کی فوجوں کے ساتھ حملہ آور ہو رہا ہے اور ہمارے ترقی پذیر یا کم ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ ان ترقی یافتہ ملکوں میں آکر بھی اور اپنے ملک میں بھی ان کے حملوں کی وجہ سے ان کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ اور اس نام نہاد Civilized Society کی برائیاں فوراً اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس اُن کے حملوں سے بچنے کے لئے اور ہر قسم کے کمپلیکس (Complex) سے، احساس کمتری سے اپنے آپ کو آزاد رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر انتہائی ضروری ہے۔ اسی سے دلوں میں جرأت پیدا ہوگی، پاک تبدیلی پیدا ہوگی۔
اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے‘‘۔ فرمایا’’ پس جہاں تک ممکن ہو ذکر الٰہی کرتا رہے اسی سے اطمینان حاصل ہو گا۔ ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے۔ اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا‘‘۔ (الحکم جلد9 نمبر24۔مورخہ 10جولائی 1905صفحہ 9)
پس مستقل مزاجی سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے۔ اگر بے صبری دکھائی جائے تو پھر اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔ اگر بے صبری دکھاؤ گے توپھر شیطان کے مقابلے کی طاقت نہیں رہے گی۔ اگر راستے میں ہی چھوڑ دو گے پھر پاک تبدیلیاں پیدا نہیں ہو سکیں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد:29)

کی حقیقت اور فلاسفی یہ ہے کہ :’’جب انسان سچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے اِس سے اُس کے دل پر ایک خوف عظمت الٰہی کا پیدا ہوتا ہے۔ وہ خوف اُس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اورطہارت میں ترقی کرتا ہے‘‘۔(الحکم جلد 9نمبر32مورخہ 10ستمبر1905صفحہ 8)
پس اس معاشرے کی بے شمار مکروہات ہیں، جیسا کہ مَیں پہلے بتا آیا ہوں ان سے بچنے کے لئے ذکر الٰہی بہت ضروری ہے اور اس سے پھر عمل کرنے کی بھی توفیق ملے گی جو ایک احمدی کو دوسروں سے ممتاز کرے گی۔ ایک فرق ظاہر ہو گا کہ احمدی اور غیر وں میں کیا فرق ہے۔ پس احمدیوں کو اپنے اندر یہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ آپ کے نمونے دیکھ کر دوسرے آپ کی باتیں سن سکیں اور جب باتیں سنیں گے تو یقینا یہ باتیں دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کا باعث بنیں گی۔ کیونکہ اس زمانے میں آج کل کے علماء نے اسلام کی ایسی غلط تشریح کرکے جس سے اسلام کے بالکل الٹ تصویر ابھرتی ہے، اسلام کو پیش کیا ہے۔ جو لوگ غیر مسلم ہیں وہ اسلام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے جبکہ اسلام کی حقیقی تعلیم جو کہ ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائی ہے، ایسی خوبصورت ہے کہ ہر کوئی اس کی طرف کھینچا چلا آتا ہے۔
پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ احمدی ہونے کے بعد اپنے نیک نمونے قائم کرنا اور احمدیت کے پیغام کو پہنچانا ہر احمدی کا کام اور اس کا فرض ہے۔ یہاں آپ میں سے اکثریت فجی سے آئے ہوئے احمدیوں کی ہے۔ چند فیملیاں پاکستان سے بھی آئی ہوئی ہیں۔ یاد رکھیں جو بھی فجین یاپاکستانی یہاں ہیں سب کا کام اس پیغام کو پہنچانا ہے۔ لیکن فجی کے حوالے سے مَیں بات کرتا ہوں کہ فجی میں احمدیت کوئی چالیس پچاس سال پہلے آئی تھی اور جماعت کے وہ بزرگ جن کو جماعت میں شمولیت کی توفیق ملی انہوں نے اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کیں۔ جماعت کی خاطر قربانی بھی دی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اپنے ہم قوموں تک بھی پہنچایا۔ اورپھر دیکھ لیں تھوڑے عرصے میں انہوں نے کافی بیعتیں کروائیں۔ اب جبکہ اُس وقت کے مقابلے میں آپ کی تعداد بھی کافی ہے، سہولتیں بھی زیادہ ہیں فجی میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی۔ لیکن اس توجہ کے ساتھ بیعتیں کروانے کی طرف کوشش نہیں ہو رہی جو پہلوں نے کی۔ یہاں سے فجی والے بھی سن رہے ہیں، اتفاق سے وقت بھی ایک ہے۔ تو جو فجی میں رہتے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنی تبلیغ کی کوششوں کو تیز کریں اور اپنے عملی نمونے دکھائیں اپنے اندر اسلام کی صحیح روح پیدا کریں۔ آپ لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں آپ بھی اس کوشش میں رہیں۔ اس پیغام کو آگے پہنچائیں۔ اپنے عملی نمونے بھی دکھائیں۔ یہاں تبلیغ کے لئے مختلف جگہوں پر جاکر جائزہ لیں ، چھوٹی چھوٹی جگہوں پر جائیں۔ گزشتہ سالوں میں دو تین دفعہ مَیں اس طرف توجہ دلا چکاہوں کہ چھوٹی جگہوں پر پیغام پہنچانے اور قبولیت کے امکانات عموماً زیادہ ہوتے ہیں، خاص طور پر تیسری دنیا میں۔ اُن کی مخالفت اگر ہوتی ہے تو لاعلمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دنیاداری کی وجہ سے عموماً نہیں ہوتی۔ پھر مختلف قوموں کے لوگ ہیں، فجی میں بھی اور یہاں بھی ہیں۔ آسٹریلیا میں بھی ہیں۔ یہ جوسارا علاقہ ہے ان تک پہنچیں۔اُن کی زبان میں اُن کو لٹریچر دیں، ان سے مسلسل رابطے رکھیں۔ تعلقات بڑھائیں۔ پھر آپ کے اپنے اندر جو آپ کی اپنی طبیعتیں ہیں، رویے ہیں اگران میں بھی پاک تبدیلیاں ہوں گی تو آپ لوگ ان کو دوسروں سے مختلف نظر آئیں گے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا، جب یہ چیزیں ان کو نظر آ رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی آپ کی زبانوں پر ہو گا تو یہ جو مسلسل رابطے اور تعلق ہیں وہ دوسروں کو آپ کے قریب لائیں گے۔
پھر ان ملکوں میں ہمارے چند بچھڑے ہوئے احمدی بھائی بھی ہیں جو لاہوری کہلاتے ہیں۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صرف مجدد مانتے ہیں اور خلافت کو نہیں مانتے۔ ان میں سے بھی بعض پہلے مختلف جگہوں پہ مجھے ملے ہیں ، شاید یہاں بھی ہوں، اور بعض بڑے اچھے طریقے سے، شرافت سے ملے۔ تو ان سے بھی اگر مسلسل رابطے کے ذریعے سے ان کو بتاتے رہیں اور ان کے لئے دعائیں بھی کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دل بدلنے پر قادر ہے۔ بہرحال یہ سب کچھ کرنے کے لئے یعنی تبلیغی میدان میں آنے کے لئے ایک تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھنا ضروری ہے۔ دوسرے اس پاک تبدیلی کے ساتھ جس حد تک اپنے دینی علم کو بڑھا سکیں، ہر عمر اور ہر طبقے کے لحاظ سے اس علم کے حاصل کرنے کے لئے مختلف معیار ہوں گے تو کوشش کرکے یہ حاصل کرنا چاہئے۔
پھر بعض بنیادی چیزیں ہیں جو مَیں نے نوٹ کی ہیں۔ یہاں تو ابھی جائزہ نہیں لیا لیکن پیچھے لیتا آیا ہوں۔ جماعت کے متعلق، اسلام کے متعلق جن کو بنیادی چیزیں پتہ نہیں ہیں ان کو سیکھنی چاہئیں۔ عورتوں اور نوجوانوں کو بھی اس میں ہمیں شامل کرنا ہو گا۔ بعض احمدی ہیں لیکن یہ نہیں پتہ کہ احمدیت کیا چیز ہے۔کیوں احمدی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ۃ والسلام کے بارے میں کیا پیشگوئیاں فرمائی تھیں۔ کیا کیاپوری ہو گئیں اور اس طرح کے مختلف سوال ہیں۔ اور جب تک ہمارے سارے طبقے بشمول عورتیں، کیونکہ عورتوں کو ساتھ لے کے چلنا بھی ضروری ہے ان کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو مکمل کامیابیاں نہیں ہو سکتیں۔گاؤں کی رہنے والی عورتوں کو عموماً اس بارے میں علم نہیں ہوتا کہ ہم احمدی کیا ہیں ؟ کیوں ہیں ؟ اور اس وجہ سے پھر وہ اپنی اگلی نسلوں کو بھی نہیں سنبھال سکتیں۔ نہ تبلیغ کر سکتی ہیں۔گاؤں میں رہنے والوں کی مثال تو مَیں نے فجی کی دی ہے یہ میرا وہاں کا جائزہ تھا۔ یہاں نسبتاً پڑھی لکھی عورتیں آئی ہیں لیکن یہاں آ کر حالات بہتر ہونے کی وجہ سے ان عورتوں کی دلچسپیاں نہ بدل جائیں۔ ایمان میں مضبوطی تبھی پیدا ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو۔ اور پھر یہ ہے کہ اپنے دینی علم میں اضافہ کرنے کی کوشش ہو۔ پس عورتوں کو بھی دینی علم سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔ خاص طور پر ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے میں دینی علم سکھانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اور پھر ایک مہم کی صورت میں ہر مرد،عورت، جوان، بوڑھا احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوشش میں لگ جائے اس سے جہاں آپ کی اپنی حالت بہتر ہو گی، اپنی تربیت کی طرف توجہ پیدا ہو گی وہاں تبلیغ کے لئے بھی نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے۔ وہاں بعض خاندانوں کے یہ مسائل بھی حل ہوں گے جو احمدی بچوں کے دوسرے مذاہب میں رشتے کی وجہ سے، شادیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ پھر علم ہونے کی وجہ سے اور اس علم کو پھیلانے کی وجہ سے خلاف تعلیم رشتوں کی طرف زیادہ رجحان نہیں رہے گا۔ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ قربانی کے معیار بھی بڑھ رہے ہوں گے۔
نیوزی لینڈ میں جماعت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ تقریباً تمام لوگ ہی ابتدائی احمدیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں کو خا ص طور پر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے، اپنی اصلاح کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ اور پھر تبلیغ کے میدان میں بھی آنا چاہئے۔ اپنے دینی علم کو بھی بڑھانا چاہئے۔ اگر آپ یہ کوشش کریں اور اگر پلاننگ کی جائے تو جس طرح آپ کے بڑوں نے کیا جیسا کہ مَیں نے کہا تھا تو آپ یہ پیغام بڑی جلدی بعض جگہوں پر پہنچا سکتے ہیں۔
مَیں پہلے رشتوں کی بات کررہا تھا۔ ضمناً یہاں یہ بھی بتا دوں کہ مجھے پتہ ہے رشتوں کے بڑے مسائل ہیں خاص طور پر لڑکیوں کے رشتوں کے کیونکہ مَیں نے عموماً دیکھا ہے شاید چھوٹی جگہوں پر بھی ہوں۔ فجی وغیرہ میں ماشاء اللہ لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں۔ یہاں بھی رشتے ہیں۔ آسٹریلیا میں بھی اور جگہوں پر بھی ہیں۔ تو اس کے لئے ایک توجماعت کا رشتہ ناطہ کانظام ہے اس کو فعّال ہونا چاہئے۔ اور ویسے اگر پتہ لگے تو باہر بھی کوشش ہو سکتی ہے۔ اس لئے یہ جو آپ کے یہاں چارپانچ ملک ہیں ان میں باقاعدہ اس کا ہر جگہ ریکارڈ رکھا جانا چاہئے۔ بہرحال یہ تو ضمنًا بات تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں اللہ کا قرب پانے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیداکرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اور اس ضمن میں اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ خداتعالیٰ کی نصرت انہیں کے شامل حال ہوتی ہے جوہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں۔ ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان میں بڑا شوق ذوق اور شدت رقّت ہوتی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں ‘‘۔ ایک وقت میں تو دین کی طرف بڑی توجہ ہو رہی ہوتی ہے، لیکن پھر جا کے ٹھہر جاتے ہیں کیونکہ ترقی کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔’’ اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ

اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ (الاحقاف:16)

میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما۔اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں۔ اور اکثر بیوی کی وجہ سے ‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 456۔جدید ایڈیشن)
تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے، جائزہ لیں تو یہ 100فیصد حقیقت نظر آئے گی کہ ان ملکوں میں بعض خاندان اس لئے بھی ابتلا میں پڑ گئے کہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ غیروں میں شادیاں کرنے سے نسلیں برباد ہو جاتی ہیں اور دین سے دور چلی جاتی ہیں۔ کئی ایسے دور ہٹے ہوئے ہیں جن کو اب ہٹنے کا احساس ہو رہا ہے۔ یہاں جو خاندان آئے ہیں ان کے حالات اپنے پہلے ملک کی نسبت بہرحال بہتر ہیں۔ یہ بہتری آپ کو دین سے دُور لے جانے والی اور اپنی قدروں اور اپنی تعلیم اور اپنی روایات کو بھلا نے والی نہیں ہونی چاہئے۔ بعض دفعہ وہ جو غلطی کرتے ہیں پھر نظام جماعت کی طرف سے بعض دفعہ کوئی سختی ہو تو پھر نظام کو الزام دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو گئی یا جماعت سے نکال دیا گیا یا ہماری بدنامی کی گئی۔ اگر اللہ تعا لیٰ سے تعلق ہو گا اور دین کا علم ہو گا تو یہ صورتحال کبھی پیدا نہیں ہو گی۔ پس خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی جماعت سے اور خلافت سے تعلق جوڑے رکھیں اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ہمیشہ یاد رکھیں۔
ایک روایت میں آتا ہے شھر بن حوشبؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت ام سلمہؓ سے کہا اے ام المومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کے پاس ہوتے تھے تو کونسی دعا بکثرت کیاکرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا آپؐ اکثر یہ د عا کرتے کہ اے دلوں کے الٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثبات بخش، ثابت قدم رکھ۔ آپؐ نے فرمایا اے اُمّ سلمہ! ہر آدمی کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جس کے لئے چاہے اس کو قائم کر دے اور جس کے متعلق چاہے اس کو ٹیڑھا کر دے۔ (ترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید)
پس ہر احمدی کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو دے دی ہے۔ اس کو ہمیشہ دلوں میں بٹھائے رکھیں لیکن یہ بغیر اللہ کے فضلوں کے نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ اس کا ذکر کرنا ہے اس کو یاد رکھنا ہے۔ پس اپنے اندر بھی اور اپنی اولادوں کو بھی اس کی عادت ڈال دیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل جو ہر قسم کے شرک سے پاک تھا، جس پر اللہ تعالیٰ کی پاک وحی نازل ہوئی اگر آپ اس کثرت سے دعا کرتے تھے تو ہمیں اس کی طرف کس قدر توجہ دینی چاہئے۔ پس ہمیں چاہئے کہ اس نعمت کی قدر کریں، اللہ سے مدد مانگیں، توبہ و استغفار کرتے ہوئے ہمیشہ اس کے آگے جھکے رہیں تاکہ حقیقت میں اسلام کی صحیح تعلیم پیش کرنے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں آپؑ کا اقتباس پڑھتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ:’’ حدیث میں آیا ہے کہ

اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّاذَنْبَ لَہٗ۔

کہ اب جو تم لوگوں نے بیعت کی تو اب خداتعالیٰ سے نیا حساب شروع ہواہے‘‘۔ کہ گناہوں سے توبہ کر لی ہے، اسی طرح ہو گیا جس طرح کوئی گناہ نہیں کیا۔ تو اب نیا حساب شروع ہو گا۔ ’’پہلے گناہ صدق و اخلاص کے ساتھ بیعت کرنے پر بخشے جاتے ہیں۔اب ہر ایک کا اختیار ہے کہ اپنے لئے بہشت بنا لے یا جہنم۔ انسان پر دو قسم کے حقوق ہیں۔ ایک تو اللہ کے اور دوسرے عباد کے۔ پہلے میں تو اسی وقت نقصان ہوتا ہے جب دیدہ دانستہ کسی امراللہ کی مخالفت قو لی یا عملی کی جائے‘‘۔ آدمی کسی بھی صورت میں خداتعالیٰ کے حکم کے مخالف چلے۔ ’’مگر دوسرے حقوق کی نسبت بہت کچھ بچ بچ کے رہنے کا مقام ہے۔ کئی چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جنہیں انسان بعض اوقات سمجھتا بھی نہیں۔ ہماری جماعت کو تو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ دشمن پکار اٹھیں کہ گو یہ ہمارے مخالف ہیں مگر ہیں ہم سے اچھے۔ اپنی عملی حالت کو ایسا درست رکھو کہ دشمن بھی تمہاری نیکی، خدا ترسی اور اتقا کے قائل ہو جائیں ‘‘۔ تمہارے عمل ایسے ہو جائیں کہ دشمن بھی یہ کہے کہ یہ نیک آدمی ہے اور تقویٰ پر چلنے والا ہے۔
فرمایا کہ:’’ یہ بھی یاد رکھو کہ خداتعالیٰ کی نظرجذرِ قلب تک پہنچتی ہے پس وہ زبانی باتوں سے خوش نہیں ہوتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ دل کو اچھی طرح جانتا ہے۔’’ زبان سے کلمہ پڑھنا یا استغفار کرنا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے جب وہ دل و جان سے کلمہ یا استغفار نہ پڑھے۔ بعض لوگ زبان سے اَ سْتَغْفِرُاللہ کرتے جاتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ اس سے کیا مراد ہے۔ مطلب تو یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کی معافی خلوص دل سے چاہی جائے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز رہنے کا عہد باندھا جائے۔ اور ساتھ ہی اس کے فضل و امداد کی درخواست کی جائے۔ اگر اس حقیقت کے ساتھ استغفار نہیں ہے تو وہ استغفار کسی کام کا نہیں۔ انسان کی خوبی اسی میں ہے کہ وہ عذاب آنے سے پہلے اس کے حضور میں جھک جائے اور اس کا امن مانگتا رہے۔ عذاب آنے پر گڑ گڑانا اور وَقِنَا وَقِنَا پکارنا تو سب قوموں میں یکساں ہے۔‘‘
اب یہ علاقے بھی ایسے ہیں کہ یہاں مختلف وقتوں میں زلزلوں کا خطرہ رہتا ہے۔ سونامی کا خطرہ رہتا ہے۔ کل بھی ایک خطرہ پیدا ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ٹال دیا۔ تو اس شکر گزاری کے طورپر بھی مزید اس کے آگے جھکنا چاہئے۔ اس کے ذکر سے زبانیں تر رکھنی چاہئیں۔ اگر وہ تباہی آتی تو بہت بڑی تباہی آ سکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو دور فرمایا۔ تو ہمیشہ اللہ کے حضور جھکے رہنا چاہئے۔
فرمایا کہ:’’ ایسے وقت میں جبکہ خدا کاعذاب چاروں طرف سے محاصر ہ کئے ہوئے ہو ایک عیسائی،ایک آریہ، ایک چوہڑا بھی اس وقت پکار اٹھتا ہے کہ الٰہی ہمیں بچائیو۔ اگر مومن بھی ایسا کرے تو پھر اس میں اور غیروں میں فرق کیا ہوا۔ مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ عذاب آنے سے قبل خداتعالیٰ کے کلام پر ایمان لا کر خداتعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے‘‘۔
فرمایا کہ:’’ اس نکتہ کو خوب یاد رکھو کہ مومن وہی ہے جو عذاب آنے سے پہلے کلام الٰہی پر یقین کرکے عذاب کووارد سمجھے اور اپنے بچاؤ کے لئے دعا کرے۔ دیکھو ایک آدمی جو توبہ کرتا ہے، دعامیں لگا رہتا ہے تو وہ صرف اپنے پر نہیں بلکہ اپنے بال بچوں پر، اپنے قریبیوں پر رحم کرتا ہے کہ وہ سب ایک کے لئے بچائے جا سکتے ہیں ‘‘۔ اگر نیک آدمی ہو تو اللہ تعالیٰ اس جگہ سے عذاب کو ٹال دیتا ہے اور اس کی وجہ سے پھر ساروں کا فائدہ ہو جاتا ہے۔ تو’’ ایسا ہی جو غفلت کرتا ہے تو نہ صرف اپنے لئے برا کرتا ہے بلکہ اپنے تمام کنبے کا بدخواہ ہے‘‘۔
فرمایا کہ:’’ ایک انسان جو دعا نہیں کرتا اس میں ا ور چار پائے میں کچھ فرق نہیں ‘‘۔ یعنی اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔’’ ایسے لوگوں کی نسبت خداتعالیٰ فرماتا ہے

یَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْا َنْعَامُ وَ النَّارُ مَثْوًیْ لَّھُمْ (سورۃ محمد:13)

یعنی چار پایوں (جانوروں)کی زندگی بسر کرتے ہیں اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ پس تمہاری بیعت کا اقرار اگر زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی۔ چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں۔ مَیں ہرگز یہ بات نہیں مان سکتا کہ خداتعالیٰ کاعذاب اس شخص پر وارد ہو جس کا معاملہ خداتعالیٰ سے صاف ہو۔ خداتعالیٰ اسے ذلیل نہیں کرتا جو اس کی راہ میں ذلت اور عاجزی اختیار کرے۔یہ سچی اور صحیح بات ہے۔…راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو۔ کوٹھڑی کے دروازے بند کرکے تنہائی میں دعا کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اپنا معاملہ صاف رکھو کہ خدا کا فضل تمہارے شامل حال ہو۔ جو کام کرو نفسانی غرض سے الگ ہو کر کرو تا خداتعالیٰ کے حضور اجر پاؤ‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 271-272جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالتے ہوئے اسلامی تعلیم کا صحیح نمونہ بن جائیں اور اللہ کا قرب پانے والے ہوں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس پاک چشمہ سے سیراب کرنے والے ہوں۔ اور یہ جلسے کے دن حقیقت میں سب میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔ اور آپ میں ان پاک تبدیلیوں کی وجہ سے اس ملک میں مقامی لوگوں میں بھی اسلام کا خوبصورت پیغام جلد سے جلد پھیل جائے۔جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ان دو دنوں کو خاص طور پر دعاؤں اور ذکر الٰہی میں گزاریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں