خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍جولائی 2008ء

اگر نمازوں اور عبادت کی طرف پوری توجہ نہیں تو پھر اس جلسہ کے بہت بڑے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں بن رہے ہوں گے۔
ان دنوں میں خالص نمازوں اور عبادتوں اور دعاؤں کی طرف توجہ رکھیں کیونکہ یہی ہمارا یہاں جمع ہونے کا مقصد ہے۔
جلسہ کے ماحول میں بھی اور اس سے باہر اپنے ماحول میں بھی سلام کو رواج دیں۔ پیار و محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کریں تاکہ ان دعاؤں سے بھی حصہ پانے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں
(مہمانان جلسہ اور انتظامیہ کے لئے جلسہ کی مناسبت سے اہم ہدایات)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 25؍جولائی 2008ء بمطابق25؍وفا 1387 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی۔ آلٹن۔ ہمپشائر (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج انشاء اللہ باقاعدہ افتتاح کے ساتھ شام کو جماعت احمدیہ یو۔ کے کا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے۔ اس سال کا جلسہ سالانہ خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے اور اس سو سال میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور نصرتوں کی بارش کے شکرانے کے لئے جمع ہونے کی وجہ سے یہ جلسہ ایک خاص اہمیت کا جلسہ بن گیا ہے، بوڑھے، جوان، مرد، عورت، ہر احمدی کے دل میں اس کی خاص اہمیت ہے اور اس اہمیت کے پیش نظر اس سال جماعت احمدیہ برطانیہ کی انتظامیہ نے اندرون ملک بھی اور بیرون از برطانیہ بھی زیادہ مہمانوں کی متوقع آمد کے پیش نظر اپنے انتظامات میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور مجھے امید ہے کہ معمولی کمیوں کے علاوہ جو ایسے وسیع انتظامات میں جو عارضی بنیادوں پر کئے گئے رہ جاتی ہیں، عمومی طور پر انتظامات اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر رہیں گے۔ انشاء اللہ۔
ایک لمبے تجربہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کارکنان کو اپنے اپنے کاموں کا ماہر بنا دیا ہے اور اس پر جب ایک احمدی کا جذبۂ ایمان بھی شامل ہو جائے تو پھر تو کارکنوں کے کام میں ایک دیوانگی ہوتی ہے اور اس سال تو جیسا کہ مَیں نے کہا خلافت جوبلی کا جلسہ بھی ہے۔ ہر کارکن بچے، جوان، بوڑھے میں ایک خاص جذبہ ہے اور یہ جذبہ اس سال خاص رنگ میں جہاں جہاں بھی جلسے ہو رہے ہیں، جن جن ملکوں میں بھی مَیں گیا ہوں نظر آرہا ہے۔ چاہے وہ گھانا اور نائیجیریا کی پرانی جماعتوں کے جلسے ہوں یا بینن کی نئی جماعت کا جلسہ سالانہ یا امریکہ یا کینیڈا کا جلسہ۔
امریکہ کے احمدیوں کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں، پتہ نہیں کیوں دوسری دنیا کے احمدیوں کو یہ خیال تھا کہ وہاں کے جلسہ میں وہ جوش اور رونق نہیں ہو گی جو باقی دنیا میں نظر آتی ہے۔ اکثر خطوں میں اب بھی جو مجھے آرہے ہیں اس کا ذکر ہوتا ہے۔ شاید اس لئے یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ جو عمومی تاثر امریکہ کے بارے میں ہے اس میں ہمارے احمدی بھی رنگے گئے ہوں گے کیونکہ کافی تعداد وہیں پلے بڑھے نوجوانوں کی ہے۔ لیکن ایک تو یہ عمومی تاثر عوام کے بارہ میں بھی غلط ہے۔ عمومی طور پر وہاں کے عوام بہت اچھے ہیں اور جہاں تک احمدی کا سوال ہے جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، وہ کسی بھی طرح کم نہیں ہیں، الحمدللہ۔ یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کی برکت ہے۔
بہرحال آج تو برطانیہ کے جلسہ کا ذکر ہونا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے عارضی انتظامات کے لحاظ سے تو اتنے وسیع انتظامات سخت قانونی پابندیوں کے ساتھ کہیں بھی نہیں ہوتے۔ تعداد کے لحاظ سے بھی، گزشتہ چند سالوں سے جو جلسے ہو رہے ہیں ان میں جرمنی اور برطانیہ کے جلسے برابر ہوتے ہیں۔ اس سال گھانا کا جلسہ تعداد کے لحاظ سے بہت آگے نکل گیا تھا۔
پاکستان کا مَیں نے ذکر نہیں کیا کیونکہ وہاں تو نام نہاد حق و انصاف اور آزادی کا دعویٰ کرنے والی حکومتیں گزشتہ 24سال سے ہمیں جلسے کرنے نہیں دے رہیں۔ پتہ نہیں اس امن پسند جماعت سے ان لوگوں کوکیا خوف ہے۔ جلسہ کے ان دنوں میں مَیں آپ لوگوں کو یہ بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے حالات کے لئے بہت دعا کریں۔ ایک تو عمومی ملکی حالات کے لئے بھی کہ پتہ نہیں حکمران ملک کو کس طرف لے جا رہے ہیں اور اس ملک کا کیا کرنا چاہتے ہیں۔ جب گزشتہ الیکشن ہوئے تومولوی کو اس سال حکومت نہیں ملی تو وہ اپنی فطرت کے مطابق اس کا پورے ملک سے بدلہ لے رہا ہے اور جگہ جگہ فساد کرکے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور حکمران اور سیاستدان باوجود اس حقیقت کے ظاہر ہو جانے کے کہ عوام نے کس طرح عمومی طور پر الیکشن میں انہیں ردّ کیا ہے، مُلّاں سے خوفزدہ ہیں۔ اور بجائے اس کے کہ ان کی مفسدانہ حرکتوں کو سختی سے کچلیں ان کے آگے یوں جھکے ہوئے ہیں، یوں ان سے باتیں ہوتی ہیں جیسے ان کے زیرنگیں ہوں۔
بہرحال اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے۔ دوسرے پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں، احمدی آزادی سے اپنے جو بھی فنکشنز ہیں وہ منعقد کر سکیں، سُکھ کا سانس لے سکیں، اپنے جلسے پوری شان و شوکت سے منعقد کرسکیں، ظالمانہ قانون کا خاتمہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ان اربابِ حل و عقد کو عقل دے جو اس بات کو سمجھتے نہیں کہ کس طرف وہ جا رہے ہیں اور کیا ان کے ساتھ ہونے والا ہے۔ ان دنوں میں خاص طور پر پاکستان سے آئے ہوئے احمدی پاکستان کے لئے بھی اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی بہت دعائیں کریں۔
پھر مَیں واپس یوکے (UK) کی طرف لوٹتا ہوں۔ گزشتہ جمعہ میں مَیں نے کارکنان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ یہ میرا طریق ہے جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کارکنان صحیح کام نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر دوسری جماعت کی طرح یہاں کے کارکنان بھی بہت جذبہ سے کام کرتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہاکہ اتنے وسیع عارضی انتظامات اور ان کے لئے لمبی تیاری بھی اتنی زیادہ کہیں نہیں ہوتی جتنی یہاں ہوتی ہے۔ جرمنی کا جلسہ گو تعداد کے لحاظ سے یو۔کے (UK) کے جلسہ کے برابر ہے لیکن ان کو کافی سہولتیں جلسہ گاہ میں میسر آجاتی ہیں جو یہاں نہیں ہیں۔ گزشتہ سال کارکنوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک نیا تجربہ کرا دیا۔ یعنی موسم کی وجہ سے بارشوں نے کافی نظام درہم برہم کر دیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے کارکنان نے بڑے احسن رنگ میں ان مشکل حالات میں بھی اپنی ڈیوٹیاں دیں۔ مشکلات کا سامنا اپنے اپنے دائرے میں ہر شعبے کو کرنا پڑتا ہے اور اس لئے گزشتہ سال کرنا پڑا۔
اس سال بظاہر تو موسم کی پیشگوئیاں اچھی ہیں۔ خدا کرے کہ اچھی رہیں، دعائیں کرتے رہیں۔ اصلی کنجی تو ہر بات اور ہر چیز کی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے فضل کے بغیر تو کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ چاہے تو یہ موسمی پیشگوئیاں سچ ثابت ہوتی ہیں۔ انسان کا تو ایک اندازہ ہے جس پر بنیاد کرکے وہ موسم کا حال بتاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ گزشتہ سال کے موسم کا ایک فائدہ ہوا ہے کہ خدام کو نئے تجربے ہو گئے۔ خدام جو ابھی تک صاف سڑکوں اور خشک جگہوں کے ماہر تھے، اب کیچڑ کے بھی ماہر ہو گئے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ’’ہمارا گُرو کھوبے کا ماڑا ہے‘‘، لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے گُرو کی بات نہیں اب ہمارے خدام بھی باوجود یو۔کے (UK) میں رہنے کے کھوبے کے ماہر ہو گئے ہیں۔ اب میرے خیال میں کوئی گاڑی کیچڑ میں پھنس بھی جائے تو ان کی ٹریننگ اتنی ہو گئی ہے کہ آرام سے نکال سکتے ہیں۔
بہرحال آنے والے مہمانوں سے مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کارکنان تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت سے کام کرتے ہیں اور انشاء اللہ کریں گے۔ لیکن مہمانوں کی بھی کچھ ذمہ د اریاں ہیں۔ جنہیں نبھانا آپ کا فرض ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ خالصتاً یہاں جلسہ میں شامل ہونے کا مقصد للّٰہی ہونا چاہئے۔ اس لئے اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور اس میں سب سے اہم چیز نمازوں کی ادائیگی ہے۔ صرف جلسہ میں بیٹھ کر، دلچسپی کی چند تقریریں سن کر آپ کے اس سفر کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ بلکہ ان دنوں میں ہر ایک ایسی پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ ان دنوں میں کی گئی عبادتیں اور نمازیں جلسہ میں شامل ہونے والوں کی زندگی کا ایک دائمی حصہ بن جائیں۔ ایسی نمازیں ہوں جن میں صرف خشوع و خضوع نہ ہو، تمام نمازیں وقت پر پڑھنے کی کوشش بھی کریں۔ بلکہ یہ لازمی کریں کہ باجماعت نمازیں ادا کرنی ہیں۔
یہاں نمازوں اور جلسہ کے دوران بازار عموماً بند رہتے ہیں۔ اس لئے نئے آنے والے مہمان اور پرانے مہمان بھی اس طرف جانے کی کوشش نہ کریں۔ بعض دفعہ بلاوجہ قواعد توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر اس طرح یہ زیادتی کرکے کارکنان کے لئے بھی مشکل کا باعث نہ بنیں۔ پھر یہاں جلسہ گاہ میں تو عموماً جلسہ کے دنوں میں اجتماعی تہجد کے لئے انتظام ہو گا اور یہاں لوگ آتے بھی ہیں لیکن دوسری قیام گاہوں میں بھی ان کے رہنے والے بھی اس بات کی پابندی کریں۔ اسلام آباد میں اجتماعی قیام گاہ ہے اسی طرح بیت الفتوح میں ہو گی، وہاں بھی تہجد اور فجر کی نماز کی پابندی کی کوشش کریں۔ پھر ایک بہت بڑی تعداد گھروں میں رہ رہی ہے۔ وہ بھی اگر کوئی سنٹر نزدیک ہے یا اس تک پہنچنا آسان ہے تو فجر اور مغرب عشاء سے اگرپہلے چلے گئے ہیں تو مغرب عشاء کی نمازیں باجماعت سنٹر یا مسجد میں جا کر ادا کرنے کی کوشش کریں۔ لندن میں رہنے والے جو لوگ ہیں، روزانہ جانے والے، خود بھی اس کی پابندی کریں اور اپنے مہمانوں کو بھی اس کی پابندی کروائیں۔ اگر نمازوں اور عبادت کی طرف پوری توجہ نہیں تو پھر اس جلسہ کے بہت بڑے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں بن رہے ہوں گے۔ کوئی تقریر فائدہ نہیں دے سکتی یا اس تقریر سے علمی حظ اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں اگر نمازوں کی طرف پورے شوق اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو ادا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ یہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے اس لئے بہت بڑی تعداد یہاں آئی ہے، مطلب یہ کہ خلافت جوبلی کے سال میں ہونے والا پہلاجلسہ ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس دفعہ اکثریت اس حوالے سے اور اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے جلسہ میں شامل ہو رہی ہے۔
پس جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نعمت کا ذکر فرمایااور فرمایا کہ وہ مومنین کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا تو اس آیت میں یہ بتایا کہ وہ لوگ میری عبادت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرانے کی وجہ سے ان پر یہ انعام ہو گا کہ ان کو خلافت کی وجہ سے تمکنت عطا ہو گی اور پھر یہ بات انہیں مزید عبادت کی طرف توجہ دلانے والی ہو گی۔
اور پھر اگلی آیت جو اس آیت استخلاف کے بعد آتی ہے، اس کے شروع میں ہی فرمایا

وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ (النور:57)

کہ عبادت کے لئے بنیادی چیز اور شریک نہ ٹھہرانے کے لئے پہلا قدم ہی نماز کا قیام ہے۔ اور قیام نماز کیا ہے؟ باجماعت نماز پڑھنا، سنوار کر نماز پڑھنا اور وقت پر نماز پڑھنا۔ نماز کے مقابلے میں ہر دوسری چیز کو ہیچ سمجھنا، کوئی حیثیت نہ دینا۔ پس ان دنوں میں تمام آنے والے مہمان، تمام جلسے میں شامل ہونے والے لوگ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دیں اور پھر صرف ان دنوں میں نہیں بلکہ ان دنوں میں یہ دعا بھی خاص طور پر کریں اور کوشش کریں کہ ان دنوں کی نماز کی عادت ہمیشہ آپ کی زندگیوں کا حصہ بن جائے تااس نعمت سے حصہ لیتے رہیں جو خلافت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ اور جو انفرادی طورپربھی ہر احمدی کے لئے تمکنت کا باعث بنے گی اور جماعتی طور پر بھی تمکنت کا باعث بنے گی اگر ہماری عبادتیں زندہ رہیں۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت ان دنوں میں خاص طورپر کریں کہ یہی ہمارا بنیادی مقصد ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے‘‘۔ فرمایا:’’ایمان کی جڑ بھی نمازہی ہے‘‘۔
پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ

وَعَدَاﷲُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْامِنْکُمْ

یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ

لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْض

کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ تو ہر احمدی کو اس انعام سے فیض پانے کے لئے ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمان کی جڑ بھی نماز ہے اس جڑکو پکڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بلکہ اس کی جڑیں ہمیں اپنے دل میں اس طرح لگانی ہوں گی کہ جو چاہے گزر جائے لیکن اس جڑ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ کسی بھی حالت میں اس جڑ کو نقصان نہ پہنچے۔ کیونکہ اس کو نقصان پہنچنا یا نمازوں میں کمزوری دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان میں کمزوری پیدا ہو رہی ہے اور ایمان میں کمزوری جو پیدا ہو گئی تو خلافت سے تعلق بھی کمزور ہو گا۔ پس ان دنوں میں جب آپ خاص دنوں میں جمع ہوئے ہیں تو اپنی نمازوں کی حفاظت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نمازیں پھر ہماری حفاظت کریں۔ ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پاتے ہوئے اس کے نام کے ہمیشہ وارث بنتے رہیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے کیا ہے۔
نماز میں دعاؤں کے طریق اور اس کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’نماز تضرع اور انکسار سے ادا کرنی چاہئے اور اس میں دین اور دنیا کے لئے بہت دعا کرنی چاہئے‘‘۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’وَالَّذِیْنَ ھُم عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (المومنون:10)

یعنی ایسے لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور کبھی ناغہ نہیں کرتے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شے ہے جس سے تمام مشکلات آسان ہو جاتی ہیں اور سب بلائیں دُور ہوتی ہیں۔ مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں۔ بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے اور پھر یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ نماز کی حفاظت اس واسطے نہیں کی جاتی کہ خدا کو ضرورت ہے۔ خداتعالیٰ کو ہماری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو غَنِی عَنِ الْعَالَمِیْن ہے۔ اس کو کسی کی حاجت نہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کو ضرورت ہے اور یہ ایک راز کی بات ہے کہ انسان خود اپنی بھلائی چاہتا ہے اور اس لئے وہ خدا سے مدد طلب کرتا ہے۔ کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ انسان کا خداتعالیٰ سے تعلق ہو جانا حقیقی بھلائی حاصل کر لینا ہے۔ ایسے شخص کی اگر تمام دنیا دشمن ہو جائے اور اس کی ہلاکت کے درپے رہے تو اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور خداتعالیٰ کو ایسے شخص کی خاطر اگر لاکھوں کروڑوں انسان بھی اگر ہلاک کرنے پڑیں تو ہلاک کر دیتا ہے۔ یاد رکھو نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی‘‘۔
فرمایا:’’نماز تو ایسی چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے، مگر اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگا رہے اس طرح کا خشوع و خضوع پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو‘‘۔
پس یہ دن اللہ تعالیٰ نے پھر ہمیں میسر فرمائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنی نمازوں کو سنواریں اور دعاؤں میں دن رات گزاریں۔ خداتعالیٰ سے اُن انعاموں کے طالب ہوں، وہ نمازیں خداتعالیٰ ہمارے نصیب کرے جو ہر طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچانے والی ہوں۔ ان دنوں میں ہمیں ایسی دعائیں مانگنے کی توفیق ملے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو جذب کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیں اس کی رحمتوں اور فضلوں کا وارث بناتے چلے جانے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مخالفین کو سمجھ اور ہدایت دے اور اگر اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ان کا یہ مقدر نہیں تو ہمیں اُن کے شر سے بچانے کے ہمیشہ سامان فرماتا رہے۔ پس ان دنوں میں خالص نمازوں اور عبادتوں اور دعاؤں کی طرف توجہ رکھیں کیونکہ یہی ہمارا یہاں جمع ہونے کا مقصد ہے۔
جلسہ پر آنے والے ہر احمدی کو سب سے پہلے یہ بنیادی مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ دوسری بات جو مَیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جلسہ کے دنوں میں سلام کو رواج دیں۔ خداتعالیٰ نے جو ہمیں احکام دئیے ہیں ان میں یہ بھی بڑا بنیادی حکم ہے اور آپس کے پیار و محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے۔
پھر آنے والے مہمان یہ بھی یاد رکھیں کہ گو میزبان پر مہمان کا بہت حق ہے لیکن بعض ذمہ داریاں مہمان کی بھی ہیں۔ ایک حکم ہمیں قرآن کریم میں سورۃ احزاب میں آیا ہے جو کہ آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ہے لیکن یہ مہمان کے لئے ایک بنیادی حکم ہے جسے عمومی طور پر تو ہر مہمان کو جو کسی بھی مقصد کے لئے مہمان بن کر کسی کے ہاں جائے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے، لیکن جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو خصوصیت سے یہ یاد رکھنا چاہئے۔ کیونکہ جلسہ پر آنے والے مہمان ایک خاص مقصد کے لئے آتے ہیں اور خاص طور پرجماعتی نظام کے تحت ٹھہرنے والے مہمان تو اس کا خاص اہتمام کریں۔
پہلی بات یہ ہے کہ بن بلائے مہمان نہ جاؤ۔ آنحضرت ﷺ کا اُسوہ حسنہ اس میں ہمارے سامنے ہے کہ ایک دعوت میں جب مقررہ تعداد سے زیادہ لوگ آپؐ کے ساتھ شامل ہو کرچلے اور ایک شخص زائد تھاجو ان لوگوں میں شامل ہو گیا، باتیں کرتا ہوا اس گھر تک پہنچ گیا جہاں کھانے کی دعوت دی گئی تھی۔ تو آپؐ نے گھر والے سے اجازت لی کہ اس طرح میرے ساتھ یہ زائد شخص آگیا ہے، اگر تم چاہو تو میرے ساتھ اندر داخل ہو جائے، اگر نہیں تو بغیر کسی تکلف اور پریشانی اور شرمندگی کے بتا دو تو مَیں اس کو کہوں گاکہ واپس چلا جائے۔
پس ایک تو یہ کہ باہر سے آنے والے یاد رکھیں گو کہ جلسہ پر آئے ہیں، دعوت پر آئے ہیں، بغیر دعوت کے نہیں آئے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جماعتی مہمان نوازی ایک معینہ مدت تک کے لئے ہے۔ اس کے بعد ضد کرکے بعض لوگ ٹھہرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات پھر بن بلائے والی بات اور بعدمیں پھرتکلیف دینے والی بات بن جاتی ہے۔ بعض لمبے عرصہ کی ٹکٹوں کی تاریخیں لے کر آتے ہیں اور اس کے بعد یہ عذرپیش کرتے ہیں کہ اب کیا کریں مجبوری ہے اور پھر اس عرصہ میں کام وغیرہ بھی کرتے ہیں۔ تو اگر مجبوری ہے تو جو رقم کما رہے ہیں اس میں سے خرچ کریں اور اپنے اخراجات خود پورے کریں اور جماعت پر بوجھ نہ بنیں۔ اتنا لمبا عرصہ رہنے والوں کی وجہ سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی پیدا ہوئے اس سے پہلے بھی پیدا ہوتے رہے اور ان کو جگہ خالی کرنے کے لئے کہا جاتا ہے تو پھر سب ایسے لوگوں کو شکوہ ہوتا ہے۔ پھر قانونی طور پر کام کی اجازت نہیں ہے۔ ویزا جو ملا ہوتا ہے وہ وزٹ ویزا ہوتا ہے اس لئے بعض مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں، بعض مسائل ہوتے ہیں۔ جماعت کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر حکومتی اداروں کو پتہ چل جائے اور بعض کے متعلق پتہ چل بھی جاتا ہے۔ اس لئے چند ایک وہ لوگ جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں ان سے مَیں کہہ رہا ہوں کہ اگر اس طرح بعد میں رہنا ہے تو اپنا انتظام خود کریں اور جماعت سے کسی قسم کا شکوہ نہ کریں کیونکہ جلسہ کے بعد لمبا عرصہ رہنا پھر اس زمرہ میں آئے گا کہ دعوت کے بعد بیٹھ کر گھر والے کو تکلیف دے رہے ہیں اور اس کے لئے تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔
پھر ایک بات یہ بھی مہمانوں کو یاد رکھنی چاہئے کہ ان کی خدمات کرنے والے مختلف طبقات سے کارکنان آتے ہیں بہت پڑھے لکھے بھی ہیں اور عام پڑھے لکھے بھی ہیں اور مختلف پیشوں میں کام کرنے والے بھی ہیں۔ یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور شوق سے پیش کرتے ہیں۔ عموماً ہر کارکن بڑی خوشدلی سے یہ کر رہا ہوتا ہے اور ہر کام کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ مَیں بھی انہیں جلسہ سے پہلے دو تین مرتبہ ہر طرح سے مہمانوں کا خیال رکھنے اور ان کی خدمت کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ لیکن اگر کبھی کسی سے کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو مہمانوں کو بھی برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر ہرمہمان اور ہر شخص جو جلسہ میں شامل ہو رہا ہے اپنی بھی ذمہ داری سمجھے تو بعض بدمزگیاں جو پیدا ہو جاتی ہیں، نہ ہوں۔
گزشتہ سال کی بارش کی وجہ سے جو نظام میں دقت پیدا ہوئی، بعض خرابیاں ان کمیوں کی وجہ سے آئیں اس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کارکنان اور مسافروں میں بعض چھوٹی چھوٹی بدمزگیاں پیدا ہوئیں اور اب بھی مجھے شکایت ملی ہے بعض مہمان ایسے ہیں کہ مثلاً سڑکوں پہ گاڑیاں روکنا منع ہیں۔ حکومتی انتظامیہ کی طرف سے بھی منع ہے، ہمسایوں کے لئے بھی دقت کا باعث بنتا ہے۔ کسی چھوٹے شہر میں، قصبے میں گاڑی کھڑی کر دیتے ہیں۔ سختی سے بار بار ایم ٹی اے پر اعلان بھی ہو رہا ہے جماعتوں کو بتایا بھی گیا ہے لیکن اس کے باوجود بعض یورپ سے آنے والے اپنی گاڑیاں کھڑی کرکے ٹیکسی پر آجاتے ہیں۔ یہ بالکل غلط طریق ہے، قواعد کی پابندی کریں۔ اگر اس مقصد کے لئے آئے ہیں کہ جلسے کی برکات سے فائدہ اٹھانا ہے۔ کارکنوں کو بھی اگر بعض بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں تو کارکن بھی بعض دفعہ تیز ہو جاتے ہیں۔ ان کو بھی انسان سمجھ کر ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے صرف نظر کرنا سیکھیں تو بدمزگیاں نہ صرف بڑھیں گی نہیں بلکہ پیدا ہی نہیں ہوں گی۔
پھر کھانے کے وقت میں بعض دفعہ عورتیں اور بچے یا ایسے مریض جن کو شوگر وغیرہ کی بیماری ہے، بھوک برداشت نہیں کر سکتے ان کو لمبے فاقے کی وجہ سے دقت پیدا ہوتی ہے، وہ لمبا فاقہ نہیں کر سکتے۔ اگر کسی وجہ سے پروگرام لمبا ہو جاتا ہے یا ٹریفک کی وجہ سے کسی کو زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ بچوں والوں اور مریضوں کو بعض دفعہ کھانے کی حاجت ہوتی ہے جیسا کہ مَیں نے کہا۔ تو اس بارے میں پہلے تو کارکنوں کو مَیں کہتا ہوں کہ اتنی سختی نہ کیا کریں کہ ایسے لوگوں کے لئے پروگرام کے دوران بھی اگر کسی کو ضرورت پڑتی ہے کیونکہ دکانیں تو بند ہوں گی تو کھانے کا انتظام کر دیا کریں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دوسرے ایسے بچوں والے اور مریض جلسے کے ہنگامی حالات کے پیش نظر اپنی جیب میں بھی کوئی چیز کھانے کی رکھ لیا کریں تاکہ کسی بھی قسم کی بدمزگی سے بچ سکیں، تکلیف سے بچ سکیں۔
پھر ٹرانسپورٹ کے انتظارمیں بھی وقت لگ سکتا ہے۔ گو کہ اس دفعہ انتظام گزشتہ سال کی نسبت بہت بہترہے، انشاء اللہ تعالیٰ دقت نہیں ہو گی۔ لیکن پھر بھی کسی امکان کو ہم ردّ نہیں کر سکتے۔ خاص طور پر واپسی کے وقت جب زیادہ رش پڑ جاتا ہے اُس وقت بعض دقتیں پیدا ہو سکتی ہیں تو انتظامیہ بھی ایسی ہنگامی صورتحال کے لئے جہاں جہاں بھی بسوں کے سٹینڈ بنائے گئے ہیں جہاں سے مسافروں کو اٹھانے کا انتظام ہے، (مسافر) اپنے پاس بھی کچھ رکھیں اور ضیافت کی ٹیم کا بھی کام ہے کہ ان کے سپردکچھ کر دیا کریں اور کچھ نہیں تو پیٹا بریڈ (Pita Bread)کے پیکٹ رکھ دیا کریں تاکہ فوری طور پر اگر دیر ہو جاتی ہے تو ہنگامی طور پر کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جائے۔
گزشتہ سال بھی بعض ایسی شکایات آتی رہی ہیں لیکن مہمانوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ میزبان کا جو فرض ہے وہ تو پوراکرے گا لیکن مہمانوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے تو اس اُسوہ پر چلنا ہے جو آنحضرت ﷺ کا تھا یا جس کے نمونے ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دکھائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کس قسم کے مہمان تھے اس کا ایک نمونہ بھی دیکھ لیں، مَیں نے ایک روایت میں سے نکالا ہے۔ میزبانوں کے نمونے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے مَیں نے گزشتہ خطبہ میں پیش کئے تھے۔ لیکن آپؑ جب مہمان تھے تو کس طرح ان کے مہمان تھے۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ جنگ مقدس (جنگ مقدس وہ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور عیسائیوں کے درمیان ایک مباحثہ ہوا تھا اور عبداللہ آتھم عیسائیوں کی طرف سے پیش ہوا تھا۔ آپ سفر پر گئے تھے وہاں آپؑ مہمان تھے۔ )کی تقریب پر بہت سے مہمان جمع ہو گئے تھے۔ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے کھانا رکھنا یا وقت پہ کھانا پیش کرنا گھر والے بھول گئے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنی اہلیہ کو تاکید کی ہوئی تھی مگر وہ کثرت کاروبار اور مشغولیت کی وجہ سے بھول گئی۔ یہاں تک کہ رات کا بہت بڑا حصہ گزر گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے انتظار کے بعد استفسار فرمایا تو سب کو فکر ہوئی۔ بازار بھی بند ہو چکا تھا اور کھانانہ مل سکا۔ حضرتؑ کے حضور صورتحال کا اظہار کیا گیا۔ آپؑ نے فرمایا اس قدر گھبراہٹ اور تکلّف کی کیا ضرورت ہے۔ دستر خوان میں دیکھ لو کچھ بچا ہوا ہو گا، وہی کافی ہے۔
دستر خوان میں دیکھا تو اس میں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے۔ آپؑ نے فرمایا یہی کافی ہیں اور ان میں سے ایک دو ٹکڑے لے کر کھا لئے اور بس۔
لکھتے ہیں بظاہر یہ واقعہ معمولی معلوم ہو گا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سادگی اور بے تکلفی کا ایک حیرت انگیز اخلاقی معجزہ نمایاں ہے۔ کھانے کے لئے اس وقت نئے سر ے انتظام ہو سکتا تھا اور اس میں سب کو خوشی ہوتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ساری رات بیٹھ کر بھی پکانا پڑتا تو اس میں ایسی کیا بات تھی خوشی محسوس کرتے۔ مگر آپؑ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ بے وقت تکلیف دی جاوے اور نہ اس بات کی پرواہ کی کہ پُر تکلف کھانا آپ کے لئے نہیں آیااور نہ اس غفلت اور بے پرواہی پر کسی سے جواب طلب کیا اور نہ خفگی کا اظہار کیا۔ بلکہ نہایت خوشی اور کشادہ پیشانی سے دوسروں کے لئے گھبراہٹ کو دُور کر دیا۔
پس اگر کسی بھول چوک یا ہنگامی حالت کی وجہ سے کسی کی مہمان نوازی میں کمی رہ بھی جائے تو کسی قسم کا غصہ کرنے کی بجائے ہمیشہ یہ مدنظر رکھیں کہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟ سینکڑوں یا ہزاروں میل کا سفر کرکے آنے کے باوجود اگر اس مقصد کو پیش نظر نہیں رکھتے، اپنی روحانی، اخلاقی اور علمی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں کرتے تو یہاں جلسہ پر آنے کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں ہیں۔
گزشتہ دورہ میں جب مَیں نے افریقہ کا دورہ کیا ہے، مَیں نے اس کا اپنے خطبہ میں ذکر بھی کیا تھا کہ بینن سے آئے ہوئے لوگوں کو، آئیوری کوسٹ سے آئے ہوئے بعض لوگوں کو بعض وجوہات کی وجہ سے ایک وقت کھانا نہیں مل سکا۔ لیکن جب ان سے کہا گیا اور معذرت کی گئی۔ ان کا انتظام نئے سرے سے ہو گیا تو انہوں نے کہا اس معذرت کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم جس مقصد کے لئے آئے ہیں وہ ہمارا مقصد پورا ہو گیا ہے اور جلسہ پر ہم شامل ہو گئے ہیں اور خلیفۂ وقت کی موجودگی میں جلسہ ہوا اس میں شامل ہوگئے ہیں۔ تو یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم کہتے ہیں کہ افریقہ میں نئے آنے والے۔ نئے آنے والے ایمان میں ترقی کرنے والے بنتے چلے جا رہے ہیں۔
پھرچھوٹی چھوٹی باتوں کا شکوہ بسا اوقات عورتوں کی طرف سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے تمام مہمان یاد رکھیں کہ چاہے مرد ہوں یا عورتیں۔ اگر میزبانوں کی طرف کی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں تو مہمانوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور فرائض ہیں۔ مہمان صرف حقوق نہیں رکھتا جیسا کہ مَیں بیان کر آیا ہوں۔
آنحضرت ﷺ نے تو مہمان کی مہمان نوازی کا حق تین دن کے بعد ختم کر دیا۔ اس کے بعد تو میزبان کا احسان ہے جو وہ مہمان پر کرتا ہے۔ ایک احمدی مہمان جب جلسہ سالانہ پر مہمان بن کر آتا ہے تو اس کا مقصد مہمان نوازی کروانا نہیں ہوتا بلکہ وہ طریق سیکھنا ہوتا ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر سکے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کر سکے۔ اور اگر ان باتوں کا علم پہلے سے ہے، حقوق ادا کرنے والا ہے، نہ صرف علم ہے بلکہ کرنے والا ہے تو اس میں جلسے کی برکت سے مزید جلا پیدا کر سکے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر اجتماعی طور پر کی گئی دعاؤں سے حصہ لینے والا بن کرپہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بن سکے۔
پس ان دنوں میں نمازوں اور دعاؤں پر زور دیں، نوافل کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں۔ جلسہ کے ماحول میں بھی اور اس سے باہر اپنے ماحول میں بھی سلام کو رواج دیں۔ پیار و محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کریں تاکہ ان دعاؤں سے بھی حصہ پانے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں اور جو بھی ان کے حصول کی نیک نیتی سے خواہش کر ے گا اور اس کے لئے کوشش کرے گا تو ہمیشہ ہر ملک کے جلسے میں شامل ہونے والوں کو یہ دعائیں فیض پہنچاتی رہتی ہیں، یہاں بھی فیض پہنچائیں گی۔
جماعت کی ترقی کی ضمانت جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کے لئے کی گئی دعاؤں کی قبولیت کی ضمانت بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دی۔ اور اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان دعاؤں کے پیچھے وہ دعائیں بھی کام کر رہی ہیں بلکہ وہ دعائیں ہی کام کر رہی ہیں جو آنحضرت ﷺ نے اپنی اُمّت کے ان افرادکے لئے کی ہیں جو آپ ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہوئے۔ پس ان دعاؤں سے حصہ دار بننا اب ہماے اعمال پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
انتظا می طور پر بھی چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ ہر شخص اپنے ماحول پر نظر رکھے۔ جتنی تعداد بڑھ رہی ہے جلسے میں آنے والوں کی، اور اس سال خاص طورپر حالات کی وجہ سے، حالات اور اپنے ماحول پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ کوئی اجنبی مشکوک چہرہ اگر آپ دیکھیں تو فوراًانتظامیہ کو بتائیں۔ جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے اپنے ارد گرد نظر رکھیں۔ کوئی شخص اگر کسی جگہ اپنی کوئی چیز چھوڑ کر اٹھتا ہے تو فوراً اس کو توجہ دلائیں۔ اگر کوئی چیز بیگ یا لفافے وغیرہ، کوئی چیز ہو، پڑی ہوئی دیکھیں تو انتظامیہ کو توجہ دلائیں۔ سیکیورٹی والے بھی خاص طور پر اس پر نظر رکھیں۔ خاص طور پر خواتین کے جلسے میں، ان کی مارکی میں بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کوئی عورت جلسہ گاہ میں منہ ڈھانک کر نہ بیٹھے۔ اگر کوئی ایسے بیٹھی ہو تو سیکیورٹی والوں کا کام ہے، ساتھ بیٹھے ہوؤں کا کام ہے کہ کوشش کرکے اس کا چہرہ دیکھیں۔
پھر صفائی کا خیال رکھیں۔ آپ کو جو پروگرام یہاں چھپا ہے اس میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں بھی ان سب باتوں کا ذکر ہے ان کو غور سے پڑھیں۔ عموماً ہدایات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور یہ عمومی حالت ہے۔ جہاز پر بھی جب ہم سفر کرتے ہیں تو عموماً جو زیادہ سفر کرنے والے لوگ ہیں وہ جو سفر کی اناؤنسمنٹ (Announcement) ہوتی ہے، سفر کی ہدایات کی اگر ایسی ہنگامی صورت ہو جائے تو یہ یہ کرنا ہے، عموماً اس کو ایک رسم سمجھ کے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن ان کو غور سے سننا چاہئے۔ مَیں تو ہمیشہ ہر سفرمیں غور سے دیکھتا ہوں۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بات نئے زاویے سے سامنے آجاتی ہے بلکہ مَیں تو اس کے بعد ان کا کارڈبھی پڑھتا ہوں۔ بعض مسافر شاید اس لئے نہ سننا چاہتے ہوں کہ وہم کی وجہ سے ان کی طبیعت نہ خراب ہو جائے، اس لئے وہم کرنے کی بجائے اور خوفزدہ ہونے کی بجائے یہ ہدایات سن کر اپنے لئے بھی، مسافروں کو توویسے بھی سفر میں دعائیں کرتے رہنا چاہئے، اور باقی مسافروں کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ ان کو بلکہ ایسے حالات میں موقع مل جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ہمارے کچھ عزیز امریکہ میں دریا کی سیر کے لئے گئے۔ وہاں دریا میں چٹانیں اور تیز لہریں بھی ہیں۔ ان ملکوں میں ہنگامی تقاضے کی وجہ سے وہ بڑی ہدایات دیتے ہیں۔ تو عزیزہ نے مجھے بتایا کہ جب وہ ہدایات دے رہے تھے تو ہم سرسری طورپر ان کو کانوں سے سن رہے تھے، ان ہدایات کو نہیں دیکھا اور اتفاق ایسا ہوا کہ کشتی کو حادثہ پیش آگیا اور کشتی الٹ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا سب بچ گئے لیکن اس وقت کہتی ہیں ہمیں ہر ہدایت یاد آنی شروع ہوئی۔ جس کو جو بھی ہدایت یاد تھی اس نے اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ تو ہدایات فائدہ کے لئے ہوتی ہیں اور ہر موقع کے لئے جو ہدایات دی جاتی ہیں وہ اس موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہوتی ہیں اس لئے ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہم جلسہ پر آتے رہے ہیں، سرسری طور پر بعض ہدایات دیکھتے ہیں کہ پچھلے 24سال سے یا 25 سال سے یا سو سال سے ہم یہ ہدایات سن رہے ہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق یہ پڑتا ہے کہ پھر بے احتیاطی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اور بے احتیاطی سے پھر انسان نقصان اٹھاتا ہے۔ پس ہدایات جہاں کی بھی ہوں ہمیشہ غور سے دیکھنی چاہئیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تو ان جلسہ کی ہدایات کو بھی غور سے دیکھیں اور خاص طور پر سیکیورٹی، صفائی اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات اور سلام کو رواج دینا اور نمازوں کی باجماعت ادائیگی کی طرف خاص توجہ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ اس جلسے میں شامل ہونے والوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر لحاظ سے یہاں جلسہ میں شامل ہونا سب کے لئے بابرکت ہو۔ دعاؤں کی توفیق ملتی رہے۔ انتظامیہ سے بھی ہر لحاظ سے مکمل تعاون کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں