چند انصار مرحومین کا ذکرخیر

مطبوعہ رسالہ انصارالدین لندن- مئی جون 2020ء

چند انصار مرحومین کا ذکرخیر
(مرتبہ: ناصر محمود پاشا)

مکرم رانا نعیم الدین صاحب
مکرم رانا نعیم الدین صاحب ابن مکرم فیروز دین منشی صاحب کی وفات 9؍اپریل 2020ء کو ہوئی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍اپریل میں آپ کا ذکرخیر فرمایا۔ حضورانور نے فرمایا کہ مکرم رانا صاحب بڑے عرصے سے بیمار تھے۔ مختلف عوارض سے کئی دفعہ ہسپتال جاتے تھے۔ ڈاکٹر کہتے تھے اب آخری وقت ہے پھر اللہ تعالیٰ فضل فرما دیتا تھا، تو ٹھیک ہو کے آ جاتے تھے اور جب بھی ٹھیک ہوتے تھے، چلنے کے قابل ہوتے تھے تو یہاں مسجد میں بھی آجایا کرتے تھے۔ بہرحال ان کی یہ آخری بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور ان کی وفات ہوئی۔
مکرم رانا صاحب کی پیدائش قریباً 1932ء کی ہے۔ ان کے والد محترم فیروز دین صاحب نے 1906ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بذریعہ خط بیعت کی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد مکرم رانا صاحب پہلے لاہور میں ہی رہے۔ پھر 1948ء میں ربوہ آگئے اور اپنے آپ کو فرقان بٹالین کے لیے پیش کیا۔ فرقان بٹالین کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے آپ کو میرپورخاص کے قریب زمینوں پر بھجوا دیا جہاں یہ چند سال رہے۔ نظامِ وصیت میں 1951ء میں شامل ہوئے۔ عملہ حفاظتِ خاص میں آپ کا تقرر 3؍اگست 1954ء کو ریزرو آن ڈیوٹی کے طور پر ہوا اور اس کے بعد پھر نومبر 1955ء سے 11؍مئی 1959ء تک عملہ حفاظتِ خاص میں بطور گارڈ رہے۔ 1978ء میں عملہ حفاظت سے فارغ ہوکر ہڑپہ ضلع ساہیوال چلے گئے اور بعد ازاں ساہیوال مسجد میں بطور خادم مسجد خدمت کرتے رہے۔ اس دوران اکتوبر 1984ء میں احمدیہ مسجد ساہیوال پر جب مخالفین نے حملہ کیا تو یہ وہاں حفاظتی ڈیوٹی پر مامور تھے اور انہوں نے اس کا جواب دیا تو ان کے ساتھ کُل گیارہ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور اس طرح آپ کو اکتوبر 1984ء سے مارچ 1994ء تک اسیرراہ مولیٰ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
حضورانور ایدہ اللہ نے ساہیوال کیس کا تفصیل سے ذکر کیا کہ کس طرح ضیاء الحق نے فوجی عدالت سے احمدیوں کے خلاف ظالمانہ فیصلے کروائے۔ اور بعد میں سپیشل ملٹری کورٹ نے الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ اور رانا نعیم الدین صاحب کو موت کی سزا سنا دی اور دیگر پانچ ملزمان تھے ان کو پچیس پچیس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس فیصلہ کے خلاف اپیل پر لاہور ہائی کورٹ نے رہائی کا حکم دیا اور کاغذات کی تکمیل پر 19؍مارچ 1994ء کو ان کی رہائی عمل میں آئی اور اس طرح ان کو ساڑھے نو سال راہ ِمولیٰ میں اسیری برداشت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ دوران اسیری پولیس کی طرف سے خاص طور پر تشدد کیا جاتا رہا اور ان سے بیان لینے کی کوشش کی جاتی تھی کہ چونکہ تم اپنے خلیفہ کے باڈی گارڈ رہے ہواس لیے انہوں نے تمہیں یہ کام کرنے کے لیے بھیجا ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو مارو۔ رانا نعیم الدین صاحب اس مقدمے سے رہائی کے بعد 1994ء میں لندن شفٹ ہو گئے اور یہاں بھی اپنی عمر کے لحا ظ سے بہت بڑھ کے عملہ حفاظت میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ 2010ء میں ان کو پہلے بڑی بیٹی کی وفات اور پھر چند دن بعد اہلیہ کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ان کے بیٹے رانا وسیم احمد واقفِ زندگی ہیں اور پرائیویٹ سیکرٹری یوکے کے دفتر میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ ہمارے والد نے ہمیں ہمیشہ یہی سبق دیا کہ خلافت سے چمٹے رہنا اور سب کچھ خلافت سے وابستہ ہے۔ خود بھی خلافت کے شیدائی تھے اور کہتے تھے مَیں ڈیوٹی پر جاتا ہوں تو خلیفہ وقت کو دیکھتا ہوں تو جوان ہو جاتا ہوں۔ میری صحت کا راز بھی یہی ہے کہ مَیں اس عمر میں بھی ڈیوٹی پر آتا ہوں ورنہ مَیں تو چارپائی سے لگ جاؤں۔ وقت کے بہت پابند تھے۔ ہمیشہ ڈیوٹی کے لیے دو تین گھنٹے پہلے تیار رہتے تھے۔ اگر مَیں کہتا کہ ابو جان ابھی تو ٹائم بہت ہے تو کہتے کیا ہوا گھر بیٹھ کر کیا کرنا ہے۔
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اکثر ان کی مالش کیا کرتا تھا۔ ایک دن مَیں ان کی ٹانگوں کی مالش کر رہا تھا۔ ان کے گھٹنے کے پاس آیا تو ان کی ہلکی سی آواز نکلی۔ مَیں نے پوچھا کیا ہواتو کہنے لگے کچھ نہیں۔ بہرحال وہ کہتے ہیں مَیں نے ذرا اصرار کیا تو کہنے لگے کہ یہ جیل کی چوٹوں کی درد ہے۔ ہمیشہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اور جیل میں جب مارا جاتا ہے تو پاکستانی جیلوں میں بڑے ظالمانہ طریقے سے مارا جاتا ہے۔ بہرحال یہ سب کچھ انہوں نے برداشت کیا اور باہر آ کے بھی ان کا صبر کا معیار بہت بلند تھا۔ کبھی طبیعت خراب ہوتی تو کسی کو نہیں بتاتے تھے بلکہ اکثر یہی کہتے تھے کہ الحمد للہ مَیں ٹھیک ہوں۔
ان کا خلافت کی اطاعت کا معیار کیا تھا؟ کہتے ہیں ایک دفعہ مَیں والد صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور اکثر مَیں ان سے واقعات سنانے کے لیے کہتا۔ ایک دن کہنے لگے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابے نخلہ گئے تھے، جہاں وہ تفسیر لکھ رہے تھے تو مَیں ان کے ساتھ تھا جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ وہ وہاں رہے ہیں تو کسی بات پر وہ مجھ سے خفا ہو گئے۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ رانا نعیم الدین صاحب سے خفا ہو گئے اور مجھے فرمایا کہ تم مسجد میں چلے جاؤ اور جا کے استغفار کرو۔کہتے ہیں کہ مَیں مسجد میں چلا گیا۔ جابے میں چھوٹی سی کچی مسجد ہوتی تھی۔ کچا صحن ہوتا تھا۔ مسجد کے صحن میں بیٹھ کر استغفار کرنے لگ گیا۔ اتنے میں تیز آندھی آئی اور بارش شروع ہو گئی مگر مَیں اپنی جگہ پر بیٹھا استغفار کرتا رہا۔ جب کافی دیر ہو گئی اور مسجد کا ایک سائبان جو لگایا ہوا تھا وہ بھی اڑ گیا تو حضورؓ نے، خلیفہ ثانیؓ نے فرمایا کہ نعیم کدھر گیا ہے۔ کچھ لوگ مجھے ڈھونڈتے ہوئے مسجد میں آئے اور کہا کہ تمہیں حضورؓ بلا رہے ہیں۔ جب مَیں حضور خلیفہ ثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت خلیفہ ثانیؓ نے فرمایا کہ مجھے پتا تھا کہ تم ادھر ہی بیٹھے ہو گے۔ جاؤ مَیں نے تمہیں معاف کیا۔ پھر جب خلیفہ ثانیؓ نے تفسیر لکھنی شروع کی تھی اس وقت بھی ان کو حضورؓ کے پاس رہ کر خدمت کا موقع ملا اور اپنی اس خدمت پر بڑی خوشی کا اظہارکرتے تھے۔ اور یہ ان کی عادت تھی کہ اپنی خوشی تو ہر ایک سے شیئر کرتے تھے مگر غم کبھی کسی کو نہیں بتاتے تھے۔
ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرا وقف قبول ہوا تو مجھے ایک دن کہنے لگے کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہمیشہ توبہ استغفار کرتے ہوئے اپنے وقف کو نبھانا۔ کبھی کوئی دکھ بھی دے تو چپ کر جانا نہ کہ بحث کرنا اور تمام بات اللہ پر چھوڑ دینا اور صبر کرنا اور صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس طرح مجھے نصیحت کرتے تھے جیسے کہ دوست ہوں۔ چندے کی بے انتہا پابندی کرتے تھے۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو چندہ ادا کرتے اور اس کے بعد باقی خرچ کرتے تھے۔ ہمیشہ خاموشی سے بہت سے لوگوں کی مالی مدد کرتے تھے۔ کبھی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا کرتے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1986ء میں مکرم رانا صاحب کو اپنے خط میں لکھا کہ ’’آپ کے خلوص بھرے خطوط ملے۔ اعلیٰ ایمان کی جس مضبوط چٹان پر آپ کھڑے ہیں وہ قابلِ فخر ہے۔ اللہ والوں کو اعلیٰ مقام کے حاصل کرنے سے پہلے اس قسم کی دشوار گزار راہوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ آپ لوگوں کی سعادت پر رشک آتا ہے۔ درخت اپنے پھل سے جانا جاتا ہے۔ آپ لوگ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت کی سرسبز شاخیں اور شیریں پھل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔ جماعت دعائیں کر رہی ہے میری دعائیں بھی آپ کے لیے ہیں۔ امید ہے آپ نے میری تازہ نظم بھی سن لی ہوگی۔ اس میں آپ اور آپ جیسے مخلصین کے لیے ہی چاہتوں کاپیغام اور سلام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے مدد کرے اور دشمن کے پنجے سے نجات بخشے۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔‘‘
………………………
مکرم ناصر احمد سعید صاحب
محترم ناصر احمد سعید صاحب 5؍اپریل کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍اپریل میں مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ مرحوم 1951ء میں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں تاج دین صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ پھر 1973ء میں نظارت امور عامہ کے تحت بطور کارکن حفاظتِ خاص ان کا تقرر ہوا۔ 1985ء میں لندن تبادلہ ہو گیا۔ اکتوبر 2010ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ ناصر سعید صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ بڑی ایمانداری اور مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے۔ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ان کو بڑا سچا پیار کا تعلق تھا۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ، ایک بیٹا خالد سعید صاحب (رضاکار حفاظت خاص) اور آگے ان کے بچے ہیں۔
مرحوم کے ذکرخیر پر مشتمل بعض خطوط کے حوالے سے حضورانور نے بیان فرمایا کہ ناصر سعید صاحب کے والدین نے ان کو کہا کہ فوج میں بھرتی ہو جاؤ یا کوئی اَور نوکری کرلو تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر کوئی نوکری کرنی ہوئی تو جماعتی نوکری کروں گا ورنہ یہ چھوٹا سا زمیندارہ ہے یہی اپنا کام کرتا رہوں گا۔ اور اس کے بعد پھر یہ جماعت میں آکر بھرتی ہو گئے۔ اپنے سب عزیز و اقارب سے نہایت پُرخلوص محبت کا سلوک رکھتے تھے اور بہت سے ضرورتمند اقرباء کی خاموشی سے امداد بھی کرتے رہتے۔
ان کے ساتھی کارکن بتاتے ہیں کہ ہمیشہ انہیں خلافت کا وفادار اور اطاعت شعار پایا اور ڈیوٹی کے معاملے میں ہمیشہ بڑے ایماندار تھے۔ ہمیشہ اپنی ڈیوٹی کے لیے وقت سے پہلے آ جایا کرتے تھے اور بصیغہ راز کوئی پیغام ہوتا تھا تو ہمیشہ اس کو راز رکھتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی یہ تلقین کرتے کہ بصیغہ راز رکھنا چاہیے اور اپنے کسی ساتھی سے بھی کبھی اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ انتہائی وفاشعار کارکن تھے۔ ان کی روح کا محور صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ تھی۔ دنیاوی آلائشوں سے مبرا تھے۔ خدمت دین ہی ان کا نصب العین تھا۔خدمت کرنے کے علاوہ ان کی اَور کوئی سوچ نہیں تھی۔ دلی خواہش رکھتے تھے کہ خلافت کے دَر پر جان نکلے اور اسی کو انہوں نے سچ کر دکھایا۔ مہمان نوازی میں بھی بڑے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ اپنی مثال آپ تھے۔ ہر بڑے چھوٹے کی عزت کا خیال رکھتے تھے۔ اپنے سے سینئر کی بیحد عزت کرتے تھے۔کبھی ہونٹوں پر کبھی زبان پر گلہ شکوہ نہیں لائے اور ہمیشہ ہر حکم کی تعمیل کو اپنا فرض جانا۔ وقفِ زندگی کی وہ ایک لاجواب مثال تھے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بے لوث ہوکے انہوں نے اپنی زندگی میں خدمت کی ہے۔
وہ ہمیشہ خاموشی سے نہ صرف خود مستحقین کی مدد کیا کرتے تھے بلکہ بہت سے متمول افرادِ جماعت کو بھی اپنے غریب اور مستحق بھائیوں کی مدد کی طرف مستقل طور پر توجہ دلاتے رہتے تھے۔ ان کی ایک نمایاں خوبی اکرام ِضیف تھی۔ خاص طور پر جلسے کے دنوں میں ان کی یہ صفت اپنے عروج پر ہوتی تھی۔ خصوصیت کے ساتھ خلافت کے ساتھ وفا کا تعلق تھا۔ بڑے مخلص تھے اور گفتگو کا انداز بڑا شفقت والا اور نرم تھا اور کئی دفعہ اگر اگلی شفٹ پہ آنے والے کسی کارکن کو دیر بھی ہو جاتی تو شکایت نہ کرتے تھے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت کی ڈیوٹی میں کچھ مزید وقت مجھے مل گیا اور ہر وقت ڈیوٹی کے لیے کمربستہ رہتے تھے۔ بیمار ہوتے تب بھی ڈیوٹی سے جلد فارغ ہونے کی خواہش نہ کرتے بلکہ آخری شدید بیماری میں بھی وقت ڈیوٹی کی فکر تھی۔ ڈیوٹی کے لئے آنے والے خدام کو ہمیشہ توجہ دلاتے کہ تم لوگوں نے محبت کرتے ہوئے خلیفہ وقت کی ڈیوٹی سرانجام دینی ہے اور اس بات کو اپنی تمام دوسری چیزوں پر مقدم کرنا ہے۔
سید طہٰ نور صاحب مربی سلسلہ انڈونیشیا کہتے ہیں ایک دفعہ مسجد میں کپڑے دھونے کا انتظام نہیں تھا تو ہم نے انہیں کہا کہ ہمیں دیں ہم باہر سے دھلوا لیں لیکن آپ نے اور آپ کے جو دوسرے ساتھی تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو نوکر لوگ ہیں ہمارا یہ مقام نہیں ہے کہ دوسرے لوگ ہمارے کپڑے دھوئیں اور بڑی کوشش کے بعد بھی انہوں نے اپنے کپڑے نہیں دیے۔ حضورانور نے فرمایا کہ اب یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی معمولی باتیں ہیں لیکن ایک وقفِ زندگی کی اصولی روح کا ان باتوں سے پتا چلتا ہے کہ ایک واقفِ زندگی کو کس طرح کا ہونا چاہیے اور نوجوانوں کو بھی اس سے سبق ملتا ہے۔
ایک نئے کارکن نے ناصر سعید صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اڑتالیس سال تک، تین خلافتوں کے ساتھ ڈیوٹی کی ہے۔ مجھے کوئی نصیحت کریں تا کہ میں بھی آپ کی طرح ڈیوٹی کرسکوں تو انہوں نے کہا کہ یہاں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا اور زبان بند رکھنا اور اس کے ساتھ دعا کرتے رہنا۔ یہ نصیحت جو ہے اس پر عمل کرنا عمومی طور پر ہر واقفِ زندگی کے لیے ضروری ہے، بلکہ ہر کارکن اور جماعتی خدمت گزار کے لیے ضروری ہے، ہر عہدیدار کے لیے ضروری ہے۔ یہ بڑی پتے کی بات ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ مَیں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ جماعت کی خدمت کے لیے ربوہ میں آئے تھے۔ یقیناً سب لکھنے والوں نے جو بھی لکھا ہے بڑی حقیقت ہے۔ بڑے بے لوث ہو کر خدمت کرنے والے تھے اور کامل اطاعت کرنے والے تھے۔ کچھ عرصے سے یہ دل کے مریض تھے۔ اینجیوپلاسٹی بھی ہوئی ہوئی تھی۔ چند دن پہلے بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ شدید دل کا حملہ ہوا ہے۔ پھر بعد میں کہا کہ وائرس کا بھی حملہ ہو گیا ہے۔ لیکن بہرحال چند دن ہسپتال میں زیر ِعلاج رہے اور وہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔
بے شمار لکھنے والوں نے ان کی خوبیاں لکھی ہیں اور جو بھی لکھی ہیں واقعی حق لکھا ہے۔ اپنی خدمت کو، اپنے عہد کو وفا سے نبھاتے ہوئے یہ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ ہر عہد جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا اس کو پورا کیا۔ ان کی زندگی میں ہمیں یہی نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ شہید ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور وہ تمام احمدی جن کی اس بیماری کی وجہ سے وفات ہوئی ہے اللہ تعالیٰ ان سے بھی رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔
…………………………
مکرم غلام مصطفی صاحب
مکرم غلام مصطفی صاحب آف لندن (حال ٹِلفورڈ) 25؍ اپریل کو 69سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مئی میں آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکرم غلام مصطفی صاحب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری یوکے میں رضاکار کارکن تھے۔ 1983ء میں بیعت کی اور 1986ء میں لندن آکر مسجد فضل میں ٹھہرے اور آتے ہی وقف کی درخواست کی۔ چونکہ تعلیم ان کی بہت معمولی تھی اس وجہ سے شاید وقف تو منظور نہیں ہوا لیکن ایک واقفِ زندگی کی طرح پہلے تو یہ کچن میں اور پھر دفتر میں کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان کا کاروبار بھی وسیع کر دیا۔ خالی ہاتھ آئے تھے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ کئی پراپرٹیز خریدنے کی توفیق ملی۔ اور جس کو انہوں نے غریبوں پربھی خرچ کیا، جماعت پر بھی خرچ کیا۔ لیکن یہ وقفِ زندگی کی حیثیت سے اس طرح رہے کہ جب بھی دفتر سے کاروباری سلسلے میں اگر لمبی چھٹی کرنی ہوتی اور کچھ عرصہ دفتر نہ آنا ہوتا تھا تو باقاعدہ خلیفہ وقت سے رخصت لیتے تھے۔ اور کہا کرتے تھے کہ وقف تو نہیں لیکن میں اپنے آپ کو واقف زندگی سمجھتا ہوں۔ بہرحال بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے اپنے سے جو یہ ایک عہد کیا تھا اور اللہ سے جو وقف زندگی کا عہد کیا تھا اس کو انہوں نے پورا کیا، چاہے باقاعدہ وقف میں تھے یا نہیں تھے۔ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر کے برتن دھو نے کا کام مسجد فضل کے کچن میں کرتے رہے۔ پھر حفاظتِ خاص میں بھی کچھ عرصہ ڈیوٹیاں دیتے رہے۔ 1993ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے پی ایس آفس میں انہیں ڈیوٹی دی اور اس وقت سے لے کر اب تک بڑی خوش اسلوبی سے یہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔
ان کی اہلیہ محمودہ مصطفی صاحبہ لکھتی ہیں کہ میرا اور مصطفی صاحب کا تقریباً 34 سال ساتھ رہا ہے اور مَیں ان سالوں کی گواہی دے سکتی ہوں کہ ان کا ہر قدم خداتعالیٰ کے لیے ہوتا تھا۔ بے شمار اوصاف کے مالک تھے۔ ایک مخلص شوہر، باپ، بھائی اور دوست تھے۔ اپنے رشتوں کو نبھانے والے، بہت دُور اندیش، ہر ایک کے کام آنے والے، بے لوث خدمت کرنے والے، بہادر اور نڈر انسان تھے۔ خلافت پر مر مٹنے والے وجود تھے۔ کہتے تھے کہ جب میں نے پاکستان میں بیعت کی تو اپنے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ میں نے ہمیشہ خلافت کے نزدیک رہنا ہے۔ اُس وقت ان کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے لیکن انہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ وعدہ پورا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے سامان بھی مہیا فرما دیے۔ مالی قربانی کا بہت شوق تھا۔ کہتی ہیں کہ میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے سوچا ہے کہ میں اپنا آدھا زیور جماعت کو دیدوں تو فوراً کہا کہ آدھا کیوں دیتی ہو پورا دو۔
کہتی ہیں افریقہ کے لیے مساجد بنانے کی تحریک ہوئی تو اس وقت اپنے پاس گھر بھی نہیں تھا لیکن جو بھی پیسے جمع ہوتے تھے وہ مساجد کے چندے میں دے دیتے تھے اور اپنی ذات پر وہ کنجوسی کی حد تک خرچ کرتے تھے لیکن دوسروں پر خرچ کرنے سے پہلے کبھی سوچتے بھی نہیں تھے۔ ہمیشہ جہاں دین کو فوقیت دی وہاں ایک سچے مومن کی طرح دین اور دنیا دونوں کمائی۔ ہرکام میں مجھے ساتھ رکھا تا کہ مجھے ہر چیز کا پتا ہو اور ہمیشہ مجھ پر پورا اعتماد کیا۔ اپنی فیملی میں اکیلے احمدی تھے۔ جب انہوں نے بیعت کی تو اپنے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ اپنے والد کی وراثت سے کچھ نہیں لینا اور دعا کی کہ اے اللہ! اگر تیرا مسیح سچا ہے اور مَیں نے سچا سمجھ کے بیعت کی ہے تو مجھے اپنی جناب سے دینا اور کسی کا محتاج نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری فرمائی اور ثابت کر دیا کہ تم نے جو بیعت کا قدم اٹھایا ہے وہ حقیقتاً سچ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بڑے مختلف طریقوں سے ان کی مدد بھی کی اور اپنے گاؤں میں پھر انہوں نے بڑی مسجدبھی بنوائی کہ کبھی نہ کبھی تو یہ لوگ احمدی ہوں گے اور مختلف طریقوں سے اپنے رشتے داروں کی بھی مدد کرتے رہے۔ ان کو اپنی دعاؤں کی قبولیت پر بھی بڑا کامل یقین تھا۔ اور اس کے بےشمار واقعات اہلیہ نے آگے لکھے ہیں۔
ان کے بچے لکھتے ہیں کہ ہمیشہ کہتے تھے کہ گھر لینا ہے تو خلافت کے سائے میں لینا ہے۔ نہایت اخلاص کے ساتھ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔اپنی بیماری کے دنوں سے قبل آخری نصیحت یہی کی کہ ہمیشہ جماعت کے ساتھ جڑے رہنا، نمازیں پڑھنا اور قرآن کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے رہنا تو اللہ ہمیشہ ساتھ دے گا۔ بیٹیوں کو کبھی بوجھ نہیں سمجھا بلکہ اکثر کہتے تھے کہ جس کی بیٹی ہو گئی وہ تَر گیا اور اس کے کام کے دن ختم ہو گئے اور آرام کے دن شروع ہو گئے۔ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی برابر تعلیم و تربیت کا فرض بخوبی نبھایا۔ اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اولاد سے محبت کے باوجود انہوں نے کبھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پیچھے نہیں چھوڑا۔ عید ہو یا بیٹی کی شادی ہو یا کوئی اَور کام ہو انہوں نے کبھی نماز کو نہیں چھوڑا۔ خدا پر توکّل تھا۔ وہ جانتے تھے کوئی کام پیچھے نہیں رہے گا لیکن اگر فکر تھی تو اس بات کی تھی کہ عبادت کی کمی کی وجہ سے خدا کی کوئی ناراضگی نہ آ جائے۔
اپنے بیٹے کو ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ ہمارا سب کچھ اللہ کی جماعت کی امانت ہے اس لیے ہماراکام ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں اور اس امانت کو اس نیت سے بڑھائیں کہ یہ جماعت کے کام آ سکے۔ ہمیشہ تلقین کرتے کہ چندے کی ادائیگی میں کبھی تاخیر نہیں کرنی اور خود مہینے کے پہلے دن ہی اپنا چندہ ادا کر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مت سوچنا کہ جماعت کو ہمارے چندے کی ضرورت ہے بلکہ چندہ دینے سے ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جذب کرسکتے ہیں۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ علالت کے آخری ایام میں جب وینٹی لیٹر لگایا گیا تو قومہ میں جانے سے پہلے آخری الفاظ جو انہوں نے کہے وہ اپنے چندہ کی ادائیگی کے بارے میں تھے۔ متعدد مرتبہ انہیں عمرہ کرنے کی توفیق ملی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو 2010ء میں حج کی سعادت بھی دی۔ قادیان سے بھی محبت تھی۔ اکثر وہاں جاتے تھے۔ مرکز میں مکان کی خواہش تھی پھر وہاں مکان بنوایا اور پھر وہ جماعت کو پیش کر دیا۔
……………………………
اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ ان سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں