خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍نومبر 2008ء

بچوں کو قرۃالعین بنانے کے لئے ماں باپ کو اپنی اصلاح بھی کرنی ہوگی اور اپنے نمونے بھی قائم کرنے ہوں گے۔
اگر گھریلو سطح پر بھی میاں بیوی تقویٰ کی راہوں پر قدم نہیں ما ر رہے تو اولاد کے حق میں اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔ پھر اگر تقویٰ مفقود ہے تو خلافت اور جماعت کی برکات سے کس طرح فیض پا سکتے ہیں۔ خلافت کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ کی شرط رکھی ہوئی ہے۔ اگر تقویٰ نہیں تو اعمال صالحہ کیسے ہو سکتے ہیں یا اگر اعمال صالحہ نہیں توتقویٰ نہیں۔ اور تقویٰ نہیں تو نہ ہی ایک دوسرے کے لئے قرۃالعین بن سکتے ہیں، نہ ہی اولاد قرۃالعین بن سکتی ہے۔
اگرا ولاد مانگنی ہے، لڑکے مانگنے ہیں تو آپس میں لڑ کر گھروں میں بے چینیاں پیدا کرنے کی بجائے تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہئے اور نیک اولاد کی دعا مانگنی چاہئے۔
(اللہ تعالیٰ کی صفت اَلْوَھَّاب کے حوالہ سے قرآنی آیات کی روشنی میں اہم نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 14؍نومبر 2008ء بمطابق14؍نبوت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کا ایک نام

وَاہِب یا وَہَّاب

بھی ہے۔ اس لفظ کی مختلف اہل لغت نے جووضاحت کی ہے اور معنی بیان کئے ہیں وہ تقریباً ایک ہیں اس لئے مَیں نے لسان العرب(یہ لغت کی کتاب ہے) نے جو معنی بیان کئے ہیں وہ لئے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ

اَلْوَہَّاب

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے یعنی

اَلْمُنْعِمُ عَلَی الْعِبَاد

اپنے بندوں پر انعام کرنے والا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفت وَاہِبٌ بھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ اَلْھِبَہ ایسا عطیہ جو عوض میں کچھ لینے یا دیگر اغراض و مقاصد سے مبرّا ہو اور جب ایسی عطا بہت کثرت سے ہو تو اس عطا کرنے والے کووَہَّاب کہتے ہیں۔
یہ لفظ انسانوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن حقیقی وَہَّاب اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو اپنے بندوں کو مانگنے پر بھی اور بغیر مانگنے پر بھی کثرت سے عطا فرماتی ہے۔ ایک حقیقی مومن اگر غور کرے تو اللہ تعالیٰ کے وَہَّاب ہونے کے نظارے، اس کی عطاؤں اور انعاموں کے نظار ے ہر وقت دیکھتا ہے اور یہی بات ہمیں ہمارے زندہ خدا کا پتہ دیتی ہے۔ لیکن جو انسان ناشکرا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی عطائیں اور فضل نظر نہیں آتے۔ جو دنیا کی آنکھ سے دیکھتا ہے وہ دنیا کو ہی ان چیزوں کا ذریعہ سمجھتا ہے جو اُسے مل رہی ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف حوالوں سے اس لفظ کا بھی استعمال فرمایا ہے اور اپنی اس صفت کا بھی استعمال فرمایا ہے۔ انبیاء اور نیک لوگوں پر اپنی عطاؤں کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اپنی صفت کے حوالے سے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ جس میں نیک اولاد کے لئے بھی دعائیں ہیں، معاشرے کی نیکی کے لئے بھی دعائیں ہیں، اپنے تقویٰ میں بڑھنے کے لئے بھی دعائیں ہیں، ایمان میں مضبوطی کی بھی دعائیں ہیں۔ تو مختلف دعاؤں کا ذکر ہے۔
اس وقت مَیں ان قرآنی دعاؤں کے حوالے سے ایک پہلو کا ذکر کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نسل کو اپنے مقصد پیدائش کے قریب رکھنے بلکہ اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنے نیک بندوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنی اولادبلکہ بیویوں کے لئے بھی دعائیں کریں۔ بلکہ بیویوں کو بھی کہا کہ اپنے خاوندوں اور اولاد کے لئے دعائیں کریں تاکہ نیکیوں کی جاگ ایک دوسرے سے لگتی چلی جائے اور نسل در نسل قائم رہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (سورۃ الفرقان آیت 75:)

اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔
یہ جامع دعا ہے کہ آنکھوں کی ٹھنڈک بنا، ایک دوسرے کے لئے بھی اور اپنی اولاد میں سے بھی ایسی اولاد ہمیں عطا کر جو آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور جب اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھاتا ہے کہ آنکھوں کی ٹھنڈک مانگو تو اللہ تعالیٰ کے ان لامحدود فضلوں کی دعا مانگی گئی ہے جس کا علم انسان کو نہیں، خداتعالیٰ کو ہے جس کا انسان احاطہ ہی نہیں کر سکتا۔ اور میاں بیوی اور اولادیں نہ صرف اس دنیا میں ان نیکیوں پر قدم مار کر جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائی ہیں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ان نیکیوں کی وجہ سے جو انسان اس دنیا میں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے انعامات سے نوازتا ہے۔ ایک مومن کے مرنے کے بعد اس کی نیک اولاد ان نیکیوں کو جاری رکھتی ہے جس پر ایک مومن قائم تھا۔ اپنے ماں باپ کے لئے نیک اولاددعائیں کرتی ہے جو اس کے درجات کی بلندی کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری نیکیاں کرتی ہے جو ان کی درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں۔ پس یہ اولاد کی نیکیاں اور اپنے ماں باپ کے لئے دعائیں اگلے جہان میں بھی ایک مومن کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآءبِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(السجدہ:18)

پس کوئی ذی روح یہ نہیں جانتا کہ اس کے اعمال کے بدلہ میں اس کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔
یہ ان لوگوں کے بارہ میں کہا گیاہے جو تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا خو ف دل میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں اور اس کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں اور دو سری نیکیاں بھی بجا لاتے ہیں۔ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سیدھے راستے پر چلنے اور اپنی اولاد کے سیدھے راستے کی طرف چلنے کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک مانگتے ہیں جس کا علم صرف اور صرف خداتعالیٰ کی ذات کو ہے۔ اپنی اولاد وں اور اپنی بیویوں اور خاوندوں کے لئے اور بیویاں اپنے خاوندوں کے لئے دعا مانگتی ہیں کہ یہ سب تقویٰ پہ قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ ان سب کے لئے اس دنیا میں بھی انعامات عطا فرمائے جو اس کی رضا کے حامل بنائے اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں۔
پس یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو عبادالرحمن ہیں، نیکیاں بجا لاتے ہوئے مانگتے ہیں اور اپنے پیچھے بھی ایسی نسل چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو تقویٰ پر قدم مارنے والی ہو۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھا کر ہمیں ہر وقت اس اہم کام کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس کی رضا حاصل کرنے کا نہ صرف ہماری ذات کے لئے ذریعہ بنے بلکہ آئندہ نسلیں بھی اس راستے پر چلنے والی ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنیں۔

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا

کہہ کر یہ بتا دیا کہ آنکھوں کی ٹھنڈک تبھی ہو سکتی ہے جب تم بھی اور تمہاری اولادیں بھی تقویٰ پر چلنے والے ہو گے۔ اگر تمہارے اپنے فعل ایسے نہیں جو تقویٰ کا اظہار کر تے ہوں تو اپنے دائرہ میں متقیوں کے امام بھی نہیں بن سکتے۔
پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا اس دعا کے ساتھ ہم آپس میں حقوق کی ادائیگی کے لئے تقویٰ پر چل رہے ہیں ؟ اپنے بچوں کی تربیت کے لئے ان شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں تقویٰ پر چلانے والی ہوں۔ اگر گھریلو سطح پر بھی میاں بیوی تقویٰ کی راہوں پر قدم نہیں ما ر رہے تو اولاد کے حق میں اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔ پھر اگر تقویٰ مفقود ہے تو خلافت اور جماعت کی برکات سے کس طرح فیض پا سکتے ہیں۔ خلافت کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ کی شرط رکھی ہوئی ہے۔ اگر تقویٰ نہیں تو اعمال صالحہ کیسے ہو سکتے ہیں یا اگر اعمال صالحہ نہیں توتقویٰ نہیں اور تقویٰ نہیں تو نہ ہی ایک دوسرے کے لئے قرۃالعین بن سکتے ہیں، نہ ہی اولاد قرۃالعین بن سکتی ہے۔ پس اولاد کو بھی قرۃالعین بنانے کے لئے، آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کے لئے، اپنی حالتوں اور اپنی عبادتوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے میاں بیوی کی عبادتوں کے بارے میں یہ نصیحت کی ہے، آپؐ فرماتے ہیں کہ اللہ رحم کرے اس شخص پر جو رات کو اٹھے، نماز پڑھے، اور اپنی بیوی کو جگائے۔ اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو پانی کے چھینٹے ڈالے تاکہ وہ اُٹھ کھڑی ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے، نماز پڑھے اور اپنے میاں کو جگائے، اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو پانی چھڑکے تاکہ وہ اٹھ کھڑا ہو۔
پس یہ فرائض دونوں کے ہیں۔ میاں کے بھی اور بیوی کے بھی کہ اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دیں تاکہ نسلوں سے بھی قرۃ العین حاصل ہو۔ بعض مردوں کی شکایات آتی ہیں، رات کو اٹھنا تو علیحدہ رہا، عورتوں کے جگانے کے باوجود، فجر کی نماز کے علاوہ اور دوسری نمازوں میں بھی توجہ دلانے کے باوجود سستی دکھاتے ہیں۔ ایسے لوگ کس طرح اور کس منہ سے

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُن

کی دعا کرتے ہیں۔ کس طرح وہ اپنی اولاد میں قرۃ العین تلاش کر سکتے ہیں، کس طرح اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھتے ہیں یا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کے متقی ہونے کی دعا قبول ہو۔ ہاں اللہ تعالیٰ فضل کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں۔ وہ تو مالک ہے لیکن اگر اس کے فضل سے حصہ لیناہے توتقویٰ کے یہ نمونے دکھانے کا بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اپنی حالتوں کے درست کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ۔ پس اپنے بچوں سے قرۃ العین بننے کی توقع اور خواہش رکھنے والوں کو آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ اچھی تربیت سے بڑ ھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے، یا دے سکتا ہے۔ (سنن الترمذی باب ما جاء فی ادب الولد)۔ اور اچھی تربیت اس وقت ہوتی ہے جب انسان کے اپنے عمل بھی ایسے ہوں جو اولادکے لئے نمونہ بن سکیں۔ عبادتوں کے معیار بھی اچھے ہوں دوسرے اعمال بھی اچھے ہوں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’خداتعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرماوے اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ (یعنی انسان) فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں ‘‘۔ فرمایا’’اور کھول کر کہہ دیا

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔

اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام بھی ہو گا۔ اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے۔ (الحکم جلد 5نمبر 35مورخہ 24؍ستمبر 1901)
پس یہ ذمہ داری پہلے مَردوں کی ہے کہ اپنے آپ کو ان راستوں پر چلانے کی کوشش کریں جو اسے عبادالرحمن بنانے والے ہوں۔ عورتیں بھی اپنے گھر کی نگران کی حیثیت سے اس بات کی ذمہ دار ہیں کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے اور اپنے خاوندوں کے بچوں کی تربیت کریں تاکہ وہ معاشرے کا ایک بہترین اور مفید وجود بن سکیں۔ لیکن عورتوں کی تربیت کے لئے بھی پہلے مَردوں کو قدم اٹھانے ہوں گے۔ جب دونوں نیکیوں پر قدم مارنے والے ہوں گے۔ تو پھر اولاد بھی نیکیوں پر چلنے کی کوشش کرے گی۔ دونوں کی دعائیں بھی اولاد کی تربیت میں مدد گار بن رہی ہوں گی۔
پہلے جو مَیں نے حدیث بیان کی تھی کہ اگرمَرد پہلے جاگے تو عورت کو جگائے اور اگر عورت پہلے جاگے تو مَرد کو جگائے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دونوں میاں بیوی آپس میں بڑے پیار اور محبت کے تعلق والے ہوں، انڈرسٹینڈنگ (Understanding) ہو، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوں کہ ہم نے اپنی رات کی عبادت اور نمازوں کی حفاظت کرنی ہے اس لئے صبح اٹھنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔ اگر آپس میں یہ
انڈر سٹینڈنگ نہیں تو مرد جب پڑا سو رہا ہو گا (ایسی شکایتیں بعض دفعہ آتی ہیں) اور عورت جب اسے نماز کے لئے جگاتی ہے تو بیچاری کی شامت آجاتی ہے اور بعید نہیں کہ یہ بھی ہو جائے کہ سخت الفاظ سننے کے علاوہ بیچاری عورت کو اس سے مار بھی کھانی پڑ جائے۔ اوریہ مَیں صرف مثال نہیں دے رہا، یہ بعض گھروں میں عملی صورت میں ہوتاہے۔ آہستہ آہستہ پھر عورتیں بھی یا تو خاموش ہو جاتی ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی کوشش کرتی ہیں۔ یا اپنے خاوندوں کی ڈگر پر آجاتی ہیں۔ اور بچے دنیاوی لحاظ سے تو شاید کچھ بہتر ہو جائیں، پڑھ لکھ جائیں لیکن دینی لحاظ سے بالکل بگڑ جاتے ہیں۔ بلکہ جب اس طرح گھر کی صورتحال ہوتو بعض دفعہ ایسا بھی ہوتاہے کہ دنیاوی لحاظ سے بھی کئی بچے برباد ہو جاتے ہیں۔ پس بچوں کو قرۃ العین بنانے کے لئے ماں باپ کو اپنی اصلاح بھی کرنی ہو گی اور اپنے نمونے بھی قائم کرنے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پرہیزگاری کے لئے عورتوں کو پرہیزگاری سکھاویں۔ ورنہ وہ گناہگار ہوں گے۔ اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی۔ جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلید پیداہوتی ہے۔ اولاد کا طیّب ہونا تو طیّبات کا سلسلہ چاہتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر اولاد خراب ہوتی ہے۔ اس لئے چاہئے کہ سب توبہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں۔ عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے، وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا۔ نیز عورتیں چھُپی ہوئی دانا ہوتی ہیں۔ یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ احمق ہیں۔ وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثروں کو حاصل کرتی ہیں۔ جب خاوند سیدھے راستے پر ہو گا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی‘‘۔ فرمایا’’عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 164-163 جدید ایڈیشن)
پس یہ توقع ہے جو حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہر احمدی مرد سے رکھی ہے۔ یہ الفاظ ہمیں جھنجھوڑنے والے ہونے چاہئیں۔ مردوں پربہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پہلے توعورتیں جاہل ہوتی تھیں، کم پڑھی لکھی ہوتی تھیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم کی روشنی نے عورتوں میں بھی عقل و شعور پہلے سے بہت بڑھا دیا ہے۔ جیسا کہ پہلے مَیں نے کہاایسی عورتیں بھی جماعت میں ہیں اور اکثریت میں ہیں جو مَردوں کی برائیوں کی وجہ سے کڑھتی ہیں یا ان کی سختیوں کی وجہ سے علیحدہ ہو کے بیٹھ جاتی ہیں۔ اپنی نیکیاں قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اورمَردوں سے زیادہ بے چین اور پریشان بھی ہوتی ہیں۔ ایسے بھی خاندان ہیں جہاں عورتوں کو اپنی اولاد کی فکر ہوتی ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ مَردوں کی جو بگڑی ہوئی حالت ہے اسے دیکھ کر عورتیں بعض دفعہ مَردوں سے علیحدہ ہو جاتی ہیں اور پھر اس کے نتیجہ میں اولاد پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اس ماحول میں جہاں بچوں کو خاص طور پرباپ کی سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے بچے جوانی میں قدم رکھتے ہیں تو بگڑنے لگتے ہیں۔ تو ان سب چیزوں کے ذمہ دارمَرد ہوتے ہیں۔ تو ایسے مَردوں کو بھی فکر کرنی چاہئے کہ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہمارا خدا ہماری بقا اور ہماری نسلوں کی بقا کے لئے ایک دعا سکھا رہا ہے اور اللہ میاں کا دعا سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے اور دعا کے الفاظ میں

ھَبْ لَنَا

کے الفاظ استعمال کرکے یہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے سے کچھ نہیں لینا وہ تمہاری دنیا وعاقبت سنوارنے کے لئے، تمہاری نسلوں کی بقا کے لئے، صحیح راستے پر چلنے کے طریق سکھاتے ہوئے تمہیں انعام دے رہا ہے۔ ان پہ چلوگے تو انعامات کے وارث بنو گے۔ لیکن ہم اس انعام سے فیض پانے والے نہ بنے۔ پس ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے اُن راستوں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائیں۔ اپنے گھروں کے سکون کو بھی ہمیشہ قائم رکھیں اور اپنے بچوں اور اپنی اولادوں کی طرف سے بھی ہمیشہ آنکھیں ٹھنڈی رکھیں اور حقیقت میں ہر احمدی گھر میں تقویٰ پر قائم رہنے والے لوگ ہوں۔ احمدی معاشرے میں ہر شخص تقویٰ پر چلنے والا ہو اور یہی چیز پھر خلافت کے انعام سے بھرپور فائدہ اٹھانے والا بنائے گی اور یہی بات آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آنے والے مسیح و مہدی اور امام الزمان کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے والا بنائے گی۔ پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس اصل کو سمجھتے ہوئے وَہَّاب خد اسے جب مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی انہیں ایسے ایسے طریق سے قرۃ العین عطا فرماتا ہے جس کا ایک انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اولاد کے ضمن میں یہاں ایک اور بات بھی مَیں کہنی چاہتا ہوں جو بعض گھروں کے ٹوٹنے کا باعث بن رہی ہوتی ہے یا میاں بیوی کے آپس کے ناخوشگوا رتعلقات کی وجہ سے اولاد پر بُرا اثر ڈال رہی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض میاں بیوی کے تعلقات اس لئے خراب ہو جاتے ہیں یا خاوند اپنی بیوی سے اس لئے ہر وقت ناراض رہتا ہے کہ لڑکے کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ لڑکیاں کیوں صرف پیدا ہوتی ہیں ؟۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ۔ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ ِانَاثاً وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ (الشوریٰ:50)

آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے عطا کرتا ہے۔
اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں دونوں ملا کر بھی دیتا ہے۔ تو اب جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اس میں کسی پر الزام دینا تقویٰ سے ہٹنے والی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل اور علاج کے طریقے اس زمانے میں عطا فرما دیئے ہیں ان کے استعمال سے بہتوں کو فائدہ ہوتا ہے اور جن کو لڑکوں کی خواہش ہوتی ہے ان کے لڑکے پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی بعض اوقات اپنے خالق ہونے کا اور اپنی مرضی کا اظہار فرماتا ہے۔ لاکھ علاج کروا لیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تو اس بات پر بیویوں کی زندگی اجیرن کر دینا کہ تمہارے لڑکیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں یا لڑکیوں کو باپ کا اس طرح پیار نہ دینا جس کا وہ حق رکھتی ہیں بلکہ ہر وقت انہیں طعنے دینا، بچیوں کے دلوں میں بھی باپوں کے لئے نفرت پیدا کر دیتا ہے۔ بعض ایسے معاملات جب سامنے آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایسے لوگ بھی اس زمانہ میں ہیں جو بچوں پر اس طرح ظلم کر رہے ہیں جن کا ذکر پرانے عرب کے جہالت کے زمانے میں ملتا ہے کہ لڑکی کی پیدائش سے ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں۔ پس یہ جہالت کی باتیں ہیں اس سے ہر مومن کو، ہر احمدی کو بچنا چاہئے۔
مَیں ایک احمدی فیملی کو جانتا ہوں، پرانی بات ہے، ان کے لڑکیاں پیدا ہوتی تھیں۔ چار پانچ بیٹیاں پیدا ہو گئیں۔ انہوں نے بیٹے کی خاطر دوسری شادی کرلی۔ اس بیوی سے بھی دو تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے بیٹے کی خاطر تیسری شادی کرلی۔ اس سے پھر تین چار بیٹیاں پیدا ہوگئیں۔ پھر چوتھی شادی کرلی، اس سے بھی اللہ تعالیٰ نے بیٹیاں ہی دیں۔ آخر جوپہلی بیوی تھی جس سے بیٹیاں پیدا ہورہی تھیں، پہلا بیٹا جو پیدا ہوا اسی بیوی سے پیدا ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے جسے چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ پس اگر اولاد مانگنی ہے، لڑکے مانگنے ہیں تو آپس میں لڑ کر گھروں میں بے چینیاں پیدا کرنے کی بجائے تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہئے اور نیک اولاد کی دعا مانگنی چاہئے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں انبیاء کے ذکر میں دعا سکھائی ہے۔
ایک جگہ فرمایا کہ

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ (الصّٰفّٰت:101)

کہ اے میرے ربّ! مجھے صالحین میں سے عطا کر۔ یعنی صالح اولاد عطا کر۔
ایک جگہ یہ دعا سکھائی کہ

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً (سورۃ آل عمران:39)

اے میرے رب! تو مجھے اپنی جناب سے پاک اولاد بخش۔
پس ہمیشہ ایسی اولاد کی دعا کرنی چاہئے یا خواہش کرنی چاہئے جو پاک ہو اور صالحین میں سے ہو اور ہمیشہ اس کے قرۃالعین ہونے کی دعا مانگنی چاہئے۔ میرے پاس جو بعض لوگ لڑکے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو میں ان کو ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ نیک اور صحت مند اولاد مانگو۔ بعض دفعہ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ماں باپ کی خدمت کرنے والیاں ہوتی ہیں اور نیک ہوتی ہیں۔ ماں باپ کے لئے نیک نامی کا باعث بنتی ہیں۔ جبکہ لڑکے بعض اوقات بدنامی اور پریشانی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ پس ایک مومن کی یہی نشانی ہے کہ اولاد مانگے نیک اور صالح اور پھر مستقل اس کے لئے دعا کہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔ ورنہ ایسی اولاد کا کیا فائدہ جو بدنامی کا موجب بن رہی ہو۔ کئی خطوط میرے پاس آتے ہیں جس میں اولاد کے بگڑنے کی وجہ سے فکرمندی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ لوگ ملتے بھی ہیں تو اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ پس اصل چیز دل کا سکون ہے اور اولادوں کا نیک اور صالح ہونا ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر اولاد بےفائدہ ہے۔
صالحین کی تعریف جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہے وہ مَیں پیش کرتا ہوں۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا‘‘۔
پس یہ معیار ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں اپنی اولاد کے لئے دعا مانگنی چاہئے اور خود بھی اس پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ آئندہ نسلوں میں بھی نیکی کی جاگ لگتی چلی جائے اور ذریّت طیبہ پیدا ہوتی رہے جو نسل درنسل اپنے آباواجداد کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان پیدا کرتی چلی جائے اورجماعت کے لئے، خاندان کے لئے نیک نامی کا باعث ہو اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی حالتوں کی طرف بھی نظر رکھنے والے اور توجہ دینے والے نہیں بنتے۔ ہم خود بھی صالحین میں شامل ہونے اور تقویٰ پر قدم مارنے والے نہیں بنتے۔ پس اس چیز کو پکڑنے اوراس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍نومبر 2008ء” ایک تبصرہ

Leave a Reply to Humera Ahmed Cancel reply