خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 26؍ نومبر 2004ء

دعاؤں اور صدقات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا بندہ خالص ہو کر اس کے سامنے جھکتا ہے اور اس سے بخشش اور معافی طلب کرتا ہے تو وہ بھی اس پررحم اور فضل کی نظر ڈالتا ہے۔
(دعا اور صدقہ وخیرات کے متعلق قرآن مجید، احادیث نبوی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے پرمعارف مضمون کا بیان )
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
26؍ نومبر 2004ء بمطابق26؍ نبوت 1383ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن ۔لندن)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلَمْ یَعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُالصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ۔ (سورۃ التوبہ آیت 104:)

کیا اُنہیں علم نہیں ہوا پس اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ منظور کرتا ہے اور صدقات قبول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
چند جمعے پہلے جب مَیں نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا تھا تو اس میں یہ مثال بھی دی تھی کہ بعض خواتین نے جن کے اولاد نہیں ہوتی تھی، بچوں کی طرف سے بھی چندہ دینا شروع کر دیا مثلاً اگر دو تین چار بچوں کی طرف سے چندہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُتنے بچے عطا فرما دئیے۔ اس پر بعض خط آئے، ملتے جلتے قسم کے، کہ آپ نے کہا تھا کہ جن کے اولاد نہیں ہوتی اگر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کر دیں تو ضرور اولاد ہو جائے گی۔ اور پھر یہ کہ ہمارے بچوں کے نام بھی رکھ دیں تاکہ ہم ان کی طرف سے چندہ دینا شروع کردیں کیونکہ بغیر نام کے چندہ نہیں دیا جا سکتا۔ تو پہلی بات تو یہ کہ مَیں نے یہ بالکل نہیں کہا تھا کہ ضرور اولاد ہو گی۔ مَیں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ دعا اور صدقات اور چندے کی برکت سے فوری نظارے دکھا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک بھی ہے۔ میں وہ بات کس طرح کہہ سکتا ہوں جس کامجھے حق نہیں پہنچتا۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرمایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ میں لوگوں کو بیٹے بھی دیتا ہوں، بیٹیاں بھی دیتا ہوں، بعض کو دونوں جنسیں دیتا ہوں اور بعض بانجھ ہوتے ہیں ان کے ہاں کچھ بھی اولاد نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ بات میری طرف منسوب نہ کریں جو مَیں نے کہی نہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کے خلاف ہے۔ اس لئے ایک تو غور سے بات کو سننا چاہئے اور پھر سوچ سمجھ کر تصدیق کروا کر اگر لکھنا ہو تو خط میں لکھا کریں-
پھر یہ کہ چندہ دینے کے لئے نام رکھ دیں، یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے۔ جو اپنی خوشی سے اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا چاہتے ہیں وہ از طرف بچگان لکھ کر چندہ دے سکتے ہیں- اور یہ جو بات ہے یہ بھی خاص صرف تحریک جدید، وقف جدید یا کسی خاص قسم کے چندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل اور سلوک نہیں ہے۔ مختلف لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مختلف سلوک ہے۔
کچھ دن ہوئے مجھے کسی نے لکھا کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں ہو رہی تھی تو علاج کروانے کی کوشش کی۔ جو علاج تھا وہ کافی مہنگا تھا، ہزاروں یورو (Euro) کا خرچ اس پہ آ رہا تھا تو خاوند نے کہا مَیں اتنی بڑی رقم علاج پر خرچ نہیں کروں گا، بہتر ہے کہ مسجد کے لئے چندہ دے دیں تو اللہ تعالیٰ شاید اس کی برکت سے ہی ہمیں اولاد دیدے۔ تو انہوں نے (دونوں میاں بیوی نے) یہ رقم مسجد کے لئے دے دی۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی سالوں کے بعد اولاد کی خوشخبری سے نوازا ہے۔ اور پھر ایک نہیں اب ٹونز (Twins)کی امید ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ سلوک ہے۔ اللہ تعالیٰ خیریت سے ان کو بچے عطا فرمائے۔
یہ جو اپنے بندوں سے خداتعالیٰ کا سلوک ہے، کسی کی کوئی ادا اسے پسند آ جاتی ہے اور فضل فرماتا ہے، کسی کی کوئی بات پسند آ جاتی ہے۔ کبھی شرط لگا کر اس پر پکّے نہیں ہو جانا چاہئے۔ کیونکہ بعض دفعہ یہ بھی ایمان کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتا ہے۔ اب ان لوگوں کا ایمان بھی دیکھیں، یہ جو میاں بیوی تھے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم مسجد کا چندہ دیں گے تو ہمارے ہاں ضرور اولاد ہوجائے گی۔ بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ چندہ دو اگر اللہ تعالیٰ نے اولاد دینی ہو گی تو ویسے بھی بغیر علاج کے دیدے گا۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ تو ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے اس لئے کبھی بھی چندہ یا صدقہ دے کر پھر اس بات پر سو فیصد قائم نہیں ہو جانا چاہئے کہ ضرو ر اللہ تعالیٰ اب ہماری خواہش کے مطابق ہماری یہ دعا اور مرضی قبول فرمالے گا۔
اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے میں دعاؤں کو، صدقات کو قبول کرتا ہوں لیکن ان بندوں کی جو اس کی طرف جھکتے ہیں، اپنی کمزوریوں اور اپنی نالائقیوں سے آئندہ بچنے کی کوشش کرنے کا عہد کرتے ہیں- کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کو جو ایسی کوشش کر رہے ہوں، اس کی طرف آنے کی کوشش کر رہے ہوں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ اگر ایک قدم چل کے آتا ہے تو اللہ میاں دو قدم چلتا ہے اور زیادہ تیز چلتا ہے تو دوڑ کر آتا ہے، تو بہرحال جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ بندہ اس کی طرف آ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے۔ وہ تو جب بندہ خالص ہو کر اس کی طرف جھکتا ہے فوراً اپنے رحم کو جوش میں لے آتا ہے کیونکہ وہ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرا بندہ دعا اور صدقات سے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، یہ ضروری نہیں کہ خواہش کے مطابق کام ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ تو اگر فوری طور پر خواہش کے مطابق یعنی جو بندے کی خواہش ہے نتیجہ نہ بھی ظاہر فرمائے تو بھی بندے کی دعا اور صدقہ قبول کر لیتا ہے اور اَور ذرائع سے اَور وقتوں میں پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ میری دعا کا اثر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مختلف رنگوں میں فضل ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں- پس ہمارا کام یہ ہے کہ بغیر کسی شرط کے خالص ہو کر اس کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں- اور جس طرح اس نے فرمایا ہے کہ صدقہ و خیرات اور توبہ کرتے رہیں- دعاؤں پر زور دیں- اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں- ہمارا کام صرف یہ ہوکہ اس کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ صدقہ و خیرات اور چندے دینے کے بعد بھی کبھی بھی کسی قسم کا تکبر، غرور یا دکھاوا ہم میں ظاہر نہیں ہونا چاہئے بلکہ عاجزی سے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہیں-
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا حیا والا ہے۔ بڑا کریم ہے، سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب ان اللہ حییٌ کریم) تو جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دعا کرتا ہے اور صدقہ و خیرات دیتا ہے، اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے، صرف اس لئے کہ اللہ کا قرب پائے، اس کی رضا حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی بعض صفات میں رنگین ہونے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ تواپنی تمام صفات میں کامل ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ بندے کو اس کی خاطر کئے گئے کسی کام پر اجر نہ دے۔ اس کی دعاؤں کو قبول نہ کرے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہماری مرضی کے مطابق ہی وہ اجر ملے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم کبھی بھی یہ تصور نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ بندے کے ہاتھ خالی واپس لوٹائے گا۔ جب تم خالص ہوکر اس سے دعا مانگو گے تو وہ کبھی ردّ نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ خالص ہو کر اس کے حضور جھکنے والے ہوں، اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہو ں اور اس کی خاطر قربانی کرنے والے ہوں- اور کسی شرط کے ساتھ اپنے چندے یا اپنا صدقہ و خیرات پیش کرنے والے نہ ہوں-
صدقہ و خیرات اور دعا کے ضمن میں چند احادیث پیش کرتا ہوں-
سعید بن ابی بردہ نے والد اور اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا فرض ہے۔ اس پر صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! جس کے پاس کچھ نہیں وہ کیا کرے۔ اس پررسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص اپنے ہاتھ سے کام کرے، اپنی ذات کوبھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ انہوں نے عرض کیا اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ تو آنحضور ﷺ نے فرمایا وہ اپنے کسی ضرورتمند قریبی عزیز کی مدد کرے۔ صحابہؓ نے عرض کی اگر کوئی شخص اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو۔ تو اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ معروف باتوں پر عمل کرے، ان پر عمل پیرا ہو اور بری باتوں سے رکے، یہی اس کے لئے صدقہ ہے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب علی کل مسلم صدقۃ فمن لم یجد فلیعمل بالمعروف)
تو یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ قربانی کا جذبہ ابھرے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش ہو۔ صحابہؓ کا اس میں کیا رنگ ہوا کرتا تھا، ان کے بھی عجیب نظارے نظر آتے ہیں-
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے کہا مَیں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ اپنے صدقے کا مال لے کر گھر سے نکلا اور ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا (رات کو اس کو پتہ نہیں لگا اور چور کے ہاتھ پر رکھ دیا)۔ لوگ صبح اس طرح کی آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا: اے اللہ! سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے۔ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ اپنے صدقہ کا مال لے کر نکلا اور پھر اس رات بھی ایک عورت کو دیکھا جو بدکار عورت تھی، اس کو وہ صدقہ دے دیا۔ لوگوں نے صبح پھر اس طرح کی باتیں کیں- کہ آج رات ایک زانیہ عورت کو صدقہ دیا گیا۔ اس پر اس شخص نے کہا اے اللہ! سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے، کیا مَیں نے ایک زانیہ کو صدقہ دے دیا ہے، اب میں دوبارہ ضرور صدقہ کروں گا۔ پس وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا اوراب کی دفعہ پھر غلط آدمی تک پہنچ گیا اور ایک اچھے بھلے امیر آدمی، مالدار آدمی، کھاتے پیتے آدمی کو صدقہ دے دیا۔ لوگ پھر صبح اس طرح کی باتیں آپس میں کر رہے تھے کہ آج رات ایک مالدار شخص کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے، پہلے تو میں نے ایک چور کو صدقہ دیا، پھر ایک زانیہ کو اور پھر مالدار شخص کو۔ وہ اس بات پر بہت فکر مند تھا اور افسوس کر رہا تھا تو اس کے پاس ایک شخص آیا اور اس کو کہا گیا کہ جہاں تک تیرے چور کو صدقہ کرنے کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ وہ صدقہ لینے کے بعد چوری سے باز آ جائے اور جہاں تک زانیہ کا تعلق ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے۔ اور جہاں تک غنی کا تعلق ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ تیرے اس فعل سے عبرت حاصل کرے اور اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے خرچ کرنے لگ جائے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اذا تصدق علی غنی وھولا یعلم)
تو یہ آنحضرت ﷺ کی بات سن کر کہ صدقہ ضرور دینا چاہئے، صحابہ اس کوشش میں رہا کرتے تھے اور بعض دفعہ غلط لوگوں کو بھی صدقے دے دیا کرتے تھے۔ ان کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ ہم نے اس سے کچھ حاصل کرنا ہے۔ فکریہ ہوتی تھی کہ
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ رات کو بھی اس لئے نکلتے تھے تا کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور یہ احساس نہ ہو کہ صدقہ یا مال خرچ دکھاوے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ تو اس کی یہ پریشانی دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے اس کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ اگر تمہارا صدقہ صحیح لوگوں تک نہیں پہنچا تو تم کو اس کا اجر نہیں ملے گا۔ بلکہ اس کا بھی اجر ہے۔ کیونکہ ہو سکتاہے اس وجہ سے جن لوگوں کے پاس تمہارا صدقہ گیا ہے ان کی اصلاح ہوجائے۔ تو
اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی کام کو بھی بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کتا دیکھا جوشدت پیاس سے مٹی چاٹ رہا تھا، اس شخص نے اپنا موزا (جراب) اتارا اور اس سے اس کے سامنے پانی انڈیلنے لگا۔ یہاں تک کہ اس نے اس کو سیر کر دیا۔ اس کی اچھی طرح پیاس بجھا دی۔ اس پر خداتعالیٰ نے اپنے بندے کی قدردانی کی تو اس کو جنت میں داخل کر دیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ 521۔ مطبوعہ بیروت)
طمع اور لالچ کے بغیر ضرورت اور رحم کے جذبات کے پیش نظر جب کتے کو بھی پانی پلایا گیا تواللہ تعالیٰ نے اس کا بھی اجر دیا۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے رحم کے نظارے ہیں- جیسا بندہ اس کی مخلوق سے کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی وہی سلوک کرتا ہے۔
پھر صدقات کے بارے میں ہی ازواج مطہرات کے بارے میں ایک بڑی پیاری روا یت آتی ہے۔ ان کو بھی کس طرح خواہش ہوتی تھی کہ آنحضرت ﷺ کازیادہ سے زیادہ قرب حاصل کیا جائے اور پھر یہ بھی خواہش تھی کہ اگر آنحضرت ﷺ کی وفات ان سے پہلے ہو جائے تو ہم بھی جلدی جلدی ان کو جا کے ملیں- اس کے لئے ایک دفعہ انہوں نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم میں سے سب سے پہلے آپ سے کون ملے گا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے لمبے ہاتھوں والی۔ پھر ان ازواج مطہرات نے اپنے ہاتھ ناپنے شروع کر دئیے۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھوں والی تھیں- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں اس بات کا بعد میں علم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد کیا تھی۔ اس سے مراد یہ تھی کہ کون کثرت سے زیادہ صدقہ دیتا ہے۔ کیونکہ وہی صدقہ دیا کرتی تھیں اور صدقے کو پسند کرتی تھیں- اور وہی ازواج میں سب سے پہلے آنحضور ﷺ سے جا ملیں-(بخاری کتا ب الزکوٰۃ باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح)
تو آپؐ نے کھل کے یہ نہیں بتایا کہ صدقہ و خیرات کرنے والی سب سے پہلے مجھ سے ملے گی بلکہ اشارۃ ً بتا دیا کیونکہ جو فطرتاً زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی ہے اسی نے آگے ملنا ہے۔ یہ ہر ایک کی اپنی اپنی فطرت ہوتی ہے۔ بعض کم کرتے ہیں بعض زیادہ کرتے ہیں- گو کہ ازواج مطہرات بہت زیادہ صدقہ کرنے والی تھیں-
ایک روایت میں آتا ہے حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور برائی کی موت کو دُور کرتا ہے۔ (ترمذی کتاب الزکوٰۃ باب ما جاء فی فضل الصدقۃ) تو کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ گناہوں کی پکڑ سے بچنے کے لئے بھی صدقہ و خیرات بہت ضروری ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی ہی استطاعت ہو۔ (بخاری کتا ب الزکوٰۃ با ب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ)یعنی معمولی سا صدقہ بھی ہو وہ بھی دو تا کہ اللہ میاں تمہارے گناہ بخشے۔ اور صدقہ اسی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر اس کی رضا کی خاطر دینا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’تمام مذاہب کے درمیان یہ امر متفق ہے کہ صدقہ خیرات کے ساتھ بلا ٹل جاتی ہے۔ اور بلا کے آنے کے متعلق اگر خداتعالیٰ پہلے سے خبر دے تو وہ وعید کی پیشگوئی ہے۔ پس صدقہ و خیرات سے اور توبہ کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے وعید کی پیشگوئی بھی ٹل سکتی ہے‘‘۔ یعنی جو انبیاء کی طرف سے ایسی پیشگوئیاں ہوں جن میں انذار بھی ہو وہ بھی ٹل جاتی ہیں-’’ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس بات کے قائل ہیں کہ صدقات سے بلا ٹل جاتی ہے۔ ہندو بھی مصیبت کے وقت صدقہ و خیرات دیتے ہیں’‘، یعنی جن کا اللہ تعالیٰ پہ اتنا یقین نہیں بھی ہے وہ بھی دیتے ہیں- اگر بلا ایسی شے ہے کہ وہ ٹل نہیں سکتی تو پھر صدقہ خیرات سب عبث ہو جاتے ہیں’‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 177-176 جدید ایڈیشن)
یہاں آپؑ یہ بیان فرما رہے ہیں کہ صدقہ و خیرات سے مشکلیں دور ہوتی ہیں- تو توبہ، دعا، صدقہ و خیرات سے، جیساکہ مَیں نے کہا، مشکلات دور ہوتی ہیں- بلکہ فرمایا کہ اگر انبیاء کی طرف سے بھی کسی قوم کا حال دیکھ کر اس کی بربادی کی پیشگوئی کی جائے، اس کو انذار کیا جائے تو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہوتی ہے جو آگے نبی پہنچاتا ہے اگر قوم دعا اور صدقہ و خیرات کرے یا اس کی طرف مائل ہو تو وہ پیشگوئیاں بھی ٹل جاتی ہیں- پس جب نبی کی پیشگوئیاں ٹل سکتی ہیں جو براہ راست اللہ سے خبر پا کے پیشگوئی کرتا ہے تو عام معاملات میں جو مشکلات انسان کو پیدا ہوتی رہتی ہیں وہ تو صدقہ و خیرات سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ضرور ٹالتا ہے۔
دعاؤں اور صدقات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا بندہ خالص ہو کر اس کے سامنے جھکتا ہے اور اس سے بخشش اور معافی طلب کرتا ہے تو وہ بھی اس پر رحم اور فضل کی نظر ڈالتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ اگر کوئی شخص توبہ، استغفار یا دعا کرے یا صدقہ خیرات دے تو بلا رد کی جائے گی۔
جب دعاؤں کے ساتھ صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دیں یا صدقہ و خیرات کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دیں کیونکہ بعض لوگ صرف صدقہ کر دیتے ہیں وہ ان کو آسان لگتا ہے، نمازوں اور دعاؤں کی طرف توجہ کم ہوتی ہے، دونوں چیزیں اگر ملائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل بہت تیزی سے فرماتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بعض لوگ صدقہ و خیرات تو کر دیتے ہیں لیکن یہ ایک حصہ ہے اس حکم کا۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ مالک ہے، وہ اپنے بندے کو کسی بھی طرح نواز سکتا ہے، بخش سکتا ہے لیکن یہ بھی اس کا حکم ہے کہ میرے سارے احکام پر عمل کرتے ہوئے میرے سامنے جھکو اور میرے سے دعا مانگو کیوں کہ میں لوگوں کی دعائیں سنتا ہوں- جیسا کہ وہ فرماتا ہے اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرۃ 187)کہ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ لیکن بندے کا بھی یہ کام ہے کہ اس پکار کے ساتھ اُس طرح کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُوْمِنُوْا بِیْ (البقرۃ 187)

چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں اور پھر اس کانتیجہ کیا ہو گا؟

لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (البقرۃ 187)

کہ وہ ہدایت پا جائیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ سے اس دعا کے رابطے کو قائم رکھنے کے لئے، اور ہدایت پر قائم رہنے کے لئے، اس کے فضلوں کو ہمیشہ سمیٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب اس طرح دعاؤں کے ساتھ احکامات پر عمل کرتے ہوئے، صدقہ وخیرات پیش کر رہے ہوں گے، چندے دے رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ہماری دعائیں سنے گا بھی اور ان قربانیوں کو قبول بھی فرمائے گا۔
لیکن بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہوتا ہے۔ مَیں یہ بھی بتاتا چلوں کہ خود تو بعض لوگوں کی دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہوتی، ایسے بھی کچھ ہوتے ہیں-باقی احکامات بھی کبھی مانیں یا نہ مانیں، صدقہ و خیرات یا چندوں وغیرہ کی ادائیگی بھی کبھی کی تو بڑی
بے دلی سے کی۔ لیکن مشکل کے وقت بزرگوں کو یا خلیفۂ وقت کو دعا کے لئے لکھ کر پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا یہ کام اب ضرور ہو جانا چاہئے۔ گویا کہ یہ ذمہ داری ہم نے ان پہ ڈال دی ہے اب ان کا کام ہے جس طرح بھی مانگیں اور ہمارا کام کرائیں- بعض ایسے بھی سر پھرے ہوتے ہیں، ایسے خط آ جاتے ہیں جن میں باقاعدہ میری جواب طلبی ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی نہ کوئی حوالہ اس میں لکھ کر اس کی اپنے طور پر تشریح کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو اتنا عرصہ ہو گیا دعا کے لئے لکھ رہا ہوں اور ابھی تک میرا کام نہیں ہوا۔ آپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ میرے لئے دعا کریں اور اپنی ذمہ داری کی طرف آپ کو توجہ دینی چاہئے۔ باقاعدہ ڈانٹ ہوتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا مجھے ایک حوالہ ملا۔ جس سے مجھے پتہ لگا کہ یہ سر پھرے صرف آج کل ہی نہیں ہیں،فکر کی کوئی بات نہیں بلکہ ہر زمانے میں ہوتے ہیں- یہ بڑا اچھا حوالہ ہے کیونکہ لگتا ہے کسی وقت آپؓ کے ساتھ بھی کسی ایسے نے ہی کوئی ایسی باتیں کی تھیں جس پر آپ نے خطبے میں یہ فرمایا۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے ہیں کہ:’’بعض لوگ دعا کے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیں کہ گویا میں خدا کا ایجنٹ ہوں اور بہرحال ان کا کام کرا دوں گا۔ خوب یاد رکھو مَیں ایجنٹ نہیں ہوں، مَیں اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں’‘۔ حضرت خلیفہ اول کا جواب میں اسی لئے پڑھ رہا ہوں کہ وہی جواب ان کومیری طرف سے بھی ہے۔ ‘’ہاں ! اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی کرنا میرا کام ہے‘‘۔ پھر فرمایا:’’مگر جماعت کے بعض لوگ دعا کرانے کی درخواست میں بھی شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں- یاد رکھو کہ ا للہ تعالیٰ کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، کوئی تمہارا کار ساز نہیں- مَیں علم غیب نہیں جانتا۔ نہ مَیں فرشتہ ہوں اور نہ میرے اندر فرشتہ بولتا ہے۔ اللہ ہی تمہارا معبود ہے۔ اسی کے تم ہم سب محتاج ہیں، کیا مخفی اور کیا ظاہر رنگ میں- اس کی طاقت بہت وسیع ہے اور اس کا تصرف بہت بڑا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے‘‘۔ پھر آپؓ نے فرمایا:’’خدا ہی کا علم کامل ہے۔ اس کا تصرف کامل ہے۔ اسی کے آگے سجدہ کرو۔ اسی سے دعا مانگو۔ روزہ، نماز، دعا، وظیفہ، طواف، سجدہ، قربانی، اللہ کے سوا دوسرے کے لئے جائز نہیں’‘۔ پھر بعض لوگ جواللہ کے فضل سے جماعت میں تو نہیں لیکن بعض دفعہ بعض شکایتیں ایسی آتی ہیں کہ بعض عورتیں کمزوریاں دکھا جاتی ہیں- بالکل ہی بعض دعا کرانے والوں پہ اتنا اعتقاد ہوتا ہے کہ سمجھتی ہیں کہ بس ان کے واسطے سے ہی اوپر دعا جانی ہے۔ اگر دعا کا کوئی واسطہ ہے تو صرف آنحضرت ﷺ کا واسطہ ہے،اس کے علاوہ تو کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس لئے درود بھیجنا چاہئے۔
فرمایا کہ:’’بے ایمان شریروں نے لوگوں کے اندر شرک کی باتیں گھسا دی ہیں- کہتے ہیں کہ قبروں پر جاؤ اور قبر والے سے کہوکہ توہمارے لئے خداکے آگے عرض کر‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں قبروں والوں کے پاس تو نہیں جاتے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض زندوں کے پاس جاتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ بس اس کے علاوہ ہمارا کام نہیں ہونا۔ میں اس بارے میں پہلے ایک دفعہ کھل کے بتا چکا ہوں- فرمایا کہ :’’اسلام نے ہم کو اس طرح کی دعا نہیں سکھائی‘‘۔ (خطبات نور صفحہ 506)
تو یاد رکھیں کہ پہلی بات تو یہ کہ جس سے دعا کرائی جائے ٹھیک ہے اس پر یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا سنتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے اپنے آپ پر بھی غور کرنا ہوگا، اپنی حالت بھی بدلنی ہو گی کیونکہ اس طرح دعا کرنے والے کو، جس سے دعا کروائی جا رہی ہے امتحان میں نہ ڈالیں-خود بھی اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہو گا۔ تبھی جب یہ دونوں دعائیں اکٹھی ہو کر، یعنی دعا کروانے والے کی اور دعا کرنے والے کی دعا جب اکٹھی ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش میں لائے گی۔ اور بعض دفعہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا اللہ تعالیٰ کسی اور رنگ میں دعا قبول کر لیتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اسی طرح مانے جس طرح بندہ مانگ رہا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’قضاء و قدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے۔ دعا کے ساتھ معلّق تقدیر ٹل جاتی ہے۔ جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہے۔ جو لوگ دعا سے منکر ہیں ان کو ایک دھوکہ لگا ہوا ہے۔ قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں- ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے۔

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ (البقرۃ:156)’‘۔

میں تو اپنا حق رکھا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں خوف اور بھوک سے آزماؤں گا۔ فرمایا کہ اس ’’میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے۔ اور نون ثقیلہ کے ذریعے جو اظہار تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے۔ تو اس کا علاج

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ:157)

ہی ہے‘‘۔ اور دوسرا وقت جب اللہ تعالیٰ منوانا چاہتا ہے تو پھر یہی اس کا علاج ہے۔ پھر اس کی رضا پہ راضی ہوں- اور فرمایا کہ: ’’دوسرا وقت خداتعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے۔

وہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن: 61)

میں ظاہر کیا ہے‘‘۔ کہ مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔ تو دو باتیں ہیں- ایک یہ کہ خود منواتا ہے، خود قرآن شریف نے فرمایا ہے دوسرا یہ کہ کبھی بندے میں جوش پیدا کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میرے سے دعا مانگو میں ضرور قبول کروں گا۔
فرمایا: ’’پس مومن کو ان دونوں مقامات کا پورا علم ہونا چاہئے۔ صوفی کہتے ہیں کہ فقر کامل نہیں ہوتا جب تک محل اور موقع کی شناخت حاصل نہ ہو بلکہ کہتے ہیں کہ صوفی دعا نہیں کرتا جب تک کہ وقت کوشناخت نہ کرے‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے۔ یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں‘‘۔ کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائیں قبول فرمائی ہیں- اور بڑے عظیم الشان قبولیت دعا کے نظارے ہیں- بعض ایسے بھی ہیں جہاں تکالیف پہنچیں لیکن آپ نے بڑے صبر سے اس کو برداشت کیا اور خوشی سے ان کو تسلیم کیا۔
پھر فرماتے ہیں کہ :’’جو لوگ فقراء اور اہل اللہ کے پاس آتے ہیں- اکثر ان میں سے محض آزمائش اور امتحان کے لئے آتے ہیں- وہ دعا کی حقیقت سے ناآشناہوتے ہیں‘‘۔ ان کو اصل میں وہ آزمانا چاہتے ہیں- ان کو دعا کی حقیقت کا نہیں پتہ ہوتا۔ جس طرح ایک صاحب لکھتے ہیں کہ اب کیوں نہیں کرتے۔ ‘’اس لئے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔ عقلمند انسان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے……۔ جو لوگ دعا کے منافع سے محروم ہیں- ان کو دھوکہ ہی لگا ہوا ہے کہ وہ دعا کی تقسیم سے ناواقف ہیں’‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 168-167جدید ایڈیشن) یعنی اس چیز سے ناواقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی مانتا ہے کبھی نہیں مانتا۔ جب نہیں بھی مانتا تو اپنے بندے کے لئے کوئی اور سامان پیدا فرما دیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا تو گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ اسے عافیت طلب کرنا محبوب ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دعا اس ابتلاء کے مقابلہ پر جو آ چکا ہو، اور اس کے مقابلے پربھی جو ابھی نہ آیا ہو، نفع دیتی ہے۔ اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو‘‘۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید)
پھر آنحضرت ﷺنے فرمایا دوسری روایت میں کہ نیکی کے علاوہ اور کوئی چیز عمر نہیں بڑھاتی۔ اور دعا کے علاوہ تقدیر الٰہی کو کوئی چیز ٹال نہیں سکتی۔ اور انسان یقینا اپنی خطاؤں ہی کی وجہ سے جووہ کر چکا ہوتا ہے رزق سے محروم کیا جاتا ہے‘‘۔
(سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ باب فی القدر)
ایک روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ:’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ قابل عزت اور کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔
(ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء فی فضل الدعاء)
تو جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ضرور پھر پکار سنتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ جو بندے میری باتوں پر بھی عمل کریں- تو اگر جائزہ لیں اور اگر ہم سارے جائزہ لیتے رہیں تو پتہ لگ جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کتنی باتوں پر عمل کرنے والے ہیں- خود بخود اس جائزے کے ساتھ ہی دعا کی قبولیت کے نہ ہونے کے شکوے دور ہو جاتے ہیں- تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل عزت دعا کرنے والا اس لئے ہے کہ وہ خالص ہو کر اس کے آگے جھکتا ہے اس کے آگے، اس کے سامنے حاضر ہوتاہے، اس سے فریاد کرتا ہے، اس میں کوئی دکھاوا نہیں ہوتا۔ وہی صاحب عزت ہے جو اس کی رضا کی خاطر کر رہا ہے اور یہ چھپ کر بھی ہوتا ہے اور ظاہر بھی ہوتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’گناہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملاہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہو سکتا ہے۔ استغفار کیا ہے؟ یہی کہ جو گناہ صادر ہو چکے ہیں-ان کے بدثمرات سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے۔ جوابھی صادر نہیں ہوئے اور جو بالقوۃ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے‘‘۔ انسان کے اندر موجود ہوں لیکن انسان وہ کبھی نہ کرے۔ اس لئے استغفار کرنی چاہئے۔ ‘’اور اندر ہی اندر جل بھن کر راکھ ہو جاویں’‘۔ استغفار کی وجہ سے وہ وہیں ختم ہو جائیں- فرمایا کہ:’’یہ وقت بڑ ے خوف کا ہے۔ اس لئے توبہ اور استغفار میں مصروف رہو اور اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہو، ہر مذہب و ملت کے لوگ اور اہل کتاب مانتے ہیں کہ صدقات و خیرات سے عذاب ٹل جاتا ہے۔ مگر قبل از نزول عذاب۔ مگر جب نازل ہو جاتا ہے توہرگز نہیں ٹلتا’‘۔ جو دنیا کے حالات ہیں، ان کے لئے بھی ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور استغفار کرنی چاہئے۔ ہر احمدی اس سے محفوظ رہے۔ ‘’پس تم ابھی سے استغفار کرو اور توبہ میں لگ جاؤ تا تمہاری باری ہی نہ آوے اور اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 218جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا حاصل کرنے اپنا قرب حاصل کرنے کے لئے صدقہ اور مالی قربانیوں کو کرنے کی اور دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔
ایک افسوسناک اطلاع بھی ہے کہ سلسلہ کی ایک بزرگ، مخیر خاتون محترمہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ کل وفات پا گئی ہیں- اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ حضرت نواب محمد دین صاحب کی صاحبزادی تھیں جنہوں نے ربوہ کی زمین لینے کے لئے اس کے حصول کے لئے اور پھر بعد میں پلاننگ وغیرہ کی منظوری کے لئے بہت کام کیا ہوا ہے۔ اور حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں ان کے اس کام کی وجہ سے بڑا زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا۔ محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ خود بھی مالی قربانیوں میں ہمیشہ صف اول میں رہی ہیں- اور جماعتی خدمات کے لحاظ سے جو رپورٹ مجھے ملی ہے، لجنہ اس کو ویری فائی (Verify) کر لے گی، کہ د ہلی، کراچی اور لندن میں صدر لجنہ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں-آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ بھی تھیں اور 1/3حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی اور اپنی زندگی میں ہی تمام حصہ وصیت جائیداد وغیرہ ہر چیز کا ادا بھی کر دیا تھا۔ اور اس کے علاوہ بھی جو متفرق مالی قربانیوں کی تحریک خلفاء کی طرف سے ہوتی رہی اس میں بھی آپ نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اور ایک خاص بات یہ ہے کہ خلافت رابعہ کے ابتداء میں ان کے خاوند چوہدری شاہنواز صاحب مرحوم نے ذہین طلبہ کی پڑھائی کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں باہر ہی ایک بڑی رقم پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا جووہ پیش کرتے رہے۔ اور ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ محترمہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ نے بھی اس کو اپنے اور اپنے خاوند کی طرف سے جاری رکھا۔ نہ صر ف جاری رکھا بلکہ اس رقم میں اضافہ بھی فرما دیا۔ اور اب تک اس خطیر رقم سے اس کی ادائیگی ہو رہی ہے اور کافی طلبہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں- اور جیسا کہ میں نے کہا یہ فنڈ تعلیمی قائم کیا گیا تھا، دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طلبہ اور امریکہ یا یورپ میں اگر اعلیٰ تعلیم اس فنڈ سے حاصل کر چکے ہیں- اور اس کے علاوہ بھی کئی غریب طلبہ کو بھی ہر سال وقتی امداد یا وظائف دئیے جاتے ہیں- اس کے علاوہ ان کا جو فنڈ جاری تھا اس سے ہندوستان، نیپال اور افریقہ کے بعض سکولوں کو چلانے کے لئے گرانٹ بھی دی جاتی ہے۔ تو ایک جاری صدقہ تھا جو ان کی طرف سے تھا۔ اور ہزاروں طلبہ نے ان سے فیض اٹھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کا یہ صدقہ جاریہ ہمیشہ جاری رکھے اور یہ صدقہ ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنتا رہے۔
آپ غریبوں سے بے انتہا ہمدردی کرنے والی اور کافی غیر محسوس طریقے پر بھی مدد کرنے والی تھیں- اور اپنے عزیزوں رشتہ داروں میں ہر دلعزیز تھیں، بہت پسند کی جاتی تھیں- اور انہیں اکٹھا رکھنے میں بھی انہوں نے بعض جگہوں پہ بہت اہم کردار ادا کیا کیونکہ ان کے جو بھی عزیز مجھے ملے ہیں انہوں نے ہمیشہ ان کی تعریف ہی کی ہے۔
خلافت احمدیہ سے بھی ان کا ایک خاص اور بے انتہا پیار اخلاص وفا کا تعلق تھا۔ اسی طرح خاندان حضرت مسیح موعود
علیہ السلام سے بھی بہت محبت کرنے والی اور ہر چھوٹے بڑے کابے حد احترام کرنے والی تھیں- جتنے زیادہ اللہ تعالیٰ نے مالی لحاظ سے ان پر فضل فرمائے اتنی زیادہ ان میں عاجزی پیدا ہوتی گئی۔ اور یہ نظارے ہمیں آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت میں ہی نظر آتے ہیں- لوگوں کے پاس پیسہ آ جائے تو عاجزی آنے کی بجائے دماغ خراب ہو جاتے ہیں-
مالی وسعت نے انہیں صدقہ و خیرات اور جماعت کی خاطر مالی قربانیوں میں اور بڑھایا۔ اور یہ جومَیں نے مالی قربانی، دعا اور صدقے کا جومضمون بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ سب کچھ کروتو اس میں ان کی بھی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ ماشاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو اور نسلوں کو بھی انہیں کی طرح اللہ کی مخلوق کا بھی خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت کی خاطر مالی قربانیوں میں بھی صف اول میں شامل رہنے کی توفیق دیتا چلا جائے اور ان کی تمام نیکیوں کو ہمیشہ ان کی اولاد کو قائم رکھنے کی توفیق دے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ ہر ایک عمل انسان کا جو اس کے مرنے کے بعد اس کے آثار دنیا میں قائم رہیں وہ اس کے واسطے موجب ثواب ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ ہر ایک عمل جو نیک نیتی کے ساتھ ایسے طور سے کیا جائے کہ اس کے بعد قائم رہے وہ اس کے واسطے صدقہ جاریہ ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کئی سکول بھی ان سے چل رہے ہیں- یہ تو ایک صدقہ جاریہ ہے اور خدا کرے جاری بھی رہے اور اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی اس کی توفیق دے۔ ماشاء اللہ ان کی اولاد بھی اور آگے نسلیں بھی ان کی تربیت کی وجہ سے جماعت اور خلافت کے ساتھ ان کا ایک خاص تعلق ہے اور بڑا اچھا تعلق نبھا رہی ہیں- اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان کو توفیق دیتا رہے۔ یہ انہی قربانیوں کو جاری رکھیں جو ان کے والدین نے کیں اور یہی قربانیاں ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنتی رہیں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں