خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 3؍دسمبر 2004ء

انسان جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکے ۔
اللہ تعالیٰ بندوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ بندوں کے فائدے کے لئے اور انہیں اپنے فضلوں اور انعامات سے نوازنے کے لئے عبادت کا حکم دیتا ہے ۔
(عبادت کی اہمیت و افادیت کو دلوں میں واضح کرنے کے لئے ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کو خصوصی توجہ دینے کی تاکیدی ہدایت )
(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
3؍دسمبر2004ء بمطابق3؍فتح 1383ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن ۔لندن)
وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (الذاریات: 57)۔

اور میں نے جنّ و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں-
گزشتہ دنوں مجھے کسی نے امریکہ سے لکھا کہ بعض لوگ جو آجکل اس مغربی معاشرے سے متأ ثر لگتے ہیں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے یوں لگتا ہے گویا (نعوذ باللہ) خداتعالیٰ کو بھی دنیاداروں کی طرح اپنے ماننے والوں یا اپنے احکامات پر عمل کرنے والوں کی ضرورت ہے یا ایسے لوگ چاہئیں جو ہر وقت اس کا نام جپتے رہیں اس کے آگے جھکے رہیں، یہ تو خط میں واضح نہیں تھا کہ یہ خیالات رکھنے والے احمدی ہیں، غیر احمدی ہیں یا اس ماحول کے لڑکے ہیں یا کوئی اور۔ بہرحال مجھے اس سے یہ تأثر ملا تھا کہ شاید کچھ احمدی لڑکے بھی ہوں یا ان میں کچھ احمدی لوگ بھی ہوں، صرف نوجوان ہی نہیں بڑی عمر کے بھی بعض اوقات ہو جاتے ہیں جو بعض دفعہ لا مذہبوں یا دوسروں سے متا ٔ ثر ہو کر ایسی باتیں کر جاتے ہیں یا متأثر ہو رہے ہوتے ہیں- تو تأ ثر یہی تھا کہ یہ جو پانچ وقت کی نمازیں ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یہ جیسے کہ زائد بوجھ ہیں اور ان کی اس طرح پابندی کرنی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہے اور آجکل کے مصروف زمانے میں یہ بہت مشکل کام ہے بہرحال دہریت اور عیسائیت دونوں سے متاثر ہو کر ایسے لوگ ایسی باتیں کر سکتے ہیں- اور ان پر یہ باتیں اثر انداز ہوتی ہیں-
اللہ تعالیٰ کابے حد شکر ہے کہ مغرب میں رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اِلَّامَاشَاء اللہ عموماً احمدی یہ تو ہو سکتا ہے کہ عبادت میں نمازوں میں سستی کر جائیں لیکن اس قسم کے نظریات نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی۔ یا یہ زمانہ جو سائنس کا اور مشینی زمانہ ہے اس میں اس طرح عبادات نہیں ہو سکتیں، پابندیاں نہیں ہو سکتیں- لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ عموماً تو نہیں ہوتے لیکن اگر چند ایک بھی ایسے احمدی ہوں جن کا جماعت سے اتنا زیادہ تعلق نہ ہو۔ تعلق سے میری مراد ہے جماعتی پروگراموں میں حصہ نہ لیتے ہوں یا جلسوں وغیرہ پہ نہ آتے ہوں یا جن کادینی علم نہ ہو،ایسے لوگ اپنے آپ کو بڑا پڑھا لکھا بھی سمجھتے ہیں، یہ لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں- اپنے ماحول میں اس قسم کی باتوں سے برائی کا بیج بو سکتے ہیں- یا بعض دفعہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جو لامذہب قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں- اور کیونکہ برائی کے جال میں انسان بڑی جلدی پھنستا ہے اس لئے بہرحال فکر بھی پیدا ہوتی ہے کہ ایسے مغربی معاشرے میں جہاں مادیت زیادہ ہو، اس قسم کی با تیں کہیں اَور وں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں- اس وجہ سے مَیں نے اس موضوع کو لیا ہے۔
لیکن کچھ کہنے سے پہلے ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے ماحول میں جائزہ لیتے رہیں- عموماً جو احمدی کہلانے والے ہیں عموماً ان تک ان کی پہنچ ہونی چاہئے۔ جو نوجوان دُور ہٹے ہوتے ہیں ان کو قریب لانا چاہئے تاکہ اس قسم کی ذہنیت یا اس قسم کی باتیں ان کے ذہنوں سے نکلیں-
مَیں نے ابھی جس آیت کی تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر یہی فرمایا ہے کہ مَیں نے جن و انس کو عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے۔ لیکن یہاں پابندی نہیں ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی مخلوق پیدا کی ہے وہ ضرور پیدائش کے وقت سے ہی اپنے ماحول میں بڑے ہوں تو ضرور عبادت کرنے والے ہوں- ماحول کا اثر لینے کی ان کو اجازت دی گئی ہے۔ باوجود اس کے کہ پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ عبادت کرنے والا ہو اور عبادت کی جائے لیکن ساتھ ہی، جیسا کہ مَیں نے کہا، شیطان کو بھی کھلی چھٹی دے دی، ماحول کو بھی کھلی چھٹی دے دی کہ وہ بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
فرمایا کہ جو میرے بندے بننا چاہیں گے، میرا قرب پانا چاہیں گے وہ بہرحال اپنے ذہن میں یہ مقصد رکھیں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق عبادت کرنی ہے۔ اور اب کیونکہ ایک مسلمان کے لئے وہی عبادت کے طریق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے ہیں- اسی شریعت پہ ہمیں چلنا ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کے آئے ہیں- جس طرح انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھتے ہوئے عبادت کے طریق سکھائے ہیں اسی طرح عبادت بھی کرنی ہے۔ اور جو اوقات بتائے ہیں ان اوقات میں عبادت کرنی ہے۔ اگرنہیں تو پھر مسلمان کہلانے کا بھی حق نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے بندے کہلانے کا بھی حق نہیں ہے۔ پھر تو شیطان کے بندے کہلانے والے ہوں گے۔ لیکن ایسے ہی خیالات والے لوگ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوں تو مسلمان گھرانوں کے ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ احمدی ہوں تو اور زیادہ مضبوط ایمان والے گھر کا اثر ہوتا ہے جو اسلام پر عمل کرنے والے ہوں- اور اسی ماحول میں کیونکہ پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لئے جب بھی ان کو کوئی مشکل پڑتی ہے، جب بھی کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو دعا کی طرف ان کی توجہ بھی پیدا ہوتی ہے اور پھر دعا کے لئے کہتے بھی ہیں- باوجود اس کے کہ اعتراض کرتے ہیں کہ عبادت کا جو اسلام میں طریق کار ہے وہ بہت مشکل ہے۔ گویا ذہن میں عبادت کا تصور بھی ہے اور یہ خیال بھی ہے کہ کسی مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا بھی ہے۔ لیکن پانچ وقت نمازیں پڑھنا کیونکہ بوجھ لگتی ہیں اس لئے عبادت کی تشریح اپنی مرضی کی کرنا چاہتے ہیں، اس سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں- لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اگر احمدی کہلاتے ہیں،مسلمان کہلاتے ہیں تو عبادت کی وہی تشریح ہے جس کے نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے ہیں اور پھر اس زمانے میں احمدی کے لئے خاص طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان نمونوں کو اور قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کی تفسیر ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے۔
اس لئے ہمیں اس زمانے میں ان احکامات کو سمجھنے کے لئے اور ان پر پابندی اختیار کرنے کے لئے اُسی طرح عمل کرنا ہو گا اور اُنہیں لائنوں پر چلنا ہو گا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں سمجھائی ہیں- اور انہیں رستوں پہ چل کے ہم نیکیوں اور عبادت کے طریقوں پر قائم بھی رہ سکتے ہیں-
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (الذاریات: 57)

اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصل غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر پروانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا سمجھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں اور خداتعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی۔ وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری بھی اس وقت ہے جب اس کے احکامات پر عمل کرو گے اور اس کی عبادت کرو گے۔
فرمایا کہ ’’وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے۔ موت کا اعتبار نہیں ہے …… تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خداتعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ۔ دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو۔ مَیں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو، بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں- اسلام تو انسان کو چست، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے، اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تردّد نہ کرے تو اس سے مؤاخذہ ہو گا۔ پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادے سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا‘‘۔
(الحکم مورخہ 10؍ اگست 1901ء صفحہ 2)
آپؑ نے بڑی وضاحت سے فرمایا کہ تمہارا ا صل مقصد خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہونا چاہئے کیونکہ فطرت صحیحہ یہی ہے جو انسان کی فطرت جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکے۔ لیکن اگر اس کی عبادت نہیں کرتے، اس کے آگے نہیں جھکتے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی پابند نہیں کہ مشکلات میں یا تکلیف میں ضرور ان کی مدد کو آئے اور ان پر اپنا فضل فرمائے جو اس کی عبادت نہیں کرتے۔ پس اگر اس کا فضل حاصل کرنا ہے تو اس کی عبادت بھی کرنی ہو گی۔ فرمایا تمہارے دنیاوی کام کاج ہیں، ان کو بھی کرو، ملازمتیں بھی کرو، کاروبار بھی کرو زمیندار ہو تو زمینداری بھی کرو۔ لیکن تمہارا مقصد بہرحال اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اس کی عبادت میں ہے۔ عام دنیاوی معاملات میں بھی جب انسان کسی چیز کا مالک ہو تو اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ملازم بھی رکھتا ہے تو اس کو یہی حکم ہوتا ہے کہ تم نے میرے بتائے ہوئے طریق پر کام کرنا ہے اور کسی دوسرے کی بات نہیں ماننی۔ تو اللہ تعالیٰ جو ربّ بھی ہے، مالک بھی ہے، معبود بھی ہے، اس کی بات ماننے سے ہمیں کیونکر اعتراض پیدا ہوتا ہے۔
اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کچھ وضاحت کی ہے۔ یہ ان لوگوں کا اعتراض جو کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے بنایا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں، اس کی یہ خواہش ہے اس میں اس اعتراض کا بھی جواب دیا ہے۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ:’’بظاہر یہ تعلیم کہ خداتعالیٰ نے اپنے بندہ کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے خود غرضانہ معلوم دیتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اللہ تعالیٰ بندے کی عبادت کامحتاج ہے۔ لیکن اگر قرآن پر غور کیا جائے تو حقیقت بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم بوضاحت بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی عبادت کا محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ سورۂ عنکبوت رکوع اول میں ہے کہ

وَمَنْ جَاھَدَ فَاِنَّمَا یُجَاھِدُ لِنَفْسِہٖ۔ اِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (العنکبوت :7)

یعنی جو شخص کسی قسم کی جدوجہدروحانی ترقیات کے لئے کرتا ہے وہ خود اپنے نفس کے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات اور ان کے ہر قسم کے افعال سے غنی ہوتا ہے’‘۔ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے کہ بندہ کیا کرتا ہے، کیا نہیں کرتا۔ آگے اس بارے میں ایک تفصیلی حدیث بھی میں بیان کروں گا۔ جو کچھ کرتا ہے انسان اپنے فائدے کے لئے کرتا ہے۔ ‘’اسی طرح سورۃ حجرات میں فرماتا ہے کہ

قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ۔ بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ھَدٰکُمْ (الحجرات:18)

یعنی مذہب اسلام کو قبول کرکے رسول کریم ﷺ پر احسان نہیں نہ خداتعالیٰ پر ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے وہ طریق بتایا جو لوگوں کی ترقی اور کامیابی کا موجب ہے۔ پس عبادت قرآن کریم کے رو سے خود بندے کے فائدے کے لئے ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ عبادت چند ظاہری حرکات کا نام نہیں ہے بلکہ ان تمام ظاہری اور باطنی کوششوں کا نام ہے جو انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنا دیتی ہے۔ کیونکہ عَبْد کے معنی اصل میں کسی نقش کے قبول کرنے اور پورے طور پر اس کے منشاء کے ماتحت چلنے کے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی منشا کے ماتحت چلے گا الٰہی صفات کو اپنے اندر پیدا کر لے گا اور ترقی کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کر لے گا۔ تو یہ امر خود اس کے لئے نفع رساں ہو گا نہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے۔ بائیبل میں جو یہ لکھا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شکل پر پیدا کیا (پیدائش باب 1) تو درحقیقت اس میں بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر سکے ورنہ اللہ تعالیٰ تمام شکلوں میں پاک ہے۔
پس عبادت پر زور دینے کے محض یہ معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے وجود کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو کیونکہ کامل تصویر تبھی کھینچی جا سکتی ہے جب اس وجود کا نقشہ ذہن میں موجود ہو جس کی تصویر لینی ہو اور عبادت اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنے اور ان کا نقش اپنے ذہن پر جمانے کا ہی نام ہے جس میں انسان کا فائدہ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا‘‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ’’اس مضمون کی طرف ایک حدیث میں بھی اشارہ ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! مَاالْاِحْسَان؟ کامل عبادت کیا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایاکہ

’اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنَّکَ تَرَاہ۔

تُو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا معنوی طور پر وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ تیرے سامنے کھڑا ہوجائے۔
(تفسیر کبیر جلد نمبر3 صفحہ143-142)
پھر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازنے کے لئے ہی عبادت کا حکم دیتا ہے اور ان کے فائدے کے لئے ہی دیتا ہے۔ اس بارے میں اس مضمون کو ایک اور جگہ بیان فرماتا ہے کہ

اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓء وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآء الْاَرْضِ۔ ء اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (سورۃ النمل آیت 63:)

یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا کو قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے۔ اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔
تو جیسا کہ مَیں پہلے بھی بیان کر آیا ہوں ایسے لوگ عبادت کے خلاف ہوتے ہیں یا بلاوجہ کا اعتراض اٹھا رہے ہوتے ہیں ان کو بھی تکلیف کے وقت دُعا یاد آ جاتی ہے۔ وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جن کے بارے میں ذ کر آتا ہے کہ جب ان کو طوفان گھیر لیتا ہے تو رونا پیٹنا دعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں- اور جب وہ طوفان ٹل جاتا ہے اورخشکی پر پہنچ جاتے ہیں توپھر منکر ہو جاتے ہیں- تو فرمایا یہ اللہ ہے جو اس طرح بے قراروں کی دعائیں سنتا ہے۔ اور تکلیفیں دور کرتا ہے اور ہم یہ نظارے ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں- انہی دعائیں کرنے والوں نے دنیا پر حکومت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کا وارث بنایا۔ اس لئے تمہارے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اگر عبادتیں کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے بھی حصہ پاتے رہو گے۔
دیکھ لیں جب عبادتوں کے معیار کم ہونے شروع ہو گئے تو آہستہ آہستہ مسلمانوں کا رعب بھی ختم ہوتا رہا۔ آج ہر طاقتور قوم ان سے جو سلوک کرنا چاہے کرتی ہے اور اب تو ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ تو یاد رکھو کہ یہ انعام انہی عبادتوں کی وجہ سے تھے جو ہمارے آباء واجداد نے کیں یا کرتے رہے، جو صحابہ نے کیں،ان کی وجہ سے فتوحات حاصل کیں- اور یہ انعام اب بھی مل سکتے ہیں اور ملتے رہیں گے اگر عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہی۔ اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس مادی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کرکے تم اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کر لو گے، تو یہ وہم ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ دنیاداری اور نفس پرستی نے اور دنیا کی چکاچوند نے اتنا زیادہ اپنے آپ میں منہمک کر دیا ہے کہ تمہیں یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور تم اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ جن مسلمان ملکوں اور لیڈروں کے پاس حکومتیں ہیں ان کو اس طرف سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے نہ ہی سوچنا چاہتے ہیں- اور یہ سب جیسا کہ مَیں نے کہا یہ دنیاداری ہی ہے، یہ عبادتوں میں کمی ہی ہے جس نے امت مسلمہ کی یہ حالت کر دی ہے، یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ پس یہ سوال اٹھانے کی بجائے کہ اللہ کو عبادتوں کی کیا ضرورت ہے اور عبادت مشکل ہے اور اس زمانے میں اس طرح ادائیگیاں نہیں ہو سکتیں، ہر احمدی مسلمان ہر دوسرے مسلمان کو یہ سمجھائے،ہر دوسرے کو سمجھائے کہ یہ کھوئی ہوئی شان ا گر دوبارہ حاصل کرنی ہے تو پھر عبادتوں کی طرف توجہ دو۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو کیونکہ مسلمان کہلا کر پھراللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کرکے ہم اس کے انعاموں کے وارث نہیں بن سکتے۔
یاد رکھو یہی مسلمان کی شان ہے اور یہی ایک احمدی کی بھی شان اور پہچان ہونی چاہئے اور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہو۔ اور یہی عبادتیں ہیں جو اسے عاجزی میں بھی بڑھائیں گی اور یہی عاجزی ہے جو پھر اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا موقع بھی مہیا کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب میں جگہ دے گا اور اسے انعام بھی ملیں گے۔ پس عقل کرو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ یہ انعام عاجز ہو کر عبادت کرنے والے کو ہی ملتے ہیں- اور پھر یہ کہ عبادتیں کرنے والے عبادتوں میں تھکتے بھی نہیں،بے صبرے بھی نہیں ہو جاتے۔ یہ سوال بھی نہیں اٹھاتے کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھنی مشکل ہیں-بلکہ اپنی پیدائش کے مقصد کو پہچانتے ہوئے خداتعالیٰ کے سامنے جھکے رہتے ہیں- جیسے کہ فرماتا ہے

وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ وَمَنْ عِنْدَہٗ لَایَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا یَسْتَحْسِرُوْنَ (الانبیاء:20)۔

اور اسی کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے حضور رہتے ہیں اس کی عبادت کرنے میں استکبار سے کام نہیں لیتے اور نہ کبھی تھکتے ہیں- تو جب آسمانوں اور زمین میں ہر چیز اسی کی ہے تو پھر اس سے زیادہ کون اہم ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہر عقلمند انسان اس طرف زیادہ راغب ہو گا جہاں اس کو زیادہ فائدہ نظر آتا ہو گا۔ دنیاوی معاملات میں تو ہر کوئی فائدہ دیکھتا ہے لیکن اللہ کے معاملے میں اس طرف نظر نہیں جاتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر فرمایا ہے کہ تمام فائدے تمہیں مجھ سے ہی ملنے ہیں- اور میری طرف ہی جھکو۔ عبادت کرو، تکبر کو چھوڑو۔ اور کیوں یہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں یہ نہیں ہوتا؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اکثر دفعہ اپنی عبادت نہ کرنے والے یا شریک ٹھہرانے والوں کی فوری طور پر پکڑ نہیں کرتا، کیونکہ کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ چاہے تو میری طرف آؤ، چاہے تو شیطان کی طرف جاؤ۔ لیکن یہ بھی فرما دیا کہ شیطان کی طرف جا کر میرے انعاموں سے بھی محروم رہو گے اور دنیامیں بھی بعض دفعہ پکڑہو سکتی ہے او ربہرحال آخرت میں تو یقینی پکڑ ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کرنے والے ہو گے۔ تو بہرحال مالک کو حق ہوتا ہے کہ جو اصول وضع کئے گئے ہیں ان پر عمل نہ کرنے والوں کو سزا دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے معاملے میں بعض عقلمند بننے والے یہ کہتے ہیں کہ سزا کا بھی حق نہیں ہونا چاہئے، اور عبادت بھی جو مرضی کرے جو نہ کرے، چھوٹ ہونی چاہئے۔ چھوٹ تو ہے لیکن بہرحال پھرمالک ہونے کی حیثیت سے اس کو سزا کا بھی حق ہے اسی کو پکڑ کا بھی حق ہے۔ اس پر اعتراض ہو جاتا ہے کہ انسان کو عبادت کے لئے پیدا کرنے کا جو اصول بنایا ہے یہ بڑا غلط ہے اللہ تعالیٰ اپنی عبادت زبردستی کروانا چاہتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ تو یہ سب کچھ کروا کر انعامات سے نواز رہا ہے۔ جابر حکمران کی طرح یہ نہیں کہہ رہا کہ بس ہر صورت میں یہ کرو جس طرح بیگار لی جاتی ہے۔ بلکہ نہ صرف انعامات سے نوازتا ہے جہاں آسانی کی ضرورت ہے عبادتوں میں آسانی بھی پیدا فرماتا ہے۔ جیسا کہ سفر میں، بیماری میں کافی سہولتیں مہیا ہیں- روزے دار کے لئے بھی، نماز پڑھنے والے کے لئے بھی۔ تو اس پر تو بجائے زبردستی کا تصور قائم کرنے کے انسان جتنا سوچے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تصور ابھرتا ہے۔ اور پھر اس کی حمد اور اس کی عبادت کی طرف مزید توجہ پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اگر پھر بھی کوئی یہی رٹ لگائے رکھتا ہے کہ عبادت بڑی مشکل ہے اور عبادت کس لئے کی جاتی ہے، اور عبادت کی طرف نہیں آتا اور بے عقلوں کی طرح صرف دلیلیں دیئے چلا جاتا ہے اور وہ بھی اوٹ پٹانگ دلیلیں- تو اللہ تعالیٰ جس نے نوازنے کے لئے بندے کو عبادت کا حکم دیا ہے، بندے کے اپنے فائدے کے لئے عبادت کا حکم دیا ہے فرماتا ہے کہ اگر تم پھر بھی نہیں مانتے، انکار پر مصر ہو، اس پہ اصرار کئے جا رہے ہو تو پھر خدا کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں- اسے کوئی شوق نہیں ہے کہ تمہارے جیسے نافرمان اپنے ارد گرد اکٹھا کرے۔ جیسا کہ فرماتا ہے

قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ۔ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا (سورۃ الفرقان آیت 78:)

تو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا۔ پس تم اسے جھٹلا چکے ہو، ضرور اس کا وبال تم سے چمٹ جانے والا ہے۔
پس واضح ہو گیا کہ دعاؤں اور عبادت کی اللہ کو ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں ضرورت ہے۔ پس اگر تم انکار پر تلے بیٹھے ہو تو خداتعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اب سزا کے لئے تیار ہو جاؤ یہ بہرحال اس کا حق ہے، وہ مالک ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’کامل عابد وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اوروہ آیت یہ ہے

قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ

یعنی ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم لوگ رب کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پرواہ کرتا ہے‘‘۔ (الحکم جلد6 نمبر 24 مورخہ 10؍ جولائی 1902 ء صفحہ4)۔ جو عبادت کرنے والا ہے اس کی بات مانتا ہے اس کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ دشمن سے اس کو محفوظ رکھتا ہے۔
اپنی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ’’انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الٰہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کرکے بیکار کر لیتا ہے‘‘۔ یعنی عبادت کی غرض تو یہی ہے لیکن اگر ماحول کا اثر اس پہ پڑ گیا اور اللہ میاں نے جو اس کی فطرت میں چیز رکھی تھی اس کو بیکار کر لیا اور ضائع کردیا ’’تو خداتعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔

قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ-

مَیں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مَیں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ مَیں ایک جنگل میں کھڑا ہوں- شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پربھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پہ مسلط ہے‘‘ ہر ایک بھیڑ کے اوپر ایک قصائی کھڑا ہے۔ ’’ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے‘‘ کہ ان کے بارے میں کیا حکم ہے۔ ’’مَیں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں- میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں- تو مَیں نے یہی آیت پڑھی

قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ (سورۃ الفرقان آیت 78:)

یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلا دیں’‘۔ یعنی ان کی گردنوں پر چھریاں پھیر دیں، ذبح کر دیا۔ ‘’اور یہ کہا کہ تم ہو کیا؟آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو’‘۔ گند کھانے والی بھیڑیں ہی ہونا۔
فرمایا:’’غرض خداتعالیٰ متقی کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے۔ اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے۔ اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے۔ جیسے کلورافارم نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔ (الحکم جلد 5 نمبر 30 مورخہ 17؍ اگست 1901ء صفحہ1)
تو یہاں جو آپ کو رؤیا میں دکھایا گیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے اور ان کی حیثیت جانوروں کی طرح کی ہے۔ اور ان کو نقصان پہنچتا ہے توان کی کوئی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی بالکل بھی حفاظت نہیں فرماتا بلکہ آپ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں ڈالتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ دعا ہی دراصل عبادت ہے۔ پھر آنحضورﷺ نے یہ آیت فرمائی

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْلَکُمْ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ (المومن:61)

اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارومَیں تمہیں جواب دوں گا۔ یقینا وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تئیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔ (ترمذی ابواب الدعوات۔ باب ما جاء فی فضل الدعاء)۔ تو بالا تو وہی سمجھتے ہیں جن میں تکبر پایا جاتا ہے یا جن کے اندر شیطان گھسا ہوا ہے۔ اس لئے شیطان ذہنوں میں ایسے خیالات پیدا کرتا رہتا ہے کیونکہ شیطان ہے اور شیطان کسی وقت بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس لئے چاہے جن پر اثر ہے یا نہیں ہے، اس لئے اپنے ماحول میں جیسا دنیا میں ماحول میسر ہے استغفار کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے تاکہ جہنم کے عذاب سے بچے رہیں-
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ باتیں جو نبی ﷺ نے اپنے اللہ
تبارک و تعالیٰ سے روایت کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے آپ پر حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے۔ پس اے میرے بندو! تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (یہ لمبی حدیث ہے اس میں مختلف قسم کے احکامات ہیں) تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جسے مَیں ہدایت دوں- پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرومَیں تمہیں ہدایت عطا کروں گا۔ پھر فرمایا اے میرے بندو! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جسے مَیں کھلاؤں- پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو مَیں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم مَیں سے ہر ایک ننگا ہے سوائے اس کے جسے مَیں کپڑے پہناؤں- پس تم مجھ سے لباس طلب کرو، مَیں تمہیں لباس عطا کروں گا۔ اور پھر فرمایا اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہواور مَیں تمام گناہ بخشتا ہوں- پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو مَیں تمہیں تمہارے گناہ بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! (یہاں عبادت کی طرف توجہ دلائی ہے) تم اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے کہ مجھے نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی تم ایسی حیثیت رکھتے ہو کہ مجھے نفع پہنچاؤ۔ تو بندے کو کوئی اختیار ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کرکے یا نہ کرکے نقصان یا نفع پہنچا سکے۔ اس کی آگے پھر وضاحت فرمائی کہ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے عوام اور تمہارے خواص، تم میں سے ایک انتہائی متقی دل رکھنے والے شخص کی طرح ہو جائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ بھی اضافہ نہ کر سکے گا۔ اور اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے عوام اور تمہارے خواص تم میں سے انتہائی فاجر دل رکھنے والے کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے عوام اور تمہارے خواص ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر شخص کو اس کی مطلوبہ اشیاء عطا کر دوں تو بھی جو کچھ میرے پاس ہے۔ اس میں سے کچھ بھی کمی کرنے کا باعث نہ ہو گا سوائے اس کے جتنا سوئی کو سمندرمیں ڈال کر نکالنے سے کمی واقع ہوتی ہے۔ اور اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جو مَیں تمہاری خاطر شمار کرتا ہوں- پھرمَیں پوری پوری جزا تم کو عطا کرتا ہوں- مجھے کوئی شمار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں جزا دینے کے لئے شمار کرتا ہوں- پس تم میں سے جو شخص خیر پائے (اکثر یہ ہوتا ہے کہ شمار کے بجائے بے حساب جانے دیتا ہے ایسی بھی روایات ہیں) پس تم میں سے جو شخص خیر پائے اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔ اور جو اس کے سوا پائے اسے چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے۔ سعید کہتے ہیں کہ جب راوی یہ حدیث بیان کرتے تھے تو گھٹنوں کے بل گر جاتے تھے۔
پس یہاں جو فرمایا کہ حمد کرے تو یہ حمدعبادت ہی سے ہے جتنی زیادہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ پیدا ہو گی اتنی ہی زیادہ عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ فرمایا کہ اگر نہیں کرو گے مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سب دنیا کے بندے، موجود بھی، پہلے بھی اورنئے آئندہ بھی جو دنیامیں آنے والے ہیں وہ بھی اگر متقی بن جائیں اور ایک متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری حکومت اور ملکیت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ادنیٰ سا بھی فرق نہیں پڑے گا اتنی بھی کمی نہیں ہو گی۔ اگر سب برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہو جائیں تو بھی میری سلطنت اور بادشاہت میں کمی نہیں ہو گی۔ اتنی کمی بھی نہیں ہوتی جتنی سمندر میں ایک سوئی کو ڈبونے سے اس کے نکے میں جو پانی کا قطرہ چمٹ جاتا ہے اس پانی کے نکلنے سے کمی ہوتی ہو۔ یہ سب چیزیں تو تمہارے فائدے کے لئے ہیں- اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنے کے لئے تم یہ عبادت کرتے ہو اگر تم میرے سامنے جھکتے ہو۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’انسان اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو اس لئے سجدے میں بہت دعا کرو‘‘۔ (مسلم کتا ب الصلوٰۃ ما یقول فی ا لرکوع والسجود)
یہ عبادت کے طریق ہیں- نماز کی طرف توجہ ہے۔ جو نماز پڑھے گا تو سجدے میں بھی جائے گا۔ تو نمازوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ پھر نمازوں میں سجدے میں سب سے زیادہ دعا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کیونکہ ایک جگہ فرمایا کہ نماز ہی عبادت کا مغز ہے۔ نمازوں میں بھی جیسا کہ میں نے کہا جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اچھا موقع ہے وہ سجدے کی حالت میں ہے۔ جب انسان نہایت عاجزی سے اپنا سر خداتعالیٰ کے آستانہ پر رکھتا ہے آگے جھکتا ہے، اس سے التجا کرتا ہے، اس سے مانگتا ہے۔ یہی حالت ہے جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بہت قریب انسان ہوتا ہے۔ اس لئے اس وقت بہت زیادہ مانگنا چاہئے۔ اور اس وقت مانگو تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو بھی جوش میں لاؤ، اور رحم کو بھی جوش میں لاؤ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’غرض کہ ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے اور مومن کا گزارا توہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگا نہ رہے۔ اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے ان کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ خدا کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اس کاچل سکتا ہے؟۔ اور کوئی منفعت دنیا کی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں- دین ہو یا دنیا ہر ایک امر میں اسے خدا کی ذات کی بڑی ضرورت ہے۔ اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے۔ جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے۔ خداتعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھو یا نہ۔ وہ فرماتا ہے

قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ (سورۃ الفرقان آیت 78:)

کہ اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہو گا۔ انسان جس قدر اپنے وجود کو مفید اور کار آمد ثابت کرے گا اسی قدر اس کے انعامات کو حاصل کرے گا۔ دیکھو کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو مگر جب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا نہ گاڑی میں جتے گا، نہ زراعت کرے گا، نہ کنویں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا‘‘۔ یہاں بھی اب جانور جو ہیں جو کسی کام کے نہیں ہوتے وہ ذبح کئے جاتے ہیں- یا علاوہ ان کے خاص طور پر اس لئے پالے جاتے ہوں- پھر فرمایا:’’ایک نہ ایک دن مالک اسے قصاب کے حوالے کر دے گا‘‘۔ (بیل کی مثال دے ر ہے ہیں) تو ’’ایسے ہی جو انسان خدا کی راہ میں مفید ثابت نہ ہو گا تو خدا اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا۔ ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہئے تاکہ مالک بھی خبر گیری کرتا رہے۔ لیکن اگر اس درخت کی مانند ہو گا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پتے رکھتا ہے کہ لوگ سائے میں آ بیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام آ سکتا ہے۔
خداتعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے۔

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (الذاریات: 57)

جو اس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنا لوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے۔ توایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اَور کیا سلوک کیاجاوے۔
انسان کے دل میں خداتعالیٰ کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہو جاوے گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا۔ خداتعالیٰ مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اسے وہ کیا کرے۔ پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے۔ سب عبادتوں کا مرکز دل ہے۔ اگر عبادت تو بجا لاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی۔ اس لئے دل کا رجوعِ تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 222-221جدید ایڈیشن)
یعنی مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف دل لگا رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ شیطانی وسوسوں او ر خیالات سے بچا کر رکھے۔ ہمارے دلوں میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کا کہہ کر ہمیں کسی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ بلکہ ہم بھی اپنے آقا و متاع کی پیروی میں اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نمازوں اور عبادتوں میں تلاش کرنے والے ہوں- اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں