خلفاء کرام کی قبولیت دعا

جماعت احمدیہ کینیڈا کے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کے صد سالہ جشن خلافت نمبر (مئی و جون 2008ء) میں خلفائے احمدیت کی دعاؤں کے بعض واقعات مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
٭ معجزانہ شفایابی کے واقعات کے ضمن میں محترم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب سیرالیون میں ریاست Gorama میں گئے اور وہاں کے عیسائی پیراماؤنٹ چیف Bayo کو تبلیغ اسلام کی۔ چیف نے کہا کہ اُسے بیس بائیس سال سے ایک مزمن بیماری لاحق ہے جو ہر قسم کے علاج کے باوجود بڑھتی جارہی ہے حتّٰی کہ وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوچکے ہیں۔ عیسائی مشن کے پادریوں کے دس سال تک علاج کے باوجود کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر مولانا صاحب اُس کی صحت یابی کا ذمہ لے لیں تو وہ اور اُس کی ریاست کے دیگر لوگ اسلام قبول کرلیں گے۔ حضرت مولانا صاحب نے زندہ اور شافی خدا پر توکّل کرتے ہوئے اسے منظور کرلیا اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تمام حالات عرض کرکے چیف مذکور کے لئے خاص دعا کی درخواست کی۔ جماعت کے افراد بھی دعا میں لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ چند معمولی دوائیوں کے استعمال سے چیف کو افاقہ ہونا شروع ہوگیا اور انہوں نے چلنا پھرنا بھی شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے خود ہی اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی تو مولانا صاحب نے اُنہیں بتایا کہ پہلے وہ شراب سے توبہ کریں اور صرف چار بیویاں اپنے پاس رکھ کر باقی کو طلاق دیدیں تو پھر وہ مسلمان ہوسکتے ہیں۔ چیف صاحب نے یہ شرائط مان کر اسلام قبول کرلیا اور خاصی تعداد عوام کی بھی مسلمان ہوگئی۔ حضورؓ نے چیف صاحب کی بیعت قبول فرماتے ہوئے اُن کا اسلامی نام صلاح الدین رکھا۔ پھر چیف نے اپنے علاقہ میں مسجد کی تعمیر بھی شروع کروادی جو اُس مشرک علاقہ کی پہلی مسجد تھی۔ جب عیسائی پادریوں کو یہ اطلاع ملی تو انہوں نے چیف پر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور اُنہیں اپنے مالی اور تعلیمی احسانات بھی یاد دلائے۔ چیف صاحب کا جواب تھا کہ وہ ان احسانات پر ہمیشہ مشکور رہیں گے لیکن مذہب اُن کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس پر پادری عیسائی کمشنر سے لے کر گورنر تک گئے اور بتایا کہ اُن کے ہزاروں ڈالر جو خرچ ہوچکے ہیں، اُن پر چیف نے پانی پھیر دیا ہے اس لئے احمدیت کی تبلیغ پر ریاست میں پابندی عائد کردی جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ہر جگہ ناکام کیا۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی دعا کے نتیجہ میں معجزانہ شفایابی کا ایک واقعہ مکرم سلطان محمود انور صاحب یوں بیان کرتے ہیں کہ 1973ء میں میرا بیٹا سرسام اور گردن توڑ بخار کے نتیجہ میں بیمار پڑگیا۔ وہ ایک احمدی لیڈی ڈاکٹر کے پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کیا گیا لیکن بیماری ایسی بگڑگئی کہ ڈاکٹر صاحبہ نے بھی مایوسی کا اظہار کردیا۔ چنانچہ مَیں نے فون پر حضورؒ کی خدمت میں بچے کی نازک حالت بیان کی کہ کئی دنوں سے وہ بچہ دودھ بھی نہیں پی رہا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا: مَیں دعا کروں گا، اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔
نماز عشاء کے بعد مَیں ہسپتال پہنچا تو ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ اب علاج جاری رکھنا ممکن نہیں رہا کیونکہ بچے کا جسم اکڑ چکا ہے اور وہ چند لمحوں کا مہمان نظر آتا ہے۔ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں نے حضورؒ کو فون پر اطلاع دی ہے اور حضورؒ دعا کر رہے ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگیں: بس پھر بچہ ٹھیک ہوجائے گا۔ جب مَیں اندر گیا تو میری اہلیہ بچے کو اٹھاکر پریشانی سے ٹہل رہی تھیں۔ مَیں نے بچہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور دعا کرنے لگا۔ آنکھوں سے ایک دو آنسو بچے کے چہرے پر پڑے تو بچے نے آنکھیں کھول دیں۔ پھر ماں نے گود میں لیا تو وہ دودھ پینے لگ گیا اور بیہوشی کی کیفیت جاتی رہی۔ بچے کی زندگی ایک معجزہ ہی تھا۔
٭ مکرم بشیر احمد رفیق صاحب (سابق امام مسجد فضل لندن) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ 1967ء میں لندن تشریف لائے تو ایک رات میری ایک بیٹی جو چھ سال کی تھی، اُس پر دمہ کا شدید حملہ ہوا۔ ہسپتال میں فوراً آکسیجن لگادی گئی لیکن ڈاکٹر نے بتادیا کہ بچی کے بچنے کی امید بہت کم ہے۔ مَیں گھبراہٹ کے عالم میں حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ ڈاکٹر یہ کہہ رہا ہے۔ حضورؒ نے تسلّی دی اور فرمایا: ’’فکر نہ کریں، مَیں دعا کروں گا، انشاء اللہ جمیلہ کو اللہ تعالیٰ شفا دے گا‘‘۔ فجر کی نماز کے بعد حضرت بیگم صاحبہؒ نے مجھے فرمایا کہ کل رات حضورؒ ایک پل بھی نہیں سو سکے اور جمیلہ کے لئے بڑے تضرّع سے دعائیں کرتے رہے ہیں۔ پھر جب مَیں ہسپتال گیا تو دیکھا کہ جمیلہ ایک آرام کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ تمہارے جانے کے بعد بچی کو غیرمعمولی طور پر افاقہ ہونا شروع ہوگیا اور اب وہ خطرہ سے باہر ہے۔ اس کے بعد سے بچی کو دمہ کا اس قسم کا حملہ کبھی نہیں ہوا۔
٭ پیدائشِ اولاد کے سلسلہ میں ظاہر ہونے والے اعجازی واقعات میں حضرت مصلح موعودؓ کے حوالہ سے حضرت گیانی واحد حسین صاحب کا بیان کردہ یہ واقعہ درج ہے کہ 1939ء کے جلسہ سالانہ پر حضورؓ سے ملاقات کے دوران چودھری عنایت اللہ صاحب سکنہ چک 565 کو اولاد نرینہ عطا ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی گئی۔ اس مجلس میں متعدد غیرازجماعت بھی موجود تھے۔ اُس وقت تک اُن کے ہاں آٹھ لڑکیاں ہوچکی تھیں۔ حضورؓ نے فرمایا: مَیں دعا کروں گا، اللہ تعالیٰ لڑکا عطا فرمائے گا۔ اس پر وہاں موجود غیرازجماعت لوگوں نے کہا کہ اب خلیفہ صاحب کی صداقت کا پتہ لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ صرف گیارہ ماہ بعد نومبر میں بیٹا پیدا ہوگیا جس پر ایک غیرازجماعت مستری اللہ دتّہ صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔ انہوں نے دعا کرانے کے وقت کہا تھا کہ اگر یہ معجزہ ہوگیا تو وہ احمدی ہوجائیں گے۔
٭ مکرم فتح محمد صاحب (مٹھیانہ ضلع ہوشیارپور) بیان کرتے ہیں کہ 1921ء میں جب مَیں اور چار دیگر مقامی دوست احمدی ہوئے تو اتفاق تھا کہ ہم میں سے کسی کے ہاں اولاد نرینہ نہیں تھی۔ جب گاؤں کے مخالفین دلائل سے عاجز آجاتے تو کہتے کہ کیا ہوا کہ یہ مرزائی ہوگئے ہیں، اِن کو ملتی تو لڑکیاں ہی ہیں۔ اس بات کا مجھے ایسا صدمہ ہوا کہ مَیں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر ماجرا عرض کیا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا۔ چنانچہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے ہوئے۔
٭ ضلع سرگودھا کے متموّل احمدی زمیندار ملک صاحب خان نون صاحب کے چھوٹے بھائی سرفیروز خان نون رکن پنجاب اسمبلی تھے، لاہور میں مقیم تھے۔ ابھی اُن کے ہاں کوئی بچہ نہیں تھا۔ 1925ء میں ایک صبح اُن کی اہلیہ نے ڈرائیور اور دو ملازموں کو ساتھ لیا اور قادیان پہنچ کر حضرت مصلح موعودؓ سے عرض کیا کہ آپ کا دوست فیروز خان تو اولاد کی خواہش میں دوسری شادی کرلے گا، میرے لئے دعا کریں۔ حضورؓ نماز پڑھانے تشریف لے جانے والے تھے۔ آپؓ نے اُسی وقت ہاتھ اٹھاکر گھر کے افراد کے ساتھ دعا کی اور پھر نماز پڑھانے تشریف لے گئے۔ اگلے سال اللہ تعالیٰ نے لیڈی نون صاحبہ کو بیٹے سے نوازا تو اُس کا نام نور حیات خان رکھا گیا۔ جب یہ بچہ چار پانچ ماہ کا ہوا تو وہی قافلہ اس بچہ کو لے کر پھر قادیان پہنچا اور لیڈی نون صاحبہ نے بچے کو حضورؓ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا: یہ بچہ حضورؓ کی دعا کا ثمرہ ہے، حضور اس کے سر پر اپنا دست مبارک پھیریں کہ یہ بلند نصیبے والا ہو۔ یہ بچہ وہی ملک نور حیات خان نون ہیں جو ایک کامیاب سیاستدان بنے، کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور دو تین مرتبہ مرکزی وزیر بھی رہے۔
٭ 1967ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ برطانیہ تشریف لائے تو سکاٹ لینڈ کے ایک مخلص احمدی مکرم محمد ایوب صاحب سے پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تین لڑکیاں ہیں۔ حضورؒ نے مسکراکر فرمایا: It is high time, you had a son۔ ایوب صاحب نے جواب دیا کہ حضور! اب مجھے امید نہیں کہ میرے ہاں لڑکا ہوگا۔ حضورؒ نے بڑے جوش سے فرمایا: مایوسی گناہ ہے، مَیں دعا کروں گا، اللہ تعالیٰ آپ کو لڑکا عطا کرے گا۔
کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنی بیوی کے امید سے ہونے کی اطلاع حضورؒ کو بھجوائی تو جواباً حضورؒ نے تحریر فرمایاکہ لڑکے کا نام ابراہیم رکھیں۔ چنانچہ چار پانچ ماہ بعد لڑکا پیدا ہوا تو اُس کا نام ابراہیم رکھا گیا۔
٭ مکرم میاں محمد اسلم صاحب آف پتوکی بیان کرتے ہیں کہ خاکسار 11؍نومبر 1963ء کو احمدی ہوا اور اپریل 1965ء میں میری شادی ہوئی ۔ بارہ سال تک کوئی اولاد نہ ہوئی تو غیراحمدی رشتہ داروں نے کہنا شروع کیا کہ یہ قادیانی ہوگیا ہے اس لئے ابتر رہے گا (نعوذباللہ)۔ جب کوئی علاج کارگر نہ ہوا اور میری بیوی بھی لوگوں کے طعنے سن کر میری دوسری شادی کے لئے رضامند ہوگئی تو مَیں نے تمام حالات حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں لکھ دیئے۔ حضورؒ نے جواباً تحریر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ضرور نرینہ اولاد سے نوازے گا۔ پھر حضورؒ کی دعا کی برکت سے میرے ہاں چار لڑکے ہوئے حالانکہ لیڈی ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اس عورت سے اولاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
٭ ایک غانین خاتون کی اولاد پیدائش کے دو ہفتہ کے اندر فوت ہوجاتی تھی۔ اُس نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو دعا کے لئے لکھا تو جواباً حضورؒ نے تحریر فرمایا کہ بچے کا نام امۃالحئی رکھنا۔ اُس نے ایسا ہی کیا اور جب بچی ایک سال کی ہوئی تو حضورؒ کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کرکے تحریر کیا کہ بچی خدا کے فضل سے صحتمند اور ہشاش بشاش ہے۔
٭ ایک غانین چیف کو جب عیسائیت چھوڑ کر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی تو انہوں نے نرینہ اولاد کے لئے اپنی حسرت بیان کرتے ہوئے دعا کے لئے عرض کیا۔ اُن کی اہلیہ کا حمل کئی مرتبہ ضائع ہوچکا تھا۔ حضورؒ نے دعا کی اور اُنہیں لکھا کہ اللہ تعالیٰ میری اور اُن کی دعاؤں کو ضرور شرف قبولیت بخشے گا۔ چنانچہ کچھ مدّت بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں صحتمند بیٹے سے نوازا۔
٭ خلفاء کی دعاؤں کی قبولیت کے عمومی واقعات کے سلسلہ میں ایک واقعہ مکرم آغا محمد عبدالعزیز بشیر احمدی صاحب کے بارہ میں ہے جس میں اُن پر جعل سازی کا ایک جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا۔ بائیس شہادتیں اُن کے خلاف تھیں جن میں چار انگریز بھی تھے، مجسٹریٹ اتنا خلاف تھا کہ اُن کی ضمانت بھی منظور نہ کرتا تھا۔ جب ناامیدی بہت بڑھ گئی تو انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حالات عرض کئے۔ فیصلے کے روز مجسٹریٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب سات سال قید بھگتنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ پھر اُس نے کئی دفعہ تعزیرات اٹھاکر پڑھی پھر ان سے کہنے لگا: مَیں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ ان کے منہ سے نکلا: ’’جو خدا کو منظور ہو‘‘۔ یہ سنتے ہی مجسٹریٹ کے دل پر خدا تعالیٰ نے ایسا تصرّف فرمایا کہ اُس نے فیصلہ لکھتے ہوئے ان کو صاف بری قرار دیدیا۔
٭ مکرم کیپٹن نواب دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1952ء میں مَیں کالاایمونیشن ڈپو ضلع جہلم میں ایڈمنسٹریشن افسر متعین تھا تو ایک جھوٹے مقدمہ میں ملوث کردیا گیا۔ مَیں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا تو چند روز بعد عمومی رنگ میں جواب ملا: ’’دعا کی گئی‘‘۔ یہ پڑھ کر مَیں شدّت غم میں ڈوب گیا کیونکہ مقدمہ بہت سنگین تھا اور مَیں حضورؓ کی خاص دعا کا مستحق خود کو سمجھتا تھا۔ چنانچہ رات سونے سے پہلے ایک اَور خط لکھا جس میں حالات کی تصویرکشی کی۔ لکھتے لکھتے آنسو بھی بہہ نکلے جن میں سے دو چار خط پر گرے اور مَیں نے ان کا ذکر بھی خط میں ہی کردیا۔ اُسی رات مجھے خواب میں مرحوم والد فتح الدین صاحب ملے اور مجھے کہنے لگے کہ ٹھہرو مَیں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں۔ مَیں نے اُسی وقت اپنی بیوی کو اٹھاکر بتادیا کہ مجھے فتح کی خوشخبری دیدی گئی ہے۔ صبح حضورؓ کو رات والا خط بھی پوسٹ کردیا۔ تین چار دن بعد جواب آیا: ’’اطمینان رکھو، مَیں نے دعا کی ہے۔ اللہ تمہاری حفاظت کرے گا‘‘۔ بعد میں یہ مقدمہ لمبا عرصہ چلتا رہا۔ آخر خدا نے ایسا فضل فرمایا کہ مقدمہ مجھ پر چلنے کی بجائے فریق مخالف پر چل پڑا اور جو شرارت کا بانی مبانی تھا اُسے یہ سزا ملی کہ میجر سے تنزّلی کرکے کیپٹن بنادیا گیا۔
٭ محترم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں جون 1941ء میں سیرالیون کے شہر بلاما میں ریاست کے احمدی پیراماؤنٹ چیف لحائے بن یامین کے بنگلے میں مقیم تھا۔ ایک روز ایک صحتمند خوبرو نوجوان آیا اور کہنے لگا کہ آپ خلیفۃالمسیح کے نمائندہ ہیں اس لئے ایک اہم معاملہ لے کر آیا ہوں۔ میرے چچا احمدی چچا خلیلوگامانگا لاولد فوت ہوگئے ہیں۔ اُن کے بعد ریاست کی سربراہی کا حق میرا بنتا ہے کیونکہ اُن سے پہلے میرے والد پیراماؤنٹ چیف تھے۔ ڈیڑھ ماہ تک انتخاب ہونے والا ہے لیکن میرے مقابل نواب خاندانوں کے سات امیدوار بھی کھڑے ہیں جو مال، اثر اور عمر میں مجھ سے بڑے ہیں اور انگریزوں سے بھی اُن کے تعلقات ہیں۔ وہ موٹروں اور ٹرکوں میں پراپیگنڈہ کر رہے ہیں اور میرے پاس سائیکل بھی نہیں۔ گو بظاہر میری کامیابی کی کوئی صورت نہیں لیکن میری والدہ نے مجبور کیا ہے کہ مَیں بھی انتخاب میں کھڑا ہوں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مَیں مسلمان ہوں اس لئے اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے گا۔
اُس نوجوان نے 1939ء میں عیسائیت سے تائب ہوکر احمدیت قبول کی تھی اور وہ اسلامی زندگی کا صحیح نمونہ پیش کرنے والے بن گئے تھے۔ مَیں نے انہیں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کیلئے لکھنے کی تلقین کی اور یہ عہد کرنے کی بھی کہ سربراہ بننے کے بعد ساری ریاست کو مسلمان بنانے کی کوشش کریں گے، مرکز میں مسجد اور سکول تعمیر کریں گے اور چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھیں گے۔ انہوں نے سب احباب کے سامنے یہ عہد کیا تو مَیں نے حضورؓ کی خدمت میں خاص دعا کے لئے تار بھی دیا اور خط بھی لکھ دیا۔ اگرچہ اُن کی کامیابی کی کچھ بھی امید نہ تھی لیکن انتخاب سے ایک ہفتہ قبل حضورؓ کا جواب موصول ہوا کہ ’’ہم نے گامانگا صاحب کے لئے دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے گا۔ انہیں اطلاع دیدیں‘‘۔ چنانچہ جب اُنہیں یہ خط دیا گیا تو انہوں نے خوشی سے اُسی وقت سب میں اعلان کردیا کہ وہ خلیفۂ وقت کو دی گئی بشارت کے مطابق کامیاب ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
٭ مکرم عبدالوہاب احمد صاحب مبلغ تنزانیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شدید معاندیوسف ایمانی جو عرب تھا، وہ ایک روز میرے دفتر آیا اور چالیس ہزار شلنگ کی تھیلی اس تحریر کے ساتھ مجھے دی کہ یہ امانت ہے اور اگر چوری وغیرہ ہوگئی تو ذمہ داری میری نہیں ہوگی۔ اُس نے کہا کہ اگرچہ یہاں اسلامک کونسل کا دفتر بھی ہے لیکن مجھے جو اعتماد آپ پر ہے، اُن پر نہیں۔ پھر اُس نے اجازت لے کر ہماری مسجد میں نماز پڑھی اور چلاگیا۔ کچھ دن بعد پھر آیا اور کچھ پیسے لے کر بتانے لگا کہ مَیں وزیر داخلہ سے ملنے آیا ہوں، میرے دو بھائی جیل میں ہیں، اُن کی رہائی یا کم از کم سزا میں کمی کے لئے کوشش کرنے لگا ہوں۔ مَیں نے اُسے تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ اللہ فضل کرے گا آپ دعا کریں۔ وہ کہنے لگا کہ خدا ہماری تو سنتا نہیں، آپ دعا کریں شاید آپ کی سن لے۔ مَیں نے اُسے اللہ تعالیٰ کی شان مجیب کے بارہ میں بتایا اور کہا کہ ہمارے امام کو بھی دعا کے لئے خط لکھیں۔ کہنے لگا کہ جن کو مَیں گالیاں دیتا ہوں، اُنہیں دعا کے لئے لکھوں؟۔ مَیں نے کہا کہ بے شک اب بھی اُنہیں خط میں گالیاں لکھ دو لیکن اُدھر سے دعا ہی ملے گی کیونکہ ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے۔ اس پر اُس نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو دعائیہ خط لکھا اور چلا گیا۔ چند دن گزرے تھے کہ وہ آیا اور بلند آواز سے بھائیوں کی رہائی کی خبر دی۔ پھر کہا کہ آپ کے امام کے لئے میرے دل میں نفرت کی جگہ محبت نے لے لی ہے۔ اور تین چیزوں نے میرے دل کی کایا پلٹ دی ہے۔ ایک یہ کہ اُس کی امانت کی حفاظت، دوسرے افریقن احمدیوں کی محبت اور تیسرے حضورؒ کی دعا کا معجزہ۔ پھر اُس نے اُسی وقت احمدیت قبول کرلی۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے 1988ء کے جلسہ سالانہ انگلستان کے موقع پر بیان فرمایا کہ ایک پولیس ملازم نے احمدیت قبول کرنے کے بعد رشوت لینا بند کردی تو پولیس افسران اُس کے خلاف ہوگئے۔ حتّٰی کہ ایک افسر نے اُس کا تبادلہ کروادیا۔ یہ پریشان ہوئے کہ دوسری جگہ جہاں میرا گھر بھی نہیں ہوگا، وہاں معمولی تنخواہ میں گزارا کیسے ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے مجھے دعا کے لئے لکھا۔ مَیں نے جواباً لکھا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی، مَیں دعا کررہا ہوں۔
وہ ایک ہاتھ میں میرا خط پکڑے ایک چوراہے میں کھڑے تھے۔ دوسرے ہاتھ میں تبدیلی کے آرڈرز تھے۔ کبھی ایک خط کو دیکھتے کبھی دوسرے کو۔ اسی اثناء میں وہاں سے پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا گزر ہوا۔ اُس نے انہیں مغموم دیکھ کر وجہ پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ میری تبدیلی ہوگئی ہے اور مَیں چونکہ رشوت نہیں لیتا اس لئے میرے لئے مشکلات ہوں گی۔ اس پر اُس افسر نے وہیں ان کی تبدیلی کا حکم منسوخ کیا اور یہ آرڈر کیا کہ ان کو یہاں سے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں