دعا کی طاقت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2009ء میں مکرم شاہد منظور طارق صاحب تحریر کرتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ پاک و ہند میں میرے والد محترم میجر منظور احمد صاحب راجھستان میں اپنی توپخانہ یونٹ کے ہمراہ متعین تھے۔ ایک صبح اطلاع ملی کہ دشمن بہت بڑی نفری کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہے۔ اس خبر کے بعد کمانڈنگ آفیسرز کا ایک اجلاس شروع ہوا۔ میجر منظور صاحب چونکہ کمانڈنگ افسر نہیں تھے اس لئے آپ اجلاس کے وقت کچھ فاصلہ پر جائے نماز بچھاکر نفل پڑھنے میں مصروف ہوگئے۔ آپ کو دیکھ کر کرنل نے بلند آواز سے پوچھا کہ یہ کونسا موقع ہے نماز پڑھنے کا۔ آپ نے اُس سے کہا کہ مجھے چند منٹ دیں تو مَیں خدا تعالیٰ سے مدد کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ کرنل نے استہزائیہ انداز میں کہا کہ ہمارے پاس بہت اسلحہ اور فوجی ہیں اور کسی مدد کی ضرورت نہیں، پھر بھی آپ کی خواہش کے احترام میں پانچ منٹ دیتا ہوں جو مدد مانگنی ہے، مانگ لیں۔ چنانچہ آپ نے دو نفل ادا کئے۔ ابھی نماز ختم ہی کی تھی کہ دُور سے ریت کے بادل اٹھتے دکھائی دیئے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے ٹینک صاف نظر آرہے تھے جن کے عقب میں فوجی شدید فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ میجر صاحب بیان کرتے تھے کہ ہم مورچوں میں ہونے کی وجہ سے کافی حد تک محفوظ تھے کہ اچانک ہوا چلنی شروع ہوئی جس نے جلد ہی ریت کی آندھی کی شکل اختیار کرلی۔ اس شدید طوفان میں چند فٹ سے آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ دشمن کی پیش قدمی رُک گئی اور نصف گھنٹہ کے اس طوفان کے باعث افراتفری کے عالم میں حملہ آور فوج پسپا ہوگئی۔ طوفان تھما تو کئی ہندوستانی فوجی اپنے ہی ٹینکوں کے نیچے آکر زخمی ہوچکے تھے جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔
کئی فوجی جنہوں نے میجر صاحب کو نماز پڑھتے دیکھا تھا وہ کہنے لگے کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ آپ کے گڑگڑاکر دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ نے ہماری تائید فرمائی ہے۔ لیکن جب میجر صاحب نے اپنے کرنل سے کہا کہ دیکھا ہمارے خدا نے ہماری کیسی مدد کی! تو وہ کہنے لگا کہ طوفان تو یہاں کا معمول ہیں اور یہ اتفاقیہ آنے والا طوفان تھا کوئی نئی بات تو نہیں۔ آپ نے جواباً صرف اتنا کہا کہ اتفاقات بھی تو خدا کی منشاء سے ہی ہوتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں