ذکر حبیب – بیان فرمودہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍مارچ 2007ء کا شمارہ ’’مسیح موعود نمبر‘‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔ اس خصوصی اشاعت میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں تحریر کردہ ایک مضمون اخبار کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔

حضرت سیدہ فرماتی ہیں کہ آپؑ (حضرت اقدس) نے بچپن سے مجھ پر بے حد شفقت فرمائی حتیٰ کہ حضرت اماں جان بھی مناسب تربیت کے لئے کچھ کہتی تھیں تو آپ ان کو بھی روکتے تھے کہ اس کو کچھ نہ کہو ہمارے گھر چند روزہ مہمان ہے۔ یہ ہمیں کیا یاد کرے گی۔ میں چھوٹی تھی تو رات کو اکثر ڈر کر آپ کے بستر میں جا گھستی۔ جب ذرا بڑی ہونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں (اس وقت میری عمر کوئی پانچ سال کی تھی) تو پھر بستر میں اس طرح نہیں آ گھسا کرتے۔ میں تو اکثر جاگتا رہتا ہوں۔ تم چاہے سو دفعہ مجھے آواز دو میں جواب دوں گا اور پھر تم نہیں ڈرو گی۔ اپنے بستر سے ہی مجھے پکار لیا کرو۔ پھر میں نے بستر پر کود کر آپ کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ جب ڈر لگتا پکار لیتی۔ آپ فوراً جواب دیتے۔ پھر خوف اور ڈرلگنا ہی ہٹ گیا۔ میرا پلنگ آپ کے پلنگ کے پاس ہی ہمیشہ رہا بجز چند دنوں کے، جب مجھے کھانسی ہوئی تو حضرت اماں جان بہلا پھسلا کر ذرا دور بستر بچھوا دیتی تھیں کہ تمہارے ابا کو تکلیف ہوگی۔ مگر آپؑ خود اٹھ کر سوتی ہوئی کا میرا سر اٹھا کر ہمیشہ کھانسی کی دوا مجھے پلاتے تھے۔ آخری شب بھی جس روز آپ کا وصال ہوا میرا بستر آپ کے قریب بالکل قریب ہی تھا کہ بس ایک آدمی ذرا گزر سکے۔
ایک بار حضرت مرزا شریف احمدؓ نے (وہ بھی آخر بچہ ہی تھے) اصرار کیا کہ میرا پلنگ بھی ابا کے قریب بچھا دیں مگر میں نے اپنی جگہ چھوڑنا نہیں مانا۔ حضرت اماں جانؓ نے کہا یہ ہمیشہ پاس لیٹتی ہے کیا ہو گیا۔ آخر شریف کا بھی دل چاہتا ہے۔ اگر دو دن یہ اپنی ضد ذرا چھوڑ دے بھائی کو لیٹنے دے تو کیا حرج ہو جائے۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا نہیں یہ لڑکی ہے اس کا دل رکھنا ضروری ہے۔ حالانکہ حضرت اماں جانؓ کی خاطر آپ کو بہت عزیز رہتی تھی۔ حضرت اماں جان چھوٹے بھائی صاحب کو لے کر اس رات ان کی دلجوئی کے لئے خود بھی بیت الدعا میں زمین پر ان کو ساتھ لے کر سوئیں میرا بستر وہیں رہا۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ اس بات پر پھر میرا دل بھی دکھا اور ندامت محسوس ہوئی۔ آپ لیٹے ہوتے تھے میں دیکھتی جب آنکھ کھلتی آپ کے لب مبارک ہل رہے ہیں اور اکثر آپ اٹھتے اور کاپی پر الہامات لکھتے۔ لکھتے دیکھ کر میں سمجھ جاتی تھی کہ الہام ہوا ہے۔ آپ کی ہلکی ہلکی آواز مجھے یاد ہے کہ کثرت سے سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْم آپ پڑھتے رہتے تھے۔
میں بڑی خوشی سے آپ کو دبایا بھی کرتی تھی۔ ایک بار آپ بہت تکان محسوس کررہے تھے۔ فرمایا میری سوٹی پکڑ کر میری رانوں پر کھڑی ہو کر دباؤ۔ میں کھڑی ہو گئی۔ تو آپؑ نے میرے پاؤں اپنے ہاتھ سے پکڑ کر درست کئے کہ جب کھڑے ہو کر اس طرح دباتے ہیں تو پاؤں ٹیڑھے رکھتے ہیں۔ یعنی ایک پنجہ اِدھر ایک اُدھر اس سے ایڑی کا دباؤ تکلیف نہیں دیتا۔
ایک ضعیفہ مائی تابی نام ہمارے گھر میں رہا کرتی تھیں۔ دائمی سردرد کی مریضہ تھیں۔ آپؑ ان کا بہت خیال رکھتے۔ دوائیں بھی دیتے اور بادام کا شیرہ ان کو پلواتے۔ میں مائی تابی کا شیرہ رگڑ کر اکثر اس کو پلاتی تو بہت دعائیں دیا کرتی تھی اور مجھے احساس تھا کہ آپؑ بھی میرے اس کام سے خوش ہوں گے۔
مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی وفات کے بعد ان کی بیوی کا جن کو سب مولویانی کہتے تھے، آپؑ نے بہت خیال رکھا۔ وہ مجھے بہت چاہتی تھیں اور میں ان سے بہت مانوس تھی۔ آپؑ کبھی فرماتے کہ تم نے مولویانی کو بھی لتاڑا۔ وہ بھی ٹانگوں پر کھڑا کرکے دبواتی تھیں اور اس کو لتاڑنا کہا کرتی تھیں۔ میں آپ کے اتنا کہنے پر بڑی خوشی سے مولویانی کو خوب لتاڑا کرتی وہ میرا ہاتھ پکڑے رکھتیں کہ گر نہ جائے۔
کبھی آپ حضرت اماں جانؓ کے فرمانے پر کہ لڑکیوں کی اتنی نازبرداری ٹھیک نہیں ہوتی۔ لڑکیوں کی قسمت کی کیا خبر آپ مسکرا کر فرماتے: ’’خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے تم فکر نہ کرو‘‘۔ ایسا کئی بار میرے سامنے فرمایا۔ میں پیسے مانگتی تو جو پہلی بار ہاتھ میں آ جاتا پکڑا دیتے جو اکثر میری طلب سے زیادہ ہوتا تھا۔ آپ فرماتے کہ تمہاری قسمت ہے۔ تھوڑا مانگتی ہو، بہت ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اب یہی لو میں واپس کیوں رکھوں۔ ایک بار میں نے دو آنے مانگے روپیہ نکالا اور فرمایا مانگے دو آنے نکل آیا روپیہ یہ تو تمہاری قسمت ہے۔
ایک بار میں نے کہا مجھے لیچیاں دیں۔ حضرت اماں جان نے فرمایا اس کی باتیں تو دیکھیں بے وقت لیچیوں کی فرمائش اب کررہی ہے۔ میں خفا سی ہو کر دوسرے کمرے میں جا کر سوگئی۔ سوتے سوتے میری آنکھ کھلی تو آپؑ مجھے دونوں ہاتھوں پر اٹھائے لئے جارہے تھے۔ جا کر مجھے گود سے اتار کر بھرے ہوئے لیچیوں کے ٹوکرے کے پاس بٹھا کر کہا لو کھاؤ۔ اور حضرت اماں جانؓ سے فرمایا کہ دیکھو چیز یہ مانگتی ہے اللہ تعالیٰ بھیج دیتا ہے۔
میری یاد کا زمانہ حضرت مسیح موعودؑ کی نسبتاً کمزوری کا زمانہ تھا جیسے اکثر روزے سے معذوری۔ مجھے ایک دفعہ سحری کھانا آپؑ کا یاد ہے۔ دوران سر کے وقت بیٹھ کر نماز ادا کر لینا یا آخری ایام میں اکثر ضعف کی وجہ سے مغرب و عشاء کی نمازیں اندر زنانہ میں باجماعت ادا فرما لینا مگر باوجود اس کے آپ کے کاموں میں کبھی سستی یا رکاوٹ نظر نہیں آئی۔ وقت میں اتنی برکت کہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے۔ دن بھر بیٹھ کر بھی لکھنا اور ٹہل کر بھی لکھنا۔ اسی میں دوسروں کی بات بھی سننا، جو اب بھی دینا، لوگوں کو دوا دارو بھی دینا اور پھر وہی روانی۔ آپ کا قلم گویا خدائے کریم کے ہاتھ میں تھا۔ پھر ڈاک بھی تمام دیکھنا، لنگر کا بوجھ الگ، مہمانوں کا فکر الگ کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ کوئی کھانے وغیرہ میں کمی نہ رہ جائے۔ دوستوں سے ملاقاتیں بھی تھیں۔ لمبی سیر کو باہر بھی جاتے۔ زبانی نصائح اور روحانیت کے خزانے بھی لٹائے جاتے تھے ہر مجلس میں۔ اتنی مصروفیت پھر اس قدر زیادہ غم اسلام کا بار کاندھوں پر، ذمہ داری کا احساس۔ ہر وقت کام اور عشق صادق کا کام، ایمان کامل کا کام۔ اس پر آپ تھے کہ دل بھی یار میں اور ہاتھ بھی کار دوست میں۔ دماغ بھی اسی کے تصور میں اسی کے عشق میں محو۔ صاف نظر آرہا تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کی بخشی ہوئی بہت خاص طاقت کام کررہی ہے۔
آپؑ ظاہر و باطن ایک آئینہ شفاف کی مانند تھے۔ آپ کا جسم بھی مصفّٰے تھا۔ گرمی اور پسینوں کی شدت میں بھی کبھی بوئے ناخوش آپ میں سے نہیں آتی تھی۔ ہمیشہ ایک ہلکی ہلکی مہک آتی رہتی۔ مشک کی خوشبو آپؑ کے پسینہ میں معلوم ہوتی تھی۔ جب نہا کر نکلتے تو گیلا گیلا بدن ململ کے کرتے میں سے صاف شفاف نظر آتا۔ نرم نرم بالوں میں نمی سی اورچند قطرے پانی کے، جو بدن خشک کرنے کے بعد بھی سر میں باقی رہتے، بہت ہی پیار ے لگتے تھے۔
آپؑ کا قد بالکل راست تھا۔ ذرا بھی کمزوری اور جھکاؤ نہ آیا تھا، نہ پیشانی نہ چہرے پر کوئی جھری تھی۔ صرف آنکھوں کے کوئیوں کے پاس ذرا ذرا بل سے تھے جو جوانوں کے بھی پڑ جاتے ہیں۔ غرض اتنی محنت، بے حد کام اور اس پر عارضہ دوران سر اور کثرت پیشاب کا جو عارضہ تھا۔ ان سب کے باوجود کوئی اثر آپ کے چہرہ مبارک پر ہر گز ہرگز نہ تھا …۔
میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نبی کریم ﷺ کا ذکر کررہے ہوں اور آپ کی آنکھیں اشک آلود نہ ہو گئی ہوں۔ بات کرتے جاتے اور انگلی سے گوشہ ہائے چشم سے ٹپکتے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔
آپؑ باغ میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں اور مبارک ایک کچھوا آپ کو دکھانے کو لائے۔ پھر آپ نے فرمایا آؤ آج تم کو محرم کی کہانی سنائیں۔ ہم دونوں پاس بیٹھ گئے۔ آپؑ نے شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کے واقعات سنانا شروع کئے۔ فرمایا وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے نواسے تھے۔ ان کو منافقوں نے ظالموں نے بھوکا پیاسا کربلا کے میدان میں شہید کردیا۔ فرمایا اس دن آسمان سرخ ہو گیا تھا۔ چالیس روز کے اندر قاتلوں ظالموں کو خداتعالیٰ کے غضب نے پکڑ لیا۔ کوئی کوڑھی ہو کر مرا کسی پر کوئی عذاب آیا اور کسی پر کوئی۔ یزید کے ذکر پر یزید پلید فرماتے تھے۔ کافی لمبے واقعات آپؑ نے سنائے۔ حالت یہ تھی کہ آپ پر رقت طاری تھی۔ آنسو بہنے لگے تھے جن کو آپؑ انگشت شہادت سے پونچھتے جاتے تھے۔ وہ کیفیت مجھے ہمیشہ یاد آتی ہے … دو بچوں کے سامنے گھر کی تنہائی میں وہ قیمتی آنسو وہ خون دل کے قطرے، وہ انمول موتی اور جگہ یہ دنیا میں کہاں پائے جاسکتے ہیں؟ وہ جذبہ صادق وہ درد تو اسی عاشق صادق محمد رسول اللہﷺ کا ہی حصہ تھا۔
ایک دفعہ حضرت اماں جان نے کہا ایک شخص نے کہلایا ہے کہ فلاں سید زادی سے میرے رشتہ کی آپؑ سفارش کر دیں۔ آپؑ نے جواب دیا۔ میری زبان کو زیب نہیں دیتا کہ ایک لڑکی جو آل رسول کریمؐ سے منسوب ہے، میں اس کا پیغام ایسے شخص کے لئے دوں جس کی قوم ہمارے ملک میں ایک گھٹیا قوم کہلاتی ہے۔ بیشک … آپؑ خود فرماتے تھے کہ ذات پات کا خیال نہ کرو اور نیکی تقویٰ دیکھو۔ مگر وہ شریعت ہے۔ جبکہ یہ رنگ عشق و محبت کا تھا اور اپنے محبوب آقا کا ادب تھا۔ آپؑ نے یہ نہیں کہا کہ وہ شخص پیغام نہ دے۔ صرف اپنے جذبہ عشق و احترام کے جوش میں یہ کہا کہ میری زبان کو زیب نہیں دیتا۔
ذات باری تعالیٰ کا عشق بھی آپؑ کے روح و تن کے ذرہ ذرہ میں موجزن تھا۔ میں نے بغیر اوقات نماز کے بھی آپؑ کو اپنے ربّ کریم کو تڑپ تڑپ کر پکارتے سنا ہے۔ میرے پیارے اللہ میرے پیارے اللہ کی آواز گویا اس وقت بھی سن رہی ہوں اور آپ کے آنسو بہتے دیکھ رہی ہوں۔ خداتعالیٰ کے لئے غیرت کا ایک نمونہ چشم دید پیش کرتی ہیں۔ آپ حجرہ میں تھے اور باہر جانے کو تیار تھے۔ حضرت اماں جانؓ سامنے کھپریل میں تھیں۔ ہماری تائی صاحبہ کی خادمہ خاص (جو احمدی ہو گئی تھی) حضرت اماں جان کے پاس آئی اور ہمارے چچا مرزا امام الدین کی وفات پر اظہار افسوس کرنے لگی۔ جس وقت اس کے منہ سے یہ لفظ نکل رہے تھے کہ ’’بڑا ہی چنگا بندہ سی وغیرہ‘‘۔ حضرت مسیح موعودؑ باہر نکلے۔ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہورہا تھا۔ آپ نے اپنا عصا زمین پر مار کر کہا: ’’بدبخت تو میرے گھر میں میرے خدا کے دشمن کی تعریف کرتی ہے‘‘۔ ایسا جلال آپ کی آواز میں تھا کہ وہ تو سرپٹ بھاگی۔


دراصل مرزا امام الدین دہریہ تھے۔ آپ کب گوارا کرسکتے تھے کہ آپ کے گھر میں ایک دہریہ کی تعریف ہو۔
ویسے دوسرے عزیز جو محض ذاتی دشمن اور گمراہ تھے، ان کی تکلیف میں آپ ہمدردی فرماتے تھے۔ حضرت منجھلے بھائی صاحب نے ایک دفعہ نظام الدین کہہ کر بات کی تھی تو آپؑ نے فرمایا تھا کہ ’’میاں وہ تمہارا چچا ہے‘‘۔

مرزا گُل محمد صاحب

اُن کا مرزا گل محمد مرحوم سے بڑا لڑکا مرزا دل محمد جب فوت ہوا تو آپؑ نے اظہار افسوس کیا۔ مجھے یاد ہے آپؑ نے فرمایا تھا لڑکا اچھا تھا، اس میں سعادت تھی، میں نے دیکھا کہ حافظ ماہنا (حافظ معین الدین نابینا) کا ایک دن ہاتھ پکڑ کر چلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ حضرت صاحب کی مسجد میں جانا ہے؟ لاؤ پہنچا دوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں