ذیابیطس کا علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں

ذیابیطس کا علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

٭ امریکہ میں طبی ماہرین نے کہا ہے کہ بادام، مونگ پھلی اور اخروٹ کھانے والی خواتین کو ذیابیطس کی ٹائپ ٹُو بیماری لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں شائع کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق مونگ پھلی، بادام اور اخروٹ میں غیرسیرشدہ چکنائی اور کئی دوسرے غذائی اجزاء ہوتے ہیں جو کہ جسم کی انسولین کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو نہ صرف بہتر بنادیتے ہیں بلکہ خون میں گلوکوز کو بھی ایک مقررہ حد تک برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ماہرین نے یہ نتائج 84 ہزار خواتین کا مطالعاتی تحقیقی جائزہ لینے کے بعد اخذ کئے ہیں۔ 34 سے 39 سالہ اِن خواتین کا انتخاب خاص طور پر ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ کے گردو نواح میں قائم صحت کے مراکز اور اسپتالوں کی نرسوں سے کیا گیا۔ ماہرین نے اُنہیں کھانے والی غذا، خشک پھلوں کے استعمال کے بارے میں سوالنامے فراہم کئے جن کے جوابات کی روشنی میں یہ اخذ کیا گیا کہ ہفتے میں پانچ مرتبہ ایک پاؤ بادام، مونگ پھلی یا اخروٹ کھانے والی خواتین میں دوسری خواتین کی نسبت ذیابیطس ٹائپ ٹُو لاحق ہونے کا امکان ستائیس فیصد کم پایا گیا۔
٭ ترش پھلوں میں نہ صرف وٹامن سی بہت مقدار میں پائی جاتی ہے بلکہ ان میں معمولی مقدار میں چکنائی کے علاوہ فائبر یعنی ریشہ، پوٹاشیم اور بیٹاکروٹین بھی پائی جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں ترش پھلوں پر کی جانے والی تحقیق کے بعد ماہرین نے بتایا ہے کہ بعض دیگر خوبیوں کے حامل ہونے کی وجہ سے ترش پھل ذیابیطس کے مریضوں کے علاوہ وزن کی زیادتی کے شکار افراد کے لئے بھی بہت فائدے کا باعث بنتے ہیں۔
٭ سائنسدانوں نے جینز کے ایک گروپ کو دریافت کیا ہے جس کے ذریعے مستقبل میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مرض کی نشاندہی کی جاسکے گی۔ اگرچہ ذیابیطس کو کافی حدتک وراثتی بیماری کہا جاتا ہے تاہم اس تحقیق کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کیونکہ جینز میں ہونے والی تبدیلیوں کے ذریعہ risk factor میں اضافے کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کی چار مختلف ٹیموں نے مشاہدات کئے اور تیس ہزار سے زیادہ ٹائپ ٹو کے مریضوں کے DNA کے نمونوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے نتائج مرتّب کئے۔
٭ امریکہ اور جاپان کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک نئے جینیاتی طریقۂ علاج کے ذریعے ذیابیطس کے مرض پر قابو پانے میںکامیابی حاصل کرلی ہے جس کے تحت مریضوں میں قدرتی طریقے سے شکر کی مقدار میں توازن برقرار رکھا جاسکے گا۔ اس بات کا انکشاف ایک سائنسی جریدے ’’فیچر میڈیسن ‘‘ میں کیا گیا ہے کہ نیا جینیاتی طریقہ ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ ذیابیطس کے مریضوں میں اس قدر انسولین پیدا نہیں ہوتی جو جسم میں پائی جانے والی شکر کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرسکے۔ اس کے باعث ذیابیطس کے متأثرین کا قدرتی نظام، خون میں شکر کی مقدار میں توازن برقرار رکھنے میں ناکام رہتا ہے جس کے نتیجے میں دل، گردے، آنکھیں اور ٹانگوں کو شدید بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
ایک دوسری رپورٹ میں امریکہ میں ذیابیطس پر قابو پانے کی کوششوں سے متعلق ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ چینی اور چکنائی کے استعمال سے خون میں شکر کی مقدار بڑھ سکتی ہے جس سے دل کے حملے کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ جبکہ متوازن خوراک کے ذریعے خون میں شکر کی سطح کم کی جاسکتی ہے۔ فونِکس کے ایک میڈیکل سینٹر میں اس حوالے سے تحقیقی کام میں مصروف ڈاکٹر جیمز کا کہنا ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کم کرنے کے لئے ذیابیطس میں مبتلا بعض مریضوں کو اضافی دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسے مریضوں کے علاج کی خاطر ضروری ہے کہ اُن کے باورچی خانے سے بہت سی چیزیں باہر پھینک دی جائیں۔
ڈیوک یونیورسٹی کے ایک طبی ماہر ڈاکٹر ایرک ویسٹ مین اس بارے میں فکرمند ہیں کہ امریکہ میں خون میں شکر کی نارمل مقدار کے بارے میں اب لاپرواہی برتی جارہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ٹائپ ٹُو ذیابیطس کو نارمل رکھنا چاہتے ہیں تو خون میں گلوکوز کی مقدار کو سختی سے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوا کی زیادہ مقدار بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اس لئے ہمیں خوراک کے استعمال کے ذریعے بیماریوں پر قابو پانے کے حوالے سے زیادہ تحقیق کرنی چاہئے۔ ذیابیطس پر ایک کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر میری ورنن کا کہنا ہے کہ امریکن ڈائیابیٹیز ایسوسی ایشن نے ذیابیطس کے مریضوں کے لئے کاربوہائیڈریٹ کی بہت زیادہ مقدار کی سفارش کی ہے۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ جسم کو درکار کیلوریز کا پچاس سے ساٹھ فیصد کاربوہائیڈریٹس سے حاصل ہونا چاہئے اور صرف دس فیصد چینی سے۔ اس کے ساتھ ساتھ سبز پتوں والی چیزیں اور بہت سی چکنائی بھی استعمال کی جائے تو آپ کو بلڈشوگر کم کرنے کی دواؤں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم چکنائی کے زیادہ استعمال پر اکثر ڈاکٹروں نے اعتراض کیا ہے کیونکہ چکنائی کا زیادہ استعمال بہت سی دوسری قباحتوں کو جنم دے گا۔جبکہ ذیابیطس پر مطالعاتی پروگرام سے وابستہ ڈاکٹر جیمز کا مزید کہنا ہے کہ شوگر کے زیادہ تر مریض صرف خوراک پر ہی انحصار نہیں کرسکتے کیونکہ جو ڈاکٹر ورزش اور خوراک کے ذریعے ذیابیطس کے علاج پر یقین رکھتے ہیں، اُن کے مریضوں میں سے اکثر کا بلڈشوگر لیول کنٹرول میں نہیں ہوتا۔
٭ امریکہ میں کی جانے والی ایک اَور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اسپرین کی کم مقدار ذیابیطس کے شکار افراد میں امراض قلب اور قلب کی شریانوں کے مرض کی روک تھام میں مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ اس جائزے میں 2539 مردوں اور عورتوں کو شامل کیا گیا تھا جنہیں ذیابیطس ٹائپ ٹُو لاحق تھی۔ ذیابیطس کی اس قسم کا موٹاپے سے قریبی تعلق ہے۔ ان منتخب افراد کو روزانہ اسپرین کی کم مقدار کی خوراک دی گئی۔ لیکن اس سے امراض قلب، قلب پر حملہ یا قلب کی شریانوں کے امراض کے خطرے میں کوئی کمی پیدا ہوتی نظر نہیں آئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک لمبے عرصے سے ذیابیطس ٹائپ ٹُو میں مبتلا مریضوں کو امراض قلب سے محفوظ رکھنے کے لئے اسپرین وسیع پیمانے پر تجویز کی جاتی رہی ہے لیکن حالیہ تحقیق میں اس دوا کی کم مقدار کے مؤثر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
٭ ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ٹائپ ٹو ذیا بطیس کے علاج میں استعمال ہونے والی بعض دوائیں اگر طویل عرصے تک مریض خواتین کے زیر استعمال رہیں تو ایسی خواتین میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ دوگُنا ہوجاتا ہے۔ اِن دواؤں کے بارے میں پہلے بھی خبردار کیا گیا تھا کہ ان کے طویل عرصے تک استعمال سے نہ صرف فریکچر کا امکان بڑھ جاتا ہے بلکہ دل کے مسائل بھی سامنے آسکتے ہیں۔ برطانوی اور امریکی محققین نے ان دواؤں سے متوقع خطرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اِنہیں ایک سال سے زیادہ عرصہ تک استعمال کیا جائے تو ہڈیاں نمایاں طور پر پتلی ہوسکتی ہیں۔ کینیڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہونے والی اس جائزہ رپورٹ کے مطابق ان دواؤں کے استعمال سے صرف خواتین متأثر ہوتی ہیں جبکہ مردوں میں فریکچر کا خطرہ بڑھا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ صرف گزشتہ سال کے دوران برطانیہ میں ان دواؤں کے 20 لاکھ نسخے تجویز کئے گئے ہیں۔ اِسی سال یورپین میڈیسن ایجنسی نے ان دواؤں کے محفوظ ہونے سے متعلق ایک جائزہ لے کر بتایا تھا کہ ان دواؤں کے فوائد، ان سے پہنچنے والے نقصانات پر حاوی ہیں۔ تاہم محققین نے اِس جائزے سے اتفاق نہیں کیا۔ چنانچہ نارتھ کیرولینا کی ویک فریسٹ یونیورسٹی میں سابقہ دس تجربات کا جائزہ لے کر مجموعی طور پر13715 مریضوں کے کوائف اکٹھے کئے گئے جن سے معلوم ہوا کہ سن یاس گزرنے والی ٹائپ ٹو ذیابیطس کی جن معمر مریضاؤں نے ایک سال تک یہ دوا استعمال کی تھی، ایسی ہر 21 خواتین میں سے ایک اضافی فریکچر کا شکار ہوئی۔ جبکہ جن خواتین کی عمر 56 سال کے لگ بھگ تھی، ایسی ہر 55خواتین میں سے ایک خاتون کی اضافی ہڈی ٹوٹی تھی۔ حالیہ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اِن دواؤں سے دل اور دوران خون کے نظام پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ہارٹ اٹیک کے علاوہ ہارٹ فیل ہونے کا خطرہ بھی دو گُنا ہوسکتا ہے۔
٭ ایک رپورٹ میں امریکی تحقیق کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ناشتے میں انڈوں کا زیادہ استعمال ذیابیطس ٹائپ ٹو کا باعث بن سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک انڈا روز کھانے والوں میں ذیابیطس (ٹائپ ٹو ) کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ، انڈا نہ کھانے والوں کی نسبت 77 فیصد زیادہ ہے۔ انڈوں کا استعمال اور ذیابیطس (ٹائپ ٹو) کے تعلق کو واضح کرنے والے امریکی سروے میں 20 ہزار سے زیادہ مردوں اور 36 ہزار سے زیادہ خواتین کا جائزہ لیا گیا۔ ہیلتھ نیوز کے مرتب کردہ نتائج کے مطابق انڈوں کا زیادہ استعمال کولیسٹرول لیول بڑھانے کا سبب بنتا ہے جوکہ ذیابیطس (ٹائپ ٹو) کا باعث ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں