ربوہ والے ابّا محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 4 ستمبر 2020ء)

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر واکتوبر 2012ء کا شمارہ مکرم سیّد عبدالحی شاہ صاحب مرحوم کی یاد میں خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا گیا ہے-
مکرمہ خدیجہ بزمی صاحبہ بنت محترم مولوی اخوند غلام محمد صاحب آف بلتستان نے محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب کے گھر میں ایک بیٹی کی طرح پرورش پائی۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ سیاچن گلیشیئر کے دامن میں واقع میرا گاؤں دُم سُم ہے۔ میرے والد اپنے علاقے کے علماء میں شمار ہوتے تھے اور احمدی ہونے کے باوجود ریڈیو پاکستان (اسلام آباد) سے بَلتی زبان میں اسلامی پروگرام بھی پیش کرتے رہے۔ انہوں نے 1967ء میں اتفاقاً الفضل کے مطالعے اور خواب دیکھنے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی اور پھر حضورؒ کے ارشاد پراپنے دونوں بیٹوں کو بغرض تعلیم ربوہ بھجوادیا۔
بڑے بیٹے عبدالوہاب صاحب قرآن کریم حفظ کرکے جامعہ احمدیہ پاس کرکے 1984ء میں مربی سلسلہ بن گئے تو اُن کی تقرری گلگت میں ہوئی۔ مَیں آٹھ سال کی تھی جب وہ مجھے اپنے پاس گلگت لے گئے۔ وہ بہت عبادت گزار، خدمت خلق کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔ گھر کے سارے کام خود کرتے اور میری چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھتے۔ ایک دن وہ مجھے ربوہ لے آئے اور یہاں میرے محترم شاہ صاحب کے گھر لے آئے۔ مجھے محسوس ہوا کہ مَیں پہلے سے ہی اس گھر کا حصہ ہوں۔شاہ صاحب اور اُن کی بیگم مجھے بالکل حقیقی والدین کی طرح محسوس ہوتے اور اُن کے چاروں بیٹے مجھے حقیقی بھائیوں کی طرح۔ مجھے اس گھر سے اتنا پیار ملا کہ حقیقی امی، ابا اور بھائیوں کی یاد بہت کم آئی۔گھر کا ماحول دینی تھا، لجنہ کے اجلاس ہوتے۔ امی مجھے خود تیار کرکے سکول بھیجتیں۔ چھٹی کے وقت دروازے میں کھڑے ہوکر میرا انتظار کرتیں۔ مجھے کہتیں کہ چھٹی کے بعد سیدھا گھر آنا ہے اور رستہ میں کہیں نہیں رُکنا۔جب امّی کسی کے ہاں جاتیں تو مَیں انگلی پکڑ کر ساتھ جاتی۔ نت نئے کپڑے سلواکر مجھے پہناکر خوش ہوتیں۔ ابا دفتر سے آتے تو بہت سارا کام ساتھ لاتے۔ خود دفتر کا کام کرتے اور اپنے پاس کرسی رکھ کے مجھے بٹھاتے اور کاغذ پر حروف تہجی لکھ کر کہتے ان کو دیکھ کر لکھو۔ مجھے اردو بالکل نہیں آتی تھی، جو آئی وہ بھی مذکر اور مؤنث کے فرق کے بغیر تھی۔ اباجان اور امی میری باتوں سے بہت ہنستے۔ ہر سال دو ماہ کی چھٹیوں میں مجھے جہاز پر سکردو بھجواتے۔
بھائی عبدالوہاب گلگت میں تھے اور ربوہ والی امّی اُن کے لیے رشتہ تلاش کررہی تھیں کہ بھائی کو برین ٹیومر ہوگیا۔ انہیں علاج کے لیے کراچی لے گئے۔ آپریشن ہوا مگر 14؍اکتوبر 1988ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ وہ بلتی قوم سے پہلے مربی تھے۔بھائی کی وفات کا گہرا صدمہ ربوہ والے امی اور ابا کی شفقتوں سے جلد مندمل ہوگیا۔ امّی ابّا آپس میں کشمیری زبان میں بات کرتے اور مجھے بھی کہتے کہ جب بھائی یا ابو آئیں تو بلتی زبان میں بات کیا کرو، اپنی مادری زبان کو نہیں بھولنا چاہیے۔ جب مَیں بڑی ہوئی تو امّی مجھے کھانا بنانا سکھاتیں اور ابّا شوق سے کھاکر کھانوں کی بہت تعریف کرتے۔ حالانکہ مجھے پتہ ہوتا تھا کہ کھانا اتنا اچھا نہیں بس حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔
مارچ 1999ء میں میرے ابو کی وفات ہوئی تو بھائی کا صدمہ بھی تازہ ہوگیا۔ مَیں ہر وقت روتی اور ربوہ والے امی اور ابا مجھے شفقت سے سہارا دیتے اور بہت خیال رکھتے۔ ملازماؤں کو ہدایت تھی کہ خدیجہ جب جو چاہے اسے بنادیں۔
اباجان پر کئی مقدمات تھے۔ جب پیشی پر جاتے تو ہم سب کو دعا کے لیے کہہ کر جاتے۔ واپس آکر ہماری تسلّی کے لیے صرف یہی کہتے کہ انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ فجر کے بعد بھی فائلیں دیکھ رہے ہوتے۔ دوپہر کو تھوڑا آرام کرتے اور پھر کام میں لگ جاتے۔ مغرب کے بعد MTA کے دفتر چلے جاتے اور رات گئے واپس لَوٹتے۔ لیکن اگر مہمان گھر میں آتے تو اُن کی تواضع کا پورا خیال رکھتے۔
جب میری شادی کا موقع آیا تو کئی رشتے آئے۔ آپ نے دینی خدمت کو ترجیح دی اور مربی سلسلہ سے رشتہ کردیا۔ میرے شوہر کی یہ دوسری شادی تھی اس لیے مجھے اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ ابا امّی نے بہت سمجھایا اور پھر اپنی ہمسائی ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ سے کہا تو انہوں نے بھی سمجھایا۔ چنانچہ مَیں 26؍مئی 2002ء کو رخصت ہوکر سکردو آگئی۔ خطوں میں اور فون پر ابا اور امی مجھے نصائح کیا کرتے تھے کہ ساری برکتیں جماعتی خدمت میں ہیں، اپنے میاں کا خیال رکھنا، اُن کی اطاعت کرنا اور مربی کے وسائل کے مطابق اخراجات رکھنا اور فون کا استعمال بھی میاں کی اجازت سے کرنا۔ اب مَیں سوچتی ہوں کہ ابا امی کا فیصلہ کتنا درست تھا۔
جب میرے بچے ہوئے تو ابّا نے اُن کے نام ہمارے علاقے کے پھلوں کے نام پر آڑو، خوبانی، چیری وغیرہ رکھ دیے۔ جب ہم سردیوں میں ربوہ جاتے تو اباجان بچوں کو بہت پیار کرتے اور روز کچھ نہ کچھ خاص منگواتے۔ اکثر ہمارے کپڑے تیار کرواکے سکردو بھجوادیتے یا ہمارے آنے کا انتظار کرتے۔ہر عید پر باقاعدگی سے عیدی بھجواتے۔ فون پر عیدمبارک کہتے اور حضور کے لیے دعا کا کہتے۔ ابا امی کو خلافت کے ساتھ عشق تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں