سانحہ دارالذکر لاہور کے عینی شاہد مکرم محمد سرور ظفر صاحب کا بیان

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 10 جولائی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ ثمرۃالکریم صاحبہ کے قلم سے 28؍مئی 2010ء کو مسجد دارالذکر لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کی روئیداد شائع ہوئی ہے جسے اُن کے والد محترم محمد سرور ظفر صاحب نے بیان کیا ہے۔
مکرم محمد سرور ظفر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم میاں رحمت علی صاحب نے 1947ء میں اپنے خاندان میں سب سے پہلے قبولِ احمدیت کا شرف حاصل کیا۔ پھر انہوں نے فرقان فورس میں خدمات سرانجام دیں۔ مَیں اُن کا سب سے بڑا بیٹا ہوں۔ والدکی تربیت کا اثر ہے کہ بچپن سے ہی خدمتِ دین پر کمربستہ رہتا اور مختلف ذمہ داریاں ادا کرتا رہا۔ خدام الاحمدیہ میں قائد مجلس بھی رہا اور علم انعامی حاصل کیا۔ ضلعی سطح پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ مجلس انصاراللہ مغلپورہ کا چھ سال تک زعیم اعلیٰ رہا اور اس دوران ایک بار سوم، ایک بار دوم اور چار دفعہ اوّل آکر علم انعامی حاصل کرنے کی توفیق پائی۔
مَیں اکثر نماز جمعہ اپنے دفتر واقع شاہدرہ کے قریب ادا کرتا تھا لیکن اُس دن میرے دل میں ڈالا گیا کہ آج مسجد دارالذکر میں جاکر جمعہ ادا کروں۔ چنانچہ اپنے دفتر سے چھٹی لے کر سوا بجے مسجد دارالذکر پہنچا۔ محترم امیر صاحب مرحوم سمیت کئی ایسے دوستوں سے ملاقات ہوئی جو بعدازاں شہید ہوگئے۔
مَیں اگلی صفوں میں جاکر سنتیں ادا کرکے دعا میں مصروف ہوگیا۔ ڈیڑھ بجے خطبہ جمعہ شروع ہوا تو چند ہی منٹ بعد فائرنگ کی آواز آنا شروع ہوگئی۔ مربی صاحب کے کہنے پر ہم لیٹ گئے اور بلند آواز سے درود شریف پڑھنے لگے۔ اسی اثنا میں کھڑکیوں سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ لوگ دیواروں اور ستونوں کی اوٹ میں ہونے لگے تو دیوار کی طرف سے گرنیڈ پھینکے گئے جس سے مسجد کے اندر دھواں ہی دھواں ہوگیا۔ فائرنگ بھی جاری تھی۔چنانچہ ہم صحن کی طرف بھاگے تو سامنے مربی ہاؤس کا دروازہ کھلا نظر آیا اُس میں داخل ہوئے تو دہشت گرد نے پیچھے سے گرنیڈ پھینکا جس سے کچھ احباب زخمی ہوگئے اور باقی دروازہ بند کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک احمدی ڈی آئی جی پولیس بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے مربی صاحب کا بیڈ اور گدا اٹھاکر دروازے کے آگے رکھ دیا تاکہ دروازے کو سہارا دے کر ٹوٹنے سے بچایا جائے۔ باہر ایک اَور گرنیڈ پھٹا اور کافی گولیاں برسائی گئیں لیکن دروازہ نہ ٹوٹا۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ باہر صحن میں اور مسجد میں کیا ہورہا ہے۔ گرنیڈ پھٹنے اور گولیوں کی مسلسل آوازیں تو آرہی تھیں لیکن کسی کی چیخ و پکار کی آواز نہیں تھی۔
مربی ہاؤس کے دو چھوٹے کمروں میں دو سو سے زائد احباب محصور تھے۔ خاکسار دل کا مریض ہے، حبس اور خوف کی وجہ سے میری حالت خراب ہوگئی تھی اور سانس لینا بھی مشکل ہوگیا، کپڑے پسینے سے تربتر ہوگئے۔ کچھ دیر حالت نہ سنبھلی تو مجھے سہارا دے کر ذرا آگے غسل خانے میں لے جایا گیا۔ وہاں روشن دان کی موجودگی سے حالت کچھ بہتر ہوئی۔ مربی صاحب کی اہلیہ نے فریج سے دودھ نکال کر اس میں پانی ڈال کر دیا۔ اسی دوران مجھے اپنے بیٹے کا فون آیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ گرنیڈ کے ذرّات لگنے سے زخمی ہوچکا ہے اور باہر صحن میں کھڑا ہے جہاں سے سفید شلوار قمیص اور سبز جیکٹ پہنے دہشت گرد کو دیکھ رہا ہے۔ مَیں نے اسے بتایا کہ مَیں مربی ہاؤس میں ہوں اور پھر اُسے کسی محفوظ جگہ جانے کے لیے کہا۔ وہ دوسری منزل پر سیڑھیوں میں چلاگیا اور اپنے زخم بھول کر وہاں موجود زخمیوں کی خدمت کرنے لگا۔ وہ بتاتا ہے کہ جب کچھ پانی آیا تو ہر زخمی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے دوسروں کو پلانا چاہتا تھا۔
بہرحال ساڑھے چار بجے تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر آواز آئی کہ آپریشن مکمل ہوچکا ہے۔ یہ سن کر چند احباب باہر نکلے تو دہشت گردوں نے اُن پر فائرنگ کردی اور اُن میں سے بھی اکثر شہید ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد آواز آئی کہ باہر آجائیں۔ تب گولیوں کی آوازیں نہیں آرہی تھیں۔ اس پر سب باہر آگئے۔ مجھے بھی دو خدام نے سہارا دے کر باہر نکالا۔ جگہ جگہ شہداء کے جسم پڑے تھے۔ بہت ہی تکلیف دہ ماحول تھا۔ خاکسار کو موٹرسائیکل پر بٹھاکر باہر کچھ دُور تک لایا گیا اور پھر رکشے میں بٹھاکر گھر بھیج دیا گیا۔ گھر والوں نے مجھے دیکھا تو اُن کی جان میں جان آئی لیکن بیٹا ابھی گھر نہیں پہنچا تھا۔ پھر بیٹے کا انتظار شروع ہوا جو مرہم پٹی کرواکے کچھ دیر بعد گھر پہنچ گیا۔
رات عجیب خوف کے عالَم میں گزری۔ صبح مسجد دارالذکر پہنچنے کے لیے پیغام ملا تو خاکسار وہاں پہنچا۔ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مرکزی وفد کے ہمراہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ آپ کو دیکھ کر اس الہامی پیشگوئی کی یاد آئی کہ
’’لاہور سے ایک افسوس ناک خبر آئی۔‘‘
اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
’’اس الہام کی وجہ سے ہم نے ایک آدمی لاہور بھیج کر پتہ بھی کروایا تھا کہ وہاں کے دوستوں کا کیا حال ہے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ611)
اس طرح محترم میاں صاحب آیت اللہ ٹھہرے جو افسوس ناک خبر ملنے کے بعد لاہور بھجوائے گئے۔
خاکسار کی ڈیوٹی شہداء کے کوائف اکٹھے کرنے پر لگائی گئی۔ چنانچہ دو دن اور ایک رات قریباً مسلسل کام کرکے یہ کوائف اکٹھے کیے گئے۔ نیز ایم ٹی اے کی ایک مرکزی ٹیم نے چشم دید گواہوں کے انٹرویو بھی ریکارڈ کیے۔ مَیں نے زخمیوں کی تیمارداری کی اور اُن کی فہرستیں بھی بنائیں۔پھر امیر صاحب نے مجھے دیکھا تو کہا کہ آپ دو دن سے اپنے گھر نہیں گئے، جاکر آرام کریں، جب ضرورت ہوگی تو بلالیں گے۔ چنانچہ مَیں گھر پہنچا تو دیکھا کہ بیٹے کے زخموں میں انفیکشن کے آثار ہیں۔ تب اُسی وقت اسے ہسپتال لے جاکر دوبارہ چیک کروایا۔ اگلے روز مجھے ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے خونی پیچش شروع ہوگئی۔ پھر ہسپتال میں دو دن کے لیے داخل رہا۔ طبیعت سنبھلی تو خداتعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے پھر خدمت میں مصروف ہوگیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں