مکرم ناصر محمود صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 10 جولائی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم ناصر محمود صاحب شہید کا ذکرخیر اُن کی خالہ مکرمہ رضیہ وسیم صاحبہ اور ان کی اہلیہ کی کزن مکرمہ ربیعہ ملک صاحبہ نے کیا ہے۔ شہید مرحوم کی والدہ محترمہ کے قلم سے ان کا ذکرخیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 25؍اپریل 2014ء اور 25؍جولائی 2014ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے اور اس ویب سائٹ میں بھی سرچ کیا جاسکتا ہے۔
مسجد النور ماڈل ٹاؤن پر حملے کی اطلاع ملی تو میرا ذہن اپنی بہن عطیہ عارف کی طرف گیا جو ماڈل ٹاؤن میں رہتی ہے۔ فون کیا تو معلوم ہوا کہ بہنوئی اور دیگر بچے تو گھر آگئے ہیں لیکن دو بیٹے دارالذکر میں ہیں۔ قریباً پانچ بجے خبر ملی کہ چھوٹا بھائی عزیزم عامر محمود گرنیڈ کے ٹکڑے لگنے سے زخمی ہے جبکہ بڑا بھائی عزیزم ناصر محمود شہید ہوگیا ہے۔ اسی سانحے میں اپنے تین دیگر عزیزوں کی شہادت کی خبر بھی ملی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہ رَاجِعُونَ۔

عزیزم ناصر محمود شہید بالکل میرے بیٹوں کی طرح تھا۔ میری بہن کا سارا سسرال غیراحمدی ہے۔ صرف بہنوئی مکرم محمد عارف نسیم صاحب نے احمدیت قبول کی ہے۔وہ پہلے صرف نام کے احمدی تھے لیکن پھر سرگرم خادم دین بن گئے اور اپنے گھر میں نماز باجماعت کا مرکز بھی قائم کرلیا۔ شہید مرحوم کی تعزیت کے لیے ان کے ددھیال سے بھی رشتہ دار آئے جو احمدی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے رواج کے مطابق بَین کرنے لگے۔ اس پر شہید کے والد نے انہیں سمجھایا کہ میرا بیٹا احمدیت کی خاطر شیر کی طرح شہید ہوا ہے اس لیے کوئی نہ روئے، اس نے تو میرا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ بس ایم ٹی اے دیکھو اور حضور کا خطبہ سنو۔ وہ تو میرا شیر بیٹا تھا جس نے خدا کے فضل سے سارے گھر کو سنبھالا ہوا تھا۔
عزیزم ناصر محمود شہید نے چھوٹی عمر سے ہی دینی کاموں میں فعّال کردار ادا کرنا شروع کردیا تھا۔ مہمان نوازی اور خدمت خلق کا بہت جذبہ تھا۔ موصی بھی تھا۔ نماز فجر کے لیے دریاں بچھاتا، چائے دَم کرتا اور پھر نوافل اداکرتا۔ نمازیوں کا خوش دلی سے استقبال کرتا۔ کوئی عزیز کسی کام کے لیے لاہور آتا تو یہ شروع سے آخر تک ہر خدمت کے لیے تیار رہتا۔ کبھی اس کے منہ سے انکار نہیں سنا۔ ناظم اطفال تھا تو اطفال کو مسجد لانے لے جانے کے لیے جب سواری کی ضرورت ہوتی تو اپنی کار لے کر پہنچ جاتا۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ مکرمہ نادیہ ناصر صاحبہ کے علاوہ تین بچے بھی چھوڑے ہیں۔ آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بچے اگر اسکول جانے کے لیے نماز پڑھے بغیر تیار ہوجاتے تو آپ انہیں جائے نماز بچھاکر دیتے اور جوتے اترواکر نماز پڑھواتے۔ جماعت کے پروگراموں کو اسکول کی پڑھائی پر ترجیح دیتے۔ میرے والد کئی سال پہلے وفات پاگئے تھے لیکن میرے خاوند نے میرے گھر والوں کو بھی اتنا پیار دیا کہ آپ کی شہادت کے بعد میرے بھائی کہتے ہیں کہ ہم دوبارہ یتیم ہوگئے ہیں۔ آپ مثالی خاوند تھے۔ گھریلو کاموں میں مدد کرتے اور خدمت خلق کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔ شہادت سے ایک روز قبل کھانا کھارہے تھے کہ محلّے میں کسی کو گولی لگی۔ آپ نے نوالہ وہیں چھوڑ دیا اور فوراً مدد کے لیے باہر چلے گئے۔
مسجد دارالذکر پر جب دہشت گردوں نے حملہ کیا تو آپ وضو کرکے مسجد کے اندر جارہے تھے۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں آپ بھی لوگوں کے ساتھ سیڑھیوں کے نیچے بیٹھ گئے۔ وہیں ملک شام کے امیر جماعت بھی تھے جن کے پاؤں پر گولی لگی تھی۔ شہید مرحوم نے اپنا رومال نکال کر اُن کے زخم پر باندھ دیا۔ اسی اثنا میں دہشت گرد نے ایک گرنیڈ آپ کی طرف اچھالا تو آپ نے وہی گرنیڈ پکڑ کر واپس اچھال دیا لیکن اس دوران وہ آپ کے ہاتھ میں ہی پھٹ گیا۔ آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے اور دہشت گرد بھی اپنے بدانجام کو پہنچا۔ اس طرح آخری وقت میں آپ نے خود کو خطرے میں ڈال کر کئی لوگوں کی جان بچالی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں