’’سب کچھ تری عطا ہے‘‘

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 5 ؍مارچ 2021ء)

خواجہ عبدالمومن صاحب

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن مارچ اپریل 2013ء میں مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب کی نظموں، غزلوں اور قطعات کے مجموعے ’’سب کچھ تیری عطا ہے‘‘ پر تبصرہ خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

محمود احمد ملک

موصوف شاعر کا یہ انداز یقیناً قابل تحسین ہے کہ اس مجموعہ کلام کا اکثر حصہ خلافت احمدیہ، مرکز احمدیت اور دیگر دینی موضوعات کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ سلیم الطبع شاعر کا اُس بابرکت بستی کے پاکیزہ ماحول میں شعور کی منزلیں طے کرنا ہے جس کی مصفّٰی فضاؤں میں خلافت احمدیہ کے زیرسایہ حمدو درود کی مجالس سارا سال ہی منعقد ہوا کرتی تھیں۔ اس پاکیزہ بستی میں اپنے احساسات کو لطیف انداز میں پروان چڑھانے والے موصوف شاعر کا نمونہ کلام ہدیۂ قارئین ہے۔
مرکز احمدیت ربوہ کی یاد میں یوں لب کُشا ہوئے:

مسجد مبارک ربوہ

ربوہ کی سرزمین کو چوموں گا بار بار
ربوہ کی برکتوں نے ہی بخشا مجھے قرار
زیرِ زمیں جو سوئی ہیں ربوہ میں ہستیاں
روشن ہیں اُن کے نُور سے ربوہ کے برگ و بار
علم و عمل کا شہر ہے اور امن کا حصار
جاری ہیں چشمے فیض کے ربوہ کے ہر کنار
پھر کھل اٹھیں گے خوشیوں سے ربوہ کے بام و دَر
آئے گا جب بھی لَوٹ کر ربوہ کا شہریار
فضلِ عمر کی درد سے لبریز تھی دعا
ربوہ کو جس نے کر دیا اِک شہرِ مرغزار
……………

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں کہا:

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

آسماں سے مہدیٔ موعود نے پائی خبر
نُور کا پیکر ملے گا تجھ کو اِک لختِ جگر
ساری قومیں برکتیں پائیں گی اُس موعود سے
نورِ فرقاں سے منور ہوں گی وہ محمود سے
آپؓ مظلوموں کے حامی اور تھے اُن کے نصیر
آپؓ کے دَم سے رہائی پا گئے لاکھوں اسیر
اس کی ہمّت سے ہوئی آباد ربوہ کی زمیں
بن گیا اس کی دعاؤں سے یہ اِک شہرِ حسیں
……………

خلافتِ خامسہ کے انتخاب پر کہے گئے چند اشعار:

سادہ مزاج نیک طبیعت جوان تھا
جوہر شناس نے اُسے خلیفہ بنا دیا
ہونے لگا ہے عرش سے اس پر نزولِ نُور
اس کا کلام دیتا ہے دنیا کو اِک سرور
اُلفت میں اُس کی چُور ہیں پیر و جواں سبھی
کرتے ہیں جان و دل بھی فدا اُس پر ہر گھڑی
مومنؔ بھی اُس کا ادنیٰ سا چاکر ہے دوستو
اپنے خدا کے فضلوں کا شاکر ہے دوستو
……………

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی رحلت پر یوں عرض کیا:

صدیوں کا کام کرکے وہ پیارا چلا گیا
ہر اہلِ دل کی آنکھ کا تارا چلا گیا
ہر سانس اس کا دینِ متیں کے لیے تھا وقف
دینِ ہدیٰ کا عالی منارا چلا گیا
وہ ایم ٹی اے کا مائدہ کرکے ہمیں عطا
سُوئے عدم وہ نور کا دھارا چلا گیا
……………

دشمن احمدیت کی حالت زار پر یوں نصیحت کی:

جس نے مٹایا کلمہ اور اپنے خدا کا نام
اس سے خدائے عزّ و جل لے گا انتقام
مولیٰ نے بد اعمال کی دی ہے تمہیں سزا
تم پر خدا کا قہر ہی پڑتا ہے صبح و شام
کرتے ہو اس امام کی تکذیب ہر گھڑی
شاہِ اُممؐ نے بھیجا تھا اپنا جسے سلام
جب تک مسیحِ وقت کو کرتے نہیں قبول
بن کر رہو گے دوستو اغیار کے غلام
……………

اور آخر میں اُس نظم کے چند اشعار جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات سے متأثر ہوکر کہی گئی:

اِک حسیں ہوتا ہے جب بھی شان سے جلوہ نما
سینہ میں قرآں سجائے لب پہ مولیٰ کی ثنا
اُس کی پُرتاثیر باتیں دل کو دیتی ہیں سکوں
اس کا خطبہ ہے سبھی کے واسطے آبِ بقا
کرتا ہے انذار اور تبشیر وہ حکمت کے ساتھ
سنتے ہیں سب لوگ اس کا یہ پیامِ جانفزا
بادشاہ پائیں گے برکت حضرتِ مسرورؔ سے
قومیں اس کے امن کے پرچم میں ڈھونڈیں گی پناہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں