سورۃ فاتحہ کی عظمت اور برکات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ سالانہ نمبر 2007ء میں مکرم مقبول احمد صدیقی صاحب کے قلم سے سورۃ فاتحہ کی عظمت اور برکات کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
سورۃالفاتحہ سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اس سورۃ کو اس کی عظمت کے لحاظ سے کئی نام دیئے ہیں جن سے اس سورۃ کے وسیع مطالب پر روشنی پڑتی ہے ۔ مثلاً امّ القرآن ، امّ الکتاب اور پھر اسے قرآن عظیم جیسا عظیم نام بھی عطا کر دیا۔ پھر اس کا ایک نام السبع المثانی بھی ہے جو قرآن میں بھی آیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں: ’’ السبع المثانی یعنی گو صرف سات آیتیں اس میں ہیں لیکن ہر ضرورت ان سے پوری ہو جاتی ہے روحانیت کا کوئی سوال ہو کسی نہ کسی آیت سے اس پر روشنی پائی جائے گی‘‘۔
پھر اس کا نام الکنز بھی ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں : ’’وہ کنز بھی ہے کہ علوم و فنون کے اس میں دریا بہتے ہیں اردو میں دریا کوزے میں بند کرنے کا ایک محاورہ ہے اس کا صحیح مفہوم شاید سورۃ فاتحہ کے سوا اور کسی چیز سے ادا نہیں ہو سکتا بلکہ اس سورۃ کے بارہ میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ ‘‘
اس کا ایک نام آنحضور ﷺ نے الصلوٰۃ بھی رکھا ہے یعنی ایسی کامل دعا اس میں سکھائی گئی ہے جو اس سے پہلے کسی الہامی کتاب میں ایسی دعا نہیں سکھائی گئی، نہ کوئی انسانی دماغ تجویز کر سکتا ہے۔ اس میں اﷲ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات نہایت خوبصورتی اور جامعیت سے بیان کی گئی ہیں اور پھر ایسے خدا کو سامنے دیکھتے ہوئے اس سے انتہائی تذلل اور عاجزی سے ایسی کامل دعا مانگی گئی ہے کہ وہ انسان کے جسم اور روح کا کوئی حصہ نہیں چھوڑتی اور اس کو سارے کا سارا رحمتِ الٰہی کے نیچے لے آتی ہے ۔
آنحضرت ﷺ کو بذریعہ وحی یہ اطلاع دی گئی کہ وہ کامل دعا ہے جو اس سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئی وہ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیات ہیں جو بھی اِن دعاؤں کے ذریعہ خدا سے مانگتا ہے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے ۔ آنحضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ نے جو احسان فرماکر مجھے انعام دئیے ہیں ان میں سے ایک فاتحہ الکتاب بھی ہے ‘‘۔
چونکہ صفات الہٰیہ کا سب سے خوبصورت اور جامع اظہار سورۃ فاتحہ ہے اور اس کا پڑھنا حمدوثناء کا سب سے عمدہ اظہار ہے۔ پس اسے دعا کرنے سے پہلے پڑھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:جو شخص سورۃ فاتحہ اور درود شریف پڑھ کر کوئی بھی دعا کرتا ہے اس کی دعا ضرور شرف قبول پا جاتی ہے۔
جسمانی امراض میں مبتلا افراد کے لئے سورۃ فاتحہ بہترین دعائے شفا ہے۔ کیونکہ رحمتہ للعالمین ﷺ نے اس کا نا م صرف ’’شفا‘‘ ہی نہیں رکھا بلکہ ’’رقیہ‘‘ یعنی دم کرنے والی بھی رکھا ہے۔ پھر یہ دعا کسی ایک مرض پر ہی حاوی نہیں بلکہ آنحضور ﷺ نے فرمایا : سورۃ فاتحہ ہر بیماری سے شفاء دیتی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :۔ علاج اگر ہو رہا ہو تو ساتھ سورۃ فاتحہ کا دم بھی کر دیا جائے تو اس سے مزید برکت ضرور پڑتی ہے اور اگر علاج میسر ہی نہ ہو تو پھر تو دم کے بغیر چارہ ہی کوئی نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہمارا تجربہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کا دم کرنا یا سورۃ فاتحہ کا اس نیت سے پڑھنا خصوصاً شفا کی غرض سے یہ بہت ہی مفید ہے اور حیرت انگیز کام کرتا ہے۔ دَم کے واقعات رسول ﷺ کے زمانے میں بھی ہیں دم کے واقعات حضرت مسیح موعودؑ کے بھی ہیں۔
زمانہ نبوی ﷺ میں ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے ذکر کیا کہ کسی کو سانپ نے ڈس لیا تھا میں نے اس پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اسے شفا ہو گئی اس پر آپ ؐ نے فرمایا کہ تم کو کس طرح معلوم ہوا کہ یہ ’’دم کرنے والی ‘‘سورۃ ہے۔
حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں : ’’ابن القیم نے لکھا ہے کہ جب میں مکہ معظمہ میں تھا اور طبیب کی تلاش میرے واسطے مشکل تھی تو میں اکثر الحمد کے ذریعے اپنی بیماریوں کا علاج کر لیا کرتا تھا‘‘۔ پھر فرماتے ہیں: ’’میرا اپنا بھی تجربہ ہے کہ میں نے بہت سے بیماروں پر الحمد کو پڑھا اور انہیں شفا ہوئی‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒؒ فرماتے ہیں :’’ مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے۔ اس زمانہ میں غیر احمدی بہت آیا کرتے تھے۔ پشاور کی مسجد میں سوال و جواب کی مجلس کے لئے کافی رونق ہوا کرتی تھی، تو بھری ہوئی تھی اور پہلے نماز ہوتی تھی پھر اس کے بعد سوال و جواب کی مجلس ہوتی تھی، تو مجھے متلی اور سر درد شروع ہوئی۔ مجھے اس زمانے میں میگرین ہوا کرتی تھی اور اتنی شدید تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا کتنی تکلیف تھی اور ساتھ متلی تھی۔ تو میں نے دعا کی سورۃ فاتحہ کی کھڑے ہوکے اس نیت سے کہ میرے پاس تو اب کوئی دوائی نہیں ہے اس لئے شفا دے دے ورنہ یہ لوگ کیا سمجھیں گے کہ میں احمدیت کی خاطر تقریر کر رہا ہوں اور اُلٹی آگئی ہے ان کے سامنے، بہت ہی بھیانک چیز ہوگی۔ سجدہ سے سر اٹھایا تو یاد ہی نہیں تھا کہ سردرد ہے۔ آرام سے سر اٹھایا اچانک مجھے خیال آیا کہ مجھے تو سخت سر درد ہو رہی تھی، گئی کہاں؟ سر درد کا نام و نشان بھی نہیں تھا، کوئی متلی نہیں تھی، کوئی سردرد نہیں۔ اب کوئی اس کی ظاہری وجہ ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ضرور سورۃ فاتحہ کی برکت سے ہواتھا جو دعا کے طور پر پڑھی گئی ‘‘۔
اگر علاج کار گر نہ ہو رہا ہو اور موت سامنے نظر آنے لگے تب بھی دعا کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بعض اوقات یہ دعا جسے رسول اﷲﷺنے شفا کہا ہے معجزانہ شفا کر دیتی ہے ۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کا بیٹا بعمر چھ سات سال سخت بیمار ہو گیا، حتیٰ کہ وقت نزع آپہنچا اور ڈاکٹر صاحب اپنے بیٹے کے کفن دفن کا انتظام کرنے چلے گئے۔ اُن کی اہلیہ نے مجھے بڑے درد سے دعا کے لیے کہا ۔ میں نے کسی غریب کو ایک روپیہ صدقہ دیا اور اسے قبول کرکے مریض کے لئے جس کے واسطے صدقہ دیا تھا دعا کرنے کے لئے درخواست کی اور پھر میں نے نماز شروع کر دی اور سورۃ فاتحہ کے لفظ لفظ کو حصول شفا کے لیے رقّت اور تضرّع سے پڑھا۔ ابھی سجدہ میں ہی تھا کہ بچہ اٹھ کر باتیں کرنے لگا۔ بچے کی والدہ نے بچہ کے والد ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ کی ڈاکٹری کاامتحان کرلیا ہے، جو کچھ اہل اﷲ کی دعائیں کرسکتی ہیں وہ ماہر فن ڈاکٹروں اور طبیبوں سے نہیں ہوسکتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں