سونا (GOLD)

سونے کی قدر کب پیدا ہوئی؟ اس بارے میں علم نہیں ہوسکا کیونکہ آج سے چالیس ہزار سال پہلے غاروں میں رہنے والا انسان بھی سونے کو سنبھال کر رکھتا تھا- عراق کے قدیم شہر ’’اُور‘‘ کے کھنڈرات سے جو ساڑھے پانچ ہزار پرانے سونے کے برتن ملے ہیں اُن کی خوبصورتی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سنار کئی صدیوں سے یہ کام کر رہے ہوں گے- تاریخ میں بہت سی جنگوں کے پس منظر میں سونا حاصل کرنے کا جنون نظر آتا ہے-
سونے کی صرف یہ خوبی نہیں کہ یہ چمکیلا اور کمیاب ہے بلکہ یہ بھی کہ اسے زنگ نہیں لگتا اور کوئی تیزاب اسے گھلا نہیں سکتا- خالص سونا بہت نرم مگر بہت بھاری ہوتا ہے- اسے سلاخوں اور اینٹوں کی شکل میں ذخیرہ کیا جاتا ہے- ماضی میں سونے سے سکّہ (اشرفی) اور برتن بھی بنائے جاتے تھے- کسی ملک کی امارت کا اظہار اُس کے سونے کے ذخائر سے ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر بین الاقوامی تجارت کی بنیاد رکھی گئی ہے- سونے کے بڑے مَصرف دو ہی ہیں یعنی زیور یا حکومت اور عوام کے خزانے- البتہ سونا نقش و نگار، دندان سازی وغیرہ کے کام بھی آتا ہے- اس مقصد کے لئے سونے کے ورق استعمال ہوتے ہیں جو موٹائی میں ایک انچ کے ہزارویں حصے سے بھی کم ہوتے ہیں اور صرف ایک تولہ سونے سے چالیس مربع فٹ چوڑا ورق بن سکتا ہے-
سونا بہت نرم ہوتا ہے اس لئے زیور کبھی خالص سونے کے نہیں بنائے جاتے- اِس کے کھرے پن کے تعیّن کے لئے قیراط کا پیمانہ رائج ہے- خالص سونے کو 24؍ قیراط کہتے ہیں اور 18؍ قیراط سونے کا مطلب ہے کہ 18 حصے سونا اور 6 حصے دوسری دھاتیں- دھاتیں سونے کا رنگ بھی بدل دیتی ہیں چنانچہ تانبا ملے سونے کا رنگ سرخی مائل اور چاندی ملے سونے کا سنہری مائل زرد ہوتا ہے-
سب سے زیادہ سونا جنوبی افریقہ سے نکلتا ہے، پھر روس، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کا نمبر آتا ہے- لیکن سونا زمین میں ہر جگہ موجود ہے، کہیں کم کہیں زیادہ- لیکن اسے اکثر دریاؤں اور ندیوں کی ریت میں اور چٹانوں میں ڈھونڈا جاتا ہے- ریت میں سونا چٹانوں سے آتا ہے جو پانی کے بہاؤ کے ساتھ بعض دفعہ ڈلوں کی شکل میں بھی مل جاتا ہے- آسٹریلیا میں ایک دفعہ تین من چار سیر کا ڈلا ملا تھا- تاہم سونا زیادہ تر کانوں سے نکالا جاتا ہے- یہ معلوماتی مضمون مکرم محمد شکراللہ صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ستمبر 1998ء میں شامل اشاعت ہے-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں