شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو – نظم

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جون 2012ء میں مکرم چودھری محمدعلی مضطرؔ صاحب کی درج ذیل غزل شامل اشاعت ہے:

شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو
اے لمحۂ فراق! کبھی مختصر بھی ہو
کس طرح سے کٹے گی یہ کالی پہاڑ رات
کوئی تو اس سفر میں ترا ہمسفر بھی ہو
اتنا تو ہو کہ اس کی ملاقات کے لیے
سینہ بھی ہو دُھلا ہوا اور آنکھ تَر بھی ہو
پت جھڑ کی آنکھ ڈھونڈ تو لے گی ہمیں مگر
اس شاخِ سبز پر کوئی لمحہ بسر بھی ہو
دوشِ صبا پہ سر کو نکلی ہے چاندنی
ایسا نہ ہو کہ راہ میں گُل کا بھنور بھی ہو
مضطرؔ نے اپنے آپ سے کرلی مفاہمت
پر یوں نہیں کہ اس کی کسی کو خبر بھی ہو

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں