عظیم یونانی فلاسفر افلاطون (Plato)

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 11 اکتوبر 2019ء)

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ مارچ 2011ء میں دنیا کے عظیم فلاسفر اور مفکّر افلاطون کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔

افلاطون

افلاطون کی پیدائش 429 تا 423 قبل مسیح کے دوران یونان کے شہر ایتھنز (Athens) میں ہوئی۔ اس کے والد Ariston کا تعلق ایتھنز کے بادشاہ Codrus کی نسل سے تھااور اس کی والدہ Perictone ایتھنز کے مشہور قانون ساز Solon کی نسل سے تھی۔ افلاطون اپنے بچپن میں ہی والدہ کے سایہ سے محروم ہوگیا لیکن ایک معزز خاندان کے فرد کی طرح مروّجہ علوم ادبیات، موسیقی اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ شاعر بھی تھا۔ بیس سال کی عمر میں اُس نے معروف مفکّر سقراط کی شاگردی اختیار کی اور قریباً آٹھ سال اُس کے زیرتعلیم رہا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے کتاب “Revelation, Rationality, Knowlede and Truth” میں فرمایا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ یونانی فلسفہ کی بات کرتے ہوئے افلاطون اور ارسطو کا ذکر نہ آئے۔ درحقیقت افلاطون اور ارسطو نے ایک لازوال طرزفکر کی بنیاد رکھی لیکن ان دونوں کی عظمت اپنے قابل احترام استاد سقراط کی مرہونِ منّت ہے۔
سقراط کی وفات کے بعد افلاطون نے مختلف مقامات (قبرص، مصر، اٹلی اور سسلی) کے سفر کیے۔ میگارا کے مقام پر حکیم اقلیدس کی شاگردی بھی اختیار کی۔ اس سفر کے دوران وہ ایک مرتبہ گرفتار بھی ہوا اور اُسے غلام بناکر بیچ ڈالا گیا لیکن بعد میں دوستوں نے پیسے ادا کرکے آزاد کروایا۔ قریباً چالیس سال کی عمر میں وہ واپس ایتھنز آگیا اور وہاں ’’اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ جاری کیا جس میں اخلاقیات، سیاست اور مابعدالطبیعیات (Metaphysics) کی تعلیم دی جاتی تھی۔
اسّی سال کی عمر میں افلاطون اپنے کسی عزیز کی شادی کی تقریب میں شامل تھا کہ وہیں اُس کا انتقال ہوگیا۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا اور اس نے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے تو اوّل اس کا حلیہ بیان کرو۔ اس حلیہ کے ذریعہ وہ اس کے اخلاق کا حال معلوم کرکے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا ورنہ ردّ کردیتا۔ ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا۔ دربان نے اطلاع دی۔ اس کے نقوش کا حال سن کر افلاطون نے ملاقات سے انکار کردیا۔ اس پر اس شخص نے کہلا بھیجا کہ افلاطون سے کہہ دو کہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے بالکل درست ہے مگر مَیں نے قوّت مجاہدہ سے اپنے اخلاق کی اصلاح کرلی ہے۔ اس پر افلاطون نے ملاقات کی اجازت دے دی۔ پس خُلق ایسی شَے ہے جس میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ اگر تبدیلی نہ ہوسکتی تو یہ ظلم تھا۔ لیکن دعا اور عمل سے کام لوگے تب اس تبدیلی پر قادر ہوسکوگے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ100)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں